میں نے اپنی زندگی میں بہت سی محبتیں کی ہیں۔ آپ نے بھی یقینا اپنی زندگی میں کئی محبتیں کی ہوں گی۔ یا یوں کہہ لیں کہ میں نے اور آپ نے کئی بار محبّت کی کوشش کی ہے۔
آپ شاید یہ کہیں کہ محبّت تو زندگی میں ایک بار ہی ہوتی ہے۔ باقی کی تمام محبتیں اُس محبّت کی یاد بھلانے کے لیے کی جاتی ہیں اور یا پھر دیگر چیزوں کی طرح کچھ لوگوں کو محبتیں کرنے کی لالچ، ہوس یا خبط ہوتا ہے۔ دیگر باتوں اور چیزوں کی طرح محبّت کے حوالے سے بھی ہزاروں حوالے، ہزاروں خیال، ہزاروں Opinions دیے جاتے ہیں۔ اور دیگر باتوں اور چیزوں کی طرح محبّت کے بھی کئی رنگ، کئی اقسام ہوتی ہیں۔
کئی نام، کئی حاشیے ہوتے ہیں۔ کئی روپ، کئی بہروب ہوتے ہیں۔ عُمر، وقت، ضرورت، حالات، اتفاقات کے اثرات مختلف ادوار، مختلف اوقات میں مختلف طرح کی محبتوں کے بیچ ہمارے دِلوں میں بوتے رہتے ہیں۔ کبھی کوئی محبّت تناور درخت بن کے عشق کی صورت برسوں برقرار رہتی ہے اور کبھی محبّت کے بیچ ہمارے اندر پڑے گَل گَل کر مٹی بن جاتے ہیں اور کبھی موسمی پودوں کی طرح سال دو سال خوشبو پھیلا کے مُرجھا جاتے ہیں۔
ہر زمین کی طرح، دِلوں کی زمین بھی انواع و اقسام کی ہوتی ہے۔ آبی و آتش سے لے کر بنجر اور پتھریلی، ریتیلی یا سیم زدہ، پہاڑی مٹی یا ساحلی، پیاسی یا سیراب، پھولوں، پھلوں، پودوں، اجناس کی فصلوں کی طرح ہر زمین ہر طرح کے بیجوں کی پرورش نہیں کرتی۔ نہیں کرسکتی۔ ہر دِل کی زمین بھی ہر طرح کے جذبوں کے بیجوں کو اپنے اندر جگہ نہیں دیتی۔ نہیں دے سکتی۔ محبّت کے بیج بھی ہر دِل میں نہیں پنپ سکتے۔ پودے، پھل، پھول، درخت کی شکل میں نہیں ڈھل سکتے۔
محبّت کی اعلیٰ وارفع قِسم وہ ہوتی ہے جو خالق کو اپنی مخلوق سے ہوتی ہے۔ فن کار کو اپنی تخلیق و فن پارے سے ہوتی ہے۔ لیکن خالق کائنات کی محبّت اِن تمام محبتوں سے اتنی مختلف اتنی عجیب اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ ہم اُسے کِسی بھی طرح کِسی بھی پیرائے میں نہ بیان کرسکتے ہیں۔ نہ اُس کا شمار کرسکتے ہیں۔ دنیا کی کوئی محبّت اِس محبّت کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔ نہ ہی کِسی طرح ہم اِس کو Measure کرسکتے ہیں۔ یہ محبّت صِرف دیتے رہنے، نوازتے رہنے کا عمل ہے۔ اِس حقیقت کے باوجود بھی کہ In Return کچھ نہیں ملنا۔ اِس محبّت میں کوئی توقع یا Expectation نہیں ہوتی۔
