پاک افغان تعلقات کی تاریخ بداعتمادی سے بھری پڑی ہے، جس میں ہر آنے والے دن کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہے۔
پاکستان کے خلاف جو افسوسناک واقعات کابل میں پیش آتے ہیں، ان پر دُکھ بھی ہوتا اور تشویش بھی۔ یوں کہنا زیادہ بہتر ہو گا کہ افغانستان مکمل طور پر بھارت کی کالونی میں تبدیل ہو چکا ہے۔ راقم کو پاکستانی صحافیوں کے ایک وفد کے ساتھ 6 مئی سے 10 مئی تک افغانستان میں قیام کا موقع ملا۔ قیام کے دوران سابق صدر حامد کرزئی ٗ چیف ایگزیکٹو عبد اللہ عبد اللہ ٗ قومی سلامتی کے مشیر حنیف اتمر کے علاوہ صدر اشرف غنی سے ملاقاتیں طے تھیں لیکن آخری روز ایوان صدر سے رابطے پر ’’خاموشی‘‘ ہی ملی یعنی نہ انکار اور نہ اقرار۔
مجموعی طور پر یہ دورہ اس حوالے سے بھی معلومات افزاء رہا کہ پاکستان کے بارے میں متفقہ افغان سوچ کا اندازہ انٹرنیٹ پر موجود مواد پڑھ کر نہیں ہو سکتا۔ یہ بات قطعی طور پر طے ہے کہ افغانستان مکمل طور پر بھارت کے زیرِ اثر ہے۔ اس سلسلے میں بھارت امریکہ اور دیگر ممالک نے مل کر زبردست پلاننگ کی ہے۔ افغان عوام کی سوچ کو تبدیل اور پاکستان مخالف جذبات کو ہوا دینے کے لئے بہترین ہتھیار ’’افغان میڈیا‘‘ ہے جس پر اندھا دھند کام کیا گیا ہے۔
افغان میڈیا کی کوئی آزاد پالیسی نہیں میڈیا کے نمائندگان جو بظاہر اس بات کا اعادہ کرتے ہیں کہ ان کا میڈیا ہر طرح سے آزاد ہے اور وہ صرف اپنے قومی مفاد کو سامنے رکھتے ہیں، کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ افغان میڈیا کے کے نزدیک افغانستان میں ہونے والی ہر خرابی پاکستان کی پیدا کردہ ہے۔ اس تاثر کو بنانے، پروان چڑھانے اور مضبوط کرنے میں انہیں غیر ملکی تنظیموں USAID اور دیگر کی مکمل اور کھلی حمایت حاصل ہے۔ الیکٹرانک چینل سرشام پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی شروع کرتے ہیں اور دشنام طرازی پر ان کی نشریات کا اختتام ہوتا ہے۔ رہی سہی کسر فیس بک ٗ ٹیوٹر اور واٹس ایپ پر پوری کی جاتی ہے۔
افغانستان کی حکومت ’جس کی سربراہی ڈاکٹر اشرف غنی کر رہے ہیں‘ کی پالیسی میں سب سے زیادہ توجہ ’’میڈیا ہینڈلنگ‘‘ پر دی جا رہی ہے ۔عوام میں میڈیا کے ذریعے پاکستان کے خلاف ہیجانی کیفیت سوچے سمجھے منصوبے کے تحت پیدا کی جا رہی ہے اور اگر اس ہیجانی کیفیت اور نفرت انگیز صورتحال میں اضافہ ہوتا رہا تو اندیشہ ہے کہ افغانستان میں مقیم پاکستانی بالخصوص پاکستانی سفارت خانہ کہیں کسی دن عوامی غیض وغضب کا نشانہ نہ بن جائے۔ اس طرح کا ایک واقعہ 1995ء میں ہو چکا ہے جس میں سفارت خانے کو آگ لگا دی گئی تھی۔
