پاک سرزمین کا نظام
قوتِ اخوتِ عوام
قوم، ملک، سلطنت
پائندہ تابندہ باد
شاد باد منزلِ مراد
یہ ہمارے قومی ترانے کا ایک بند ہے۔ اِس بند میں سرزمینِ وطن کے لیے جس عوامی قوت اور اخوت اور اِس میں بسنے والی قوم اور اس ملک کے لیے جس امید، امنگ اور خواہش کا اظہار کیا گیا ہے وہ آج تو محض خواب و خیال کی بات معلوم ہوتی ہے، لیکن ہماری عمر کے لوگ اس حقیقت کی گواہی دینے سے انکار نہیں کرسکتے کہ انھوں نے اسی خطۂ ارض پر وہ لوگ دیکھے ہیں جو ایک طرف ان امیدوں، امنگوں اور خوابوں کی فصل کی نگہ داری کرتے تھے اور دوسری طرف تعبیر کے جتن بھی۔
یہ کوئی بہت پرانی بات بھی نہیں ہے۔ گردن گھما کر دیکھیے تو یہی کوئی تیس پینتیس برس پہلے کا منظرنامہ خواب و تعبیر کے اُجلے رنگوں سے مہکتا نظر آتا ہے۔ جی ہاں، اتنا ہی عرصہ پہلے تک کی فضا اور ہوا کچھ اور تھی ہمارے یہاں۔ خیال رہے کہ قوموں کی زندگی میں تین چار دہائیوں کا عرصہ کوئی بڑا طویل دورانیہ بھی نہیں ہوتا، بشرطے کہ خوابوں کی نگہ داری کرتی آنکھیں جاگتی اور تعبیر کی جستجو کرتے دل دھڑکتے رہیں، نسل در نسل اور عہد در عہد۔ آج ہمارے سامنے جو سماجی اور قومی منظرنامہ ہے، وہ بڑی حد تک بدلا ہوا ہے۔ خاکمِ بدہن، کیا ہمارے خواب مرجھا گئے، آنکھیں بجھ گئیں اور گرمِ جستجو دل سرد ہوئے۔ نہیں، ایسا نہیں ہوسکا اب تک، حالاںکہ کرنے والے تو یہی کچھ کرنا چاہتے تھے، لیکن للہ الحمد یہ نہیں ہوا اور خدا کے فضل سے کبھی ہوگا بھی نہیں۔
پھر کیا ہوا ہے؟ کیا ماجرا گزرا ہے ہم پر؟ ہوا یہ ہے کہ ہمارے خواب بے وقعت، آنکھیں بے مایہ اور دل بے وقر ہوگئے۔ ایسا اُس وقت ہوتا ہے جب نفاق کا مرض معاشرے میں پھیلتا ہے اور فرد کے لیے اُس کی ذات اجتماعی وجود سے زیادہ اہم ہوجاتی ہے۔ داخلی اور خارجی زندگی میں پہلے خلیج پیدا ہوتی اور پھر مسلسل بڑھتی چلی جاتی ہے۔ سماج کے افراد اپنے فرائض سے غافل اور حقوق پر مصر ہوتے ہیں۔ آسائش، ضرورت اور ہوس آرزو بن جاتی ہے۔
تب قوم کا شیراز کم زور پڑنے لگتا ہے اور اس کے افراد ایک دوسرے سے دور، لاتعلق اور بے حس ہوجاتے ہیں۔ خوابوں کی نسل در نسل ترسیل کا عمل بہت مخدوش ہوجاتا ہے اور تعبیر کی لگن لہو میں ماند پڑتی جاتی ہے۔ فصل خوابوں اور امنگوں کی ہو یا سرسوں اور کپاس کی، ایک ہی دن میں لہلہانے لگتی ہے اور نہ ہی شب بھر میں اُسے پالا مار جاتا ہے۔ دونوں صورتیں وقت کے عمل میں درجہ بہ درجہ رونما ہوتی ہیں۔ ہمارے یہاں بھی خوابوں کے خرابے میں تبدیل ہونے کا پورا ایک ماجرا ہے جسے ہم میں تاریخی، سیاسی اور سماجی تناظر میں دیکھ سکتے ہیں۔
