اواخر مئی میں افغانستان میں دو خودکش بم دھماکے ہوئے جنہوں نے کئی لوگ مار ڈالے۔ افغان حکومت نے الزام لگایا کہ یہ دھماکے حقانی نیٹ ورک نے کرائے ہیں جس کی پشت پناہی پاکستانی خفیہ ایجنسی، آئی ایس آئی کرتی ہے۔ پاک فوج نے افغان حکومت کا الزام مسترد کردیا اور افغانوں کو باور کرایا کہ پاکستانی قبائلی علاقوں میں فوجی آپریشنوں کے بعد حقانی نیٹ ورک کی ساری قیادت افغانستان منتقل ہوچکی۔
قیام پاکستان کے وقت سے مختصر عرصہ چھوڑ کر افغان حکمران طبقہ پاکستانی حکومت کے لیے ہمیشہ سے دردسر بنا رہتا ہے۔ افغان حکمرانوں نے پہلے بین الاقوامی سرحدیں تسلیم کرنے سے انکار کیا اور پھر پختونستان کے شوشے کی حمایت کرنے لگے۔
افغانستان کی تاریخ میں اہم موڑ جنوری 1965ء میں آیا جب افغان سوشلسٹ لیڈروں، نور محمد ترکئی، ببرک کارمل اورحفیظ اللہ امین نے نئی سیاسی جماعت، پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی بنیاد رکھی۔ یہ لیڈر جاگیرداروں اور سرداروں کے اثرو رسوخ کا خاتمہ چاہتے تھے جنہوں نے افغان عوام کو تقریباً غلام بنا رکھا تھا۔ یہ سوشلسٹ جماعت کابل شہر میں خاصی مقبول ہوئی۔
1973ء میں شاہ افغانستان، ظاہر شاہ کے کزن، محمد دائود شاہ نے اسے تخت سے اتار پھینکا، بادشاہت کا خاتمہ کیا، ملک کو جمہوریہ بنایا اور خود صدر بن گئے۔ سوشلسٹ لیڈروں نے محمد دائود شاہ کی حمایت کی چنانچہ اس نے انہیں اپنی حکومت میں اعلیٰ عہدے دے ڈالے۔ اس عمل نے اسلام پسند لیڈروں کومتوحش کردیا۔ وہ افغان سوشلسٹوں کو سویت یونین کا ایجنٹ سمجھتے تھے۔
رفتہ رفتہ پپیلزڈیموکریٹک پارٹی افغان شہروں اور قصبوں میں مقبول ہونے لگی۔ پارٹی کی مقبولیت دیکھ کر صدر محمد دائود کو یہ خدشہ چمٹ گیا کہ سوشلسٹ اس کی حکومت پر قبضہ کرسکتے ہیں۔ چناں چہ وہ سوشلسٹوں کا مخالف بن کر امریکا کی جانب جھکنے لگا۔ یہ تھے افغانستان کے حالات کہ جنوری1977ء میں (Zbigniew Brzezinski) امریکا کا قومی سلامتی مشیر بن گیا۔پاکستان کی نئی نسل عام طور پر اس شخصیت کے نام اور ’’کارناموں‘‘ سے ناواقف ہے۔ مگر یہی وہ امریکی ہے جس نے عالم اسلام میں جنگوں کے شعلے بھڑکانے میں اہم کردار ادا کیا۔ یہ شخص دنیا پر امریکہ کی حکمرانی چاہتا تھا۔ اس مقصد کی خاطر برزینسکی نے بڑی چالاکی و عیاری سے مسلمانوں کو استعمال کرکے اپنا الو سیدھا کیا اور عالم اسلام کو جنگوں کی بھٹی میں جھونک دیا۔
٭٭
زبگنیو برزینسکی 1928ء میں پولینڈ میں پیدا ہوا۔ اس کا باپ سفارتکار تھا۔ جب جرمنی اور سویت یونین نے 1939ء میں پولینڈ پر حملہ کیا، تو وہ اپنے باپ کے ساتھ کینیڈا میں مقیم تھا۔ جرمنوں اور سویت افواج نے پولش عوام پر خاصے ظلم و ستم کیے۔ اس باعث برزینسکی سویت یونین سے نفرت کرنے لگا۔ یہ نفرت رفتہ رفتہ اتنی شدید ہوگئی کہ اس نے سویت یونین کے مختلف سیاسی نظاموں پر ڈاکٹریٹ کر ڈالی۔مدعا یہ تھا کہ وہ سویت نظام حکومت کی خرابیاں جان کر اسے نیست و نابود کرنے میں مغربی حکمرانوں کو مدد دے سکے۔