یہ ایک طے شدہ پالیسی کا حصہ ہے کہ جب کبھی دونوں ممالک کے تعلقات میں بہتری لانے کی کوشش کی جاتی ہے ، کوئی ایسا افسوسناک واقعہ پیش آجاتا ہے جو تمام محنت پر پانی پھیر دیتا ہے۔ پاکستان نے تعلقات کے فروغ کے لئے اگر چہ بہت سے اقدامات کئے لیکن افغان اشرافیہ اور میڈیا کسی ایسی کاوش کو تسلیم کرنے کے لئے تیار ہی نہیں۔ حال ہی میں ڈائریکٹر جنرل آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل نوید مختار ٗ سردار ایاز صادق کے زیرقیادت پارلیمانی وفد اور چیف آف جنرل سٹاف جنرل بلال اکبر کے افغانستان کے دورے انتہائی اہمیت کے حامل تھے۔ اُمید تھی کہ شاید ان اعلیٰ سطحی وفود اور دوروں کے بعد صورتحال میں بہتری آ جائے گی لیکن اس کے فوراً بعد سپین بولدک کا واقعہ پیش آگیا۔
سردار ایاز صادق ’جو نہایت ٹھنڈے مزاج کے سنجیدہ سیاست دان ہیں‘ کابل جانے سے پہلے خاصے پُراُمید تھے واپسی پر افسردہ دکھائی دیئے۔ پارلیمانی وفد کے ذرائع کے مطابق صدر اشرف غنی نے انتہائی تلخ لہجہ اپنائے رکھا اور پاکستان کے بارے میں کچھ ایسے جذبات کا اظہار کیا جو پاکستانی وفد کے لئے حیران کن ہی نہیں مایوس کن بھی تھا۔ پاکستانی پارلیمانی وفد کو انتہائی کم سطح کا پروٹوکول دیا گیا اور وزارت خارجہ کے ایک جونیئر اہلکار نے وفد کا استقبال کرکے افغان حکومت کا موڈ بتادیا۔اس انتہائی تناؤ کی صورتحال کے باوجود پاکستان کی وزارت خارجہ نے تیرہ رکنی پاکستانی میڈیا کے وفد ’جس میں سینئر ایڈیٹرز ٗ اینکر پرسنز شامل تھے‘ کو جانے کی اجازت دی ۔
کابل میں موجود پاکستانی سفارت خانہ انتہائی مشکل حالات میں نہایت صبر اور تحمل سے جان ہتھیلی پر رکھ کر خوف کی کیفیت میں دونوں ممالک کے تعلقات میں بہتری لانے کی کوشش کر رہا ہے۔ پاکستانی سفارت کار بلٹ پروف گاڑیوں کے بجائے عام گاڑیوں میں کابل جیسے پاکستان مخالف شہر میں اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔
پاکستان کے ڈپٹی ہیڈ آف مشن کو تقریباً روزانہ وزارتِ خارجہ طلب کیا جاتا ہے۔ رسوائے زمانہ افغان انٹیلی جنس ادارہ این ڈی ایس سفارتی عملے کو مختلف طریقوں سے ہراساں کرتا ہے۔ ٹریفک میں رش کے دوران پاکستانی سفارت کاروں کی گاڑیوں کے قریب آکر پاکستان کو گالیاں د ی جاتی ہیں۔ پاکستانی پرچم کی توہین تو عام سی بات ہے۔
ان حالات میں بھی سفارت خانے کے پریس سیکشن کے سربراہ اختر منیر خان نے میڈیا وفد کے لئے ایک جامع پلان تشکیل دیا تھا۔ کابل پہنچتے ہی پہلا مکالمہ NAI کے دفاتر میں ہوا جو افغانستان میں پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے فروغ کے لئے کام کر رہا ہے۔ اس ادارے کو USAID اور دیگر غیر ملکی این جی اوز فنڈنگ کر رہی ہیں۔ اس مجلس میں افغان میڈیا کے سرخیل اور شمشاد ٹی وی کے چیف ایگزیکٹو نسیم پشتون نے پاکستان کو ہر برائی کا ذمہ دار قرار دیا جبکہ وہ بھارت اور خطے کے دیگر ممالک بالخصوص ایران کی افغانستان میں سرگرمیوں کو نظرانداز کر گئے۔ نسیم پشتون نے پاکستان سے صحافت میں ماسٹرز کیا ہے وہ کئی سال پشاور اور اسلام آباد میں مقیم رہے ہیں۔
