گھر وہ عظیم نعمت ہے، جس کی خواہش ہر انسان میں فطری طور پر ہوتی ہے، لیکن کوئی بھی گھر اس وقت تک نامکمل ہوتا ہے، جب تک اس پر چھت نہ ہو اور چھت ستون کے بغیر کھڑی نہیں رہ سکتی۔ اسی طرح کسی بھی جمہوری ریاست کی عمارت کے لئے تین بنیادی ستون ہوتے ہیں، جو مقننہ، انتظامیہ اور عدالت کہلاتے ہیں۔ ان ستونوں میں سے اگر ایک بھی کمزور ہو تو عمارت کے گرنے کا خدشہ پیدا ہو جاتا ہے۔ اگرچہ ریاست کے تینوں ستون نہایت اہمیت کے حامل ہوتے ہیں، لیکن عدالت کو ان میں ایک خاص مقام حاصل ہے، کیوں کہ کوئی بھی معاشرہ انصاف کے بغیر پھل پھول نہیں سکتا اور اس انصاف کی فراہمی کا فریضہ عدالت کے حصے میں آتا ہے۔
آئین و قانون کی روشنی میں ملکی مفاد اور بنیادی انسانی حقوق کو مدنظر رکھتے ہوئے کسی بھی قضیے کا تصفیہ عدالت کا بنیادی ذمہ داری ہے۔ کسی بھی ریاست کی ترقی اور بقاء کا دارومدار انصاف کی بلا تفریق فراہمی پر ہے، اور عدالت انصاف کی فراہمی کی ضامن ہوتی ہے، لیکن جب افراد اور ادارے اس کا احترام بھول جاتے ہیں تو معاشرہ بدامنی اور لاقانونیت کی جانب چل پڑتا ہے۔ اسی لئے دیگر ممالک کی طرح وطن عزیز میں بھی عدالت کے وقار کو برقرار رکھنے کے لئے توہین عدالت کا قانون موجود ہے۔
آئین پاکستان کے آرٹیکل 204 کے مطابق جب کوئی بھی شخص اعلی عدلیہ یا معزز ججز کے خلاف غلط اور ہتک آمیز زبان کا استعمال کرے، یہ تاثر دینے کی کوشش کرے کہ ججز جانبدار ہیں، عدالتی احکامات کو نہ مانے یا کسی بھی عدالتی حکم کی بحرمتی کرتا ہے یا کوئی بھی کسی عدالتی حکم یا طریقہ کار کو نہیں مانتا جس کو مانا جانا ضروری ہو، یا کوئی بھی شخص کسی ایسے بیان سے پھر جائے جو اِس نے عدالت کے سامنے دیا ہو، یا کوئی ایسا قدم اْٹھائے جو عدالت کی اتھارٹی کو چیلنج کرتا ہو یا دخل اندازی کا مرتکب ہو یا قانون کی عملداری میں متعصب ہو، کسی بھی عدالتی طریقہ کار میں رخنہ اندازی کرے تو اسے توہین عدالت قرار دیا جا سکتا ہے۔ توہین عدالت کی دو اقسام ہیں، یعنی سول اور فوجداری۔ توہین عدالت کا جرم ثابت ہونے پر عدالت مجرم کو قانون کے مطابق 6 ماہ قید اور جرمانہ (ایک لاکھ روپے تک) یا دونوں سزائیں سنا سکتی ہے۔
لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے ہاں عدالتوں اور ان میں بیٹھے معزز ججز سے محاذ آرائی نہ صرف بااثر طبقات کا وطیرہ بنتا جا رہا ہے بلکہ حکومتیں بھی انصاف پر مبنی عدالتی فیصلوں پر اطیمنان کا اظہار کرنے کے بجائے اسے اپنی فتح اور شکست کے تناظر میں دیکھتی ہیں، حکومتی سطح پر عدالتی فیصلوں کو نہ ماننے کی ترغیب دینا اب ایک عام سی بات ہے۔
اس مقصد کے لئے جس بودے استدلال کو سب سے زیادہ استعمال کیا جاتا ہے ہو ’’ عوام کی عدالت ‘‘ ہے۔ یعنی شخصی اور خاندانی سطح پر سو فیصد خالص کرپشن پر کوئی کارروائی ہونے لگے تو ’’عوامی عدالت‘‘ سے سرخ رو ہونے کا واویلا شروع کر دیا جاتا ہے، دوسرے لفظوں میں عدلیہ کو باور کرایا جاتا ہے کہ ہم میں یہ طاقت ہے کہ اپنے خاص کارکنوں کو حکم دے کر عدلیہ کے اینٹ سے اینٹ بجا سکتے ہیں۔ اس کا ایک مظاہرہ قبل ازیں مسلم لیگ ن ہی کے دور میںسامنے آ چکا ہے۔
