سرائیکی وسیب اپنی قدیم تاریخ، فنون اور ثقافتی روایات کے حوالے سے دنیا بھر میں انفرادیت رکھتا ہے، اس خطے کے قدیم شہروں میں ثقافتی فنون کی روایت اتنی گہری اور رنگا رنگ ہے کہ اسے دنیا کی بڑی ثقافتوں کے مقابل رکھا جا سکتا ہے۔ سرائیکی خطے کے قدیم شہروں ملتان، بہاولپور اور ڈیرہ غازیخان میں قدیم ایام سے ہی موسیقی اور رقص کی روایت چلی آرہی ہے، اس خطہ میں رقص (جُھمر) کا ثقافتی حوالوں کے ساتھ ساتھ مذہبی اور روحانی حوالہ بھی ملتا ہے۔
جنوبی پنجاب کا علاقہ دمان جس میں ڈیرہ غازیخان اور راجن پور کے اضلاع شامل ہیں، اپنی ثقافتی اور علمی روایات کے حوالے سے خاص مقام رکھتا ہے، اسی علاقہ میں تحصیل جام پور کا ایک گاؤں رسول پور اپنی علمی و ادبی اور خرد افروزی کی روایت کی وجہ سے منفرد مقام کا حامل ہے، سرائیکی زبان کے ابتدائی ناول نگار اسماعیل احمدانی، ترقی پسند دانشور، ادیب اور نقاد اسلم رسولپوری، امتیاز فریدی اور پروفیسر وقار اسلم ایسے دانشور اور لکھاری اسی قدیمی گاؤں کی علمی روایت سے سامنے آئے، رسول پور کو پاکستان بھر میں یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ یہاں 99 فیصد شرح تعلیم پائی جاتی ہے۔
کہا جاتا ہے کہ رسول پور کے ہر گھر میں علمی و ادبی روایت موجود ہے، طارق اسماعیل احمدانی بھی رسول پور کی اسی علمی و ادبی روایت سے ابھر کر سامنے آئے، ان کی کتاب ’’سرائیکی لوک بیانیہ‘‘ خطے کی تاریخ، جمالیات، اساطیر، ثقافتی و فنی روایات کا احاطہ کرتی ہے، اس کتاب میں شامل ایک مضمون ’’جُھمر‘‘ خاصے کی چیز ہے، جسے ہم نے ’’ایکسپریس‘‘ کے قارئین کے لیے سرائیکی سے اردو میں ترجمہ کیا ہے۔ طارق اسماعیل احمدانی نے اپنے اس مضمون میں جُھمر (رقص) کی تاریخ و روایت کا مطالعہ دنیا کی مختلف تہذیبوں کے تناظر میں کیا ہے۔
جُھمر کی خاص تکنیکی اور فنی مباحث نے اس مضمون کو بہت زیادہ وقیع بنا دیا ہے۔ طارق اسماعیل احمدانی کے اس مضمون میں جہاں جُھمر (رقص) کو تاریخی، تہذیبی اور اساطیری حوالہ سے دیکھا گیا وہیں اس میں پاکستان کی مختلف ثقافتی اکائیوں میں رقص کی روایت کا احاطہ بھی کیا گیا ہے۔ یہ مضمون رقص کی تاریخی، تہذیبی اور ثقافتی تعریف سے گزرتا ہوا عالمی سطح پر رقص کے نظریے اور جدید علوم میں اس کی شمولیت کا بھی احاطہ کرتا ہے، آئیے دیکھتے ہیں کہ اپنی ثقافتی و تہذیبی روایات کو وسیع تر تناظر میں کیسے دیکھا جاتا ہے۔
٭٭٭
جُھمر ایک ثقافتی وظیفہ ہے، جو تمام تہذیبوں اور ثقافتوں میں مختلف نام اور انداز کے ساتھ موجود رہا، اسے مختلف علاقوں میں اپنے مروجہ لہجے کے ساتھ بولا جاتا ہے۔ جُھمر جھم سے مشتق ہے، جُھمر (جھومر) پیشانی پر سجانے کا ایک گہنا بھی ہے اور برصغیر پاک و ہند میں کہیں کہیں عورتوں کے گیتوں کو بھی جُھمر کہا جاتا ہے، اس کی تاریخ کے بارے میں کوئی حتمی بات نہیں کی جا سکتی کہ اس کا آغاز کب ہوا پہلا ابتدائی جھومری کون تھا، اس کی تاریخ کے بارے میں صرف مفروضے ہی قائم کیے جا سکتے ہیں۔
شاید شکار کے زمانے میں پہلی بار شکار پر جانے والا شخص اپنی کامیابی پر ناچنے کودنے لگ گیا ہو یا پھر آگ کی دریافت کے بعد اس دور کے لوگ اس خوشی میں جھومنے لگے ہوں کیوں کہ آگ نے انہیں دشمن، درندوں، تاریکی اور سردی کی شدت سے امان دی تھی اور ان کی غذا کو بھی لذیز اور پرلطف بنایا۔ اس بارے میں یہ مفروضہ بھی قائم کیا جا سکتا ہے کہ جنگ جیتنے کے بعد کوئی فاتح اپنی بہادری اور طاقت کے زعم میں جُھمر کھیلنے لگ گیا ہو، تاہم یہ سارے امکانات ہی ہیں کیوں کہ جُھمر کے آغاز کی حتمی تاریخ کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا۔
