وہ گلیوں میں آوارہ پھرتے، کھانے کی چیزوں کے لیے کچرے کے ڈھیر کا رخ کرتے اور رات سَر پر آتی تو کہیں پڑ کر سوجاتے ہیں۔ یہ بچے کہیں والدین کی کوتاہی اور غفلت کی وجہ سے گھروں سے نکل جاتے ہیں یا غربت کا عفریت ان کا بچپن بل کہ جیون ہی نگل لیتا ہے۔
مجبور والدین انھیں کسی موٹر مکینک یا کسی صاحبِ ثروت کے حوالے کردیتے جہاں وہ کام کا بوجھ ڈھونے کے دوران ذرا سی غلطی پر بری طرح مارے پیٹے جاتے ہیں اور پھر فرار کے سوا ان کے پاس کوئی راستہ نہیں رہتا۔ کہیں ماں باپ سے محروم ہونے کے بعد یہ بچے اپنے رشتے داروں کی موقع پرستی کا نشانہ بن جاتے ہیں اور پھر اپنے سَر پر آسمان کی چادر تان لینے اور زمین کو اپنا بچھونا بنانے ہی میں عافیت جانتے ہیں۔ معاشرے کی یہ بدنمائی اور انسانیت پر داغ مٹانے کی کوشش کرنے میں ایدھی سرفہرست رہا ہے۔ شہرقائد میں بہت سے یتیم خانے ایسے لاوارث بچوں کی پرورش کا کام انجام دے رہے ہیں۔
٭ ایدھی یتیم خانے
اس فیچر کی تیاری کے سلسلے میں جب ہم نے کورنگی نمبر پانچ پر قائم ایدھی چائلڈ ہوم کا دورہ کیا تو وہاں کا چمکتا ہوا فرش، صاف ستھری چھتیں، پلے ایریا اور سوئمنگ پول جیسی سہولیات نے یتیم خانوں کے حوالے سے ہمارے ذہن میں موجود تصور کو یکسر تبدیل کردیا۔ ان بچوں کو یہاں وہ سہولیات میسر نظر آرہی تھیں جو بہت سے بڑے نجی اسکولوں میں بھی دوسرے بچوں کو حاصل نہیں ہوتیں۔ کچھ بچے صاف ستھرے یونیفارم میں اپنا سبق دہرا رہے تھے، تو کچھ بچے پلے ایریا میں جمپنگ کیسل پر دنیا کے دُکھوں سے دور اچھل کود میں مصروف تھے۔
جب ایدھی چائلڈ ہوم کورنگی کے انچارج امان اﷲ سے گفت گو کا سلسلہ سے جُڑا تو پھر وقت گزرنے کا پتا ہی نہیں چلا۔ امان اﷲ کے مطابق کورنگی میں موجود یہ یتیم خانہ آج سے 35 سال پہلے بنایا گیا تھا اور اسے ایدھی فاؤنڈیشن کے پہلے یتیم خانے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ اس کے بعد سپر ہائی وے پر ایدھی ولیج قائم کیا گیا۔ ان کا کہنا ہے کہ کورنگی سینٹر میں ہم پانچ سے بارہ سال تک کی عمر کے بچوں کو رکھتے ہیں اس کے بعد انہیں سپرہائی وے پر ایدھی ولیج میں بھیج دیا جاتا ہے جہاں وہ اٹھارہ سال کی عمر تک رہتے ہیں۔ تاہم اگر کوئی بچہ اٹھارہ سال کے بعد بھی مزید تعلیم حاصل کرنا چاہتا ہے تو ہم اس کی رہائش کے ساتھ ساتھ تعلیمی اخراجات بھی اس وقت تک اٹھاتے ہیں جب تک کہ وہ اپنے پیروں پر کھڑا نہ ہوجائے۔