آئین پاکستان کے مطابق توہین عدالت کے مرتکب افراد کے لئے 6 ماہ کی سزا یا جرمانہ بہت زیادہ نہیں، کیوں کہ اس قانون کی روح کے مطابق اس کا مقصد محض سزا دینا نہیں بلکہ عدالتی وقار اور احترام کا تحفظ ہے، یہی وجہ ہے کہ اگر کسی شخص پر یہ الزام ہو کہ اس نے توہین عدالت کی ہے اور وہ عدالت میں آکر معافی مانگ لیتا ہے تو اسے الزام سے بری کر دیا جاتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ملک میں توہین عدالت سے متعلق 90 فیصد کیسز معافی پر ختم ہو جاتے ہیں۔ لیکن عدالتی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ عدلیہ کو قابو میں رکھنے کے لیے مقننہ اور حکومت نے اپنے سارے داؤ پیچ استعمال کیے ہیں۔
گورنر جنرل غلام محمد، سکندر مرزا، ایوب خان، یحییٰ خان، ذوالفقار علی بھٹو، جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف، نواز شریف اور بے نظیر کے ادوار میں عدالتوں کو دبانا اور اپنے حق میں فیصلے کروانے کی کوشش عام دستور رہا ہے، عدالت پر حملے سے لے کر اس کے فیصلوں کا مذاق اڑانے تک ہر حربہ استعمال کیا گیا۔ اپنے مفاد کو زک پہنچنے یا جرم کے آشکار ہونے کے خدشہ کے پیش نطر معزز ججز پر جانبداری کا الزام تو عام روش بنتی جا رہی ہے۔ اور یہی وہ وجوہات ہے کہ جن کے باعث مقتدر افراد کی آشیرباد کے ساتھ آئے روز ہمیں ایسے جملے سننے کو ملتے ہیں، جن میں عدلیہ کی تضحیک، تمسخر اڑانے یا اس پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
آج کل پاکستان کی اعلی ترین عدالت سپریم کورٹ پانامہ کیس میں اپنے پیشہ وارانہ فرائض کی ادائیگی کرتے ہوئے حکمران خاندان پر الزامات کی تحقیقات کی نگرانی کر رہی ہے۔ ایسی صورت حال میں حکومتی کیمپ سے کچھ اس طرح کی زبان استعمال کی جا رہی ہے ’’حساب لینے والو، ہم تمہارا یوم حساب بنا دیں گے،جنہوں نے بھی حساب لیا ہے اور جو لے رہے ہیں، ہم نے چھوڑنا نہیں تم کو، آج حاضر سروس ہو، کل ریٹائر ہو جاؤ گے، تمہارے بچوں، خاندان کے لئے پاکستان کی زمین تنگ کر دیں گے ہم‘‘ اسی طرح گزشتہ دور حکومت میں پاکستانیوں کو وہ وقت بھی دیکھنا پڑا جب حکمران جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے سینئر رہ نما بابر اعوان کو میموگیٹ سے متعلق عدالتی حکم کے خلاف پریس کانفرنس کرنے پر سپریم کورٹ کے دو رکنی بنچ کی جانب سے توہین عدالت کا نوٹس ملا تو ان کا تبصرہ کچھ یوں تھا کہ ’’نوٹس ملیا ککھ نہ ہلیا ،کیوں سوہنیا دا گلہ کراں، میں تے لکھ واری بسم اللہ کراں‘‘
