یہ تین سال پہلے کی بات ہے جب مئی 2014ء میں نریندر مودی نے بڑی دھوم دھام اور طمطراق سے وزیراعظم بھارت کے عہدے کا حلف اٹھایا۔ اس موقع پر انہونی یہ ہوئی کہ وزیراعظم پاکستان، نواز شریف بھی تقریب میں موجود تھے۔
انڈوپاک کی تاریخ میں یہ پہلا موقع تھا کہ کسی بھارتی وزیراعظم کی تقریب حلف برداری میں پاکستانی وزیراعظم شریک ہوئے۔ تقریب میں سارک ممالک کے دیگر حکمران بھی تشریف لائے۔ وزیراعظم بنتے ہی نریندر مودی غیر ملکی دورے کرنے پر جُت گئے۔ انہوں نے اگلے دو برس میں 36 ممالک کے بڑے ہائی پروفائل دورے کیے۔ ان میں امریکا کا دورہ بھی شامل تھا۔ سابق امریکی صدر، بارک اوباما سے مودی کی اچھی دعا سلام ہوگئی۔ حتیٰ کہ اوباما نے مشہور امریکی جریدے، ٹائم میں مودی پر خاکہ لکھا اور موصوف کی تعریفوں کے پل باندھ دیئے۔
بھارتی وزیراعظم کے پے در پے غیر ملکی دوروں کا مقصد یہ تھا کہ بھارت کو علاقائی سپرپاور کے طور پر نمایاں کیا جائے۔ چونکہ بھارت کی معیشت دنیا میں سب سے زیادہ تیزی کے ساتھ ترقی کررہی ہے لہٰذا تمام ممالک میں بھارتی وزیراعظم کو خاصی اہمیت دی گئی۔مگر مودی نے سفارت کاری کا جو بگولا اٹھایا تھا، وہ نمایاں اثرات جنم دیئے بغیر سرد ہوچکا۔
اب بین الاقومی سفارت کے میدان خصوصاً ایشیا میں بھارت کے مدمقابل، چین کا طوطی بول رہا ہے۔ دلچسپ بات یہ کہ موجودہ چینی صدر، شی جن پنگ نے بھی مودی کے وزیراعظم بننے سے صرف چھ ماہ قبل، نومبر 2012ء میں اقتدار سنبھالا تھا۔ مگر چینی صدر کی بین الاقوامی سفارت کہیں زیادہ کامیاب و کامران ثابت ہوئی۔انہی کامیابیوں کے باعث بھارتی حکمران طبقہ اب چین کوشدید حسد اور جلن کے ساتھ دیکھ رہا ہے۔
ماہرین سیاسیات کا کہنا ہے کہ اقتدار سنبھالتے ہی مودی نے خود کو ایسے حکمران کی صورت میں پیش کرنے کی کوشش کی جو فوری فیصلے کرتا ہے تاکہ کام بہ سرعت انجام پاسکے۔ اس کوشش میں وہ جزوی طور پر کامیاب رہے۔ وجہ یہ کہ وہ ایسے سرکاری نظام کی ہی پیداوار ہیں جہاں سرخ فیتے کے باعث محکموں میں سست رفتاری سے کام ہوتا ہے۔ سفارت کاری کا شعبہ بھی اس سستی سے مبرا نہیں۔بھارت کی اس خامی کا فائدہ چین اور چینی صدر کو ملا اور انہوں نے زیادہ کامیابیاں سمیٹ لیں۔
’’پڑوسی پہلے‘‘ کی ناکام پالیسی
وزیراعظم بنتے ہی مودی نے سب سے پہلے یہ سعی کی کہ بھارت جنوبی ایشیا میں چودھری بن جائے۔ اس حکمت عملی کو انہوں نے ’’پڑوسی پہلے‘‘ (Neighbourhood First) کا نام دیا۔ اس پالیسی کے تحت وہ سترہ برس بعد نیپال اور اٹھائیس سال بعد سری لنکا کا دورہ کرنے والے بھارتی وزیراعظم بن گئے۔ حتیٰ کہ وہ چین کے پڑوسی، منگولیا بھی جاپہنچے۔ یہ کسی بھی بھارتی وزیراعظم کا پہلا دورہ تھا۔ یوں وہ چین کو دکھانا چاہتے تھے کہ اگر وہ بھارت کے پڑوسیوں سے میل ملاپ رکھتا ہے، تو بھارتی حکمران بھی اتنے طاقتور ہیں کہ چین کے پڑوس میں کلّے گاڑ سکیں۔
