انسانی تاریخ کے اس مرحلے پر، یعنی عالم گیریت کے دور میں قومی ادب کا سوال کیا اہمیت رکھتا ہے؟
سچی بات یہ ہے کہ لگ بھگ اڑسٹھ ستر سال قبل بھی جب یہ سوال ہمارے یہاں پہلے پہل سامنے آیا تو یاروں کے حلق سے نہیں اُترا تھا، حالاںکہ اُس وقت تو یہ دنیا آج کی طرح گلوبل ولیج نہیں بنی تھی۔ اس عرصے میں تو پلوں کے نیچے سے بہت پانی گزر چکا۔ یہ پانی اپنے ساتھ بہت سی نئی چیزیں لایا ہے اور بہت سا پرانا سامان بہا کر بھی لے جاچکا ہے۔
اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ عصرِحاضر کے اس عالمی سماج میں انسانی زندگی کا تجربہ جتنا مقامی یا قومی ہے، آج اس سے کچھ زیادہ عالمی یا بین الاقوامی ہوگیا ہے۔ دوسرے عناصر کے ساتھ ساتھ روز مرہ تجربات اور واقعات بھی ہمارے احساس کی تشکیل میں نمایاں طور سے حصہ لیتے ہیں۔ چناں چہ واضح طور پر محسوس ہوتا ہے کہ اس عالمی سطح کی زندگی کے تجربے میں مقامیت یا قومیت کی کیفیت قدرے دب کر رہ گئی ہے۔
یہ حقیقت اپنی جگہ ناقابلِ تردید ہے کہ بڑا اور زندہ ادب لازمانی اور لامکانی ہوتا ہے۔ وہ رنگ، نسل، زبان اور جغرافیہ ہر ایک حد سے بالاتر ہوکر اپنی معنویت کا اظہار اور اپنی غیرمشروط انسانی وابستگی پر سب سے زیادہ اصرار کرتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ سعدی، حافظ اور رومی کا کوئی شعر یا پھر بابا فرید، بھٹائی، بلھے شاہ اور رحمان بابا کا کوئی بیت، چوسر، شیکسپیئر، بودلیئر، رِلکے، ایذرا پاؤنڈ اور ایلیٹ کی کچھ لائنیں اور ٹکڑے یا کہ میر، غالب، مصحفی اور اقبال کے اشعار آج بھی ہمارے لیے اِس طرح بامعنی ہوجاتے ہیں کہ ہم اُن کے توسط سے لمحۂ موجود کے کسی مسئلے یا اپنی زندگی کے کسی تجربے کو زیادہ آسانی سے اور قدرے بہتر طور پر سمجھ پاتے ہیں۔ یوں زندگی ہمارے لیے ایک بار پھر گوارا اور قابلِ فہم ہوجاتی ہے۔
ان کے ذریعے ہمیں انسانی رشتوں کو تہ در تہ دیکھنے اور سمجھنے کا موقع ملتا ہے۔ ہمارے شعور و احساس کی سطح تبدیل ہوجاتی ہے۔ بلاشبہہ یہ ادب کی لازمانیت اور آفاقیت کا واضح ثبوت ہے۔ اب سوال یہ ہے، اگر ادب میں عصریت اور مقامیت کے عناصر نمایاں سطح پر ہوں تو کیا وہ لازمانی اور آفاقی نہیں ہوسکے گا؟
آگے بڑھنے سے پہلے ہمیں یہاں اس بات کو واضح طور پر سمجھ لینا چاہیے کہ ہماری اس گفتگو کا تعلق عہدِجدید کے تہذیبی اور سماجی تناظر میں ادب اور اس کی معنوی صورتِ حال سے ہے۔ دنیا کا قدیم ادب اور لوک ادب اور خود ہمارا داستانوی ادب اس بحث کا حصہ نہیں ہے۔ اس کی دو وجوہ ہیں۔ پہلی یہ کہ قدیم ادب وقت کے اُس امتحان سے گزر کر بہت آگے آچکا ہے کہ جب کسی فن پارے کے لیے اس کی زمانی جہت اُس کی قدروقیمت اور معنویت کے تعین میں بنیادی حوالہ بنتی ہے۔
