بنگلور (ہندوستان) میں رہنے والے ایک شخص کو یقین ہے کہ انگریزی زبان، ہندوستان کے جنوب مغربی ساحل سے سفر کرکے اُس خطے میں جاپہنچی تھی، جسے آج ’برطانیہ عظمیٰ‘ [The United Kingdom of Great Britain-UK or GB] کہا جاتا ہے۔
جنوبی ہندوستان سے تعلق رکھنے والے محقق جناب پی۔ شیِو پرشاد رائے نے یہ منفرد نظریہ پیش کیا ہے کہ انگریزی زبان نے ’تولو‘ (تُو لُو۔TULU) زبان سے جنم لیا ہے، جو جنوب مغربی شہر منگلور کے نواح میں بسنے والے دس لاکھ افراد بولتے ہیں۔
سن دو ہزار ایک کی مَردُم شماری کے اعدادوشمار کے مطابق تولو بولنے والوں کی آبادی سترہ لاکھ بیس ہزار نفوس پر مشتمل ہے۔ جنوبی ہندوستان کے صوبے کرناٹک کے علاقے ’تولوناڑو‘، صوبہ کیرالہ کے ضلع کیسرگوڑ، صوبہ مہاراشٹر (ہندوستان کے اس حصے کو مقامی زبان میں ’’تولوناڑو‘‘ کہا جاتا ہے، جسے انگریزی ہجے میں تولو ناڈو سمجھا جاتا ہے۔ اس زبان کے بولنے والوں نے ایک طویل عرصے سے اپنی زبان کو ہندوستان کی سرکاری زبانوں میں شمولیت کا مطالبہ کیا ہوا ہے اور ساتھ ہی وہ چاہتے ہیں کہ اس علاقے کو الگ ریاست یعنی صوبے کا درجہ دیا جائے) اور خلیجی ممالک میں آباد اس قوم کے درست اعدادوشمار بہرحال دست یاب نہیں۔ لفظ ’تولو‘ کی اصل پر بہت اختلاف ِرائے پایا جاتا ہے۔ اکثر کی تحقیق کا خلاصہ یہ ہے کہ تولو کے معنی ہیں ، ’پانی سے جُڑا ہوا‘۔ اس ضمن میں لسانی تحقیق کے ذوق کے حامل قاری /ادیب یہ تحریر ملاحظہ کرسکتے ہیں:
https://controversialhistory.blogspot.com
/2008/04/origin-of-world-tulu.html
جناب پی۔ شیِو پرشاد رائے کے نظریے کے مطابق انگلستان کے ابتدائی اینگلو[Anglo]آباد کار بحری سفر کرنے والے تولو تھے جنھوں نے ساتویں یا آٹھویں صدی قبل از مسیح میں ہندوستان سے نقل مکانی کی اور انجام کار پانچویں صدی عیسوی میں انگلستان پہنچے۔ ہندوستانی فضائیہ کے سابق افسر، جناب رائے نے کہا کہ انگریزی اور تولو کا تقابلی مطالعہ، نَحو، قواعد اور خود نثر کی ہیئت میں حیرت انگیز مماثلت ظاہر کرتا ہے۔
رائے کا مقالہ بعنوان ’انگریزی کی اصل۔ تولو‘ دنیا بھر کی توجہ کا مرکز بن گیا ہے۔ اس نے محققین، مدبرین اور مشاہیر ذرائع ابلاغ (بشمول مدیر اعلیٰ ’ٹائم میگزین‘۔ ہینری گرن والڈ، مدیر اعلیٰ انسائیکلوپیڈیا بری ٹینیکا۔ فلپ گوئیٹز، صدررائل ایشیاٹک سوسائٹی، لندن، سابق صدر ہندوستان۔ وینکٹ رامن، سابق وزیراعظم ہندوستان۔ پی وی نرسِمہاراؤ، شہزادہ چارلس اور لیڈی پامیلا ماؤنٹ بیٹن )کے ساتھ ہونے والی مراسلت کا ایک وقیع ذخیرہ، بڑی محنت سے مرتب کرکے شایع کیا ہے۔ اس ذخیرہ مکاتیب میں آنجہانی ہندوستانی وزیراعظم راجیو گاندھی اور اُن کی بیوہ سونیا گاندھی کا ایک خط بھی شامل ہے۔ راجیو گاندھی نے یہ خط سری پیتم پتر کے الم ناک سانحے میں اپنی ہلاکت سے کچھ عرصہ قبل تحریر کیا تھا۔