جُھمر جسم کے انگ انگ کے اظہار کا نام ہے، جُھمر کو لوک ناچ کہا گیا، لوک گیتوں کی طرح لوک ناچ میں بھی ربط اور کشش ہوتی ہے، اس کے ’’تال‘‘ سادہ مگر روح پرور اور طاقت ور ہوتے ہیں۔ رقص (جُھمر) کو تقدس کا درجہ بھی حاصل ہے، ہندومت میں تو اس کی حیثیت دیو مالائی ہے لیکن ہمارے وسیب کے لیے بھی یہی اسطورہ موجود اور قائم ہے، مزاروں پر جُھمر کھیلنے اور باجوں گاجوں کے ساتھ منت ماننے اور اتارنے کی مثال دی جا سکتی ہے۔ صاحب مزار (جس کے لیے منت مانی جاتی ہے) سے جُھمر کے ذریعے اظہار عقیدت کیا جاتا ہے۔ جُھمر کی کچھ اقسام بھی صرف عقیدت کے اظہار کے لیے معروف اور مخصوص ہیں، جیسا کہ دھمال / دھمار (سرائیکی میں اسے دھمیڑا کہتے ہیں) دھمال یا دھمار گیت کی ایک قسم بھی ہے جو ہولی کے تہوار پر گائی جاتی ہے۔
سندھ اور روہی میں بھگت نام کی قدیمی اور خالص موسیقی اور رقص کا رواج ہے، بھگت کنور رام کی لوری اور رقص تو جگ مشہور ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس نے اپنی لوری سے ایک مردہ بچے کو زندہ کر دیا تھا، بھگوان شیوتو رقص کادیوتا ہے آج بھی مندروں میں رقص کرتی مورتیاں موجود ہیں۔ رقص کے ماہرین کے مطابق رقص (جُھمر) دیکھنے والوں میں دھیان، فکر اور استغراق پیدا کرتا ہے، یہ بھی کہا جاتا ہے کہ رقص انسان کا کیتھارسس بھی کرتا ہے۔ جُھمر کی بہت ساری اقسام اور مختلف سماجی اور تہذیبی اکائیوں میں اس کے مختلف نام بھی ہے، بلوچ سماج میں اسے چاپ (دو چاپ، سئے چاپ، ہشت چاپ) کہا جاتا ہے۔
اس کے علاوہ تروڑا اور زہم ناچ (رقص تلوار) بھی مشہور ہے، ہمبو ایک پُرشور جُھمر ہے جو بلوچ سماج کی عکاسی کرتا ہے، اس میں تیزی اور خوفناکی کا عنصر بھی موجود ہے۔ پختون تہذیب کا ’’خٹک ناچ‘‘ بھی اپنی مثال آپ ہے، پختون رقص جنگجویانہ (War Like) ہیں۔ پنجابی سماج میں رقص کو ’’بھنگڑا‘‘ کہا جاتا ہے لیکن سندھی تہذیب و ثقافت میں یہ ’’جُھمر‘‘ کے نام سے ہی معروف ہے سرائیکی تہذیب و تمدن میں بھی اس کا نام ’’جُھمر‘‘ ہی ہے۔ سرائیکی جُھمر کے کچھ انگ ہمسایہ تہذیبوں سے ملتے جلتے ہیں جیسا کہ بلوچی جُھمر ’’ہمبو‘‘ سرائیکی وسیب میں ’’ہمبو گشکا‘‘ ہو جاتی ہے درت لے میں جھومریوں کے منہ سے ’’ہمبو گشکا‘‘ کی آوازیں نکل رہی ہوتی ہیں۔
سندھی اور سرائیکی ثقافت میں دھمال (دھمیڑا) کی ایک ہی جیسی شکل ہے۔ جُھمر کو بلوچستان میں ’’دھریس‘‘ بھی کہا جاتا ہے جبکہ سرائیکی وسیب کے خطے ’’تھل‘‘ میں تھل واسی بھی اسے ’’دھریس‘‘ ہی کہتے ہیں جس کی شکل جُھمر سے کچھ مختلف ہوتی ہے۔ رقص کو اعضاء کی شاعری بھی کہا گیا ہے، رقص کے بہت سارے انگ ہوتے ہیں یعنی جسم کا انگ انگ رقص کرتا ہے اور جسم کا ہر انگ رقص میں اپنے بھید بھاؤ کا اظہار کر رہا ہوتا ہے، فن ر قص کے ماہرین کے مطابق سر کے 13، آنکھ کے 36 ،گردن کے 9 ،ہاتھوں کے 37 اور باقی جسم کے 10 بھید بھاؤ ہیں۔