ہم اپنے یہاں پرورش پانے والے بچوں کی جوان ہونے تک ہر ممکن دیکھ بھال کرتے ہیں، انہیں ملازمتیں دلواتے ہیں، شادیاں کرواتے ہیں۔ یتیم بچوں کی شناختی دستاویزات (ب فارم ، شناختی کارڈز وغیرہ) کی بابت پوچھے گئے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ آج سے چھے سات ماہ قبل تک ان بچوں کی شناختی دستاویزات کا حصول جوئے شِیر لانے کے مترادف تھا لیکن اب نادرا نے یتیم بچوں کے ’ب‘ فارم اور دیگر دستاویزات بنانی شروع کردی ہیں۔ امان اللہ نے بتایا کہ ہمارے پاس بہت سے بچے ایسے بھی آتے ہیں جو پہلے بھی اپنے گھروں سے دو دو تین تین مرتبہ بھاگ چکے ہوتے ہیں اور اکثر ہمارے یہاں سے بھی بھاگ جاتے ہیں۔
یتیم خانوں سے بھاگنے والے بچوں میں اکثریت ایسے بچوں کی ہوتی ہے جو عمر میں تھوڑے بڑے ہوتے ہیں، کسی بری لت یا نشے کے عادی ہوتے ہیں۔ ایسے بچوں کی بحالی کے لیے ہم ان کا باقاعدگی سے علاج کرواتے ہیں، اور انہیں معاشرے کا ذمے دار فرد بنانے کے لیے دینی اور دنیاوی تعلیم کے ساتھ ساتھ فنی تعلیم بھی دیتے ہیں۔ کچھ بچے ہمارے پاس سے بھاگنے کے بعد دو چار دن بعد دوبارہ واپس آجاتے ہیں۔ بچوں کو بے اولاد افراد کو گود دینے کے حوالے پوچھے گئے سوال کے جواب میں ان کا کچھ یوں کہنا تھا: لاوارث بچوں کو گود دینے کے حوالے سے ہمارے اپنے کچھ قواعد و ضوابط ہیں جو کہ کچھ اس طرح ہیں:
1۔گود لینے والے جوڑے کی شادی کو کم از کم دس سال یا اس سے زاید کا عرصہ ہوچکا ہو۔
2۔ماں یا باپ میں سے کوئی ایک بانجھ پن یا کسی اور طبی وجہ کی بنا پر اولاد پیدا کرنے کے قابل نہ ہو۔
3۔ گود لینے والے جوڑے کے معاشی حالات اچھے ہوں مثلاً اچھی ملازمت یا کاروبار کرتا ہو۔
4۔گود لینے کا خواہش مند جوڑا کسی بری لت یا منشیات وغیرہ کا عادی نہ ہو۔
اگر کوئی ان تمام تر شرائط پر پورا اترتا ہے تو پھر ہم کاغذی کارروائی پوری کرکے بچے یا بچی کو ان کے حوالے کردیتے ہیں۔ یہاں میں آپ کو یہ بات بھی بتادوں کہ ہماری ذمے داری صرف یہیں ختم نہیں ہوتی بل کہ ہم اگلے تین چار سالوں تک اس بچے کی خیر خیریت معلوم کرتے رہتے ہیں۔ اب تک ہم تقریباً 5 ہزار بچے بے اولاد جوڑوں کو گود دے چکے ہیں۔ دیگر یتیم خانوں کے برعکس ہم ایسے بچوں کو بھی اپنے پاس داخل کرلیتے ہیں جن کی ماں یا باپ میں سے کسی ایک کا انتقال ہوچکا ہو۔
کچھ والدین ایسے بھی ہوتے ہیں جو اپنے معاشی حالات کی وجہ سے بچوں کو اچھی تعلیم، کپڑے اور کھانا مہیا نہیں کرپاتے اور ان کے روشن مستقبل کے لیے دل پر پتھر رکھ کر اپنی اولاد کو ہمارے پاس داخل کرادیتے ہیں۔ حکومتی سرپرستی کی جہاں تک بات ہے تو وہ آپ خود زیادہ بہتر سمجھ سکتے ہیں۔ بچوں کی تعلیم، یونیفارم، رہائش، کھانے پینے اور دیگر غیرنصابی سرگرمیوں کے لیے تمام تر اخراجات ایدھی فاؤنڈیشن اپنے پاس سے پورے کرتی ہے۔ ہم حکومت سے کسی امداد کے بجائے صرف ایک ہی مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ ہمارے شیلٹر ہومز کو صرف لوڈشیڈنگ سے مستثنیٰ قرار دے دیں تاکہ جنریٹر پر آنے والے اخراجات کو ہم کسی اچھی جگہ استعمال کرسکیں۔