(ایک اہم وضاحت: عربی لفظ ’مکتوب‘ یعنی خط کی جمع ہے، مکاتیب اور فارسی داں طبقے نے اسے ’مکتوبات‘ بناکر اردو میں رائج کردیا، حالاںکہ لفظ مکاتیب آسان ہے۔ اس سے مماثل لفظ مکاتِب ہے جو مکتَب یعنی اسکول یا لائبریری کی جمع ہے)۔ انسائیکلوپیڈیا بری ٹینیکانے اس نظریے کو اپنے حوالہ جاتی کتب خانے [Reference library]کی زینت بنالیا ہے، جبکہ برٹش کونسل، لندن نے ایک خط میں یہ تبصرہ کیا کہ جناب رائے نے متعلق لسانی عناصر کو ایک جرأت مندانہ سوچ عطا کی ہے۔ کونسل نے اس اَمر پر اظہارمسرت کیا کہ اُن کے مقالے نے دل چسپی کا ایک جہاں پیدا کیا ہے۔ کلکتہ کے مؤقر جریدے The Statesmanنے تبصرہ کیا کہ ’باوجودیکہ اس نظریے کو علمی حلقوں میں سنجیدگی سے نہیں لیا جائے گا، بہرحال یہ برطانیہ میں پروان چڑھنے والی لسانی آزاد روش کے حالیہ تنازُع کو ایک نئی اور مقبول جہت دے سکتا ہے۔‘ (یہ لفظ تنازعہ نہیں ہے)۔
جناب رائے نے اس بحث سے قطع نظر، امریکا اور برطانیہ کے ’ساحل تا ساحل‘ سفر کے دوران میں معروف ماہرین لسانیات سے اس نظریے کے متعلق تبادلہ خیال کیا (دوران یعنی عرصہ کے بعد ’میں‘ آنا قواعد کی رُو سے لاز م ہے) اور اس مقالے کی نقول برٹش لائبریری، بودلیان لائبریری اور لائبریری آف کانگریس، واشنگٹن کو پیش کیں اور عالمی سطح پر ’حق دانش‘ [Copyright] کے حصول میں کام یا ب ہوگیا۔ فاضل مقالہ نگار کا کہنا ہے کہ ’یہ بات ضرور قابل ذکر ہے کہ پندرہ سو برس پہلے انگریزی محض چند ہزار قبائل مُسَمّیٰ اینگلس[Angles]کی زبان تھی جنھوں نے پانچویں صدی عیسوی میں جزائر برطانیہ کا ایک حصہ آباد کیا تھا ، جب کہ دوسری طرف تولو، دوسری صدی قبل از مسیح میں آریا /آریہ (دونوں طرح رائج) قوم کی لشکرکشی سے قبل پورے ہندوستان میں بڑے پیمانے پر بولی جاتی تھی۔‘
اس انکشاف کے مطابق انگریزی چھٹی صدی عیسوی میں ’کیلٹک‘۔ برطانیہ میں داخل ہوئی۔ یہ ’اینگلئین ‘ [Anglian]حملہ آورقبائل کی بولی تھی جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے صدیوں پہلے، اپنے آبائی وطن، جنوب مغربی ساحل ہند سے بحری سفر کرکے مصر اور شلیزوگ ، جرمنی[Schleswig, North Germany] کے راستے، وہاں جاکر آباد ہوئے۔ ’’اینگلس نے اپنے بینِ بَرِّاعظم [Intercontinental] عارضی قیام کے دوران میں ذخیرہ الفاظ کا ایک بڑا حصہ مستعار لیا، مگر وہ تولو کی ایک ایسی بولی بولتے تھے جو ’سیکسن‘[Saxon] اور کیلٹک[Celtic] بولیوں سے متأثر نہیں تھی۔‘‘ یہاں وضاحت کرتا چلوں کہ آکسفرڈ انگلش ڈکشنری کی رُو سے/Kelt Celtسے مراد مغربی یورپ کے وہ باشندے اور ان کی نسل کے لوگ ہیں جو زمانہ ما قبل رومی اقتدار میں برطانیہ اور گال [Gaul] میں، خصوصا آئرلینڈ ، ویلز [Wales]، اسکاٹ لینڈ، کارن وال [Cornwall] ، بریطانی [Brittany]اور جزیرہ انسان [The Isle of Man] میں آباد ہوئے۔