جُھمر سرائیکی وسیب کا اہم اور خاص تہذیبی و ثقافتی عنصر ہے، جُھمر شادی، عرس میلے، خاص تہواروں اور خاص مواقع پر کھیلا جاتا ہے، باجوں گاجوں کے ساتھ منت اتارنا تو صرف جُھمر کے ساتھ ہی عبارت ہے۔ جُھمر ایک دائرے میں کھیلی جاتی ہے، جُھمر کھیلنے والی جگہ کو ’’جُھمر کاپڑ (میدان) بھی کہا جاتا ہے۔ جُھمر شروع ہونے سے پہلے آگ کا ’’مچ‘‘ دہکایا جاتا ہے۔ دائرے کے درمیان میں میراثی (نقارچی، ڈھولک نواز، شہنائی نواز یا بین کار) بیٹھ کر یا کھڑے ہو کر جُھمر کی دھن بجاتا ہے جس کا سر جھومری کو جُھمر کھیلنے پر مجبور کر دیتا ہے اور جُھمر دیکھنے والے کو سحرزدہ۔ جُھمر ولمبت لے سے شروع ہو کر ’’درت‘‘ لے پر آکر ختم ہو جاتی ہے یعنی جُھمر آہستہ آہستہ رچتے رچتے آخر میں تیز ہو جاتی ہے۔
جُھمر کے دوران کوئی ماہر اور طاقت ور جھومری نقارے پر آتا ہے، اس عمل کو نقارے پر آنا/ جانا اور پھیرا ڈالنا کہا جاتا ہے لیکن ایک معروف جھومری کے بقول اس عمل کو ’’ٹھمرے‘‘ کہا جاتا ہے۔ جھومری اس عمل کے دوران جُھمر کے بھید بھاؤ بتانے کی انتہاء کر دیتا ہے۔ ٹھمرے میں نقارچی صرف اکیلے جھومری کو جُھمر کھلوا رہا ہوتا ہے، نقارے اور ڈھولک کے تال، چپڑی، تاڑی اور چٹکی کے ملاپ سے انتہائی خوبصورت سماں ترتیب پا رہا ہوتا ہے۔ جُھمر کے عمل میں ڈھولک، شہنائی اور بین محض Sporting Insturment کی حیثیت رکھتے ہیں، جُھمر میں مرکزیت کا تاج صرف نقارہ کے سر پر ہوتا ہے۔ نقارہ جُھمر کے لیے تال تخلیق کرتا ہے، یہ وہ ساز ہے جو دنیا بھر میں مختلف اشکال میں موجود ہے۔
نغارہ عربی زبان کا لفظ ہے جو ’’نغر‘‘ سے مشتق ہے، اس کے معانی بجانے کے ہیں۔ ماضی قریب میں نقارہ کا استعمال جُھمر کے علاوہ بھی مختلف حوالوں سے ہوتا رہا، عسکری نقل و حمل کے لیے بھی اس کا بھر پور کردار رہا ہے، مختلف شاہان وقت کے ادوار میں دیگر شعبوں کے علاوہ نقار خانے کا بھی ایک شعبہ ہوا کرتا تھا۔ نقارہ مذہبی امور میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ گردونواح میں پیغامات کی ترسیل بھی نقارہ کے ذریعے ہی کی جاتی تھی گویا نقارہ رابطے کا بہترین ذریعہ تھا۔
بادشاہوں کے درباروں شادیوں اور خانقاہوں پر ’’نوبت‘‘ بجانے کے لیے نقارہ ہی استعمال ہوتا تھا، نوبت ان مواقع کے لیے ایک ثقافتی رکن کے طور پر رہی ہے لیکن اب یہ ثقافتی رکن آہستہ آہستہ موت کے منہ میں جا رہا ہے۔ نقارہ اور شہنائی کی سنگت ضروری خیال کی جاتی ہے، نقارہ کے تال اور شہنائی کے سُر ایک سماں باندھ دیتے ہیں جس کا لطف صرف محسوس کیا جا سکتا ہے، بیان نہیں کیا جا سکتا۔ سرائیکی وسیب میں جُھمر کی مخصوص اقسام ہیں انہیں مردانہ اور زنانہ جُھمر میں تقسیم کیا جاتا ہے مردانہ جُھمر کی اقسام کچھ اس طرح ہیں:
1۔ بڑی جُھمر یا سادہ جُھمر
2۔ تین تاڑی
3۔ دھمیڑا
4۔ لوڈی
5۔ ڈاک والی جُھمر
6۔ تروڑا
چولستان (روہی) کا معروف رقص بھی جُھمر ہی ہے، مردانہ جُھمر نقارہ، ڈھولک، بین اور چپڑی کی دھنوں کے ساتھ کھیلی جاتی ہے، ہر خطے کی جُھمر کے بھید بھاؤ منفرد اور دلکش ہوتے ہیں، ایسے ہی روہی کی جُھمر کے بھید بھاؤ اپنی انفرادیت رکھتے ہیں یعنی دامان کی جُھمر اور تھل کی ’’دھریس‘‘ سے کچھ مختلف ہیں لیکن پھر بھی سارے وسیب کی جُھمر کے انداز ایک ہی جیسے ہیں، جُھمر کے نام تو تمام دامان ہی کے طرح کی ہیں مثلاً کھڑاویں، ڈیڈھی، پھیرویں، پوں والی اور تھپیر ویں روہی میں خواتین کی صرف ایک جُھمر ’’تین تاڑی‘‘ بڑے ذوق شوق سے کھیلی جاتی ہے لیکن دامان (ڈیرہ غازی خان‘ راجن پور ) میں خواتین کی جُھمر کی بہت ساری اقسام ہیں مثلاً بڑی جُھمر‘ تین تاڑی‘ چٹکی والی جُھمر‘ لچھی اور چکیلی وغیرہ یہ ’’جُھمریں‘‘ میراثن (جسے احتراماً دادی کہا جاتا ہے) ڈھولک کی دھنوں پر کھلواتی ہے۔ مردو خواتین اگر مل کر جُھمر کھیلیں تو اسے ’’گدری جُھمر‘‘ کہا جاتا ہے، یہ روایت ابھی بھی کئی خاندانوں میں موجود ہے، عام طور پر منت اتارنے کے لئے ’’گدری جُھمر‘‘ ہی کھیلی جاتی ہے۔