ماضی میں رواج تھا کہ طاقتور ملک عالمی سطح پر اپنا اثرو رسوخ بڑھانے کے لیے جنگجوئی کرتا اور مختلف ممالک پر قبضہ کرلیتا۔ ماہرین سیاسیات نے اس حکمت عملی کو ’’ہارڈ پاور‘‘ کا نام دیا۔ انیسویں صدی میں طاقتور ممالک کمزور ملکوں کو مالی و مادی امداد دے کر مطیع کرنے کی کوشش کرنے لگے تاکہ اپنا اثر پھیلاسکیں۔ یہ حکمت عملی ’’سافٹ پاور‘‘ کہلاتی ہے۔دور جدید میں بیشتر طاقتور ممالک بین الاقوامی سطح پر اپنی اہمیت بڑھانے کے لیے ہارڈ پاور اور سافٹ پاور، دونوں سے کام لینے لگے ہیں۔ اس مرکب کو ’’سمارٹ پاور‘‘ کا نام دیاجاچکا۔ نریندر مودی نے بھی اقتدار پاتے ہی عالمی سفارت کاری کے میدان میں سمارٹ پاور حکمت عملی اختیار کرلی تاہم انہوں نے زیادہ زور سافٹ پاور پر رکھا۔
بھارت میں مودی سخت مزاج منتظم کی حیثیت سے مشہور ہیں۔ تاہم انہوں نے بہتر جانا کہ شعبہ عالمی سفارت کاری میں افہام و تفہیم سے کام لیا جائے۔ بھارت پر ویسے بھی اکثر یہ الزام لگتا ہے کہ وہ پڑوسیوں کو ڈراتا دھمکاتا رہتا ہے۔ جولائی 2016ء میں ایک تقریر کے دوران مودی نے اپنی خارجہ پالیسی کے خدوخال کچھ یوں بیان کیے: ’’خارجہ پالیسی کے معنی یہ ہے کہ مشترکہ مفادات پر ممالک سے تعلقات قائم کیے جائیں۔ اس سلسلے میں ہر ملک سے گفت و شنید کرنا ضروری ہے۔‘‘
مودی کی خارجہ پالیسی کی پہلی ضرب 2015ء کے اواخر میں لگی۔ تب نیپال نے اندرونی معاملات و مسائل کے سلسلے میں مودی حکومت کے احکامات تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ اس بات پر مودی چراغ پا ہوگئے اور انہوں نے نیپال جانے والے تیل پر پابندی لگادی۔ نتیجتاً نیپال میں تیل کی شدید قلت پیدا ہوگئی۔ نیپال نے بحران کا ذمے دار مودی حکومت کو قراردیا اور دونوں ممالک کے تعلقات خاصے کشیدہ ہوگئے۔
جنوری 2016ء میں نامعلوم حملہ آوروں نے بھارتی فضائیہ کے پٹھان کوٹ اڈے پر دھاوا بول دیا۔ بھارتی حکومت نے دعویٰ کیا کہ یہ حملہ پاکستانی جنگجو تنظیموں نے کرایا ہے۔ چناں چہ پاکستان سے تعلقات کی بحالی کا عمل نہ صرف رک گیا بلکہ حالات مزید خراب ہوتے چلے گئے۔
2016ء میں اندرونی مسائل نے بھی مودی حکومت کو زچ کیے رکھا۔ حکومت نے ٹیکس چوری روکنے کی خاطر بیشتر کرنسی نوٹ منسوخ کردیئے۔ تاہم اس عمل نے معاشی ترقی کونقصان پہنچایا۔ نیز عوام میں مودی حکومت خاصی نامقبول ہوگئی۔ کرنسی نوٹ واپس لینے کے متنازع فیصلے سے جنم لینے والے منفی اثرات طویل عرصے بعد ہی کافور ہوئے۔اب مالدیپ سے بھارتی حکومت کے تعلقات سرد مہری کا شکار ہیں۔ اُدھر افغانستان میں گلبدین حکمت یار کی آمد سے بھارتی اثرو رسوخ کم ہونے کا خدشہ ہے۔ ایران سے بھی بھارتی حکومت کے تعلقات کسی حد تک کشیدہ ہوچکے جو ایک ڈرامائی تبدیلی ہے۔