لفظ ’کیلٹ‘ کے مآخذ لاطینی اور یونانی بتائے جاتے ہیں۔ اس گروہ یا قوم کے لوگ یہ زبانیں بولتے ہیں: گے لِک [Gaelic]، ویلش[Welsh]، کارنِش[Cornish] اور بری ٹون[Breton]۔ علاوہ ازیں اسی لغت کے بیان کے مطابق یہ لوگ، شلیزوگ، جرمنی کے ضلع Angul سے تعلق رکھتے تھے۔{The Concise Oxford Dictionary-The New Edition for 1990s}۔ جناب رائے نے کہا کہ انگریزی زبان نے دیگر زبانوں سے ذخیرہ الفاظ کے مستعار لینے کا سلسلہ جاری رکھا ہے، مگر تمام اصل یا حقیقی انگریزی الفاظ کے علم کا ماخذ صرف تولو ہے۔ انگریزی کی یک حرفی ساخت، اس کی نغماتی نثر، متحرک جزم اور صوتیات، سب کی سب، تولو کی آئینہ دار ہیں۔ مثال کے طور پر یہ فقرہ ’’ایک مرتبہ کا ذکر ہے‘‘[Once upon a time]جو طلسماتی کہانیوں کے آغاز میں استعمال ہوتا ہے، تولو کے مخصوص فقرے ’’وونگ آن اونجی کا لوٹ‘‘ کا براہ راست استعارہ ہے ۔
جناب رائے نے اس اَمر کی نشان دِہی کی ہے کہ ایسا کوئی فقرہ کسی او ر زبان میں موجود نہیں ہے۔ باوجودیکہ مغربی محققین ’تولو۔ انگریزی‘ الفاظ کی ایک لغت مرتب کرچکے ہیں ، بہرحال اس کام کی اصل افادیت ’صَرفِ نظر اور تحقیر‘ کے جالوں میں گم ہے۔ اس موضوع پر انکشاف ِ ہٰذا سے قبل انگریزی اور تولو کے مابین روابط غیر معروف تھے۔ رائے کا کہنا ہے کہ ’ما‘ سے شروع ہونے والے بہت سے الفاظ، تولو اور انگریزی میں ایک مخصوص معنی کے حامل ہیں، مثلاً ’ماگ‘ (یعنی بیٹا۔ تولو)، قدیم انگریزی میں بھی ’ماگ‘ ہے ، نیز ’ماگل‘ یعنی بیٹی (تولو)، قدیم انگریزی میں ’ماج‘ ہے اور بیٹی کے لیے مستعمل ہے۔ جناب رائے نے انکشاف کیا ہے کہ جب تارکین وطن (یعنی تولو) نے خود کو ’’انگلس‘‘ کہا تو دوسروں نے انھیں ’اینگلس‘ کہہ کر پکارا۔ تولو میں ’انگل‘ کے معنی ہم اور ’اینگل‘ کے معنی ’وہ ‘ ہیں۔
تولو بولنے والے ’انگلی‘ خود کو ’انگل‘ کہتے تھے اور برطانیہ میں اپنے نئے وطن کو انھوں نے ’انگلاکنڈ‘ کا نام دیا۔ لفظ’انگلا‘ قدیم انگریزی کے ’انگل‘ کی طرف اشارہ کرتا ہے، جب کہ ’کنڈ‘ یعنی Landقدیم انگریزی میں ہے ، تولو میں ’کنڈ‘۔ اینگلس اپنے اصل وطن کو ’’فیوران کنڈ‘‘ یعنی دوردراز کی سرزمین کہتے تھے اور تولو میں یہ نام پرانا کنڈ، دُور، قدیم اور زرخیز زمین کے معانی کا حامل ہے۔ رائے کہتا ہے کہ ’’یہ اعتراض کیا جاسکتا ہے کہ بھوری آنکھوں، سیاہ بال اور سانولی رنگت کے حامل ’تولو‘، سنہری بالوں اور گوری چمڑی کے مالک، انگریز نہیں ہوسکتے، تو یہاں یاد رہے کہ جِپسی جو آج تمام دنیا میں بکھرے ہوئے ہیں، اُن کے متعلق امرمُسَلمِّہ ہے کہ وہ راجستھان (ہندوستان) سے بمشکل ایک ہزار سال قبل ترک وطن کرکے گئے تھے، مگر آج بمشکل چند سو الفاظ، اُن کی رومانی زبان اور ہند۔ آریائی بولیوں میں مشترک ہیں۔ (اس موضوع پر قدرے مختلف تحقیق کا ذکر میری اس تحریر میں ملاحظہ فرمائیں جو آن لائن دست یاب ہے:
https://www.liverostrum.com/zaib-
sindhi-highlights-the-sindhi-origin-
of-gypsies/1020325.html)۔
انسان کی خانہ بدوش فطرت نے اس قسم کی کسی چیز مثلاً خالص نسل کے استقرار کو ناممکن کردیا ہے (’بنادیا ہے‘ کہنا درست نہیں) اور حَد تو یہ ہے کہ ہٹلر کی ’عظیم آریائی نسل ‘ کا افسانہ بھی مدت ہوئے ختم ہوچکا ہے (البتہ اس کے ماننے والے جنونی یورپ اور امریکا میں آج بھی پائے جاتے ہیں۔ سہیل)، مگر زبان کے پھیلاؤ اور ساتھ ساتھ پروان چڑھنے والے کلچر کا سراغ لگانے سے آدمی، ابتدائی تہذیبوں کی تاریخ کی تہہ کو پہنچ سکتا ہے۔‘‘
دونوں زبانوں کے مابین دیگر مماثلتوں کا ذکر کرتے ہوئے جناب رائے نے کہا کہ ’’جہاں ہندوستان میں صبح کا اشنان/غسل لازم ہے، تولو اپنے انگریز حلیفوں کی طرح شام میں نہاتے ہیں۔ ہندوستانی لوگ پگڑیاں باندھتے ہیں، جب کہ تولو، پام کے شگوفوں سے بنی ہوئی ٹوپی پہنتے ہیں جو بالکل انگریزی County cap جیسی ہوتی ہے۔‘‘ مزید بَرآں، (تولو کو چھوڑکر)، باقی جنوبی ہند میں لوگ خاندانی نام [Family surname] نہیں رکھتے، مگر ’تولو‘، برطانویوں /انگریزوں کی طرح ، خاندانی نام رکھتے ہیں۔ دیگر یورپی اقوام کے برخلاف، انگریز ’شاہانہ ‘ قسم کا ناشتہ کرتے ہیں جو ’جَئی [Oats]‘ کے دلیے پر مشتمل ہوتا ہے اور حیرت انگیز حد تک، تولو کی کنگی چاول کے دلیے سے مشابہہ ہے۔
جناب رائے کا کہنا ہے کہ ’’یہ تمام مشترک خواص محض اتفاق سمجھ کر نظرانداز کئے جاسکتے ہیں، مگر جب چھَے سو سے زائد بنیادی الفاظ کی صَوتی ہیئت، قواعد اور لُغوی ترکیب کا ناقابل تردید مطالعہ، اس پر مستزاد ہو تو یہ بات شک سے بالاتر ہوجاتی ہے کہ اینگلس ، اصل میں،’’تولو ‘‘ تھے، جو ہندوستان کے جنوب مغربی ساحل سے ساتویں یا آٹھویں صدی میں کسی وقت بحری سفر کرکے آئے تھے اور ایشیا اور یورپ کے مختلف ممالک کی سیاحت کرنے کے بعد آخرکار انھوں نے انگلینڈ میں اپنے اصل گھر سے دور ایک نیا گھر بسالیا۔‘‘ اس تمام تفصیل سے قطع نظر، جناب رائے نے یہ انکشاف بھی کیا کہ ’ٹیری‘ اصل میں تولو کا ’تاری‘ اور ’اینڈ‘ تولو کا آنڈ ہے۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ تولو کے حروف ِ علّت [Vowels]انگریزی کے انھی حروف سے کافی قریب لگتے ہیں۔ ملاحظہ فرمائیں:آ، آ ا، ای، ایی، یو، یُوو، رُو، ری/رُوو، لُو، لُوو، ای، اے، او، اَو، آم، آہ۔