بلاتفریق انصاف کی فراہمی پر یقینی ترقی و خوشحالی، امن و سکون کے حصول کے لئے لازم ہے کہ یہ فریضہ سرانجام دینے والے ادارے کے احترام کو تمام تر تعصبات سے بالاتر ہو کر مقدم رکھا جائے۔ توہین عدالت کا قانون ایک آئینی ضرورت ہے، لیکن اس کے استعمال کی نوبت سے قبل ہی متعلقہ اداروں اور حکمرانوں کو ان محرکات پر قابو پانا ہو گا، جن کی وجہ سے اس پر عملدرآمد ناگزیر ہو جاتا ہے۔ بصورت دیگر انصاف کی فراہمی اور حصول جب ناممکن بن جائے گا تو معاشرہ میں ایسی مایوسی اور ناامیدی پھیلے گی، جو سب کچھ خس و خاشاک کی طرح بہا لے جائے گی۔
امریکہ میں توہین عدالت پر چودہ سال قید کی سزا دے دی گئی
دنیا بھر کے مہذب ممالک میں عدالتوں کے احترام اور ان کے وقار کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لئے توہین عدالت کا قانون موجود ہے، جس میں استثنی جیسی مراعات کا بھی زیادہ عمل دخل نہیں ہوتا، تاہم توہین عدالت کی صورتیں تقریباً ایک جیسی ہیں، یعنی معزز جج سے بدتمیزی، احکامات ماننے سے انکار، زیر سماعت کیس میں بے جا مداخلت وغیرہ وغیرہ۔
آسٹریلیا میں توہین عدالت پر نہ صرف بھاری جرمانہ ادا کرنا پڑتا ہے بلکہ جیل کی ہوا بھی کھانا پڑ سکتی ہے، یہاں یہ چیز بھی نہایت اہمیت کی حامل ہے کہ کسی معزز جج کی آمد پر اس کے احترام میں کھڑے ہونے سے انکار پر بھی توہین عدالت کا قانون حرکت میں آجاتا ہے۔ عمومی طور پر ترقی پذیر ممالک میں میڈیا پرسنز ’’Exclusive‘‘ کے چکر میں بلاخوف عدالت کی حد بھی پار کر جاتے ہیں، لیکن آسٹریلیا میں ایسا نہیں ہوتا، 2013ء میں آسٹریلیا کے معروف براڈکاسٹرڈیری ہنچ کو صرف اس وجہ سے توہین عدالت کا مرتکب ٹھہرایا گیا کہ اس نے ایک قتل کیس کی سماعت کے دوران سوشل میڈیا کے ذریعے قیاس آرائی کی۔
کینیڈا میں توہین عدالت کا قانون عام اصولوں سے ہٹ کر بنایا گیا ہے۔ عدالتی احکامات سے انکاری یا معزز ججز کی تضحیک کے تاثر پر عدالت کو فوری طور پر سزا دینے کا اختیار دیا گیا ہے۔ فیڈرل کورٹ رولز کے مطابق توہین عدالت کی صورت میں کوئی بھی معزز جج متعلقہ شخص کو فوری سزا سنا سکتا ہے، جو مذکورہ شخص کو بہرحال بھگتنی ہے، جس کے بعد وہ عدالت آ کر اپنا جواب داخل کرا سکتا ہے۔ آسٹریلیا میں توہین عدالت کی سزا پانچ سال سے کم یا جب تک وہ حکم پورا نہ کر دے رکھی گئی ہے۔
ہانگ کانگ کی تمام عدالتوں یعنی کورٹ آف فائنل اپیل، ہائی کورٹ اور حتی کہ ضلعی کورٹس کو بھی توہین عدالت قانون کے تحت فوری طور پر سزا دینے کا اختیار دیا گیا ہے، جو بھاری جرمانے کے علاوہ 6 ماہ تک قید ہے۔ برطانیہ میں توہین عدالت ایکٹ 1981ء کے تحت اس جرم میں ملوث مجرم کو 2 سال تک قید کی سزا سنائی جا سکتی ہے، یہ جرم چاہے سول ہو یا فوجداری سزا ضرور دی جائے گی۔ امریکا میں توہین عدالت کا قانون بلاواسطہ یا بالواسطہ اور سول و فوجداری میں تقسیم کیا گیا ہے۔ یہاں عدالتوں کے احترام کو اس قدر ملحوظ خاطر رکھا جاتا ہے کہ توہین عدالت کی صورت میں فوری سزا دی جا سکتی ہے اور اس سزا کا استحقاق بھی خود عدالت کے پاس ہے۔ سول توہین عدالت میں سزا کا کوئی تناسب نہیں، جس کی ایک بڑی مثال ایچ بیٹے چاڈوک ہے۔ عدالتی احکامات نہ ماننے پر امریکن فیڈرل لاء کے مطابق ایچ بیٹے چاڈوک کو 14 سال تک جیل میں رکھا گیا، جو کہ ایک منفی ریکارڈ کا درجہ رکھتا ہے۔
