کچھ چیزیں، کچھ باتیں، وقت کے ساتھ ساتھ ازخود غیرمحسوس طریقے سے کم ہوتی چلی جاتی ہیں۔ کچھ پتا نہیں چل پاتا۔ ایک عُمر کے بعد احساس ہوتا ہے کہ ایک عُمر میں جو بہت سی باتیں، بہت سی چیزیں، بہت سے ساتھ، بہت سے سِلسلے چل رہے تھے، وہ اب نہیں رہے۔ بالکل ختم ہوگئے یا ذرّات کی شکل میں اِکّادُکّا یہاں وہاں چِپکے ہوئے ہیں۔
ایک زمانے میں جو باتیں، جو چیزیں، من کو سکون و سرور اور سرخوشی سے بھر دیتی تھیں، ایک زمانے کے بعد اُن کی سوچ بھی ذہن میں باقی نہیں رہتی۔ ذرا کریدنے پر یادوں کی ٹمٹماتی بتّیاں جلتی ہیں کہ ایک وقت میں ہماری زندگی میں یہ جھمیلے، یہ کھیل تماشے، یہ رنگ روشنیاں، یہ رونقیں بھی رہا کرتی تھیں۔
کچھ باتیں عُمر کے مخصوص حصّوں کے گُزرنے کے ساتھ ساتھ معدوم ہوجاتی ہیں۔ کچھ باتوں کو وقت اور حالات اور زمانے کے مناسبت زندہ نہیں رہنے دیتیں۔ کچھ طور طریقے اور مشغلے اور مصروفیات ہماری اپنی دل چسپی و توجہ کے دائرے سے خارج ہوجاتی ہیں۔ اور کچھ ویسے ہی ختم ہو جاتی ہیں۔
بہت کم لوگ ہوں گے جو اوائلِ عُمر کی بہت سی باتوں، بہت سے سِلسلوں کو ساتھ ساتھ لی کر ایک عُمر تک چلتے رہیں اور چلتے چلے جائیں۔ ایک دو سِلسلے یا مشغلے یا معاملے تو سبھی کے ساتھ رواں دواں رہتے ہیں۔ قدرتی طور پر ختم ہوجانے والی باتوں کے ساتھ ساتھ بسا اوقات ایسی ضروری باتیں بھی چلتے چلتے ہماری زندگی اور دل چسپی سے باھر نکل جاتی ہیں جو واقعتاً عُمر کے ہر حصّے میں ہمارے لیے ضروری ہوتی ہیں۔ مگر وقت اور توجہ اور خیال نہ دینے پر وہ بھی اچانک غائب ہوجاتی ہیں۔ اور پھر اچانک کِسی بات، کِسی خاص وقت پر اُن کی ڈھونڈ پڑتی ہے تو پتا چلتا ہے کہ اب وہ ہمارے ساتھ شاملِ سفر نہیں رہیں۔
مسرور سے ہونے والی حالیہ ٹیلی فونک گفتگو میں کچھ اِس طرح کی بات کی جانب مسرور نے نشان دہی کی تو مجھے یک دم محسوس ہوا کہ وہ صحیح کہہ رہا ہے۔ وہ کئی برس پہلے مُلک سے باہر منتقل ہوگیا تھا۔ فی الوقت گذشتہ پانچ سالوں سے آسٹریلیا میں ہے۔ آسٹریلین بورڈ کے امتحان کی تیاری کررہا ہے اور کِسی Prison میں Forensic Psychiatry کے ڈپارٹمنٹ میں جاب کررہا ہے۔ اُس کی بیوی البتہ بورڈ کا امتحان پاس کرکے جنرل پریکٹس کررہی ہے، اپنی Speciality کو چھوڑ کر۔ پاکستان سے وہ Paeds میں FCPS کرکے گئی تھی۔
