اللہ کریم کی عطا کردہ بے پناہ نعمتوں میں سے ایک بہت بڑی نعمت دیکھنے کی صلاحیت یعنی ’’بینائی‘‘ ہے اور جس کا وسیلہ آنکھ ہے۔
بسا اوقات آنکھ ہونے کے باجود یہ صلاحیت مفقود ہوتی ہے اور ایسی نعمت سے محروم فرد کے لیے قدرت کی رنگینیوں سے فیض یاب ہونا ناممکنات میں سے ہوجاتا ہے۔ پاکستان میں عموماً بینائی سے محروم افراد کے حوالے سے ایک مخصوص سوچ رواج کی حیثیت اختیار کرچکی ہے۔
بینائی /بصارت سے محروم افراد کو عام طور پر بازاری انداز سے پکار کر اخلاقی گراوٹ کا اظہار کیا جاتا ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان کی کل آبادی کا 2.5 فی صد اندھے پن کی مختلف حالتوں کا شکار ہے، جن میں سے ماہرین کے مطابق 80 فی صد قابل علاج ہیں۔ بینائی سے بہ تدریج محروم ہونے والے اور نسبتاً کم بینائی والے افراد کی تعداد میں متذکرہ اوسط میں شامل ہے۔ نابینا یا بصارت سے محروم افراد چوںکہ جسمانی معذور کہلائے جاتے ہیں، لہٰذا ان کی پرورش اور خصوصی تربیت انتہائی مشکل اور صبرآزما کام ہے۔
آفرین ہے ایسے عظیم والدین پر جو اپنے خصوصی بچوں کو زیورتعلیم سے بھی آراستہ کرتے ہیں اور ان کی ہر طرح کی ذہنی و جسمانی پرورش کے لیے اپنی باصبر شفقت کام میں لاتے ہیں۔ بصارت سے محروم خصوصی بچے دیگر جسمانی طور پر معذور بچوں سے بہت مختلف ہوتے ہیں اور خود کو بہت حد تک دوسروں کی مدد کے محتاج پاتے ہیں، جب کہ ان کے مقابلے میں دیگر جسمانی طور پر معذور بچے یا افراد کم محتاجی کی کیفیت سے دوچار رہتے ہیں۔ بینائی سے محروم افراد کے لیے پڑھائی کے لیے بھی اسپیشل سسٹم ہوتا ہے۔
بریل سسٹم کہتے ہیں تعلیم کے حصول میں بینائی سے محروم افراد کے لیے بریل سسٹم ایک نعمت سے کم نہیں بریل سسٹم ایک ایسا سسٹم ہے جس میں کتابوں میں حروف ابھرے ہوئے ہوتے ہیں اور بچے انہیں چھوکر محسوس کرکے ان کی ہیبت کا اندازہ لگاکر حروف کو سمجھ کر پڑھتے ہیں، جب کہ موجودہ دور میں سائنسی بصارت سے محروم افراد چوںکہ دیگر معذور بچوں یا افراد کی طرح اسپیشل گیمز میں حصہ نہیں لے پاتے یا اس قدر پرفارمینس نہیں دے پاتے، لہٰذا لے دے کے ان کے پاس کھیلوں کے حوالے سے بھی انتخاب بہت ہی محدود ہوتا ہے۔
پاکستان کا قومی کھیل یوں تو ہاکی ہے مگر کرکٹ کے سحر نے گذشتہ کئی دہائیوں سے پاکستانیوں کو جکڑا ہوا ہے۔ وہ بھی اپنی جگہ آپ ایک مثال ہے کرکٹ سے وابستہ شخصیات اور اسٹارز اپنی حیثیت کو کیش کرواتی ہیں۔ حتی کہ ٹی وی کمرشلز میں ماڈلنگ تک کے ذریعے بھاری رقوم سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ اسی طرح بصارت سے محروم افراد بھی بلائنڈ کرکٹ کے ذریعے اپنے دل کی تسکین کا سامان بہرحال کر ہی لیتے ہیں۔ بلائنڈ کرکٹ عام کرکٹ سے ملتا جلتا، لیکن مختلف کھیل ہے۔ اس کے اپنے اصول و ضوابط ہیں لیکن ان کی تفصیل میں جائے بغیر یہ بتانا ضروری ہے کہ بلائنڈ کرکٹ میں تین طرح کے کھلاڑی شامل کیے جاتے ہیں:
جن میں B-1یعنی مکمل طور پر بینائی/بصارت سے محروم افراد B-2یعنی جزوی بصارت سے محروم افراد جن کے دیکھنے کی صلاحیت محض 3میٹر تک ہو ان کی شرح بصارت 40%ہوتی ہے، جب کہ نسبتاً کم بصارت والے جزوی اندھے پن کا شکار جنہیں 4نمبر کی عینک اور ان کے دیکھنے کی صلاحیت 6میٹر تک ہو B-3کیٹگری میں شامل کیے جاتے ہیں یہ گیارہ رکنی ٹیم ہوتی ہے۔
محمد وقاص بھی بصارت سے محروم کرکٹر ہیں۔ سفید چھڑی اور گائیڈ کے ساتھ اپنے کیریر میں مصروف محمد وقاص کا آبائی علاقہ لکھن وال ضلع گجرات ہے۔ ان کے والد پاکستان آرمی میں اپنی خدمات سرانجام دے چکے ہیں۔ ان کے 4 بھائی اور 2 بہنیں ہیں، جو کہ بالکل نارمل ہیں اور ان کو کسی قسم کی جسمانی معذوری نہیں۔ بہن بھائیوں میں ان کا نمبر دوسرا ہے۔
اپنے والد کی گوجرانوالہ تعیناتی کے دوران گوجرانوالہ پرائمری بلائنڈ اسکول سے پرائمری پاس کی، جب کہ 1994میں مزید تعلیم کے لیے بہاولپور گورنمنٹ بلائنڈ سیکنڈری اسکول میں داخلہ لیا وہیں ان کی کرکٹ سے جنوں کی حد تک دیوانگی رنگ لائی اور مسلسل محنت اور شان دار کھیل نے ان کو بہاولپور بلائنڈ کرکٹ ٹیم کا کپتان بنادیا اور انہوں نے اپنی شان دار قیادت کے بل بوتے پر بے شمار ٹورنامینٹس جیتے بعدازاں قومی بلائنڈ کرکٹ ٹیم میں ان کو جگہ ملی تو 2002ء میں دورۂ انگلینڈ میں سیریز کے بہترین کھلاڑی کا اعزاز اپنے نام کیا۔
2002ء انڈیا میں ہونے والے ورلڈکپ ساؤتھ افریقہ کو ہراکر پاکستان کے لیے عالمی چیمپیئن کا اعلان کردیا۔ 2006ء میں پاکستان نے راولپنڈی میں انڈیا کو ہراکر اپنی برتری ثابت کردی۔ محمد وقاص ٹیم کے اہم کھلاڑی ثابت ہوئے بنگلور انڈیا میںT20ورلڈ کپ 2012میں پہلے محمدوقاص کو ایک تیزابی سیال مادہ پلانے کی کوششیں کی گئی، مگر وہ بچ گئے اور پاکستانی ٹیم کے کپتان ذیشان عباسی وہ سیال مادہ پی گئے اور ان کی حالت غیر ہوگئی۔
2012 میں محمد وقاص قومی بلائنڈ ٹیم کا حصہ تھے۔ جب T20ورلڈ کپ میں پاکستانی ٹیم رنر اپ رہی 2014 میں جنوبی افریقہ میں ہونے والے دن ڈے ورلڈ کپ میں رنر اپ رہی۔
محمد وقاص پاکستانی بلائنڈ ٹیم کی فتوحات کا حصہ بننے پر خود کو خوش نصیب قرار دیتے ہیں۔ انہیں کرکٹ سے جنون کی حد تک لگاؤ ہے مگر گریجویشن نہ کرسکنے کا افسوس بھی ہے۔ محمد وقاص کی دو بیویاں اور 2 بچے ہیں جو کہ نارمل ہیں۔ محمد وقاص انگلینڈ کی سرزمین پر کھیلنے کو فیورٹ قرار دیتے ہیں، جب کہ انہوں نے عالمی سطح پر 60 میچز میں پاکستان کی نمائندگی کی ہے اور وہ جنوبی افریقہ، انگلینڈ، دبئی، انڈیا اور آسٹریلیا میں بھی پاکستان کی نمائندگی کرچکے ہیں۔ 2002ء میں انگلینڈ سیریز میں بہترین کھلاڑی کا اعزاز حاصل کرنے پر ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی جانب سے محمد وقاص کو جو سرٹیفکیٹ دیا۔ وہ ان کے بقول ان کی زندگی کا سب سے بڑا انعام ہے۔ 2002ء میں ہی انڈیا تعریفی میں بیسٹ باؤلر کا اعزاز9 وکٹیں حاصل کرکے اپنے نام کیا۔ 2004ء اور 2005ء انگلینڈ پاکستان سیریز میں پھر بہترین کھلاڑی کا اعزاز حاصل کیا۔ محمد وقاص دنیا کے واحد کھلاڑی ہیں، جنہوں نے بلائنڈ کرکٹ میں انڈر آرم بالر کو 2 چھکے لگائے۔