توہین عدالت قانون میں سقم کے باعث نہال ہاشمی جیسے کیسز سامنے آ رہے ہیں:چیئرمین جوڈیشل ایکٹویزم پینل اظہر صدیق
چیئرمین جوڈیشل ایکٹویزم پینل اور معروف وکیل اظہر صدیق نے ’’ایکسپریس‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بنیادی طور پر آرٹیکل 204 کے تحت توہین عدالت کا قانون ایک آئینی جرم ہے اور آئینی جرم میں کوئی استثنی نہیں۔ اس قانون کو کئی بار بدلنے کی کوشش کی گئی، جس کی ایک بڑی مثال 2013ء ہے، جب ایک ہی روز میں اس قانون کو بدل دیا گیا، لیکن میں نے اسے چیلنج کیا اور بعدازاں سپریم کورٹ نے اسے کالعدم قرار دے دیا۔
اسی طرح آصف زرداری جب صدر پاکستان تھے، تو اس وقت میں نے ان کے خلاف توہین عدالت کی درخواست دی، جس پر انہوں نے اپنا سیاسی عہدہ چھوڑ دیا، خورشید شاہ جب وفاقی وزیر تھے، تو حج کوٹہ کے حوالے سے میری طرف سے دی گئی توہین عدالت کی درخواست پر انہوں نے عدالت سے معافی مانگی، اسی طرح سیکرٹری بلدیات، سیکرٹری مذہبی امور وغیرہ کے خلاف بھی میں نے توہین عدالت کی درخواستیں دیں، جو کامیاب رہیں۔
ماہر قانون کا کہنا تھا کہ دنیا بھر میں عدالتوں کے وقار کو خاص اہمیت دی جاتی ہے، لیکن افسوس ہمارے توہین عدالت کے قانون کو ایک مذاق بنا دیا گیا ہے۔ آپ دیکھ لیں ایک سال میں صرف ایک بندے یعنی آئی جی پنجاب کے خلاف اڑھائی سو توہین عدالت کے کیسز ہیں۔ میرے خیال میں اس قانون کو کمزور کرنے میں جہاں بااثر افراد کا ہاتھ ہے، وہاں اس کے اپنے اندر پایا جانے والا سقم بھی اس کا ذمہ دار ہے۔
اس قانون کے تحت صرف 6 ماہ قید اور جرمانہ ہے، لیکن میرے خیال میں یہ سزا کم از کم 10 سال ہونی چاہیے، تاکہ کوئی بھی فرد عدالتی وقار مجروح کرنے کی کوشش نہ کر سکے۔ پھر توہین عدالت کے کیس کو طول دیا جاتا ہے، جس دوران عدالتوں پر دباؤ بھی ڈالا جاتا ہے تو میری تجویز یہ ہے کہ اس کیس کا فیصلہ ایک ماہ کے اندر اندر کیا جانا چاہیے۔
اظہر صدیقی نے مزید کہا کہ توہین عدالت کے قانون میں سقم کی وجہ سے ماضی کے مقابلے میں بااثر افراد کا عدالتی وقار کے حوالے سے رویہ بدتر ہوتا چلا جا رہا ہے، جس کی ایک حالیہ مثال نہال ہاشمی کیس بھی ہے۔ مذکورہ قانون میں کم سزا جیسے سقم کی وجہ سے نہال ہاشمی جیسے کیسز سامنے آ رہے ہیں۔ توہین عدالت کیس میں سخت سزا کے ساتھ ان محرکات کا بھی جائزہ لیا جائے، جو اس کے پیچھے کارفرما ہوتے ہیں، نہال ہاشمی کیس میں وزیراعظم میاں نواز شریف براہ راست ذمہ دار ہیں۔
The post کیا سخت قوانین اور یقینی عملدرآمد سے بہتری ممکن ہے؟ appeared first on ایکسپریس اردو.