٭انجمن حیات الاسلام یتیم خانہ، گرومندر
گرومندر پر واقع انجمن حیات الاسلام یتیم خانے کا شمار شہرقائد کے قدیم یتیم خانوں میں کیا جا تاہے ، جس کی بنیاد 1932 میں قائد اعظم کے قریبی ساتھی، تحریک پاکستان کے راہ نما اور آل انڈیا مسلم لیگ دہلی کے جنرل سیکریٹری مرحوم مولانا حامد علی قریشی نے ڈالی تھی۔1947 میں قیام پاکستان کے اعلان کے ساتھ ہی جہاں مسلمانوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ ٹوٹ پڑے اور لاکھوں مسلمانوں کو ہجرت کرنی پڑی۔
یہ فلاحی اور رفاہی ادارہ بے سروسامانی کی حالت میں دہلی سے کراچی منتقل ہوا۔ 25 دسمبر 1948کو اس ادارے کے تحت ایک دارالاطفال (یتیم خانے) کا قیام عمل میں لایا گیا جہاں یتیم بچوں کی کفالت کے ساتھ ساتھ ان کی تعلیم و تربیت کا بھی اہتمام کیا گیا۔ نوزائیدہ ملک پاکستان میں یتیم بچوں کی کفالت اور فلاح و بہبود کے حوالے سے کام کرنے والے اس ادارے کو ایسے خدا ترس اور مخیر حضرت کا ساتھ میسر آتا گیا جنہوں نے اس ادارے کی ترقی کے لیے دن رات کام کیا اور اس ادارے کو بام عروج پر پہنچادیا۔ انجمن حیات الاسلام آج یتیم بچوں کی کفالت اور انہیں فنی اور تیکنیکی تعلیم سے روشناس کرانے کے ساتھ ساتھ تعلیم کے فروغ میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہا ہے۔
اس انجمن کے تحت ایک دینی مدرسہ، ٹیکنیکل ہائی اسکول، حیات الاسلام پبلک اسکول اور ایک گرلز کالج قائم ہے، جہاں دورجدید کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے سستی اور معیاری تعلیم مہیا کی جاتی ہے۔ یوں یہ ادارہ تعلیم کے فروغ میں بھی نمایاں کردار ادا کر رہا ہے۔ اس ادارے کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ قائداعظم محمد علی جناح، شہید ملت لیاقت علی خان، محترمہ فاطمہ جناح، مولانا شبیر احمد عثمانی، سردار عبدالرب نشتر، سر عبداﷲ ہارون، مولانا شوکت علی جوہر، سابق صدر ایوب خان، حکیم محمد سعید، آئی آئی چندریگر، مولانا مفتی محمود، مولانا یوسف لدھیانوی، مولانا محمد یوسف بنوریؒ جیسی اہم شخصیات اس ادارے کی کارکردگی کو سراہتی رہی ہیں۔
انجمن حیات الاسلام یتیم خانے میں داخل ہوتے وقت ہمارے ذہن میں بھی منفی خیالات گردش کر رہے تھے، لیکن یتیم خانے میں ویڈیو گیم، فٹ بال اور کیرم بورڈ کھیلتے بچے، گرمی سے بچانے کے لیے اضافی دیوار گیر پنکھے، آرام و سکون سے صاف ستھرے بستروں پر محو استراحت بچوں، ہر بچے کے نام کے لاکر میں موجود دُھلے ہوئے کپڑوں اور صاف ستھرے باورچی خانے نے ہمیں چند لمحے کے لیے گومگو ں کی کیفیت میں مبتلا کردیا، کیو ں کہ ہم اب تک یتیم خانوں کو ایک جیل ہی تصور کرتے آئے تھے۔ انتظامیہ کی جانب سے ڈسپنسری اور ایک کلینک بھی بنایا گیا ہے، جہاں دن میں بیک وقت دو ڈاکٹر نہ صرف یتیم خانے میں داخل بچوں بل کہ اطراف کے علاقوں سے آنے والے مریضوں کا علاج بھی کرتے ہیں۔