’’تال‘‘ ہمہ قسم موسیقی اور رقص (جُھمر) کی ترتیب کا نام ہے، اگرچہ ہندوستان میں رقص کے لئے تمام تر مروجہ تال استعمال کئے جاتے ہیں لیکن سرائیکی جُھمر کے تال مخصوص ہیں۔ ایک معروف میرزادے کے بقول طبلے کے ’’تال‘‘ ہوتے ہیں لیکن نقارے کے لئے انہیں ’’تار‘‘ کہا جاتا ہے۔ تال دینے والے ساز مثلاً پکھاوج، مردنگ‘ تاشہ‘ نقارہ اور ڈھولک کے ’’باج‘‘ الگ الگ ہوتے ہیں، اگر باج مختلف ہے تو اس باج کے بول بھی مختلف ہوں گے، اس کے ساتھ ساتھ ان کے قاعدے کے بول بھی الگ الگ ہیں مگر نقارہ اور ڈھولک کے بول ایک ہی جیسے ہوتے ہیں، قاعدے کے بول کچھ اس طرح ہوتے ہیں:-
جھاکے جھنک جھن ڑک تک جھن گھن ڑک تاکے تنک تن نے جھک ڑک
بڑی جُھمر
بڑی جُھمر تین تال ٹھمری میں کھیلی جاتی ہے، اس کا آغاز پانچ ماترے سے ہوتا ہے اور آہستہ آہستہ 33 ماترے تک آتے آتے اپنے عروج پر آ جاتی ہے مثلا;
5ماترے + 9ماترے + 17 ماترے + 33
جُھمر جس وقت درت لے میں پہنچ جاتی ہے تو اس میں ’’گت اورپرن‘‘ کی تقسیم ہوتی ہے گت اور پرن میں تہائی لگتی ہے، اس کی گت کے ٹکڑے تین ماترے کے ہوتے ہیں، تہائی میں تین ماترے کے تین ٹکڑے ہوتے ہیں اور ماتروں کی تعداد 9ہو جاتی ہے۔ تہائی کے ہر ٹکڑے کے آخر میں سم کا آنا لازمی ہوتا ہے، اس کے ساتھ جُھمر کی نفاست اور خوبصورتی نمایاں ہو کر سامنے آتی ہے‘ جس وقت جُھمر اپنے عروج پر آتی ہے تو اس کے کچھ حصے ’’آڑا‘‘ اور ‘‘دھمار‘‘ تال کی صورت اختیار کر لیتے ہیں، آڑا اور دھمار تال چودہ چودہ ماترے کے ہوتے ہیں‘ اس کے بعد جُھمر تین تال کے علاوہ ’’جھپ تال‘‘ کا رنگ بھی دکھا رہی ہوتی ہے‘ بڑی جُھمر کے لئے تین تال کے بول یہ ہیں:
جھن ناکوم دا کوما کوم دا جھن
لوڈی اور تین تاڑی
ان ’’جھومروں‘‘ کا آغاز بھی 5ماترے کے ساتھ ہوتا ہے اور تال بھی مشترکہ ہوتے ہیں لیکن بول ہر جُھمر کے مختلف ہوتے ہیں۔
لوڈی: دھن دھاتڑکٹ تاتن تاتڑکٹ تادھن
تین تاڑی: دھن تاک دھادھن تاک دھا دھن تاک دھاکت دھن
ڈاک والی جُھمر اور دھمیڑا
ڈاک والی جُھمر اور دھمیڑا ایک ہی تال میں کھیلے جاتے ہیں، ان کا تال بھی تین تال ہے یہ جُھمریں 5 ماترے کے بجائے 2 ماترے میں کھیلی جاتی ہیں یعنی آغاز 2 ماترے سے ہوتا ہے ان کے بول کچھ یوں ہیں:
دھن دھاک دھاکت دھادھن
تروڑا (توڑا)
اس کی گت کے بول یہ ہیں:
کڑو کڑو کڑو
قدیم زمانے میں نقارے پر ’’پلتھا‘‘ کھیلا جاتا تھا‘ جو بظاہر رقص (جُھمر) ہی کی ایک قسم تھی لیکن ہیئت کے اعتبار سے جنگجویانہ طرز کی ہوتی تھی، اس میں حملہ کرنے اور اپنے بچاؤ کی خاطر داؤ پیچ استعمال کرنے کا مظاہرہ کیا جاتا تھا ’’پلتھا‘‘ تلوار یا لکڑی ہاتھ میں لے کر کھیلا جاتا تھا، اسے صرف ماہر تلوار باز یا لٹھ باز کھیلتے تھے۔ جنگوں کے مزاج تبدیل ہونے سے یہ رقص ہمارے خطے میں کب کا متروک ہو چکا ہے۔