مسرور کو سیّاحت کا شوق لڑکپن سے تھا۔ میڈیکل کالج کے زمانے میں بھی وہ ہر سال پاکستان کے کِسی پُرفضا مقام کی سیر کو نکل جایا کرتا تھا۔ سائیکاٹری میں Specialization کے بعد اُس نے کچھ سال ہی یہاں جاب اور پرائیوٹ پریکٹس کی اور پھر ایک دِن دونوں چیزیں چھوڑ کر دونوں میاں بیوی ملائشیا نکل گئے۔ شروع میں کافی عرصے وہاں مسرور بے روزگار رہا۔ صرف نرگس کی جاب پر گزارا تھا، مگر پھر اُسے بھی یونیورسٹی میں اکیڈمک جاب مِل گئی۔ خوب سے خوب تر کی تلاش نے آسٹریلیا پہنچادیا۔ اور اب اُس کا اِرادہ کینیڈا یا آئرلینڈ کا بن رہا ہے۔
’’ اگر آسٹریلین بورڈ نہیں ہوسکا اور Contract بھی Renew نہ ہوپایا تو ہوسکتا ہے پھر اِرادہ کینیڈا یا آئرلینڈ move کرنے کا سوچیں گے، لیکن ابھی دو سال اور کم از کم یہاں گزارنے ہیں۔ مریم اور عفیر کی یونیورسٹی کے دو سال پورے کرنے ہیں۔‘‘ مسرور نے بتایا۔
’’اور تم بتاؤ! کِس کِس سے ملاقات ہوتی ہے۔ سوشل Activities کیا رہتی ہیں۔ گھومنے پھرنے نکلتے ہو یا اپنے ڈربے میں بند رہتے ہو؟ باہر نکلا کرو۔ کیا ہوگیا ہے تم کو پہلے تو ایسے نہیں تھے۔ آٹھ دس دِن کے لیے کلینک چھوڑ دو۔ یہاں آجاؤ میرے پاس آسٹریلیا۔ VISA دیکھ لو آسانی سے مِلتا ہے یا نہیں۔ لاکھ سوا لاکھ کا ٹکٹ ہے۔ باقی کوئی خرچہ نہیں۔‘‘ مسرور حسب روایت مجھے پھر ایک احسن مشورہ دے رہا تھا اور میں اُسے خاموشی سے سُن بھی رہا تھا۔ سمجھ بھی رہا تھا اور دِل ہی دِل میں اُسے قبول بھی کررہا تھا۔ مگر اُسے فون پر تصویر کا دوسرا رُخ بتاتے ہوئے کترا رہا تھا۔
ایک زمانہ تھا اور کیا زمانہ تھا جب بھرپور سوشل اور تفریحی زندگی گزرا کرتی تھی کالج کے زمانے میں۔ فرسٹ ایئر، انٹر سے لے کر میڈیکل کالج کے سات سال اور پھر ہاؤس جاب اور پوسٹ گریجویٹ ٹریننگ کے دو سال۔ بارہ سال کی مجموعی بھرپور سماجی زندگی۔ تمام تر تنہائی اور تنہائی کے تمام مشاغل کے ساتھ ساتھ دوستوں اور ملنے جُلنے والوں کا جمّ غفیر اور ہر طرح کی تحریری وتخلیقی سرگرمیوں کے ساتھ دوستوں کے ساتھ لمبی لمبی گفتگو اور محفلیں اور گھومنا پھرنا۔ ہر طرح کے غم اور ہر طرح کی فکر سے آزاد۔ ہر ایک سے دوستی اور بھرپور دوستی، ہر مزاج، ہر طبیعت، ہر فطرت، ہر طرح شخصیت کے حامل سے بہت قریبی اور بہت گہرے تعلقات، اتنے گہرے تعلق کہ ہر کوئی یارِغار سمجھتا اور اپنے دِل کی ہر بات اور اپنی زندگی کے ہر راز Share کرتا اور اپنے مسائل کے حل کے لیے مشوروں کا طالب رہتا۔