دوسری اور زیادہ اہم بات یہ ہے کہ دنیا کا سارا قدیم ادب خواہ اس کا تعلق کسی بھی خطے، تہذیب، زمانے اور زبان سے ہو، ایک الگ ہی جوہر رکھتا ہے، اس لیے اُسے سماجی انسلاکات اور زمانی ارتباط کے ان اصولوں کے تحت پرکھا ہی نہیں جاسکتا جن کو ہم اس عہد کی نئی تنقیدی کسوٹی میں بنیاد بناتے ہیں۔ تنقید نئے زمانے کی دَین ہے، اس لیے اس کے وضع کردہ پیمانے بھی نئے ادب کے لیے ہیں۔ ہم اگر انھیں قدیم ادب اور لوک ادب کے لیے استعمال کریں گے تو خلطِ مبحث پیدا ہوگا۔
اب آئیے واپس اپنے موضوع کی طرف۔ واقعہ یہ ہے کہ ادب کی معنویت کا سب سے پہلا دائرہ اور اس کی قدروقیمت کا پہلا تعین اُس کی عصری و مقامی جہت ہی سے ہوتا ہے۔ اُس کی ماورائے زمان و مکاں خوش بو ذرا آگے چل کر، یعنی کچھ وقت گزرنے کے بعد منکشف ہوتی ہے۔ ایسا نہیں ہوتا کہ اِدھر ایک شاعر نے کوئی شعر کہا، نظم لکھی یا ایک فکشن نگار نے کوئی افسانہ، کوئی ناول لکھا اور اُدھر وہ آفاقی شاہ کار بن گیا۔ یہ وقت کا عمل ہے جو کسی نگارشِ فن کے اس پہلو کو سامنے لاتا ہے جس کی بنیاد پر ہم اُسے وقت اور جغرافیہ کی حدود سے ماورا ہوکر دیکھنے لگتے ہیں۔ یقیناً اس کا سبب وہ انسانی جہت ہوتی ہے، جسے ایک فن کار اپنی تخلیق میں کھولتا اور ہمارے سامنے لاتا ہے۔ تاہم اُس کے معنی کی پہلی سطح اس کے مخصوص سیاق سے متعین ہوتی ہے اور اسی کے ساتھ قابلِ فہم بھی۔
اب مثال کے طور پر دوستوئیفسکی کے ناول ’’برادرز کراموزوف‘‘ کے اہم کرداروں بالخصوص تینوں بھائیوں کو روس کے ایک عہد کے خاص سماجی، سیاسی، معاشی، تہذیبی اور اخلاقی تناظر میں رکھے بغیر ہم بہتر انداز سے نہیں سمجھ سکتے۔ اسی طرح ٹولسٹوئے کے ناول ’’اینا کرینینا‘‘ کے مرکزی کردار اینا کو روس اور فلوبیئر کے ناول ’’مادام بوواری‘‘ کے مرکزی کردار بوواری کو فرانس کے ایک خاص تناظر کے ساتھ ہی بامعنی انداز سے سمجھا جاسکتا ہے۔ اس لیے کہ ان دونوں کے بحران، بلکہ ان کی تقدیر تک کو ان کے سماج کی صورتِ حال سے کاٹ کر مؤثر انداز میں سمجھنا تو دور کی بات ہے، بامعنی انداز سے دیکھنا تک ممکن نہیں ہے۔
اسی طرح گابریئل گارشیا مارکیز کے ’’ہنڈرڈ ایئرز آف سولی چیوڈ‘‘، میلان کنڈیرا کے ’’ان بیئر ایبل لائٹنس اوف بینگ‘‘، قرۃ العین حیدر کے ’’گردشِ رنگِ چمن‘‘، عبداللہ حسین کے ’’اداس نسلیں‘‘، انتظار حسین کے ’’آگے سمندر ہے‘‘ اور خدیجہ مستور کے ’’آنگن‘‘ کو بھی ان کے خاص جغرافیائی تناظر سے الگ کرکے جامع تفہیم کی سطح تک نہیں لایا جاسکتا۔ خاطر نشان رہے کہ جب ہم کسی خاص جغرافیائی تناظر کی بات کرتے ہیں تو اس میں زمانی جہت بھی ناگزیر طور پر شامل ہوتی ہے۔ آج کا فرانس وہ نہیں ہے جو فلوبیئر کے دور میں تھا، یعنی اس کا سماجی، تہذیبی اور اخلاقی سانچا وہ نہیں ہے جو پہلے تھا۔