اس تمام تر پس منظر کے باوجود ان کے لہجے کی تلخی ظاہر کرتی تھی کہ وہ پاکستان کے بارے میںانتہائی منفی رائے رکھتے ہیں ۔ ان کا اصرار تھا کہ ان کا چینل کسی کے زیرِ اثر نہیں لیکن پھر خود ہی انہوں نے بتایا کہ بعض ادارے ASSISTANCE کر رہے ہیں، ایسے میں وہ کس کی زبان بول رہے تھے ان کی مجبوری کا وفد کے تمام اراکین نے اندازہ لگالیا۔ افغان میڈیا مکمل طور پر بین الاقوامی اداروں کی فنڈنگ پر چل رہا ہے۔
بھارت نے افغان میڈیا پر ڈالرز کی بارش کی رکھی ہے، یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے بارے میں ان کے پاس شکوؤں کی طویل فہرست ہے۔ رابطوں کا فقدان بھی اس کی ایک وجہ ہے جس کو اسی صورت میں تبدیل کیا جا سکتا ہے کہ دونوں ممالک کے مابین زیادہ سے زیادہ رابطے ٗ ملاقاتیں اور مذاکرات ہوں۔ کیونکہ افغانستان کے عوام پر میڈیا کا خاصا اثر ہے شاید سیاسی رہنما افغان عوام کو اتنا متاثر نہ کر سکیں جتنا افغان میڈیا ان کا ذہن تبدیل کر سکتا ہے۔ صرف میڈیا ہی نہیں بیورو کریسی بھی بھارتی لابنگ کے مکمل طور پر زیراثر ہے۔
پاکستان کی کوئی کوشش ٗ کوئی مساعی اور کوئی اچھا کام افغانوں کو مطمئن نہیں کر تا۔اس تمام تر مخالف فضاء کے باوجود پاکستان نے پانچ سو ملین ڈالر کی لاگت سے کابل اور جلال آباد میں تین ہسپتال قائم کئے ہیں۔ شاہراہیں تعمیر کی جا رہی ہیں۔
’’پاک افغان دوستی زندہ باد‘‘ کے نعروں والی بسیں بھی کابل کے عوام کی خدمت میں مصروف ہیں۔ دس ہزار سے زائد افغان طالب علم پاکستانی اسکالر شپس پر تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ لیکن افغان لوگوں پر اس کا کوئی اثر نظر نہیں آتا۔ یہ نامساعد حالات اپنی جگہہ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ افغانستان اور پاکستان ایک دوسرے سے منسلک ہیں اور رہیں گے کیونکہ ہمسایے کبھی تبدیل نہیں ہو سکتے۔ یہی وجہ ہے کہ افغانستان اس صورتحال سے فائدہ اُٹھا کر پاکستان پر دباؤ میں اضافہ کر رہا ہے۔
پاکستان کی مجبوری ہے کہ خطے بالخصوص وسط ایشیاء چین اور روس سے تعلقات کے فروغ کے لئے پاکستان کو افغانوں کے ناجائز نخرے بھی برداشت کرنے پڑ رہے ہیں۔ اسی چیز کا افغان حکمران اور اشرافیہ فائدہ اُٹھا رہی ہے لیکن یہ بات سمجھنے سے قاصر ہے کہ افغانستان میں ترقی اور استحکام کا راستہ پاکستان سے ہو کر ہی جاتا ہے۔