1971ء میں مشرقی پاکستان کا الگ ہوکر ایک ریاست بن جانا اتنا بڑا واقعہ تھا کہ جس کے بعد جغرافیائی اعتبار ہی سے نہیں، تہذیبی، سماجی اور مذہبی لحاظ سے بھی ہمارے قومی وجود کو نئی تعریف اور نئی تعبیر کی ضرورت پیش آئی تھی۔ اس لیے کہ یہ ہمارے قومی وجود میں عمودی سطح پر اتنی بڑی دراڑ تھی کہ جس سے ہماری ساری بنیادوں کو گزند پہنچی تھی۔ ایسے واقعات قوموں کی جغرافیائی ہیئت ہی کو نہیں بدلتے، اُن کے سماجی رُجحانات اور تہذیبی رویوں کو بھی بڑی حد تک تبدیل کرکے رکھ دیتے ہیں۔
تاہم اس واقعے کے بعد ہماری قومی ہیئت اس حد تک تبدیل نہیں ہوئی یا یوں کہا جاسکتا ہے کہ ہم نے جلد سنبھالا لیا اور جو کچھ بچ رہا تھا، اُس کے لیے چوکس ہوگئے۔ اس کے دو بنیادی اسباب تھے۔ ایک یہ کہ مشرقی پاکستان سے یہاں آنے والوں نے اپنا قبلہ و کعبہ اسی خطے کو سمجھا اور یہاں والوں نے انھیں جذب کرنے اور اپنانے میں کسی تأمل کا اظہار نہیں کیا۔ دوسرے یہ کہ ہماری سیاسی قیادت نے بھی حقائق کو تسلیم کرتے ہوئے اس کے بعد ایک بار پھر قوم سازی یا قومی تعمیر میں تمام ثقافتی اجزا کو جوڑنے اور مرکزی دھارے کا حصہ بنانے کی ضرورت کو پوری طرح محسوس کیا۔ یہی وجہ تھی کہ مغربی پاکستان جو 1971ء کے بعد ُکل پاکستان تھا، اُس میں ذوالفقار علی بھٹو کی سیاسی جماعت (پیپلز پارٹی) قومی سطح پر ایک قوت کے ساتھ ابھری۔
بھٹو کے سیاسی نظریات، اقتدار کی حکمتِ عملی یا ملکی سطح پر کیے جانے والے اقدامات اور فیصلوں سے چاہے ہمیں کسی قدر اختلاف ہی کیوں نہ ہو، لیکن اِس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ بھٹو اُس دور میں قومی سطح کے لیڈر کی حیثیت سے ابھرے تھے اور اُن کی پارٹی بھی مرکزی دھارے کی تشکیل وسیع دائرے میں کررہی تھی۔ بھٹو نے کیا سیاسی غلطیاں کیں اور اس کی کیا قیمت قوم نے اور خود بھٹو نے چکائی، یہ ایک الگ اور تفصیل طلب موضوع ہے، لیکن یہ طے ہے کہ وہ بڑے، متحرک اور گہرا عوامی رسوخ رکھنے والی سیاسی شخصیت کے مالک تھے۔ ایک ایسی شخصیت کے مالک جو عالمی تناظر میں کردار ادا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
اس حقیقت کے ثبوت کے لیے پاکستان کی ایٹمی طاقت بننے کا اقدام اور پاکستان میں اسلامی ممالک کے سربراہان کی کانفرنس کا انعقاد جیسے دو حوالے کافی ہیں۔ یہ بھٹو کا عوامی اثر و رسوخ ہی تھا کہ جس کو توڑنے کے لیے 1977ء کی دہائی کے وسط میں اس ملک کی نو سیاسی جماعتوں کو اکٹھا ہوکر مہم چلانی پڑی۔ یہ قومی اتحاد کی تحریک تھی جس میں اکثریت مذہبی جماعتوں کی، لیکن ان کے ساتھ اصغر خان اور ولی خان جیسے لبرل لوگ بھی شامل تھے۔ ولی خان اس وقت نظر بند تھے، لہٰذا اُن کی جگہ قومی اتحاد کے جلسوں اور جلوسوں میں بیگم نسیم ولی خان نمائندگی کرتی تھیں۔