اس لیے اگر ہم اس کی فلوبیئر کے عہد والی زمانی صورتِ حال کو پیشِ نظر نہ رکھیں، بلکہ آج کے فرانس کو سامنے رکھیں تو مادام بوواری کا مسئلہ ہمارے لیے ضرور الجھن کا باعث بن جائے گا۔ وہ ہمیں آج کسی بھی طرح اس نوعیت کا نہیں معلوم ہوگا کہ جس کے نتیجے میں مادام بوواری اس بحران کا شکار اور اس المیے سے دوچار ہو جو ناول میں دکھایا گیا ہے۔ اسی طرح ’’اداس نسلیں‘‘ کے لیے کولونیل دور کا ہندوستان اور دوسری جنگِ عظیم کا زمانہ پیشِ نظر نہ ہو تو اس کے کرداروں کے کتنے ہی مسائل اور ان کی بہت سے کیفیات کو سمجھنا اور ان سے رشتہ استوار کرنا ممکن ہی نہیں ہے۔ گویا طے ہے کہ کوئی بھی تخلیق اپنے خاص زمان و مکاں سے مکمل طور پر نہ صرف یہ کہ لاتعلق نہیں ہوسکتی، بلکہ اس کی تخلیقی معنویت اور فنی قدر کا ادراک اوّلاً اسی تناظر میں کیا جاتا ہے۔ اس کی ماورائے عصر حیثیت کا مرحلہ اس کے بعد کا ہے۔
مثالیں اور دلیلیں مزید بہت سی دی جاسکتی ہیں، لیکن جس نکتے کی وضاحت مقصود ہے، وہ ان حوالوں سے بھی صاف اور قابلِ فہم ہوجاتا ہے۔ اِس گفتگو کے نتیجے میں ہم پر دو باتیں واضح ہوتی ہیں۔ پہلی یہ کہ کسی بھی ادبی نگارش کی تخمین و ظن کے پہلے مرحلے کے لیے اُس کا خاص زمانی اور مکانی تناظر بہرحال بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔ اس مرحلے پر قدروقیمت کے تعین کے بعد ہی اس کی آفاقی اہمیت و حیثیت کا سوال اٹھتا ہے، اس سے پہلے نہیں۔ دوسری بات یہ کہ مقامی اور آفاقی ادب میں باہم تضاد کا رشتہ نہیں ہے کہ اگر کوئی فن پارہ مقامی جہت رکھتا ہے تو وہ آفاقی نہیں ہوسکتا، اور اس کے برعکس بھی معاملہ نہیں ہوتا۔
واقعہ یہ ہے کہ کوئی بھی بڑا ادب پارہ بہ یک وقت مقامی اور آفاقی قدر و قیمت کا حامل ہوسکتا ہے، بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ ادبِ عالیہ کی ایک پہچان یہ بھی ہوتی ہے کہ وہ بہ یک وقت مقامیت اور آفاقیت کے عناصر کا حامل ہوتا ہے۔ چناںچہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ کسی فن پارے کی عصریت کا مطلب یہ نہیں کہ اس کی تفہیم اور معنویت کا دائرہ محدود ہوگیا ہے اور اب وہ وسیع زمانی دائرے میں ابلاغ کا اہل نہیں رہا۔ اس کے برعکس عصریت کسی بھی نگارشِ فن کو نہ صرف خود اُس کے اپنے زمانے سے ہم آہنگ کرتی ہے، بلکہ اسے آنے والے زمانوں سے رشتے کی بنیاد بھی فراہم کرتی ہے۔
اب آئیے اپنی عصری صورتِ حال کے حوالے سے اس مسئلے کو دیکھتے ہیں۔ اکیس ویں صدی کے ان برسوں میں اس سوال کو ایک اور زاویے سے سمجھنے کی ضرورت ہے۔ آج ہم جس گلوبل ولیج میں سانس لے رہے ہیں، اس میں تہذیبیں اور ثقافتیں اپنی شناخت کھونے کے مسئلے سے دوچار ہیں۔ پاکستانی یا قومی ادب کے یہ معنی تو ستّر سال پہلے بھی نہیں تھے کہ ایسا ادب تخلیق کیا جائے جو گھما پھرا کر صرف اور صرف قیامِ پاکستان کی بنیاد بننے والے دو قومی نظریے کا پرچار کرتا ہو، یا کہ جس میں سیاسی نعروں کو استعمال کیا گیا ہو۔