1953ء میں پی ایچ ڈی کرنے کے بعد وہ مشہور امریکی یونیورسٹیوں، ہاورڈ اور کولمبیا میں استاد رہا۔ وہاں اس کے ممتاز امریکی سیاست دانوں، ہنری کسنجر اور جمی کارٹر وغیرہ سے قریبی تعلقات قائم ہوگئے۔ انہوں نے برزینسکی کو اہم سیاسی تھنک ٹینکس، بلڈر برگ گروپ اور کونسل آن فارن ریلیشنز کا رکن بنوا دیا۔ یوں امریکی سیاسی و دانش ورانہ حلقوں میں اس کا اثر و رسوخ بڑھنے لگا۔1973ء میں امریکی کھرب پتی، ڈیوڈ راک فیلر سے مالی مدد پا کر برزینسکی نے ایک تھنک ٹینک، ٹرائی لیٹرل کمیشن کی بنیاد رکھی۔ جارجیا کا گورنر، جمی کارٹر بھی اس تنظیم کا رکن تھا جو بعدازاں 1975ء میں صدارتی الیکشن جیتنے میں کامیاب رہا۔
کارٹر نے جنوری 1976ء میں برسراقتدار آتے ہی برزینسکی کو مشیر قومی سلامتی بنا دیا۔ جمی کارٹر کی کابینہ میں وہی ہی صدر پر سب سے زیادہ اثر رکھتا تھا۔دنیا کی سب سے بڑی سپرپاور کے ایوان اقتدارمیں پہنچ کر برزینسکی اپنے منصوبے… سویت یونین کی تباہی اور دنیا پر امریکا کی حکمرانی پر عمل پیرا ہونے کا خواب دیکھنے لگا ۔ مشیر بنتے ہی اس نے ایک خفیہ سرکاری تنظیم ’’نیشنلٹیز ورکنگ گروپ‘‘ (Nationalities Working Group) کی بنیاد رکھ دی۔ امریکی خفیہ ایجنسیوں کے نمائندے اس گروپ کے رکن تھے۔ اس گروپ کا ایک اہم ایجنڈا یہ تھا کہ سویت یونین میں آباد مسلمانوں کو ہتھیار و ڈالر دے کر مذہبی و نسلی طور پر سویت حکومت کے خلاف ابھارا جائے۔
سویت حکمرانوں نے بہرحال اپنی ریاستوں میں آباد مسلمانوں سے اچھا سلوک نہیں کیا تھا۔ تاہم مسلمانوں کو لڑنے پر ابھارنے والی برزینسکی کی حکمت عملی نے وسط ایشیائی مسلم ریاستوں میں نہیں افغانستان میں کامیابی کا چولا پہنا۔ اس کی وجہ افغانستان سے انتہائی شوریدہ سر اور ہنگامہ خیز حالات تھے۔اپریل 1978ء میں اہم سوشلسٹ لیڈر، میر اکبر خیبر کو قتل کردیا گیا۔ پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی نے حکومت کو قتل کا ذمے دار قرار دیا۔ غضبناک ہوکر صدر محمد دائود نے پارٹی کے تقریباً سبھی بڑے لیڈر گرفتار کیے اور جیل میں ڈال دیئے۔
افغان فوج کا ایک دھڑا پارٹی کے ساتھ تھا۔ اسی نے جلد ہی صدر دائود کی حکومت کا تختہ الٹ کر اسے مار ڈالا۔ یوں افغانستان میں سوشلسٹوں کی حکومت قائم ہوگئی۔سوشلسٹ حکومت نے بعض اچھے کام کیے اور بعض ایسے اقدامات بھی جنہوں نے قدامت پسند افغان مسلمانوں کو ناراض کردیا۔ مثلاً لڑکیوں کو سکرٹ پہننے کی اجازت دے دی گئی۔ افغانوں کو شیو کرنے پر ابھارا گیا۔