[https://www.omniglot.com/writing/tulu.htm] ۔ بنیادی طور پر تولو ایک دراوڑی زبان ہے جس کا رشتہ کنّاڈا، ملیالَم اور تامل جیسی زبانوں اور اُن کی ذیلی بولیوں سے ہے۔ اس کا رسم خط ہرچند کہ کنّاڈا سے مستعار ہے، مگر بقول جناب پالتھڈی راماکرشن آچر[Palthady Ramakrishna Achar]، صدر کرناٹک تولوساہتیہ اکادمی، یہ قدیم لَپی تھِیگالیا سے مماثل ہے جو فارسی اور لاطینی کی طرح نہایت قدیم ہے۔ ’’دیوناگری برہمی رسم خط کے شمالی ہند میں رائج ہونے سے بہت پہلے، جنوب میں اسی قدیم لَپی کا رواج تھا۔ تامل زبان اسی تھیگالیا سے نکلی ہے۔‘‘
یہ بات انھوں نے سن اٹھارہ سو چھپن[1856] میں شایع ہونے والی Robert Coldwell کی کتاب ‘Comparative grammar of the Dravidian or South Indian family of languages’ کے حوالے سے کہی۔ جناب آچر نے ملیالم زبان کے بعض ماہرین لسانیات کی مطبوعہ تحقیق کے بِناء پر یہ کہا کہ ملیالم کی ماں، تولوہے۔ (یہ لفظ ’بِناء‘ عربی ہے یعنی بنیاد۔ یا۔ وجہ ، جب کہ ’بِنا‘ ہندی ہے یعنی ’بغیر‘۔ عربی لفظ کے آخر میں ہمزہ حذف کرنے سے اشتباہ ہوجاتا ہے، لہٰذا اس کا استعمال ضروری ہے)۔ انھوں نے خیال ظاہر کیا کہ پاکستان اور افغانستان میں بولی جانے والی قدیم زبان براہوی، تولو سے مماثل ہے۔ ( ظاہر ہے کیوں نہ ہو جب کہ وہ دراوڑی زبان ہے۔ سہیل)۔
[http://www.news18.com/news/india
/the-tragic-tale-of-tulu-language-
373648.html]
چونکہ تولو کی جڑ میں قدیم زبان سنسکرت موجود ہے اور اس کا تعلق اپنے خطے کی تمام اہم زبانوں سے ہے، لہٰذا شاید آپ کے لیے یہ بات حیران کُن نہ ہو کہ اس زبان میں کئی اردو اور ہندی الفاظ یا ان سے قریب تر الفاظ موجود ہیں۔ مثالیں دیکھئے:
گاڑی، نمسکار، سُواگات (سواگت)، راترے (راتری: رات۔ہندی)، ٹھنڈاس یا سنڈاس (سنڈاس: بیت الخلاء۔ ہندی)، چاوَڑی یعنی دیوان خانہ/مہمان خانہ [Living-room/Drawing room] (چاؤڑی: تھانہ ، چوکی، کوتوالی، عدالت۔ اردو)، مَدھ مَلو یعنی دُلھن (مَدھ: شہد، اصطلاحاً نشہ۔ ہندی/اردو)، مَدھ مائے یعنی خواب گاہ (گویا مزے میں گم ہونے کی جگہ۔ سہیل)، سوموار، منگل وار، بدھ وار، گُروار یعنی جمعرات (ہندی میں گرو وار)، سُکروار یعنی جمعہ (ہندی میں شکروار)، شنی وار یعنی سنیچر (ہندی میں بھی)، آئے تار یعنی اتوار، نیلی یعنی نیلا رنگ، اردھا یعنی آدھا، کَمّی یعنی کمی، جاستی یعنی زیادتی، زیادہ ہونا (یہ تلفظ اردو بولنے والے دہلی کے اجلاف اور گجراتی سمیت مختلف زبانوں اور بولیوں میں عام ہے)، گنٹے یعنی گھنٹے یا وقت، منٹ ، واریعنی ہفتہ (ہندی میں دن)، وَش یعنی برس (ہندی میں قدیم سنسکرت تلفظ سے وَرش)، پِیر یعنی پیچھے یا پچھلا حصہ (پیٹھ : اردو)، دُور، کھارا، ماس یعنی گوشت (ہندی، اردو)، کُکّو یعنی آم (آم کو پرندے ’کویل‘ سے خاص نسبت ہے)، نِیر یعنی پانی (ہندی اور قدیم اردو میں آنسو) اور ترکاری ۔
[https://wikitravel.org/en/Tulu_
phrasebook?title=Tulu_phrasebook]
The post کیا انگریزی نے ہندوستان میں جنم لیا ؟ appeared first on ایکسپریس اردو.