دنیا کے ہر موضوع پر بات چیت رہتی۔ جیب میں پیسے نہیں ہوتے، پھر بھی بیٹھے بیٹھے گھومنے کا پروگرام بن جاتا۔ میرپورخاص میں دوستوں کے پاس سائیکل ہوتی تھی اور کراچی کے دوستوں کے پاس موٹر سائیکل۔ یونہی بِنا مقصد لمبے راستوں کی سیر کو نِکل جاتے۔ کبھی پکوڑے، کبھی کچوریاں، کبھی چائے کے ساتھ کھارے بسکٹ کھاکر اور کبھی یونہی صِرف ہوا کھا کر واپس آجاتے۔ سب ہی چیزیں ساتھ ساتھ چل رہی ہوتیں۔ تعلیمی، نصابی، سماجی، تفریحی، کتابی ہر طرح کی سرگرمیاں بڑے Balanced اور Synchronized طریقے سے شانہ بہ شانہ رواں دواں رہتیں۔ اور کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کِسی ایک کی وجہ سے دوسری سرگرمی کا حق مارا جائے۔ یا ایک نے دوسری کا راستہ روکا ہے۔
مگر پھر آہستہ آہستہ، غیرمحسوس طریقے سے سرگرمیوں کا دائرہ محدود ہونے لگا۔ ہاؤس جاب کے بعد جاب اور وہ بھی پرائیویٹ جاب اور دِن میں چار چار بسوں کا لازمی سفر اور اسٹاپ سے گھر تک لمبا پیدل مارچ۔ ازخود گھر داری کے تمام لوازمات کی ذمّے داری۔ یک طرفہ محبت کی شادی کا بوجھ۔ ایسے میں دو چار سالوں میں ہی بہت سی پُرانی مصروفیات اور سرگرمیاں زندگی کے دائرے سے خارج ہوتی چلی گئیں۔ نصابی، سماجی اور تفریحی Activities کی جگہ معاشی، معاشرتی، ازدواجی اور خاندانی ذمّے داریوں نے لے لی۔ دونوں اطراف سے کِسی بھی قِسم کے سماجی اور معاشی بیک اپ نہ ہونے کی وجہ سے ہر طرح کا Load اٹھانا ضروری تھا۔ ایسے میں صِرف کتابی و تحریری مصروفیت کو ہی برقرار رکھا جاسکا۔ باقی ماندہ حوالوں سے ناتا توڑنا پڑا۔
ایسی صورت حال میں جب آدمی کے پاس آگے پیچھے کِسی طرح کا Support نہ ہو۔ کوئی معاشی یا سماجی Back up نہ ہو اور اُسے اپنے پیروں پر ہی کھڑا ہوکر اپنی دنیا آپ بنانی ہو تو نہ چاہنے کے با وجود اُسے اپنی زندگی کے دائرے سے اضافی سرگرمیوں کا بوجھ باہر نکال کے پھینکنا پڑتا ہے۔ ترکے میں معاشی سطح پر قرض اور سماجی سطح پر تمام عُمر کے لیے قریبی رشتے داروں کے احسان کا عُمر بھر کا بوجھ بھی ہو تو آدمی کو چومکھی جنگ لڑنی پڑتی ہے اور عملی زندگی کا ہر قدم پھونک پھونک کر اُٹھانا پڑتا ہے۔
عملی زندگی میراتھون Marathoon ریس کی طرح ہوتی ہے۔ ہلکے ہلکے چلنا ہوتا ہے اور ہر اُس فعل، عمل، کام، بات، مصروفیت، مشغلے کو آہستہ آہستہ خود سے جُدا کردینا ہوتا ہے جو اِس ریس میں کِسی بھی طرح رکاوٹ کا باعث بن رہا ہو یا آہستہ آہستہ چلنے کے عمل میں بھی دشواری پیدا کررہا ہے۔