ایسی تحریروں کے تو ادب ہونے ہی میں شبہہ ہوگا۔ پہلے بھی جب یہ سوال کیا گیا تو اس سے مراد قومی شعور کا ادب تھا، ویسا ہی قومی شعور جیسا ہمیں ٹولسٹوئے، دوستوئیفسکی اور گورکی کی تحریروں میں روس کے حوالے سے نظر آتا ہے یا لاطینی امریکا کے لیے مارکیز کے یہاں ملتا ہے، یا مصر کے لیے ہم نجیب محفوظ کے یہاں دیکھتے ہیں۔ یہ قومی شعور ہمیں موپاساں اور فلوبیئر کے ہاں فرانس کے لیے بھی نظر آتا ہے۔
ہم اس پر کوئی اعتراض نہیں کرتے، یعنی ان میں سے کسی ادیب کو ہم مقامیت کی بنیاد پر رد نہیں کرتے۔ اس لیے کہ ان کے یہاں مقامیت کسی تنگ نظری کی بنیاد نہیں بنتی، بلکہ وہ اپنے درجے میں انھی انسانی قدروں کی توثیق اور ان پر اصرار کرتی ہے جو اُسے اگلے مرحلے میں آفاقیت سے ہم کنار کرتی ہیں۔ چناںچہ ان تخلیق کاروں کے فن میں آفاقیت کے عناصر کو دیکھنے اور ان کی معنویت کو کماحقۂ سمجھنے کے باوجود ہم قومی شعور کی بنیاد پر اور ان کی قومی شناخت کے حوالے سے بھی ان سب بڑے ادیبوں کو یاد کرتے ہیں اور ان کے فن کی دونوں جہتوں کو سامنے رکھتے ہوئے داد و تحسین کے کلمات کہتے ہیں۔
ہمارے یہاں پاکستانی یا قومی ادب کا سوال قیامِ پاکستان کے ایک آدھ سال بعد محمد حسن عسکری نے سب سے پہلے اٹھایا تھا۔ اس سوال کی مختلف جہتوں پر عسکری صاحب نے واضح نکتۂ نظر کے ساتھ گفتگو کی تھی۔ اس گفتگو کے مباحث میں ادیب کی اپنی ریاست اور قوم سے وفا داری کا پہلو بھی شامل تھا۔ تاہم جیسا کہ ابتدا میں عرض کیا گیا، ہماری ادیب شاعر برادری نے اس سوال پر زیادہ دھیان نہیں دیا۔ بعض لوگوں نے تو کھلے لفظوں میں اس کی مخالفت بھی کی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ ادیب کی ریاست سے وفاداری اس کے فن کی معنویت کو محدود کردے گی۔
اس لیے کہ وہ کسی قوم کا نہیں، بلکہ پوری انسانیت کا علم بردار ہوتا ہے۔ بادی النظر میں یہ بات درست معلوم ہوتی ہے۔ تاہم جب ہم اس پر غور کرتے ہیں تو مسئلے کی اصل نوعیت کھل کر سامنے آتی ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ ادیب کی اپنی قوم یا ریاست سے وفاداری کا مطلب انسانی قدروں کے منافی افکار کا اثبات نہیں ہے۔ اس کے برعکس ادیب اپنی مقامیت کے دائرے میں بھی انھیں قدروں کی پاس داری کرتا ہے جو بڑے یعنی آفاقی تناظر میں دراصل انسانیت سے اس کی غیر مشروط وابستگی کی بنیاد بنتی ہیں۔ ادیب کی مقامیت اور وابستگی کے وہ معنی نہیں ہوتے جو ایک سیاست دان کے لیے ہوتے ہیں۔