آج یہ ادارہ کسی حکومتی سرپرستی کے بغیر مخیر افراد کی بدولت اپنی بقا کی جنگ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اس حوالے سے اس کے منتظم محمد ذیشان کا کہنا ہے کہ معاشرے کے یتیم اور لاوارث بچوں کو معاشرے کا مفید فرد بنانے میں یتیم خانوں کا کردار نہایت اہمیت کا حامل ہے کیوں کہ اگر ہم ان بچوں کو رہنے کے لیے جگہ اور کھانے کے لیے کھانا فراہم نہ کریں تو پھر یہ جرائم پیشہ افراد کے ہاتھوں میں چلے جاتے ہیں۔ ایسے بچوں کو درست راہ پر گام زن کرنے میں یتیم خانوں کا اہم کردار ہے۔
ہم پانچ چھے سال کی عمر میں بچوں کو اپنے یتیم خانے میں داخل کرتے ہیں اور اگلے دس بارہ سالوں میں اس کی اخلاقی تربیت، تعلیم و تربیت، فنی علوم سکھاکر اس کی صلاحیتوں کو نکھارنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہماری کوشش ہوتی ہے کہ ہم اسے اتنا پڑھا لکھا دیں یا ایسا کوئی ہنر سکھا دیں، اسے شعور دیں، اچھے برے کی پہچان بتائیں تاکہ وہ معاشرے میں اپنا کردار بہتر طریقے سے ادا کر سکے۔
ہم اپنے یہاں داخل ہونے والے تمام بچوں کو میٹرک تک تعلیم دیتے ہیں۔ یہاں اپنی زندگی کا ایک طویل عرصہ گزارنے کے بعد جب یہ بچے باہر جاتے ہیں تو انہیں کچھ مسائل کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ ہم بچے کی ذہنی تربیت اس طرح کرتے ہیں کہ وہ برائی کو برائی سمجھتا ہے اور اس کے بعد بھی ہم اسے بالکل چھوڑ نہیں دیتے، اگر وہ مزید پڑھنا چاہتا ہے تو ہم اس کے لیے کالج یا اس سے آگے کے تمام تعلیمی خرچے، کورس، فیس کتابیں بھی فراہم کرتے ہیں۔ اس طرح وہ ہمارے ادارے سے مزید چار سال جُڑا رہتا ہے۔
ہم ہر بچے کو ٹیکنیکل تعلیم دیتے ہیں ، کمپیوٹر اور دیگر ٹیکنالوجیز کے کورسز کرائے جاتے ہیں، میٹرک بھی ہم ٹیکنیکل بورڈ سے کرواتے ہیں۔ ہماری ممکنہ حد تک کوشش یہی ہوتی ہے کہ ہمارے پاس سے جانے والا ہر بچہ اپنی آگے کی زندگی کو اچھی طرح گزار سکے۔ ہمارے یہاں سے پاس آؤٹ ہونے والے بچے زندگی کے بہت سے شعبہ جات میں سرگرم عمل ہیں، یہاں سے جانے والے بہت سے بچے فوج میں، بیوروکریسی میں اہم عہدوں پر فائز ہیں۔ یہ بچے معاشرے کے مختلف شعبوں میں بھی فعال ہیں، بیرون ملک اچھی ملازمتیں کر رہے ہیں۔
یہاں سے جانے والے بہت سے بچے اب ہمیں ڈونیشن دیتے ہیں۔ وہ اپنی مادر علمی کو نہیں بھولتے، کیوں کہ انہوں نے یہاں اپنی زندگی کا قیمتی عرصہ گزارا ہوتا ہے۔ یہ بچے اب بھی ہمارے پاس آکر بچوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ انہیں بتاتے ہیں کہ کیسے انہوں نے اسی یتیم خانے سے اپنی زندگی کا آغاز کیا تھا۔ جگہ کی تنگی کی وجہ سے ہم صرف لڑکوں ہی کو اپنے یہاں داخل کرتے ہیں۔