ایک طرف بھٹو کا عوامی رسوخ اور دوسری طرف قومی اتحاد کے نو ستاروں کی ملک و مذہب بچاؤ مہم نے ملک میں سماجی اور سیاسی دونوں سطح پر ٹکراؤ کی فضا پیدا کی۔ بھٹو چوںکہ اقتدار میں تھے، اس لیے اقتداری حربے اور حکومتی مشینری بھی اس ٹکراؤ میں شامل ہوئی ہوگی، لیکن یہ بھی سچ ہے کہ بھٹو کے ساتھ سماج کا ایک طبقہ یعنی عوامی دھارا بھی تھا۔ یہ الگ بات کہ اس عوامی دھارے کی قوت کے بارے میں غلط اندازہ بھی اُن میں سے ایک فیکٹر بنا جو بھٹو کو پھانسی گھاٹ تک لے گئے تھے۔
بہرحال تو یہ ہوا کہ اُس وقت ہمارے یہاں عوام واضح طور پر دو حصوں میں بٹ گئے تھے، ایک وہ جو آزاد خیال تھے اور دوسرے مذہبی رجحان رکھنے والے لوگ۔ اقتدار اور قومی اتحاد کے مابین مذاکرات چل رہے تھے اور آئے دن ٹکراؤ کی فضا بھی پیدا ہوتی رہتی تھی۔ قومی اتحاد کے جلسوں اور جلوسوں پر لاٹھی چارج ہوتا اور آنسو گیس سے انھیں منتشر کرنے کی کوشش کی جاتی تھی۔ ٹکراؤ کی یہی فضا تھی جس نے فوج کو اقتدار کی راہ داری تک پہنچنے کا موقع فراہم کیا۔ بعد میں مولانا کوثر نیازی، پروفیسر غفور احمد اور اصغر خان نے یادداشتوں کی صورت واقعات اور حقائق بیان کیے تو معلوم ہوا کہ حکومت اور حزبِ اختلاف کے درمیان مذاکرات کام یابی کے ساتھ فیصلہ کن سطح پر آگئے تھے اور محض اعلان کا مرحلہ باقی تھا کہ جنرل ضیاء الحق اپنے اسلامی برانڈ کے ساتھ ملک و قوم پر مسلط ہوگئے۔
اس کے بعد ملک اور اسلام دونوں کی جو دُرگت بنی وہ ہماری قومی تاریخ کا اندوہ ناک باب ہے۔ اس باب پر گفتگو کے لیے ایک الگ دفتر درکار ہے۔ البتہ اتنی بات ضرور کہی جاسکتی ہے کہ ہمارے ملکی تناظر میں یہ آخری موقع تھا جب عوام نے اپنی اجتماعی قوت کا برملا اظہار کیا تھا، اور یہ کام دونوں ہی طرف کے افراد نے کیا تھا، یعنی آزاد خیال اور مذہب پسند۔ 1977ء میں ضیاء الحق کے مارشل لا کے ساتھ اپنے غیر منطقی انجام کو پہنچنے والی عوامی قوت نے اس کے بعد اپنی اجتماعیت کا ایسا کوئی مظاہرہ نہیں کیا۔ ظاہر ہے، اس کا سبب اس کے سوا اور کیا ہوسکتا ہے کہ دونوں طرف کے لوگ اپنے اپنے نظریاتی اور سیاسی قائدین سے بری طرح مایوس ہوئے تھے۔ یہ مایوسی اس درجہ گہری اور دیرپا نکلی کہ اب تک ختم نہیں ہوئی۔ یہی وجہ ہے کہ اب ہمارے یہاں انتخابات میں عوامی شمولیت کا تناسب گر کر پچاس فی صد سے بھی نمایاں طور پر کم ہوچکا ہے۔
اہلِ عرب کہتے ہیں، اشیا اپنی ضد سے پہچانی جاتی ہیں۔ ٹھیک ہی کہتے ہیں، اور صرف اشیا ہی نہیں افراد اور معاشرے بھی اپنی حیثیت اور معنویت کا بہتر اظہار اپنے تقابلی تناظر میں کرتے ہیں۔ اس وقت اپنی قومی تاریخ کے سیاسی سیاق پر روشنی ڈالنے کا مقصد بھی یہی تھا کہ اپنے حالیہ سیاسی منظرنامے کو دیکھا اور سمجھا جائے۔ ہماری سیاسی صورتِ حال اس وقت انتشار کا جیسا نقشہ پیش کرتی ہے، اس سے پہلے کے ادوار میں اُس کی کوئی مثال نہیں ملتی، حتیٰ کہ اس وقت بھی نہیں جب ہمارا جغرافیہ تبدیل ہوا تھا، اور ان زمانوں میں بھی نہیں جب ایوب خاں، یحییٰ خاں، ضیاء الحق اور پرویز مشرف جیسے آمر ملک کے سیاسی نظام پر شب خون مار کر اور آئین کی حرمت کو پامال کرکے اقتدار پر قابض تھے۔ اس لیے کہ اب سے پہلے جب جب بھی اور جو کچھ بھی ہوا، وہ اپنی اصلیت اور حقیقت کے ساتھ ہمارے سامنے تھا، لیکن آج صورتِ حال مختلف ہے۔
ہم ایوب خاں کی ڈکٹیٹر شپ کو مسترد کرتے تھے، لیکن وہ ڈکٹیٹر شپ جو تھی اور جتنی تھی، ہمارے سامنے تھی۔ ضیاء الحق کی آمریت اسلامی نظام کی آڑ لے کر آئی تھی، نوے دن نہ سہی، نو مہینے ہی میں سہی، لیکن اُس کی اصلیت بھی ہم پر ظاہر ہوگئی تھی۔ جب عوام نے اس برانڈ آف اسلام کی حقیقت کو جان لیا تو انھوں نے اس کی قبولیت سے انکار کردیا تھا۔
آج صورتِ حال یہ ہے کہ ہمارا سیاسی منظرنامہ دعوؤں کی بو اور الزامات کے دھویں سے اس قدر آلودہ ہے کہ سماجی اور قومی سطح پر گھٹن کا احساس جان لیوا ہوچکا ہے، لیکن جھوٹ کا بازار ایسا گرم ہے کہ جیسے زندگی کی ساری ہماہمی بس یہیں تو ہے۔ پیپلز پارٹی کو تو چھوڑ دیجیے کہ اب وہ بھٹو کی نہیں، بل کہ زرداری کی پارٹی ہے، اور دونوں میں وہی فرق ہے جو ذوالفقار علی بھٹو اور آصف علی زرداری کی شخصیت میں ہے۔ جمعیت علمائے اسلام کو بھی رہنے دیجیے کہ مفتی محمود مرحوم کے سمجھ دار بیٹے مولانا فضل الرحمن پوری جماعت کے نہیں، محض اُس کے ایک دھڑے کے سربراہ ہیں اور وہ باپ کی اصولی سیاست کو قابلِ اعتنا ہی نہیں جانتے۔
جماعتِ اسلامی کا بھی کیا مذکور کہ ایک زمانہ تھا جب اس کے سربراہ فتوؤں اور موت کی سزا تک کے آگے جھکنے سے انکاری تھے اور آج اس جماعت کا قوام ایسا بگڑا ہے کہ اس کے نعرے اور مطالبات بھی موسیقی کی دھنوں پر گونجتے ہیں۔ وقت کا پہیہ کس قوت سے گھومتا ہے کہ بڑی بڑی اور اصولی بنیادوں کو بھی روندتا چلا جاتا ہے۔
اِس وقت ہمارے سیاسی اُفق پر دو جماعتیں اپنی قوس قزح دکھانے کے جتن کرتی دکھائی دیتی ہیں، مسلم لیگ (ن) جو اقتدار میں ہے اور تحریکِ انصاف جسے بجا طور پر حزبِ اختلاف کہا جاسکتا ہے۔ گو کہ ایوانِ اقتدار میں حزبِ اختلاف کی نمائندگی خورشید شاہ کے ذریعے پیپلز پارٹی کرتی ہے، لیکن کیا بے چاری پیپلزپارٹی اور کیا اُس کا اختلاف۔ البتہ عمران خان اور ان کی تحریکِ انصاف نے حکومتِ وقت کو ناکوں چنے چبوانے کے جو جو مواقع پیدا کیے، انھیں دیکھتے ہوئے حزبِ اختلاف کا درجہ اُسے ہی دیا جانا چاہیے۔ ویسے تو اس وقت ایوانِ اقتدار میں قائدِ حزبِ اختلاف خورشید شاہ کو ہٹانے اور نیا لیڈر آف اپوزیشن لانے کے لیے رسّا کشی ہورہی ہے۔ چلیے خیر، غیر اعلانیہ ہی سہی، تحریکِ انصاف کو اسی مقام پر فائز سمجھ لیجیے۔ اب دیکھنے کی بات یہ ہے کہ ملک کے سیاسی منظرنامے پر چھائی ہوئی ان دونوں جماعتوں کی نظریاتی بنیاد کیا ہے اور اُن کا منشور ملک و قوم کے لیے کیا کہتا ہے؟