تعلیمی اداروں میں مخلوط تعلیم شروع کردی ۔ غرض سوشلسٹ حکومت افغان عوام کے احساسات و جذبات کا خیال رکھے بغیر ایسے اقدامات کرنے لگی جو اسلام مخالف سمجھے گئے۔ اس بنا پر خصوصاً پشتون افغانوں کی بہت بڑی تعداد سوشلسٹ حکومت کی مخالف بن گئی۔اُدھر سوشلسٹ لیڈر ایک دوسرے سے لڑ بیٹھے اور ان کے مابین اقتدار پانے کی جنگ شروع ہوگئی۔ نور محمد ترکئی نے حفیظ اللہ امین کو قتل کرانا چاہا مگر بچ گیا۔ پھر امین نے حکومت پر قابض ہوکر ترکئی کو قتل کرادیا۔
صدر بن کر حفیظ اللہ امین نے کوشش کی کہ وہ غیر جانبدارانہ خارجہ پالیسی اختیار کرلے۔ وہ اکثر مقتول صدر محمد دائود کا یہ قول دہراتا تھا: ’’مجھے سویت ماچس سے امریکی سگار سلگانا پسند ہے۔‘‘لیکن سویت یونین کو نئے افغان حکمران کی پالیسی پسند نہیں آئی۔ اس دوران کے جی بی نے امین کو سی آئی اے کا ایجنٹ قرار دے ڈالا۔ افغان صدر پر یہ الزام اس لیے بھی لگا کہ امین نے خفیہ طور پر حزب اسلامی کے سربراہ، گلبدین حکمت یار سے ملاقات کی تھی۔
پشتون گلبدین حکمت یار کا شمار ان افغان لیڈروں میں ہوتا تھا جو افغانستان میں اسلامی نظام حکومت قائم کرنے کے خواہشمند تھے۔ ان لیڈروں میں تاجک احمد شاہ مسعود اور برہان الدین ربانی بھی نمایاں تھے۔ یہ لیڈر 1975ء سے اپنے مشن کے سلسلے میں سرگرم عمل تھے۔ پاکستان خفیہ طور پر حکمت یار اور برہان الدین کو لاجسٹک سہولیات مہیا کررہا تھا۔مغربی مورخین کا دعوی ہے، حکمت یار نے 1975ء میں ذوالفقار علی بھٹو حکومت کے دوران پاکستان میں عسکری تربیتی کیمپ بھی کھولے تھے۔
جب زبگنیو برزینسکی نے افغانستان کے حالات کا جائزہ و مشاہدہ کیا، تو اسے محسوس ہوا کہ نیشنلٹیز ورکنگ گروپ کا ایجنڈا اس مملکت میں کامیابی سے استعمال ہوسکتا ہے۔وہ یہ کہ اسلامی تنظیموں کو ڈالر و اسلحہ دے کر سویت یونین کی حمایت یافتہ حکومت سے بھیڑ دیا جائے۔ اس حکمت عملی سے وہ ایک تیر سے دو شکار کرنا چاہتا تھا۔ اول یہ کہ اسلامی تنظیموں کی کامیابی سے افغانستان میں مغرب و امریکا کی حامی حکومت برسراقتدار آجاتی۔ دوم یہ کہ سویت یونین کے حملے کی صورت برزینسکی افغانستان کو ’’روسیوں کا ویت نام‘‘ بنا دینا چاہتا تھا۔
پاکستان اور عالم اسلام میں بھی عام خیال یہ ہے کہ جب سویت یونین نے افغانستان پر حملہ کیا، تو اس کے بعد امریکا افغان مجاہدین کو مالی و عسکری امداد دینے لگا۔ یہ تاثر درست نہیں کیونکہ جیسے ہی برزینسکی نے نیشنلٹیز ورکنگ گروپ قائم کیا، سی آئی اے کے نمائندے افغانستان میں حکومت سے برسرپیکار اسلامی لیڈروں کے ساتھ ملاقاتیں کرنے لگے۔ مقصد تعلقات بڑھانا تھا، مگر جب سوشلسٹ اقتدار میں پہنچ گئے، تو برزینسکی سنجیدگی سے انہیں مالی مدد دینے پر غور کرنے لگا کہ تاکہ وہ مغرب دشمن سوشلسٹ حکومت ختم کرسکیں۔