یتیم خانوں کے حوالے سے ایک بات یہ بھی مشہور ہے کہ وہاں بچوں سے مار پیٹ یا ان سے بدسلوکی کی جاتی ہے تو اس کے بارے میں یہی کہوں گا کہ اصلاح کے دو ہی طریقے ہوتے ہیں اول یہ کہ بچے کو مارپیٹ کر راہ راست پر لایا جائے یا پھر اسے پیار محبت سے سمجھایا جائے۔ تو ہم نے بچوں کی اصلاح کے لیے دوسرا راستہ اختیار کیا ہے۔ بچے اگر کوئی غلطی کرتے بھی ہیں تو وہ خاموشی سے آکر ہمیں بتادیتے ہیں۔ لہٰذا ہمیں بچوں کی پٹائی کی ضرورت ہی پیش نہیں آتی۔ جہا ں تک بات ہے اس کام میں سرکاری سرپرستی کی تو سرکاری سطح پر یتیم بچوں کی سرپرستی کے لیے نہ تو کو ئی ادارہ فعال ہے اور نہ ہی وہ اس سلسلے میں ہماری کوئی مدد کرتے ہیں۔
اصولاً تو یہ حکومت کی ذمے داری ہے کہ وہ نجی طور پر بنے یتیم خانوں میں داخل بچوں کے اعداد و شمار مرتب کر کے ان کی فلاح کے لیے کوئی منصوبہ بندی کرے۔ ان میں تعلیم و تربیت کے لیے حکومتی سطح پر کوئی جگہ مختص کرے یا اس کام میں ان سے تعاون کرنے والے اداروں کی مدد کرے، لیکن 1948سے اب تک کسی ادارے نے ہم سے اس سلسلے میں رابطہ نہیں کیا ہے۔
ہم اپنے طور پر اپنا ریکارڈ مرتب کرتے ہیں۔ کچھ سرکاری محکمے کبھی کبھار ہم سے رابطہ کرتے ہیں، لیکن وہ بھی بچوں کے بجائے ہمارے فلاحی ادارے کی معلومات اکٹھی کرتے ہیں۔ یتیم خانے کے قیام کے لیے کسی قانون کی موجودگی کے بارے میں پوچھے گئے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ: صرف یتیم خانے کے قیام کے لیے میری نظر میں حکومت کی جانب سے کوئی قانون موجود نہیں ہے، لیکن کسی بھی فلاحی ادارے کے قیام کے لیے حکومت کا ایک طریقہ کار ہے جس کے تحت اس ادارے کو عطیات یا چندہ جمع کرنے کی منظوری دی جاتی ہے۔
یتیم خانوں کے بارے میں ایک بات یہ بھی مشہور ہے کہ وہاں سے فرار ہونے والے بچوں کی تعداد بہت زیادہ ہے، اس بات کو میں واضح کردوں کہ بچوں کا بھاگ جانا کوئی غیرمعمولی بات نہیں ہے، کیوں کہ یتیم خانوں یا فلاحی اداروں میں ہر کسی کو زنجیروں سے باندھ کر تو نہیں رکھا جاسکتا۔ بہت سے بچے ایسے ہوتے ہیں جو مزاجاً کسی ایک جگہ پر مستقل نہیں رہ سکتے ، یا پڑھنا نہیں چاہتے یا ہوسکتا ہے کہ وہ اس جگہ پر نہ رہنا چاہتا ہوں تو وہ وہاں سے فرار اختیار کر لیتے ہیں۔ بہت سے بچے ایسے ہوتے ہیں جو دنیاوی تعلیم میں دل چسپی نہیں رکھتے۔ ہمارے پاس بھی ایسے کچھ بچے ہیں جو یہاں نہیں رہنا چاہتے تو وہ ہم سے اجازت لے کر چلے جاتے ہیں، لیکن ادارے کے دروازے ان کی واپسی کے لیے ہمیشہ کُھلے رہتے ہیں۔