توڑا کوئی منفرد جُھمر نہیں ہوتی‘ نقارچی ’’کڑو کڑو کڑو‘‘ کی گت بجا کر جھومری کو نقارے پر آنے کی ترغیب دیتا ہے جب کوئی جھومری نقارے پر آ جائے تو نقارچی اسے ’’گُر‘‘ سے باہر نکالنے کی کوشش کرتا ہے یعنی نقارچی ’’تروڑا‘‘ مارتاہے‘ اس عمل یعنی ’’ٹھمرے‘‘ کو جھومری اور نقارچی کے درمیان ایک مقابلہ کہا جا سکتا ہے‘ موسیقی کی اصطلاع میں اسے ’’جگل بندی‘‘ کہا جاتا ہے کیونکہ نقارچی باقی جھومریوں کو چھوڑ کر اس ایک جھومری کو ہی جُھمر کھلا رہا ہوتا ہے۔
برصغیر پاک و ہند میں رقص کی بہت ساری اقسام ہیں یعنی کلاسیکل اور فوک‘ کلاسیکل رقص مکمل طور پر (کتھک‘ بھرت نا ٹیم‘ کتھاکلی اور منی پوری) تمثیلی رقص ہیں ان ناچوں میں ہندو دیومالا کوتمثیل کے ذریعے اُجاگر کیا جاتا ہے۔ برصغیر کثیر ثقافتی خطہ ہے، ہر خطے کا مختلف اور منفرد رہن سہن زبان اور ثقافت ہے اس طرح ان خطوں کے رقص بھی الگ الگ اور منفرد ہیں۔ پنجاب کا بھنگڑا اور لُڈی‘ پختونوں کا خٹک ناچ‘ بلوچوں کی جُھمر اور دھریس سندھیوں اور سرائیکی وسیب کی جُھمر اور دھریس قابل ذکر ثقافتی عناصر ہیں۔
ان تمام میں اپنی اپنی طرز معاشرت اور ثقافت کی جھلک بھی نظر آتی ہے۔ اس حوالے سے دیکھا جائے تو سمندر کے کنارے کے باسی مچھیروں کے رقص میں کشتی کھینے کی جھلک نظر آتی ہے، جنگجو قبائل کی جُھمر کے انداز عسکری ہوتے ہیں، اس سلسلے میں ہندوستان کے ناگا قبائل کی مثال دی جاسکتی ہے، ان کے رقص کو War Danceکہا جاتا ہے‘ نیپالی رقص گیتوں سے آراستہ ہوتا ہے، یہ ٹھنڈے مزاج کا رقص ہے۔ ہندوستان کے شمال مشرق میں رقص Folk Dance کی بے شمار اقسام ہیں جو اس سماج کے مزاج اور میلان کو ظاہر کرتی ہیں، ان کے رقص میں زرعی سماج کی جھلک نظر آتی ہے، اس تناظر میں کہا جا سکتا ہے کہ رقص با معنی ہوتا ہے اور اس کی بے معنویت کا تصور ہی نہیں کیا جاسکتا۔
اس بحث کی روشنی میں دیکھا جائے تو سرائیکی وسیب کی جُھمر کا ایک مخصوص مزاج (اپنی تہذیب کے حوالے سے) بنتا ہے۔ سرائیکی وسیب زرعی طرز معاشرت کا حقیقی نمائندہ ہے کیونکہ اس سماج کا دارومدار مکمل طور پر زراعت پر ہے‘ جُھمر جیسے ثقافتی عنصر میں بھی زرعی سماج کی جھلک واضح ہے، جھومری جُھمر میں اپنے مخصوص انداز کے ساتھ زرعی سماج کی نمائندگی کر رہے ہوتے ہیں۔ سرائیکی وسیب میں بڑے بڑے میلے (گلن پیرکا میلہ‘ چنن پیر کی سات جمعراتیں‘ سخی سرور کے دوآبے پر میلہ بیساکھی) چیت کے موسم میں ہوتے ہیں‘ چیت کے بعد یکم بیساکھ کو اس سلسلے کا آخری عوامی میلہ ہوتا ہے جسے بیساکھی کہا جاتا ہے، ان میلوں کے انعقاد سے ایسا لگتا ہے کہ فصلوں کے پکنے کا احترام کیا جا رہا ہو۔
رقص کی تاریخ گواہ ہے کہ جُھمر میں پیشے کا اظہار کسی سماج کی ثقافت اور تہذیب و تمدن کے ساتھ ایمان کی حد تک ایک ہونے کی علامت ہے۔ چیت کے موسم کے میلے نئے سال کے استقبال کا سنجوگ بھی ہیں۔
عام طور پر جُھمر میں ہل چلانے‘ کپاس کی کٹائی‘ چنائی اور چینا چھڑنے (چینا غلے کی ایک کمیاب قسم ہے اس کا بھت بڑے شوق سے پکایا اور کھایا جاتا ہے، چینے کو چھڑنا کسی عذاب سے کم نہیں ہوتا) جیسے انداز جُھمر میں نمایاں کئے جاتے ہیں‘ چینا چھڑنے کو اگر تصوف کے حوالے سے دیکھا جائے تو جُھمر میں ایک وجدانی انداز کے طور پر سامنے آتا ہے۔ اس کی وجدانی جھلک جُھمر کھیلنے اور دیکھنے والے کو بے خود کر دیتی ہے۔ بابا بلھے شاہؒ کی مشہور کافی چینا ایں چھڑیندا یار‘‘ جُھمر میں گائی جاتی ہے اور چینا چھڑنے کے انداز کو جُھمر میں بھی اپنایا جاتا ہے۔ رقص کے ماہرین کے مطابق جھومری (رقاص) دیوتا‘ انسان، مناظر فطرت اور افعال کا ترجمان ہوتا ہے۔