فوج پاکستان کا مضبوط ادارہ ہے جو دشمن کی آنکھ کا شہتیر ہے جو آج کل افغان عوام اور میڈیا کی ہدفِ تنقید کا نشانہ ہے۔ بھارت امریکہ اور دیگر قوتیں میڈیا کے ذریعے فوج کے خلاف بھرپور پراپیگنڈہ کر رہی ہیں۔ چیف ایگزیکٹو عبد اللہ عبداللہ اور حامد کرزئی نے یہاں تک کہا کہ وہ پاکستانی عوام اور حکومت کے خلاف نہیں ٗ پاکستان میں جمہوری حکومتیں بے بس ہیں اصل اختیار اور طاقت فوجی اداروں کے پاس ہے جو افغانستان میں امن نہیں چاہتے۔
حامد کرزئی نے پاکستانی وفد کے ساتھ تقریباً پونے دو گھنٹے تک گفتگو کی۔ دوران گفتگو فضاء میں تناؤ بھی آیا لیکن مجموعی طور پر حامد کرزئی نے اپنی روایتی پالیسی اپناتے ہوئے فوج کو افغانستان کے مسائل کا ذمہ دار ٹھہرایا۔ حقانی نیٹ ورک اور طالبان کی حمایت کا ذمہ دار قرار دیا۔ انہوں نے راقم کے سوال کے جواب میں ڈھٹائی سے تسلیم کیا کہ بھارتی نام نہاد سرجیکل سٹرائیکس کی حمایت انہوں نے تین بار کی کیونکہ وہ پاکستان کو دہشت گردی کا ذمہ دار سمجھتے ہیں۔ وہ لشکر طیبہ اور حافظ سعید پر بھی گرجے برسے۔ انہوں نے کہا کہ وہ تعلقات میں بہتری کے خواہاں ہیں۔
پاکستان کو چاہئے کہ وہ افغانستان سے میڈیا کی سطح پر تعلقات قائم کرے، دونوں ملکوں کو چاہئے کہ وہ ماضی کو چھوڑ کر مستقبل کے لئے بات چیت کا آغاز کریں اور اپنے تعلقات کو تعاون و باہمی استحکام کی بنیادوں پر استوار کریں، وزیراعظم نواز شریف ایک محب وطن پاکستانی ہیں، انہوں نے پاکستان آنے کی دعوت دی ہے، رمضان شریف کے فوراً بعد پاکستان کا دورہ کریں گے۔تمام محب وطن افغانی اور پاکستانی دونوں ممالک کے تعلقات کی بہتری کے خواہاں ہیں۔ انہوں نے واضح کیا کہ ان کا دورہ پاکستان غیر مشروط ہو گا۔
پاکستان، فغانستان کو بھارت سے تعلقات منقطع کرنے کا کہتا ہے لیکن افغانستان ایک آزاد ملک ہے اس لحاظ سے تمام ممالک سے اپنے تعلقات قائم کرنے میں آزاد ہے۔ تاہم بھارت سمیت کسی کو بھی افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں دے گا۔ حامد کرزئی ’جو آج کل امریکہ سے نالاں ہیں‘ نے اس بات پر بھی پاکستان کو ہی موردِ الزام ٹھہرایا اور کہا کہ پاکستان امریکہ کا ایجنڈا افغانستان میں آگے نہ بڑھائے۔
دوسری ملاقات افغانستان کے چیف ایگزیکٹو عبد اللہ عبد اللہ سے تھی ان کے بارے میں عمومی رائے یہی ہے کہ وہ بھارت کے زیرِ اثر ہیں۔ ان کے اہل خانہ بھی بھارت میں رہائش پذیر ہیں۔ شمالی اتحاد کے یہ رہنماء پاکستان کے بارے میں سخت موقف رکھتے ہیں۔ لیکن حکومت میں آنے کے بعد انہیں کچھ حقائق کا اندازہ ہوا یا ان کے عہدے کا تقاضا تھا کہ وہ پاکستانی میڈیا کے سامنے پاکستان کے بارے میں احتیاط سے اظہار خیال کریں، اس لئے انہوں نے نپی تلی گفتگو کی۔ وہ ایک منجھے ہوئے سفارت کار دکھائی دے رہے تھے۔ انہوں نے اپنی گفتگو میں یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ وہ پاکستان سے اچھے تعلقات کار چاہتے ہیں۔