اِس یزدانی محبّت کا پَر تو کبھی کبھی انسانوں کے مابین محبتوں پر بھی پڑجاتا ہے۔ کبھی کبھی دو انسانوں کے بیچ بھی اِس طرح کی محبّت کی ہلکی سی جھلک دِکھائی دے جاتی ہے۔ ایسی محبّت میں ایک فریق دوسرے فریق سے اِس نوعیّت کے Bond میں بندھ جاتا ہے کہ وہ تاعمر Giving End پر رہتا ہے۔ بِنا کچھ مانگے، بِنا کِسی لالچ کے، بِنا کِسی غرض کے، بِنا کِسی توقع کے اپنی محبّت کی بارش سے اپنے محبوب کو شرابور کیے رکھتا ہے۔ پالنے کی تمنّاکے بِنا۔ حصول کی خواہش کے بِنا۔ Possession کے Passion کے بِنا۔ اِس طرح کی محبّت کہ کہیں ’’افلاطونی محبّت‘‘ Platonic Love کا نام دیا گیا ہے اور کہیں اِسے Unconditional Love کے نام سے پکارا جاتا ہے۔
مجھے بھی بڑی خواہش رہی کہ میں بھی اِس طرح کی محبت کا ذائقہ چکھوں، کوشش بھی کی مگر ہر بار ہمّت ہار بیٹھا۔ حصول کی خواہش دِل میں پیدا ہوتے ہی ہجرت کربیٹھا۔ یہ سوچ کر، دِل کو یہ دلیل دے کر کہ افلاطونی محبّت تو Unconditional ہوتی ہے۔ توقع نہیں ہوتی۔ محبتوں اور قربانیوں کا حساب کتاب نہیں ہوتا اور دِل میں اگر خواہش بیدار ہونے لگے تو پھر یہ یزدانی محبّت کا عکس تو نہیں ہوا۔ پھر کیا فائدہ ایسی محبّت ایسے تعلق میں دِل لگانے کا، دِل جلانے کا۔ سامنے والے پر اپنی محبّت کا بوجھ ڈالنے کا۔ یہ تو پھر بالکل عام سی آدمیوں والی محبّت ہوگئی۔ گھر گھر گلی گلی محلّہ محلّہ شہر شہر ہر دوسرا فرد اِسی طرح کی محبّت کا لبادہ اوڑھے پھر رہا ہے۔ میں نے بھی یہ لبا س پہن لیا تو کیا حاصل۔
سچّی بات ہے کہ بشمول خود کے، میں نے ہزاروں محبّت کرنے والے دِلوں کی داستان سُنی ہے۔ محبّت کرنے والے، محبّت نبھانے والے، محبّت میں پاگل ہوجانے والے، پاگل کردینے والے، محبّت میں مرجانے والے، مارڈالنے والے، بھاگ جانے والے، بھگاکر لے جانے والے، محبّت میں سب کچھ لُٹادینے والے، محبّت میں خاموشی سے گُھل گُھل کر جینے والے۔ ایک ہی محبّت کو دیوتا بنا کر پوجنے والے، میری طرح بار بار محبّت کے دریا میں غوطے لگانے والے، محبّت کی خاطر محبوب کو چھوڑدینے والے، یک طرفہ محبّت کے ڈائنامائیٹ سے خودکو سُلگانے والے، ہزار طرح کی محبتوں کے اسیر ہزار طرح کے لوگوں کی دِل کے تاروں کو چھو نے والی سچّی کہانیاں ذہن کی Hard Disc میں محفوظ ہیں۔
لیکن اِ ن سب کہانیوں میں غیرمشروط یا افلاطونی محبّت کی جھلک کبھی نمایاں نہیں ہوتی۔ طلب اور پالینے کی جستجو اور تگ و دو نے ہی محبت کی اِن کہانیوں کے تانے بانے بُنے۔ ایک کہانی علی کی تھی۔ ایک اور کہانی ایک دوسرے علی کی تھی۔ اور ایک کہانی میری ہے۔ میری کہانی چوںکہ کہانی در کہانی، کئی کہانیوں کا ایسا مجموعہ ہے، جن سب کا مرکزی خیال بھرپور افلاطونی محبّت کی کوشش تھی اور چوںکہ وہ کوشش ہر بار دوسرے تیسرے مرحلے پر ہی ناکام ہوتی چلی گئی تو اُس کے بیان سے کِسی کو کوئی فائدہ نہ پہنچ سکے۔ البتہ دونوں علی چوںکہ اصلی خالص اور عملی محبتوں کے قائل تھے۔ اور اُن کا مطمع نظر بھی یہی تھا اور خواہش اور کوشش بھی ہمیشہ یہی رہی تو اُن کی کہانیوں میں بڑے رنگ، بڑے ایڈونچر شامل ہیں۔