موسیقی شاعری اور رقص ایک دوسرے کے لئے لازمی شمار کئے جاتے ہیں، ان تینوں کا ملاپ ایک وجد آور کیفیت پیدا کردیتا ہے۔ کسی منچلے نے تو یہاں تک کہا ہے کہ جہاں موسیقی خاموش ہو جاتی ہے، وہاں رقص بولتا ہے‘ ہوسکتا ہے یہ جملہ معترضہ ہو پھر بھی ان عناصرکا اپنا اپنا مقام ہے جن کو میرے نزدیک تبدیل نہیں کیا جاسکتا۔ جس وقت جُھمر کھیلی جا رہی ہوتی ہے تو موسیقی ضرور اس کا حصہ ہوتی ہے‘ جس وقت جُھمر اور موسیقی کا ملاپ ہوتا ہے ہونٹوںپر ازخود گیت مچلنا شروع ہو جاتے ہیں‘ یا یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ جس وقت سر الفاظ کے روپ میں آتے ہیں تو گیت وجود میں آ جاتے ہیں۔ سرائیکی وسیب میں جُھمر کھیلنے اور گیت گانے کی روایت ابھی تک موجود ہے اور یہ روایت بہت پرانی ہے، جھومری ان گیتوں کو کورس کے انداز میں گاتے ہیں، جُھمر کھیلنے کے تین درجے ہیں:
1 ولمبت (شروع) 2 مدھ (درمیان) 3 درت (تیز) یہ جھومری کی رفتار کو ناپنے کے پیمانے بھی ہیں، عام طور پر یہ گیت ولمبت لے میں گائے جاتے ہیں‘ ان گیتوں کا مزاج عشقیہ ہوتا ہے جس میں برہا کا عنصر نمایاں ہوتاہے‘ نمونے کے کچھ گیت ملا خطہ کیجئے:
اللہ جانے یا رنہ جانے
میڈا ڈھول جوانیاں مانے
میں تاں پانی بھریندی آں ڈولی
میکوں یار مریندے بولی
اللہ جانے یار نہ جانے
میڈا ڈھول جوانیاں مانے
…………………
چن کتھاں گزاری ہئی رات وے
میڈا جی دلیلاں دے وات وے
کوٹھے تے پھر کوٹھڑا ماہی کوٹھے سکدی ریت بھلا
اساں گندھایاں مینڈھیاں توں کہیں بہانے ڈیکھ بھلا
چن کتھاں گزاری ہئی رات وے
میڈا جی دلیلاں دے وات وے
کچھ گیت درت لے میں گائے جاتے ہیں یہ جُھمر کا عروج Climax ہوتا ہے، یہ لوک گیتوں کی وہ صنف ہے جسے ’’ساون ماہ کوں‘‘ کہا جاتا ہے، ان میں طنز و مزاح بھی پایا جاتا ہے لیکن کچھ گیت لوک دانش کا اعلیٰ نمونہ بھی ہیں۔ یہ لوک گیت لوک بیانیہ Folk Nerrative کے روپ میں ہم سب کے سامنے آتے ہیں اور ان کے ساتھ ہی اس سماج کی ثقافت اور تہذیب کی تفہیم بھرپور انداز کے ساتھ ہو سکتی ہے۔ نمونے کا گیت:
نکی جئی چھوکری چرخہ بیٹھی کتے
بہاں الارے‘ چوڑا کھڑکے‘ تند قہر دی سٹے
آپنی روٹی کھا کر اہیں تے بئے دی روٹی تکے
پئے مریندا منگلیاں واٹھویں وانگوں ٹپے
ہمبو گشکا‘ ہمبو گشکا‘ ہمبو گشکا
ساون ماہ کوں‘ ساون ماہ کوں‘ لڈھدا آیا اک
چا گھنائیں ڈاتری تے کپ گھنائیں نک
ہمبو گشکا‘ ہمبو گشکا‘ ہمبو گشکا
الغرض رقص وہ سماجی اور ثقافتی رویہ ہے جو کسی نہ کسی حوالے کے ساتھ انسانی مزاج میں (چاہے شعوری یا لاشعوری طور پر) موجود ہے، یہ وہ رویہ ہے جو انسانی کیتھارس کا موجب بھی بنتا ہے۔ کسی جذبے کے تحت کسی دوسرے سے ہاتھ ملانا، کسی دوسرے انسان کے ہاتھ پر بے ساختہ ہاتھ مارنا‘ اپنے آپ ہی تالی بجانا‘ جھومنا یعنی وجد میں آنا‘ پاؤں کا زمین پر مارنا یا باقاعدہ جُھمر کھیلنا، یہ سارے عمل جُھمر ہی کی تعریف میں آتے ہیں‘ رقص کو اگر بین الاقوامی سطح پر دیکھا جائے تو اس کی حیثیت خاصی معتبر لگتی ہے‘ خصوصاً یورپ میں اسے ایک فلاسفی تسلیم کیا گیا ہے جو رسم و رواج‘ عقیدت‘ جمالیات اور ہنر مندی (فنی اظہار) کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔
رقص (جُھمر) اور موسیقی کا آپس میں مخصوص تال میل تلاش کرنے کا بھی اہتمام کرتا ہے کیونکہ رقص اور موسیقی ایک دوسرے سے الگ اور منفرد نہیں‘ یہ وہ فلاسفی ہے جو رقص (جُھمر) کے نظریے کے نام سے مشہور ہے اور مطالعہ کا نیا میدان ہے، اسے موجودہ صدی سے اظہار کے قاعدے کی ایک شاخ مانا گیا ہے۔ رقص کا نظریہ ایک بہت بڑی اصطلاع کے طور پر سامنے آیا‘ یہ اصطلاح رقص کی بنیاد (تاریخ) انداز‘ نسل (قومیت) اور ہنرمندی کا احاطہ کرتی ہے۔ رقص (جُھمر) (کسی بھی شکل میں دنیا کی تمام تہذیبوں میں موجود ہے اور دنیا بھر میں اسے فطری عمل تصور کیا جاتا ہے۔
جُھمر کے مطالعے سے یہ بات بھی نمایاں ہو کر سامنے آتی ہے کہ جُھمر (رقص) فنون لطیفہ کی ایک شاخ تو ہے ہی مگر اس کا تعلق نیچرل سائنس، حساب اور جیومیٹری کے ساتھ بھی بنتا ہے‘ جیسا کہ چال (رفتار) حرکت‘ وقت اور جگہ Time and space (جُھمر میں وقت پر سر تال کے مطابق جگہ کی تبدیلی) تال میں ماتروں کی گنتی‘ تقسیم‘ زاویے اور دائرے (چکری) قوس‘ یہ سارے عنوانات نیچرل سائنس‘ حساب اور جیومیٹری کے زیرمطالعہ آتے ہیں۔ گویا جُھمر میں آرٹ اور سائنس کی شاندار آمیزش پائی جاتی ہے۔
یورپ اور دنیا کے دوسرے خطے روس وغیرہ میں رقص کے پھیلاؤ اور فروغ کی رفتار بہت تیز ہے‘ رقص میں جدت آرہی ہے‘ نت نئے تجربات ہو رہے ہیں‘ اس وجہ سے رقص کی شکلیں تبدیل ہو رہی ہیں اور رقص میں آئے روز تیزی آرہی ہے۔ سائنسی ترقی کی وجہ سے دنیا گلوبل ویلج بن چکی ہے‘ میڈیائی یلغار کی وجہ سے سرائیکی وسیب کی جُھمر پر دیگر تہذیبوں کے رقص اور کلچر کے کیا اثرات مرتب ہو سکتے ہیں، اس تناظر میں جُھمر کے امکانات پر بحث کی جا سکتی ہے‘ ہندوستان میں تو رقص کی حیثیت مذہبی اور دیومالائی ہے ممکن ہے اس میں تبدیلی نہ آئے۔ ہندوستان کی تقسیم کے بعد ان خطوں میں فکری تبدیلی رونما ہوئی ہے، یہاں کی تہذیب و ثقافت کو یکبارگی ہندی تہذیب و ثقافت کہہ کر عمداً نظرانداز کیا گیا اور ہر حوالے سے مخالفت بھی کی گئی۔ کٹر مذہبی حلقے یہاں کی لوک روایات کو جاہلانہ قرار دے کر ان کو ترک کرنے کی ترغیب دیتے رہے۔
جُھمر کے امکانات کے حوالے سے کہا جا سکتا ہے کہ لوک روایات یا لوک رویے یوں ہی نہیں مر جاتے۔ بہرحال ان کی شکل تبدیل ہو سکتی ہے یا کوئی نئی روایت رواج پا سکتی ہے‘ بیرونی تہذیبوں اور ثقافتوں کے اثرات کسی بھی تہذیب و ثقافت پر یکدم نہیں ہوا کرتے بلکہ آہستہ آہستہ اثر پذیری ہوتی ہے‘ کچھ خاندان تو جلدی دوسری تہذیب سے متاثر ہو سکتے ہیں مگر سارے خطے پر اس کے اثرات یکدم نہیں ہوا کرتے‘ یہ بات بھی مطالعہ سے سامنے آئی ہے کہ دیہات کی نسبت شہر دیگر تہذیبوں سے جلد متاثر ہوتے ہیں جہاں تک جُھمر کا تعلق ہے یہ ثقافتی اور تہذیبی عنصر کسی نہ کسی شکل میں موجود رہے گا‘ جب تک زبان زندہ ہے تب تک تہذیب و ثقافت نہیں مر سکتی۔ جُھمر تو لوک بیانیہ ہے، لوک بیانیہ میں ہی کسی قوم کی تاریخ ہوتی ہے اور تاریخ آسانی سے نہیں مرتی۔
سرائیکی وسیب کے معروف جھومری