محمد وقاص کو 2004ء میں اسپیشل ایجوکیشن کوٹے میں حکومت پاکستان نے 6ویں اسکیل میں ملازمت دی۔ یہ ایک کین ورکر کی جاب ہے جہاں محمد جہاں وقاص کرسیاں بُنتے ہیں۔ ان کے بقول یہ کام جیلوں میں موجود قیدی بھی کرتے ہیں، وہی کام ان سے لیا جارہا ہے۔ قومی ہیروز کے ساتھ یہ برتاؤ محمد وقاص کے لیے دھچکے سے کم نہیں کہ ان کے مطابق 2002ء میں وہ خود ویزا فیس ادا کرکے انگلینڈ گئے تھے۔
حکومت کی جانب سے بلائنڈ کرکٹ بورڈ نے کوئی معاونت نہیں کی۔ انہیں 2002ء میں مشرف حکومت کے دور میں ایک لاکھ روپے ورلڈ کپ جیتنے کی خوشی میں دیے گئے اور 2006ء میں بھی ایک لاکھ روپے دیے گئے۔ ان کے مطابق 2007ء سے قبل تک انٹرنیشنل میچ کھیلنے کا انہیں کوئی بھی معاوضہ نہیں دیا جاتا تھا، لیکن 2007ء میں انٹرنیشنل ون ڈے میچ کا 5000/جب کہ T20کا 2500اور ڈومیسٹک ون ڈے یا T20جو پاکستان بلائنڈ کرکٹ بورڈ PCB اسپانسر کر ے 500 محض ملتے اور کلب کی سطح پر تو کچھ بھی نہیں ملتا۔
2015ء سے T20،5000جب کہ ون ڈے 10000اور ڈومیسٹک میں 500روپے مقرر کیے گئے۔ پاکستان بلائنڈ کرکٹ بورڈ کھلاڑیوں کیٹس وغیرہ بھی مشکل فراہم کرتا ہے۔ ان کو بھی ابھی تک رہائشی کوارٹر تک الاٹ نہیں ہوا اور وہ کرائے کے مکان میں رہ رہے ہیں۔
ان کے مطابق پاکستان بلائنڈ کرکٹ کو بھی برابر کی نہیں تو کم از کم اتنی سہولیات ضرور میسر ہوں کہ کھلاڑی باعزت زندگی گزار سکیں۔ وہ موجودہ حالات سے بہت زیادہ پر امید نہیں اسی لیے انہوں نے 2017ء میں ہونے والے ورلڈکپ سے پہلے ہی دل برداشتہ ہوکر نومبر میں باقاعدہ ریٹائرمنٹ کا اعلان کردیا تھا۔ محمد وقاص کے بقول واپڈا یا دیگر محکمے ڈومیسٹک کرکٹ میں بہترین کارکردگی پر ترقیاں دی جاتی ہیں، مگر انہوں نے ورلڈ کپ تک جتوایا مگر ان کو کسی قسم کی کوئی ترقی نہیں دی گئی صرف پاک فضائیہ نے اپنے کھلاڑیوں کو ترقیاں دیں۔
محمد وقاص کی زندگی کا ناقابل فراموش وہ واقعہ ہے جب 2002ء چنائے، انڈیا میں ورلڈکپ جیتنے پر پاکستان کا قومی ترانا بجایا نہ گیا تو انہوں نے انعامات وصول کرنے سے انکار کردیا۔ اس سے بھارتی منتظمین کھسیانے ہوگئے اور قومی پاکستان کا ترانہ ہندوستان کی فضاؤں میں گونجا۔ اس وقت سرحدوں پر بھی صورت حال بے حد کشیدہ تھی اور انڈیا اپنی افواج پاکستان کی سرحد پر لے آیا تھا۔
اسپیشل ایجوکیشن سینٹر میں 14سال سروس کرچکنے والے محمد وقاص پاکستان میں امن ومحبت کے خواہش مند ہیں۔ ان کے بقول اسپورٹس سے صحت مند سرگرمیاں جنم لیتی ہیں جو کہ معاشرے کی ترقی میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔
The post مایہ ناز کرکٹر کُرسیاں بُن کر زندگی گزارنے پر مجبور appeared first on ایکسپریس اردو.