امریکا میں اس سلسلے میں کئی اعلیٰ سطحی اجلاس ہوئے۔ آخر برزینسکی امریکی صدر اور کارٹر حکومت کے دیگر وزراء کو یہ باور کرانے میں کامیاب ہوگیا کہ افغان اسلامی تنظیموں کو امداد دینے سے ہمارے مفادات پورے ہو سکتے ہیں۔ اس کا بنیادی نکتہ یہ تھا کہ افغان سوشلسٹ حکومت کو بچانے کے لیے سویت یونین افغانستان پر حملہ کرسکتا ہے۔ یوں امریکا کے ہاتھ یہ سنہرا موقع لگ جاتا کہ وہ افغانستان کو روسیوں کا ویت نام بنا کر اپنی شکست کاانتقام لے سکے۔ چناچہ 3 جولائی 1979ء کو صدر جمی کارٹر نے افغان اسلامی لیڈروں کو خفیہ طور پر ڈالر دینے کا ٹاپ سیکرٹ حکم نامہ جاری کردیا۔اُدھر جب افغانستان میں سوشلسٹ لیڈروں کی باہمی سرپھٹول شروع ہوئی، تو سویت حکومت مخمصے کا شکار ہوگئی۔
اگر وہ افغان سوشلسٹ حکومت بچانے کے لیے ٹھوس اقدامات نہ کرتی، تو دنیا والے اسے ہی افغانستان میں خانہ جنگی اور بدامنی جنم لینے کا ذمے دار ٹھہراتے۔ لیکن سویت یونین افغانستان کے حالات سنبھالنے کی خاطر اپنی فوج بھجوا دیتا، تو تب بھی خصوصاً مغرب میں اس کو لعن طعن کا نشانہ بننا پڑتا۔ غرض سویت لیڈر بسلسلہ افغانستان عجیب مصیبت میں پڑگئے۔جب حفیظ اللہ امین برسراقتدار آکر مغرب اور اسلامی تنظیموں سے دوستی کی پینگیں بڑھانے لگا، تو سویت لیڈروں کے کان کھڑے ہوگئے۔ اب دیگر افغان سوشلسٹ لیڈر سویت حکومت پر زور دینے لگے کہ وہ افغانستان کے حالات درست کرنے کی خاطر فوج بھجوا دیے۔ سویت حکومت کو یقینا احساس ہوگا کہ افغانستان فوج بھجوا کر وہ کسی جال میں نہ پھنس جائے، لیکن حالات کچھ ایسے موڑ پر آگئے کہ سویت لیڈر شپ نے آخر اپنی فوج روانہ کرنے کا فیصلہ کرلیا۔
24 دسمبر 1979ء کو آخر ’’سانتا‘‘ برزنیف سے برزینسکی کو کرسمس کا تحفہ مل گیا جب سویت فوج نے افغانستان پر حملہ کردیا۔اس نے اسی دن صدر کارٹر کو یہ نوٹ بھجوایا ’’اب ہمارے پاس یہ سنہرا موقع ہے کہ سویت یونین کو اس کی ویت نام جنگ دے سکیں۔‘‘ امریکی وزیر خارجہ، سائرس وینس مسئلے کا سفارتی حل چاہتا تھا مگر کارٹر ’’عقابوں‘‘ کے پنجوں میں پھنس چکے تھے جن کا سرغنہ برزینسکی تھا۔
اوائل 1980ء میں برزینسکی پاکستان پہنچا۔ وہاں اس نے افغان حکومت سے سربرپیکار مسلح افغانوں کے ساتھ تصاویر کھنچوائیں اور انہیں مجاہدین قرار دیا۔ اس کے بعد اگلے ایک عشرے میں امریکا نے مجاہدین کو اربوں ڈالر دیئے اور جدید اسلحہ بھی۔ اس جنگ میں افغان ہی شریک نہ تھے بلکہ مختلف اسلامی ممالک سے آنے والے 50 تا 80 ہزار جنگجو ان کے شانہ بشانہ روسیوں کے ساتھ نبرد آزما ہوئے۔ یہ سبھی جنگجو امریکی حکومت کی آنکھوں کا تارا بن گئے۔
جب میخائل گوربا چوف سویت یونین کا حکمران بنا، تو اس نے مغرب اور عالم اسلام، دونوں کو خبردار کیا کہ آج وہ جن اسلامی جنگجوئوں کو پال رہے ہیں، وہ کل آستین کا سانپ بن سکتے ہیں۔ تاہم سویت صدر کی پیشن گوئی پر کسی نے کان نہ دھرا۔ امریکی حکومت کی بھر پور کوشش رہی کہ افغان مسئلے کا سفارتی حل نہ نکل سکے۔ برزینسکی اکثر اپنے ساتھیوں کو کہتا :’’ہم روسیوں کو افغانستان میں زیادہ سے زیادہ الجھائے رکھنا چاہتے ہیں تاکہ وہ زخموں سے چور چور ہوجائیں۔‘‘