سیاست دان کی نگاہ محدود اور اُس کی وابستگی مشروط ہوتی ہے، جب کہ ادیب کا معاملہ اس کے برعکس ہوتا ہے۔ ادیب کی مقامیت اُس کی آفاقیت کی راہ میں حائل نہیں ہوتی، بلکہ اس کی مقامیت اس کے لیے آفاقیت کے حوالوں کو نمایاں کرنے میں خود ایک کردار ادا کرتی ہیں۔ یوں وہ مقامیت سے آفاقیت کی طرف سفر کرتا ہے۔
آفاقیت کوئی مجرد شے نہیں ہوتی کہ ہر فن کار اُسے اپنے گمان کے مطابق اختیار کرنے کی کوشش کرتا ہوا ملے۔ قومیت یا مقامیت کی طرح اُس کے لیے بھی کچھ ٹھوس اصول اور عناصر ہوتے ہیں۔ ایک سچا، بڑا اور انسان دوست فن کار ان اصولوں اور عناصر کو وہبی اور فطری سطح پر از خود اختیار کرتا ہے۔ یہ عناصر خارجی سطح پر کچھ بہت کامیابی اور آسانی سے کسی فن کا حصہ نہیں بنتے اور نہ ہی کوئی فن کار کسی مکتب میں کوئی آموختہ پڑھ کر ان کو اپنانے کی تعلیم حاصل کرسکتا ہے۔ یہ تو اندر کی روشنی کی طرح خود اُس کے فن میں سرایت کرتے اور راہ پاتے ہیں۔ بڑا ادیب اور بڑا ادب وفاداری بشرطِ استواری کا ایک رخ بھی اپنے فن میں سامنے لاتا ہے۔
یہ رُخ سب سے پہلے اُس کے فن میں قومیت یا مقامیت کے حوالے سے ہمیں دکھائی دیتا ہے۔ اس لیے کہ وہ جنگل یا بیابان میں بیٹھ کر تخلیقی عمل سے نہیں گزرتا، بلکہ انسانوں کے بیچ رہتا ہے۔ یہ انسان، ان کی صورتِ حال اور اردگرد کے حقائق سبھی مل کر اس کے فن کی نمود میں حصہ لیتے ہیں۔ جب اپنے فن میں وہ ان حقائق کو، ان لوگوں کو اور ان حالات کو بہ روے کار لاتا ہے تو دراصل اس حقیقت کا اعتراف کرتا ہے کہ ان سب سے اس کا سچا اور گہرا رشتہ ہے۔ جب وہ اپنے فن میں عصری اور مقامی جہت سے معنویت کا اظہار کرتا ہے تو وہ حقیقت کے چھوٹے دائرے سے بڑے دائرے کی طرف ایک سفر کا آغاز کرتا ہے۔
ادب اور خصوصاً بڑے ادب کی تفہیم کے سلسلے میں ہمیں معنویت کے دو دائرے فراہم ہوتے ہیں، ایک وہ جس میں ادیب اپنے قومی شعور کے ساتھ ہمارے سامنے آتا ہے۔ اس مرحلے پر اس کے تخلیق کردہ ادب کو ایک لحاظ سے قومی ادب کے زمرے میں رکھا جاسکتا ہے، جب کہ دوسرے دائرے میں وہ اُن انسانی قدروں کا اثبات کرتا ہے جو اُسے آفاقیت کی سطح پر لے آتی ہیں۔ تاریخ کے اس مرحلے پر کہ جب تہذیبیں اور قومیں شناخت کے بحران سے دوچار ہیں، گلوبل ولیج میں انسانیت ایک بے شناخت اور مشینی طرزِ زندگی کی اسیر ہورہی ہے، کیا اس عہد کے ادیب کے لیے ضروری نہیں ہے کہ وہ اپنی قومی شناخت اور تہذیبی اقدار پر اصرار کرے اور ان کی بقا کا ہر ممکن سامان بھی؟ کیا وہ ادب آج زیادہ بڑا، اہم اور بامعنی نہیں سمجھا جانا چاہیے جو ایک جہت سے اپنی معنویت کا اظہار قومی دائرے میں کرتا ہو اور دوسری جہت سے وہ آفاقی انسانی قدروں کا بھی علم بردار ہو؟
The post ادب میں قومیت اور آفاقیت کا مسئلہ appeared first on ایکسپریس اردو.