پہلے علی سے میری ملاقات پہلے ہوئی تھی۔ وہ میرے چھوٹے بھائی کا کلاس فیلو تھا۔ مگر انٹر کے فوراََ بعد جب میں اپنی پہلی محبّت ’’قوس و قزح‘‘ میں ڈوبا ہواتھا اور نوید سے دو سال کی محبّت، رفاقت اور دوستی کی روشنی مدہم پڑچکی تھی۔ پہلا علی میری محبّت کے مدار میں داخل ہوگیا۔ لیکن وہ اپنے کلاس فیلوز اور ہم محلّہ جڑواں بھائیوں سورج اور چاند میںسے چاند کی محبّت میں گرفتار تھا۔ میری محبّت، رفاقت اور ذہانت کے محور پر گھومتی تھی۔ پہلے علی کی محبّت، شّدت اور جذبات کی مٹی میں گندھی ہوئی تھی۔ نوید کی ڈکشنری میں رفاقت اور محبّت محض وقت، ضرورت ور حالات کے تابع تھی۔
وقت کی ضرورت نے مجھے کراچی بھجوادیا۔ نوید اور پہلا علی حیدرآباد منتقل ہوگئے۔ اور پہلے سال ہی پہلا علی، فائنل ایئر کی ایک لڑکی کی محبّت میں گرفتار ہوگیا۔ اور اپنی خاموش محبّت کے قصّے سُنانے ہر دوسرے تیسرے ماہ کراچی پہنچ جاتا۔ کراچی کے پہلے سال ہی میں دوسرے علی سے متعارف ہوا۔ اُسے پہلے علی نے میرا حوالہ دیا تھا۔ دونوں علی ایک ہی شھر کے باسی تھے۔
دوسرا علی بھی اپنے پہلے ہی سال اپنی ایک کلاس فیلو کی بڑی بڑی آنکھوں کے سحر میں ڈوب گیا۔ اب میں تھا اور دونوں علی تھے۔ اور دونوں کی خاموش یک طرفہ محبتوں کی کہانیاں تھیں۔ اُن دنوں میں بھی ہجرت، تنہائی، شاعری اور خودآگہی کے گرداب میں اُلجھا ہوا تھا۔ مجھے بھی اپنی اِن چاروں جہتوں کو چارج کرنے کے لیے محبّت کی شدید ضرورت محسوس ہوتی تھی۔ اُن دِنوں پیش قدمی کی ہمّت ہم تینوں میں سے کِسی کو نہیں تھی۔ اور مجھے تو اپنے دوستوں سے بھی اپنی محبتوں کے اظہار کی ہمّت نہ تھی۔ ہم تینوں میں دوسرا علی ہر طرح مردانہ وجاہت اور کشش سے بھرپور تھا۔
لمبا قد، چھریرا بدن، سفید کتابی چہرہ، بڑی آنکھیں، نرم مدہم لہجہ، باتوں اور قصّوں کا شہزادہ۔ پہلا علی بھی کچھ کم نہ تھا۔ دہ ماہ سے زیادہ کوئی لباس نہیں پہنتا۔ Dashing ۔ سانولی رنگت۔ روح میں گُھس جانے والی نظریں۔ امیتابھ بچن کٹ نقش اور ہئیر اسٹائل۔ دبنگ آواز۔ اور میں، میں ان دونوں کے سامنے ظاہری جسمانی ساخت و شکل و لباس اور انداز میں کچھ بھی نہیں تھا۔ میرے پاس بس غیرمشروط محبّت کا گوند ہوتا تھا، جس میں ہر طرح کے دوست اِس طرح چپک کر اُلجھ جاتے تھے کہ وہ خود کو مجھ سے الگ نہیں کرپاتے تھے۔ اور پھر میری Tips اور مشورے اور ہر لمحے بدلتی محبتوں کی صورت حال پر بے لاگ تبصرے اور تجزیے، مکڑی کے جال کی طرح ہر اُس فرد کو میرے دائرے میں بند کردیتے جو محبّت کی خوشبو پاکر میرے قریب آتا۔