امریکا نے عالم اسلام خصوصاً پاکستان میں یہ پروپیگنڈا کیا کہ سویت یونین گرم پانیوں (بحیرہ عرب) تک پہنچنا چاہتا ہے۔ سچ یہ ہے کہ اس نے سویت یونین کو نیچا دکھانے اور شکست دینے کے لیے افغان و عرب مجاہدین اور پاکستان کو قربانی کے بکرے کی حیثیت سے استعمال کیا۔ یہی وجہ ہے جب سویت یونین کو شکست ہوئی تو وہ افغانستان سے نکل بھاگا اور مجاہدین کے گروہ اقتدار کی خاطر آپس میں لڑپڑے۔
سویت یونین کی رخصتی کے بعد افغانستان میں مصروف کار جنگجوئوں کو ہتھیار پھینک دینے چاہیے تھے مگر ایسا نہ ہوسکا اور انہوں نے دنیا بھر میں نئے ٹارگٹ ڈھونڈ لیے۔ جلد ہی وہ اپنے سابقہ مربّی، امریکا سے ٹکرا گئے۔ پھر امریکیوں کے اتحادی اسلامی ممالک بھی ان کا نشانہ بننے لگے۔ افغانستان میں حملہ آور سویت فوج سے ان کی لڑائی برحق تھی لیکن وہ انتہا پسند ہوکر مخالف مسلمانوں ہی کو مارنے لگے۔ اس طرح وہ دور جدید کے خارجی بن بیٹھے۔ ان خارجیوں کے باعث آج بھی افغانستان، شام، عراق، پاکستان، لیبیا وغیرہ میں خانہ جنگی کے شعلے بھڑک رہے ہیں۔
یہ ملک جنگوں کے باعث عظیم جانی و مالی نقصان برداشت کرچکے اور ان جنگوں کا حقیقی خالق زبگنیو برزینسکی تھا جو حال ہی 26 مئی 2017ء کو چل بسا۔ جنوری 1998ء میں مشہور فرانسیسی ہفت روزہ،Le Nouvel Observateur سے منسلک صحافی نے برزینسکی سے انٹرویو کیا تھا۔ دوران انٹرویو اس نے پوچھا ’’آپ کو یہ پشیمانی نہیں کہ افغان جنگ کے بطن سے عالم اسلام اور دیگر ممالک میں بھی انتہا پسند جنم لے چکے؟‘‘
برزینسکی نے کہا ’’آپ بتائیے، تاریخ عالم میں کون سا واقعہ اہم ہے… سویت یونین کا انہدام یا طالبان کا جنم لینا؟ وسطی یورپ کی آزادی اور سرد جنگ کا خاتمہ یا چند مسلمانوں کا انتہا پسند بن جانا؟
صحافی: ’’چند مسلمان؟ رفتہ رفتہ ساری دنیا مسلم انتہا پسندوں کا نشانہ بن رہی ہے؟‘‘
برزینسکی : ’’یہ سب بکواس ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اسلام کے بارے میں مغرب ایک عالمی پالیسی رکھتا ہے۔ یہ احمقانہ بات ہے۔ اسلام یقیناً دنیا کا بڑا مذہب ہے مگر تمام اسلامی ممالک سیاسی، معاشرتی اور معاشی لحاظ سے تقسیم ہو چکے ۔ ذرا بتائیے سعودی عرب کی انتہا پسندی، مراکش کی اعتدال پسندی، پاکستان کی جنگجوئی، مغرب کے حامی مصر اور وسطی ایشیائی ممالک کی سیکولر پرستی میں کیا قدر مشترک ہے؟ اسلامی ممالک کی نسبت عیسائی ممالک ایک دوسرے سے زیادہ ربط و ضبط اور اتحاد رکھتے ہیں۔‘‘
The post امریکی مشیر قومی سلامتی زبگنیو برزینسکی appeared first on ایکسپریس اردو.