ہم کسی بچے کو زبردستی اپنے پاس نہیں رکھتے، کیوں کہ جب ایک بچہ رہنے پر راضی نہیں ہے تو وہ کبھی نہ کبھی فرار اختیار کرلے گا۔ ایسے واقعات صرف یتیم خانوں ہی میں نہیں بل کہ مدارس وغیرہ میں بھی رونما ہوتے رہتے ہیں۔ لیکن ضروری نہیں کہ ایسا ہر ادارے میں ہو، ہمارے ادارے میں کچھ لوگ تو ایسے بھی ہیں جنہوں نے اپنا بچپن یہی گزارا اور اب ہمارے ساتھ ہی کام کر رہے ہیں۔
ہمارے پاس روزانہ کی بنیاد پر ایسے کیسز بھی آتے ہیں جن میں بچے کے والدین حیات ہوتے ہیں یا دونوں میں ایک فوت ہوچکا ہوتا ہے، اور بچے کا والد یا والدہ غربت کی وجہ سے ہمارے پاس آتے ہیں کہ جی ہم انہیں پال نہیں سکتے اچھا کھلا نہیں سکتے یا انہیں اچھی تعلیم نہیں دے سکتے، لہٰذا آپ انہیں اپنے یہاں داخل کرلیں۔ اس طرح کے واقعات دیکھ کر د ل تو بہت دُکھتا ہے، لیکن ہم انہیں دلاسا دے کر واپس بھیج دیتے ہیں، کیوں کہ وسائل کی کمی کی وجہ سے ہم انہیں اپنے پاس نہیں رکھ سکتے۔
کچھ بچے ایسے بھی ہوتے ہیں جن کے ماں باپ تو نہیں ہوتے، لیکن ماموں، چاچا یا دوسرے رشتے دار ہوتے ہیں جو ان کے سرپرست تو ہوتے ہیں، لیکن معاشی مسائل کی وجہ سے وہ ان کی ٹھیک طریقے سے پرورش نہیں کرسکتے اور بچوں کو ہمارے یہاں داخل کرادیتے ہیں۔ بہت سے یتیم خانوں سے بے اولاد جوڑے بچے گود لیتے ہیں، لیکن ہم نے یہ روایت نہیں رکھی، چناں چہ اس سلسلے میں ہمارے ادارے میں کوئی قواعد وضع نہیں کیے گئے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ بچوں کو کسی انجان فرد کو گود دینا بذات خود ایک بہت حساس معاملہ ہے۔
ہمارے پاس جو بچے آتے ہیں وہ تھوڑے بڑے اور سمجھ دار ہوتے ہیں اور ان کے لیے منہ بولے ماں باپ کو قبول کرنا مشکل کام ہوتا ہے، کیوں کہ اس عمر میں بچوں کے ذہن میں ہوتا ہے کہ جی یہ میرے حقیقی والدین نہیں ہیں تو وہ ان کی صحیح بات کو بھی منفی لیتے ہیں جس کا نتیجہ بگاڑ کی شکل میں نکلتا ہے۔ ہمارے پاس ایک وقت میں اسی بچے ہوتے ہیں ایک وقت سے مراد یہ ہے کہ جب کچھ بچے پاس آؤٹ ہوجاتے ہیں تو ہم ویٹنگ لسٹ میں موجود نئے بچوں کو اپنے یہاں داخل کرلیتے ہیں عموماً ہمارے یہاں داخلے رمضان کے بعد ہوتے ہیں، لیکن فی الوقت ہمارے پاس بیک وقت 80 بچوں کی رہائش، تعلیم اور کھانے پینے کے اخراجات کی گنجائش ہے۔
ساتھ برقرار
32سالہ محمد یوسف پانچ سال کی عمر میں انجمن حیات الاسلام یتیم خانے میں داخل ہوئے تھے۔ اپنی محنت اور قابلیت کی بدولت وہ کسی بھی ادارے میں اچھی ملازمت حاصل کرسکتے تھے مگر انہوں نے اپنی مادرعلمی ہی کو اپنی خدمات سونپ دی ہیں۔
اُن کا کہنا ہے کہ جب 1993میں پہلی بار انہوں نے یہاں قدم رکھا تو دل میں بہت وسوسے اور خدشات تھے، لیکن یہاں کے اسٹاف کے دوستانہ رویے ان تمام تر خدشات کو دور کردیا۔ اس کے بعد اس ادارے سے ایسی انسیت ہوئی کہ تعلیم حاصل کرنے کے بعد اسی ادارے سے بہ حیثیت سپر وائزر وابستہ ہوں۔
خوب صورت آنکھوں میں چمکتی روشن مستقبل کی آس