انہوں نے افغان جہاد کے دوران پاکستان کے کردار کی روایتی انداز میں تعریف بھی کی ساتھ ہی انہوں نے پاکستان کی حکومت کو بے بس حکومت قرار دیا۔ عبد اللہ عبد اللہ بالخصوص حامد کرزئی اور این ایس اے کے سربراہ حنیف اتمر کی باتیں سنیں تو ایسے لگتا ہے کہ وہ بہت معصوم ہیں۔ انہوں نے شہد سے میٹھی باتیں کیں اور یوں ظاہر کیا کہ پاکستانی عوام کے لئے ان کے دل کے دروازے کھلے ہیں لیکن حقیقت کیا ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ ان شخصیات نے یہ ظاہر کرنے کی بھرپور کوشش کی کہ وہ پاکستان کے ساتھ محبت کرتے ہیں، وہ پاکستان میں گزرے ایام کا بھی ذکر کرتے رہے پشتو اور اردو میں بھی گفتگو کرتے رہے، لیکن ان تمام رہنماؤں نے اپنا تمام تر غصہ افواجِ پاکستان پر اُتارا۔
نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر حنیف اتمر نے بھی تقریباً اسی قسم کی گفتگو کی۔ انہوں نے پاکستان کو افغانستان میں دہشت گردی کا ذمہ دار قرار دیا۔ کچھ باتیں انہوں نے آف دی ریکارڈ کیں۔ دل تو کرتا ہے کہ جس قسم کے خیالات کا انہوں نے اظہار کیا وہ بیان کر دیا جائے لیکن یہ حقیقت آڑے آتی ہے کہ حنیف اتمر ہوں یا عبد اللہ عبد اللہ یا کرزئی ٗ یہ شخصیات آنی جانی ہیں۔ پاکستان اور افغانستان کے عوام ایک دوسرے سے ہمسائیگی کے نہ ختم ہونے والے رشتے میں بندھے ہوئے ہیں دونوں ممالک کے عوام کے مفاد کا تقاضا ہے کہ ان کی زہریلی گفتگو کو آف دی ریکارڈ ہی رکھا جائے۔
اس تلخ ترین دورے کے تناؤ کو کم کرنے کے لئے پریس قونصلر اختر منیر نے آخری روز کابل کے نزدیک ایک سیاحتی مقام ’’کارغا‘‘ کی سیر کرانے کا اہتمام کیا۔ دریائے کابل کے کنارے یہ ایک پرفضاء مقام ہے جہاں کابل کے شور شرابے سے دور فیملیز کچھ وقت شہر کے شور سے دور پُرسکون ماحول میں گذارنے آتے ہیں۔ یہاں پُرتکلف ظہرانے کا اہتمام کیا گیا تھا۔ بعدازاں قریبی پہاڑوں پر Hicking کا پروگرام تھا۔ پہاڑ پر چڑھتے ہوئے کچھ مقامی لوگ پکنک منا رہے تھے۔ انہوں نے آواز دے کر ہمیں بھی بلایا اور تربوز سے تواضع کی۔ ان میں اکثر پشاور ٗ لاہور اور اسلام آباد میں رہ چکے تھے۔ان کی محبت اور گپ شپ ناقابلِ فراموش ہے۔ سب نے پاکستان میں گزرے دنوں کا ذکر کیا اور اس خواہش کا اظہار کیا کہ افغانستان کے حکمران پاکستان کی اہمیت کو سمجھیں اور نفرت کی فضاء کو کم کریں۔
اگر افغان قیادت بھارت کے اثر سے نکل کر آزادانہ فیصلے کرنے کے قابل ہو جائے تو افغانستان اور پاکستان ہر شعبے میں ترقی کر سکتے ہیں لیکن مستقبل قریب میں ایسا ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔
The post افغانستان مکمل طور پر بھارت کی کالونی میں تبدیل ہوچکا ہے appeared first on ایکسپریس اردو.