پچھلے سال ماہ مئی میں بھارت، ایران اور افغانستان نے چابھار بندرگاہ کی تعمیر کا اعلان کیا تھا۔ تب وزیراعظم مودی نے دعویٰ کیا کہ اس بندرگاہ کی تعمیر سے بھارت کے وسطی ایشیا اور یورپ سے تجارتی تعلقات بڑھ جائیں گے۔ لیکن چابہار بندرگاہ پر کام تقریباً ٹھپ پڑا ہے۔ وجہ یہ کہ بھارت کے لیے یہ بندرگاہ معاشی فوائد نہیں رکھتی۔ مودی نے صرف اس لیے چابہار کو اہمیت دی تاکہ پاکستانی بندرگاہ، گوادر کی اہمیت کم کی جاسکے جسے چین ترقی دے رہا ہے۔
امریکا سے بڑھتی قربت نے بھارت اور روس کے تعلقات پر بھی منفی اثرات ڈالے ہیں جبکہ روس اور چین مل کر ایک نئی قوت کا روپ دھار چکے ہیں۔ غرض فی الوقت عالمی سفارت کاری کے میدان میں مودی کے داؤ خاصی حد تک ناکام رہے ہیں۔ بھارتی دانشور ناکامی کی ذمہ داری اپنی افسر شاہی کی ’’سرخ فیتہ پالیسی‘‘ کو قرار دیتے ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ افسر شاہی کی سستی و بے پروائی کے باعث بھارت کئی ایشیائی و افریقی ممالک سے تجارتی معاہدے نہیں کرسکا۔ چناں چہ ان ملکوں نے چین سے معاہدے کرلیے۔
دوسری طرف صحیح داؤ کھیل کر اپنی مدبرانہ سیاسی و معاشی حکمت عملیوں کے باعث چینی صدر ،شی جن پنگ اندرون اور بیرون ملک ایک طاقتور حکمران کے طور پر ابھر کر سامنے آئے ہیں۔ صدر شی نے کئی بین الاقوامی ادارے قائم کیے ہیں اور دلچسپ بات یہ کہ ان میں ایک ادارے… نیو ڈویلپمنٹ بینک کا چیئرمین ایک بھارتی ماہر معاشیات ہے۔مزید براں صدر شی جن پنگ چین کی عسکری طاقت میں بھی تیزی سے اضافہ کررہے ہیں۔ چناں چہ افریقی سمندروں اور بحرالکاہل کے علاقے میں خصوصاً چینی بحریہ کی نقل و حرکت بڑھ رہی ہے۔
ماہرین معاشیات کی رو سے چند بنیادی وجوہ کے باعث چین نے سفارت کاری اور معیشت کے شعبوں میں بین الاقومی سطح پر بھارت کو مات دے دی۔ اول یہ کہ چین میں یک جماعتی حکومتی نظام کارفرما ہے۔ لہٰذا صدر شی، مودی کی نسبت جلد فیصلے کرتے ہیں اور ان پر فوری عمل درآمد بھی ہوتا ہے۔ دوم دنیا کی دوسری بڑی معیشت ہونے کے ناتے چین کے پاس بھارت کی نسبت وسائل زیادہ ہیں۔ مثلاً وہ ڈالر کے سب سے بڑے ذخائر رکھتا ہے۔ نیز اس کے پاس ہر قسم کا سامان بنانے والی عظیم کمپنیاں موجود ہیں۔ ان وجوہ کی بنا پر وسطی ایشیا اور جنوب مشرقی ایشیا سے لے کر افریقا تک بھارت چین کا مقابلہ نہیں کرسکا۔ اب ان خطوں میں بیشتر ممالک کی معاشی ترقی کا دارومدار چین سے وابستہ ہوچکا۔
حیرت انگیز بات یہ کہ چین بھارت کے آس پڑوس بھی بتدریج قدم جما رہا ہے۔ پاکستان کے ساتھ تو چین کے دیرینہ تعلقات ہیں ہی، وہ بنگلہ دیش میں بھی خاصی رسائی حاصل کرچکا۔ چینی صدر نے پچھلے برس بنگلہ دیش کا دورہ کیا تھا۔ اب وہاں 24 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری سے چین بجلی گھر، بندرگاہ اور ریلوے لائنیں بنوا رہا ہے۔