انجمن حیات الاسلام یتیم خانے میں موجود ہر بچے کی اپنی الگ کہانی ہے۔ کسی کو ڈاکٹر بننا ہے، کسی کو انجنیئر، کسی بچے کی آنکھوں میں فوجی بن کر ملک و قوم کی خدمت کا مصمم ارادہ تو کوئی خود میں شاہد آفریدی کا عکس تلاش کرتا نظر آتا ہے۔ یہاں رہنے والے بچوں اور دوسرے بچوں میں ایک بات مشترک ہے اور وہ ہے کرکٹ کھیلنے کا جنون۔
ایک لانگ شاٹ پر گیند کو دیواروں کی قید سے آزاد کرانے والے آٹھویں کلاس میں زیرتعلیم تیرہ سالہ جلال نے تین سال قبل یہاں قدم رکھا۔ الیکٹریشن کا سیکھنے والے جلال کا ارادہ مستقبل میں کرکٹر بننے کا ہے۔ یتیم بچوں کے کرکٹ میچ میں ایک ناظر کی حیثیت سے سنجیدگی سے دیوار کے ساتھ ٹیک لگائے بارہ سالہ زبیر کی خواہشات قدرے مختلف ہیں۔ چھے سال قبل یتیم خانے میں آنے والا زبیر بڑا ہوکر فوج میں بھرتی ہونا چاہتا ہے۔ پانچویں کلاس میں پڑھنے والے زبیر کا کہنا ہے کہ میں فوجی ہی بنوں گا چاہے مجھے فوج میں کوئی بھی کام کرنا پڑے۔
انہی بچوں میں دس سالہ علی حیدر بھی شامل ہے جو ابھی سے بچوں میں ’ فوجی‘ کے نام سے مشہور ہے۔ دوسری کلاس میں زیرتعلیم علی حیدر کا ارادہ بھی مستقبل میں فوج میں جانے کا ہے۔ تیسری کلاس کے طالب علم گیارہ سالہ حسیان کا ارادہ بھی مستقبل میں کرکٹر بننے کا ہے ۔
کچھ نجی یتیم خانوں کا گریز
اس فیچر کی تیاری میں کراچی میں قائم کچھ نجی یتیم خانوں کا دورہ کرنے کی اجازت طلب کی گئی ، جن میں سے کچھ نے چند روز ٹال مٹول کے بعد منع کردیا۔ کچھ اداروں نے اپنے اداروں کے اعلیٰ حکام سے ای میلز پر اجازت طلب کرنے کا کہا، لیکن آخر تک کسی ای میل کا جواب نہیں دیا گیا، جس کی بنا پر ان اداروں کا موقف اور ان کے بنائے گئے یتیم خانوں کا احوال اس فیچر کا حصہ نہیں بن سکا۔
٭پاکستان بیت المال کے تحت چلنے والے یتیم خانے
کراچی میں پاکستان بیت المال کے تحت چلنے والے سوئٹ ہوم کی انتظامیہ سے تما م تر کوششوں کے باوجود کوئی رابطہ نہیں ہوسکا۔ تاہم پاکستان بیت المال کی ویب سائٹ پر موجود سوئٹ کی کچھ تفصیلات یہاں بیان کی گئی ہیں۔ حکومت پاکستان کی جانب سے یتیم بچوں کی کفالت کے حوالے سے پاکستان بیت المال نے ملک کے بڑے شہروں میں سوئٹ ہومز کے نام سے یتیم خانے قائم کیے ہیں، جہاں ہر مرکز میں4سے6 سال تک کے سو یتیم بچوں کو داخل کیا جاتا ہے۔
بیت المال کی ویب سائٹ کے مطابق سوئٹ ہومز والدین کی شفقت سے محروم ہوجانے والے بچوں کو ان کی عزت نفس مجروح کیے بغیر انہیں باوقار زندگی گزارنے کا موقع فراہم کررہے ہیں۔ حکومت پاکستان کی جانب سے ان بچوں کو مفت معیاری تعلیم رہائش اور خوراک سمیت تمام تر بنیادی ضروریات زندگی مہیا کی جاتی ہیں۔
The post جہاں بے آسرا بچپن پرورش پاتا ہے appeared first on ایکسپریس اردو.