ہر عُمر، ہر وقت کے اپنے مشغلے اپنے مسئلے ہوتے ہیں۔ اپنی دِل لگیاں، اپنی مصروفیات ہوتی ہیں۔ انٹر کے امتحانی پرچوں میں اگر ممتحن آٹھویں جماعت کے معاشرتی علوم کا کوئی سوال ڈال دے تو شاید ہی کوئی اُس کا صحیح جواب دے سکے۔ اِسی طرح B.E. یا M.B.A. یا MBBS کے آخری سمسٹر کے آخری پرچے میں میٹرک کی جیومیٹری کے سوالوں کا جواب بھی کوئی نہیں دے سکے گا۔ ہم کِسی سے بھی یہ توقع نہیں رکھ سکتے کہ وہ کئی سالوں بعد بھی اپنے پچھلے سالوں کے نصاب کو ہر وقت ذہن میں رکھ سکتا ہے۔
اِسی طرح اپنے اپنے Domains میں آہستہ آہستہ قدم بڑھاتے رہنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنے وسائل اور اپنے مسائل کو مدّنظر رکھتے ہوئے اپنی مصروفیات اور اپنے مشغلوں کی کانٹ چھانٹ کا عمل مستقل جاری رکھیں۔ اگر ہم ایسا نہیں کریں گے اور اپنی مصروفیات اور اپنے مشاغل میں عُمر اور وقت کے ساتھ اضافہ کرتے چلے جائیں گے تو ایک وقت آئے گا جب ہمارا بوجھ اتنا بڑھ چکا ہوگا کہ پھر ہمیں اعصابی کم زوری کے ساتھ اور کئی طرح کے جسمانی، ذہنی اور نفسیاتی عارضے گھیرے میں لینا شروع کردیں گے اور ہماری جسمانی، ذہنی اور روحانی صحت اور قوّت مدافعت کم سے کم تر ہوتی چلی جائے گی۔ ہر شخص کی ترجیہات الگ اور منفرد ہوتی ہیں۔ ہر شخص کے وسائل اور مسائل کی نوعیّت بھی الگ الگ ہوتی ہے۔ ہر شخص کے بوجھ اٹھانے اور بوجھ برداشت کرنے کی صلاحیت بھی الگ الگ ہوتی ہے، جِس طرح ہر شخص کی شکل، شخصیت اور نفسیات الگ الگ ہوتی ہے، اُسی طرح اُس کے مشاغل، مصروفیات اور تفریحات بھی الگ الگ ہوتی ہیں۔
وقت اور عُمر کے ساتھ ہماری شکل، شخصیت اور نفسیات میں بھی تبدیلیاں آتی ہیں۔ اِن تبدیلیوں کے ساتھ اگر ہم اپنی مصروفیات، ترجیہات اور تفریحات میں بھی تبدیلی نہ لائیں تو ہمارے اندر Harmony نہیں پیدا ہوپائے گی۔ ایک ہی ڈگر پر اگر مصروفیات اور معاملات اور مشغولیات و تفریحات چلتی رہتی ہیں تو توازن کے بگڑنے کا احتمال ہوتا ہے۔ باہر کی ہر تبدیلی کے ساتھ ہمیں اپنے اندر بھی ایک تبدیلی لانی پڑتی ہے اور اگر ایسا نہ ہو، ہم ایسا نہ کرپائیں، ایسا نہ کرنا چاہیں، ایسا نہ کریں تو ہم تمام عُمر اپنی Learning میں اضافہ نہیں کرپاتے۔ اپنی شخصیت کو Groom نہیں کرپاتے۔ بس Routine اور Rituals کے ایک فِکس دائرے میں گھومتے رہتے ہیں اور گھومتے گھومتے وقت کی گَرد میں گُم ہوجاتے ہیں۔
The post دائرے کا سفر appeared first on ایکسپریس اردو.