فائنل ایئر تک دونوں علی اپنی اپنی یک طرفہ محبتوں کے اسیر رہے۔ میری نظموں کا محور البتہ بدلتا رہا۔ مگر پھر اچانک ہی محبّت کا سفر تیز ہوگیا۔ پہلے علی نے کئی راستے بدلے۔ مگر کِسی منزل پہ ٹھہر نہ پایا۔ دوسرے علی نے نام کی حد تک اپنی محبّت کا پاس رکھا۔ اور ہاؤس جاب کے چار ماہ کے اندر اندر اپنی سات سالہ خاموش یک طرفہ محبّت کی ہم نام لڑکی سے اتنے خطرناک طریقے سے کورٹ میرج کرلی کہ اگلے کئی سال تک دونوں کے خاندان ایک دوسرے کے نام تک سننے کے روادار نہ تھے۔
یہ نہیں تھا کہ سات سالوں میں دونوں علی ایک ہی نام ایک چہرے کی افلاطونی محبّت میں مبتلا رہے۔ غم غلط کرنے کے لیے دونوں پر شدّتِ جذبات سے بھرپور چھوٹی چھوٹی عملی محبتوں کے کئی Spell بھی آتے رہے۔ دونوں کی محبّت اور جذباتیت کی شدّت اُن کی شخصیت کے انگ انگ سے جھلکتی تھی۔ اور جب وہ چھلکنے لگتے تو اپنی کہانیاں کہنے اور مشورہ لینے میری تنہائیاں دور کرنے آجاتے۔ اور خود کو ری چارج کرکے اپنی اپنی محبتوں کے سفر پر نکل جاتے۔ دونوں کی شدّتِ محبّت اور جذباتیت کی تپش سے گھبراکر عام طور پر کچھ ہی دِنوں میں اُن کی محبتوں کے محور اپنی جگہ چھوڑدیتے اور بھاگنے لگتے۔
پھر دونوں کے اندر کی انا کروٹیں لے کر جاگتی اور وہ Avenging Angels بن جاتے۔ Reactionary ہوجاتے۔ وہ دونوں میری طرح افلاطونی محبّت کے قائل نہیں تھے۔ میری طرح کم ہمّت اور بزدل نہیں تھے۔ میری طرح ہجرت کے فلسفے پر یقین نہیں رکھتے تھے۔ میری طرح محبتوں کے سفر میں ریڈ سگنل اور بند گلی آنے کے موقعوں پر Retreat کرنا نہیں جانتے تھے۔ مانگی ہوئی محبّت سے بہتر تنہائی اور واپسی کی Theory پر اُن کا اعتقاد نہیں تھا۔ ریڈسگنل کی روشنی ہو یا بند گلی کی دیوار۔ اُن دونوں کی آشفتہ سری کِسی قاعدے قانون کی محتاج نہیں تھی۔ وہ دونوں، محبتوں میں ضابطوں، اصولوں اور سامنے والے کے دِل کی حالتوں اور کیفیتوں کی Consider کرنے کے روادار نہیں تھے۔
اُن دونوں کی لگ بھگ تمام محبتیں آتشی تھیں۔ جل جانے والی، جلادینے والی۔ ایک ایک خاموش محبّت کو گلے لگا کے دونوں نے سات سالوں میں کئی دِلوں میں محبّت جگائی، کئی دامنوں میں آگ لگائی۔ اقرار کے انکار پر ایک بار ایک نے وڈیوکیمرے سے وڈیوبنا کر بلیک میل کرنا چاہا۔ اور دوسرا رات کی تاریکی میں سیاہ لباس پہن کر ایک دوست اور بے ہوشی کے انجکشن ساتھ لے کر اغوا کرنے پہنچ گیا۔ یہ اور بات ہے کہ اگلے روز، دونوں مواقع پر دونوں اپنی ناکامی کا قصّہ سنانے میرے پاس پہنچ گئے تھے۔