حقیقت یہ ہے کہ ملک کے آئین کی طرح اِن دونوں جماعتوں کے منشور کی حیثیت بھی صرف اور صرف کاغذ کے پرزے کی سی نظر آتی ہے، جس کی نگہ داری کا احساس اور حیثیت کا احترام اوروں کو تو چھوڑیے، خود اُن جماعتوں کے اپنے لوگوں کے دل میں بھی دکھائی نہیں دیتا۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ نواز شریف کے اس تیسرے دورِ اقتدار میں ملک و قوم کی خوش حالی کے لیے جو منصوبے پیش کیے گئے اور جو ترقیاتی کام سرانجام دیے گئے، اُن کا عشرِ عشیر بھی اُن سے پہلے آصف علی زرداری کی حکومت میں نہیں ہوا ہے۔ چلیے مانے لیتے ہیں۔ نواز شریف کی حکومت اپنے لیے اگر دو چیزوں کا کریڈٹ طلب کرتی ہے، یعنی بجلی کی لوڈ شیڈنگ کو بہتر بنانے اور امن و امان کی بحالی کا تو اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔
یہ بھی ماننے والی بات ہے کہ یہ دونوں کام بڑے اور بہت اہم ہیں۔ ٹھیک ہے، لیکن کیا ن لیگ کی حکومت سے یہ سوال نہیں کیا جانا چاہیے کہ اُس کے دورِ اقتدار میں جو قرضے لیے گئے ہیں، وہ ملک کی تاریخ کے سب سے بڑے قرضے ہیں۔
جتنے قرضے پچھلے پیسنٹھ برس میں لیے گئے تھے اُس کے لگ بھگ نصف کے مساوی رقم کا ریکارڈ قرضہ اس دورِ حکومت میں لیا گیا ہے۔ کیا نواز شریف اور ان کے ساتھی اہلِ اقتدار سے نہیں پوچھا جانا چاہیے کہ پیپلزپارٹی کی گزشتہ حکومت کے وزیرِ اعظم کو جب عدلیہ نے طلب اور پھر معطل کیا تو اُنھوں نے عدلیہ کی اعلیٰ کارکردگی اور انصاف کی پاس داری کے لیے جو کچھ کہا تھا، کیا آج وہ اُسے بھول چکے ہیں؟ کیا آج عدلیہ جو فیصلے کررہی ہے، اُس سے انصاف کا بول بالا نہیں ہو رہا؟ کیا حکومت کے افراد فوج کے لیے جو کچھ کہتے رہے اور اب عدلیہ کے لیے جس ردِعمل کا اظہار کررہے ہیں، یہ سب جمہوری قدروں کے فروغ اور ملک و قوم کے استحکام کے لیے مضرت رساں نہیں ہے؟ کیا نواز شریف جی ٹی روڈ جس عوامی طاقت کا مظاہرہ کرنے کے لیے نکلے تھے اور جیسے تیسے عزت بچا کر گھر کو لوٹے، کیا یہ قدم اداروں کے ٹکراؤ کے راستے پر نہیں تھا؟
اس دورِ حکومت میں صوبوں اور وفاق کے مابین تناؤ کی جو فضا پیدا ہوئی اور اس میں جس طرح اضافہ ہوا، کیا وہ قومی ہم آہنگ کے لیے زہرِ قاتل کا اثر نہیں رکھتا؟ یہ چند ایک سوالات ہیں، ورنہ استغاثہ اس سے کہیں طویل ہوسکتا ہے، اور اس میں نواز شریف اور اُن کے اہلِ خانہ کے حوالے سے ایسے ذاتی معاملات پر بھی سوالات ہوسکتے ہیں جو ملک و قوم پر اثر انداز ہوئے۔
(جاری ہے۔)
The post قوم ملک سلطنت appeared first on ایکسپریس اردو.