چین کی سرمایہ کاری سے سری لنکا میں بھی انفراسٹرکچر جنم لے رہا ہے۔ گو سری لنکا اور بھارت کی باہمی تجارت 4.7 ارب ڈالر ہے، مگر چین بھی زیادہ پیچھے نہیں۔ چین اور سری لنکا کی باہمی تجارت کی مالیت 4 ارب ڈالر تک پہنچ چکی۔ خاص بات یہ کہ چین سری لنکا میں سرمایہ کاری کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے۔ مودی کی سرتوڑ کوشش ہے کہ وہ سری لنکا کو بھارتی دائرہ اثر سے باہر جانے نہ دے، مگر چین رفتہ رفتہ جزیرے میں اپنا اثرو رسوخ بڑھا رہا ہے۔ سری لنکا اہم بحری راستوں پر واقع ہونے کی وجہ سے جغرافیائی تزویراتی اہمیت رکھتا ہے۔
افغانستان میں بھی چین اور بھارت کے مابین خفیہ و عیاں رسّہ کشی جاری ہے۔ دونوں ممالک وسطی ایشیا کا در کہلائے جانے والے اس ملک کو اپنے اپنے حلقہ اثر میں لانا چاہتے ہیں۔ فی الوقت باہمی تجارت کے لحاظ سے بھارت کا پلّہ بھاری ہے۔ تاہم مستقبل میں چین افغانستان کا زیادہ مضبوط اتحادی بن سکتا ہے۔ وجہ یہ کہ چین نے افغان حکومت کو سی پیک منصوبے میں شامل ہونے کی پیش کش کی ہے۔ چین پشاور، کابل اور قندوز کے راستے وسطی ایشیائی ممالک تک رسائی کا نیا راستہ چاہتا ہے۔ مزید براں چین سرزمین افغاناں میں پوشیدہ دھاتوں میں بھی دلچسپی رکھتا ہے۔
نیپال بھی چین اور بھارت کے درمیان گریٹ گیم کا حصّہ بن چکا۔ بیسویںصدی میں طویل عرصے تک نیپال میں بھارت کا بہت اثرو رسوخ رہا ہے لیکن اب وہاں چین اپنے قدم جمانے میں مصروف ہے۔ نیپال بھی ون بیلٹ ون روڈ منصوبے کا حصہ بن چکا۔ نیز چین نیپال کا انفراسٹرکچر کھڑا کرنے میں اربوں ڈالر خرچ کررہا ہے۔ ان عوامل کے باعث نیپال میں بھارتی حکومت کا اثرو رسوخ بتدریج کم ہونے لگا ہے۔
بھارتی دانشوروں کا دعوی ہے کہ چین ایشیائی اور افریقی ممالک میں وسیع سرمایہ کاری کر کے انھیں زیر دام لا رہا ہے۔جیسے ہی سرمایہ کاری اختتام پذیر ہوئی، ان ملکوں میں چین کا اثرورسوخ کم یا ختم ہو سکتا ہے۔تاہم فی الوقت چین کا عظیم الشان ’’ون بیلٹ مون روڈ‘‘ پروجیکٹ بھارت کے لیے نئے چیلنج کے طور پر سامنے آ چکا۔پاکستان میں جاری سی پیک منصوبہ بھی اسی کا حصہ ہے۔شنید ہے کہ چین اس پروجیکٹ پر ’’5 ٹریلین ڈالر‘‘تک رقم خرچنے کو تیار ہے جو تین براعظموں کے پینسٹھ سے زائد ممالک میں پھیلا ہوا ہے۔
بھارت اس دیوہیکل چینی پروجیکٹ میں شامل ہونے سے کترا رہا ہے۔وجہ یہ کہ وہ امریکا اور جاپان کی شراکت سے چینی منصوبے کا مقابلہ کرنے کے لیے ’’ایشیا افریقا گروتھ کوریڈور‘‘ (Asia-Africa Growth Corridor)نامی منصوبہ شروع کرنا چاہتا ہے۔دیکھنا یہ ہے کہ عالمی سفارت کاری کے میدان میں مودی سرکار کی یہ نئی مہم جوئی برگ وبار لائے گی یا سابقہ منصوبوں کے مانند یہ منصوبہ بھی بھارتی افسر شاہی کی سرخ فیتے روایت کا شکار ہو جائے گا۔
The post چین نے دی بھارت کو شہ مات appeared first on ایکسپریس اردو.