جُھمر کھیلنا ایک فن ہے، مگر یہ فن کسی کسی کو ہی آتا ہے‘ جُھمر ایک ترنگ کا نام ہے‘ اندر کا جذبہ ہے جو کسی کو بھی جُھمر کھیلنے پر مجبور کر سکتا ہے‘ گویا اس فن کا تعلق جذبہ اور صلاحیت کے ساتھ ہے۔ باصلاحیت اور ماہر جھومری ہر دور میں رہے ہیں جنہوں نے ایک زمانے کو اپنے فن سے متاثر کیا‘ معلوم تاریخ کے مطابق نامور اور باصلاحیت جھومریوں کے نام کچھ اس طرح ہیں‘ نذر خان‘ واحد بخش چاہ ٹاہلی والا بہاولپور‘ روہی کے روہیلے اور محراب والا (احمد پور شرقیہ) کے لاشاری بلوچ‘ غنی کوٹانہ (مرحوم) مہرے والا‘ حضور بخش کھوکھر اور رمضان کھوکھر سکھانی والا‘ صابر کمہار مرحوم ساہن والا (فاضل پور) جواچھا اور ماہر جھومری ہونے کے ساتھ ساتھ جُھمر میں گیت اور ڈوہڑے بھی بڑی سج دھج کے ساتھ گاتا تھا۔
علی خان نام کا ایک شخص جو جُھمر کھیلنے کے جذبے کو کسی بھی جگہ روک نہ سکتا تھا یہ کہہ کر جُھمر میں شامل ہو گیا تھا کہ ’’علی نئیں جھلیندا یار‘‘ یعنی علی خود کو جُھمر کھیلنے سے نہیں روک سکتا‘ یہ اکھان جُھمر کے گرتار پر بھی پورا اترتا ہے‘ فیاض درکھان کوٹلہ نصیر صادق آباد‘ صادق علی شہزاد ملتان‘ رفیق (دھریس کا ماہر) ضلع بھکر‘ خادم حسین بندوآنی کھوسہ اور اس کا گروپ ڈیرہ غازی خان‘ اللہ وسایا پشتہ مرحوم‘ جمعہ خان احمدانی‘ لعل خان محمد پور دیوان‘ اعجاز ڈاہا داجل‘ داجل کی ڈاہا برادری ابھی تک ’’ڈاک والی جُھمر‘‘ کی روایت کو محفوظ رکھے ہوئے ہے جو حضرت ابھڑنگ سلطانؒ داجل کے میلے میں آخری دن عقیدت کے طور پر ڈاک والی جُھمر کھیلتی ہے‘ یہ روایت بہت طویل عرصہ سے مسلسل چلی آرہی ہے۔ شمشاد خان لشاری اور ریاض مسا جام پور‘ عمر وڈہ خاں مرحوم چاہ دلو والا (راجن پور) اپنے وقت کا بہت بڑا جھومری تھا۔
سردار بہادر خان احمدانی مرحوم دلو والا اور ملک محمد نواز برانہ چاہ جلال والا (راجن پور) جُھمر کی نزاکت اور نفاست کے امین تھے۔ ان کی وفات پر میر زادہ استاد واحد بخش لنگاہ نے خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا تھا ’’آج جُھمر مر گئی ہے۔‘‘ آجکل بھی اچھی اور خوبصورت جُھمر کھیلنے والے موجود ہیں اور اپنے اپنے گروپ بنائے ہوئے جو مکمل طور پر پیشہ ور ہیں۔ ڈیرہ اسماعیل خان کے الہٰی بخش سودائی اپنے علاقے کے معروف جھومری سمجھے جاتے ہیں۔ رسول پور میں فدا محمد خان بلوچ اور حاجی محمد ابراہیم خان کھوسہ اپنے وقت کے معروف جھومری تھے اور اب کاشف خان اور صبور عالم قریشی شاندار جھومری تسلیم کئے جاتے ہیں۔ بستی موچی والا میں نوجوان جھومری بڑی تعداد میں موجود ہیں مگر بابر خان امیر تمیور اور خالد اچھی جُھمر کھیلتے ہیں۔
جُھمر میں آگ کا کردار
جہاں تک جُھمر کے پڑ (میدان) میں آگ جلانے کا تعلق ہے‘ آگ کے بارے میں سماجیات کی تاریخ بتاتی ہے کہ اس کی دریافت کے ساتھ ہی انسان نے وحشت سے جان چھڑالی اور مہذب کہلوانے لگا‘ آہستہ آہستہ آگ نے انسانی سماج میں ایک ایک دیومالائی روپ دھار لیا اور آگ کہیں کہیں دیوتا بھی بن گئی‘ اپنے اطراف دیکھا جائے تو اس و سیب میں اب تک آگ کے متعلق بہت سارے اسطورے موجود ہیں جن پر آج بھی لاشعوری طور پر عمل کیا جاتا ہے، مثلاً چولہے کی آگ کو پانی سے نہیں بجھایا جاتا، آگ پر پیشاب نہیں کیا جاتا‘ انسان کے گناہ و ثواب پرکھنے کے لئے آگ بہترین اور معتبر ذریعہ سمجھی جاتی ہے۔ الغرض آگ انسانی سماج اور مزاج میں تبدیلی کا سبب بنی ہے‘ ہندوستان میں برطانوی نوآبادیاتی نظام ختم ہونے کے بعد ہمارے وسیب میں بہت ساری فکری تبدیلی ہوئی ہے‘ اس کے باوجود تحت الشعور میں نسل در نسل آگ کا کردار موجود ہے‘ ممکن ہے جُھمر میں آگ جلانے سے آگ کے دیوتا کو عقیدت پیش کرنا ہی مقصود ہو۔
The post سرائیکی جُھمر… appeared first on ایکسپریس اردو.