وہ دونوں عملی محبّت اور باتوں کے گرداب میں اُلجھے ہوئے تھے۔ اور اُن دِنوں میں، کتابوں اور کہانیوں میں اپنا آپ ڈھونڈا کرتا تھا۔ دوستوووسکی کی ’’ایڈیٹ‘‘ اور ممتاز مفتی کی ’’علی پور کا ایلی‘‘ نے مجھے بھی حماقتوں سے بھرپور ایک ایسی لاحاصل بحث کی گھمن گھیریوں میں اُلجھایا کہ دو تین سال تک میں بھی دوستوں کی محفل میں سر اُٹھاکر چلتا رہا کہ تمام دوستوں کا مشترکہ خیال یہی تھا کہ میں ’’ٹھنڈی کھوئی والا‘‘ ہوں۔ محبّت کی تپش مجھ سے برداشت نہیں ہوسکے گی۔ کتابوں، فلموں اور کہانیوں سے باہر نکل کر محض بے تُکی نثری نظمیں ہی لِکھ سکتا ہوں اور یہ اور وہ ۔ لیکن اُس BOOK INDUCED محبّت نے مجھے بھی اُنگلی کٹاکر شہیدوں میں نام لِکھوانے کا اہل بنا دیا۔ اور میرے مُفت مشوروں کی مانگ اور بڑھتی گئی۔
THEORY اور PRACTICAL دونوں زندگی کا حصّہ ہوں تو آدمی بِنا مانگے بھی مشورے بانٹتا رہتا ہے۔ آج دوسرا علی سات آسمانوں کے اوپر کہیں ہے اور پہلا علی سات سمندر پارکہیں رہتا ہے۔ ایک سے رابطہ با لکل ممکن نہیں اور دوسرا اپنی زندگی میں کچھ یوں محو ہے کہ رابطہ ہوتا نہیں۔ وقت نے پرانے دوستوں اور دوستوں کی محبتوں کے باب کچھ اِس طرح بند کیے کہ اب کھولنا ممکن نہیں۔ پہلا علی اپنی سیماب صفتی کے باعث زیادہ عرصے تک شادی کی زنجیر سے نہ بندھا رہ سکا۔ اُڑتے اڑتے کبھی کوئی خبر آجاتی ہے۔
کِسی نئے چہرے کِسی نئے نام کے حوالے کے ساتھ۔ دوسرے علی نے آخر دم تک محبّت کی شمع جلائے رکھی۔ اپنی شہادت سے نو برس پہلے جس لڑکی سے اُس نے شادی کی تھی اور دشمنیاں مول لی تھیں، اُس نے اُس کی گود میں سر رکھ کر دم دے دیا تھا۔ برین ہیمرج نے اُس کی محبّت اُس سے چھین لی تھی۔ تین برس بعد بچوں کی خاطر اُس نے دوسری شادی کرلی تھی۔ اور پھر مزید چھے سالوں بعد نامعلوم افراد نے اُسے بھی دن دیہاڑے خون میں نہلادیا تھا۔
شاید ہر محبّت، ہر طرح کی محبّت بھی مٹی کے پتلے کی طرح آخرکار خاک کی نذر ہوجاتی ہے۔ آتش، سیمابی، آبی، کتابوں، افلاطونی، عملی، ہر طرح کی محبّت بھی اِنسان کی طرح اپنی طبعی عُمر پوری کرکے مرجاتی ہے۔ خاک میں مل جاتی ہے۔ جِس محبّت، رفاقت، دوستی اور ساتھ کے بِنا ایک وقت ہم رہ نہیں پاتے ۔ اگلے وقتوں میں وہ محبّت اور رفاقت اتنی خاموش سے رخصت ہوجاتی ہے کہ پھر کبھی ڈھونڈے نہیں ملتی۔ محبّت مرجاتی ہے، لیکن محبتوں کا سفر جاری رہتا ہے۔ ایک نئے دِل میں ایک نئی محبّت کی کونپل پھوٹتی ہے۔ جب تک یہ دُنیا باقی ہے۔ اِنسانوں اور محبتوں کے مرنے جینے اور پھر سے پیدا ہونے کا یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ ہم سب اپنی اپنی محبتوں کے ساتھ خاک کا حصّہ بنتے رہیں گے۔ اور نئے چہرے، نئے نام ، نئے دِل، نئی محبتوں کے پھولوں سے مہکتے رہیں گے۔
The post ایک محبّت اور سہی appeared first on ایکسپریس اردو.