مختصر مگر جامع تحریر کا فن ایسی خوبی ہے جو اللہ تعالیٰ نے ہر ایک کے حصے میں نہیں رکھی ہوتی۔
میں نے بھی بہت کوشش کی کہ کم لفظوں میں کام کی خاص خاص باتیں رقم کرنا سیکھ لوں، مگر کام یاب نہیں ہوسکا۔ کبھی تمہید ربڑبینڈ کی طرح کھنچتی چلی گئی، کبھی کسی کہانی کا خیال پھیلتا گیا۔ کبھی کوئی کردار اتنا بھاری بھرکم نکلا کہ اسے کاغذ پر لاکر پھر سمیٹنا دشوار ہوگیا۔ کبھی دل میں جو آیا وہ جملوں میں ڈھلتا چلا گیا۔ کبھی لگا کہ دو باتوں کو سمجھانے اور دلوں میں اتارنے کے لیے چار چھے مثالوں کی ضرورت ہے۔ کبھی کچھ قصے تھے ہی لمبے۔ کبھی لگا کہ ایک پورے سچے حقیقی انسان کی زندگی کے ان گنت برسوں اور اس کے اندر کے ہزاروں حوالوں اور اس کی شخصیت و نفسیات کے بے شمار رنگوں اور زیوروں کو کیوںکر دو چار صفحوں میں درج کیا جاسکتا ہے، کہ ہر فرد اپنے اندر اپنی ایک کائنات کا مالک ہے، جو کسی بھی دوسرے فرد سے بالکل مختلف ہے۔
پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ روح کے اندر کے آئینوں کی عکاسی میں اختصار برتا جاسکے۔ جو ہے اور جیسا ہے کے ساتھ ساتھ جب جو ہونا چاہیے کا حال بھی بیان کرنا ضروری ہو تو بہت کچھ لکھنے کے باوجود بہت کچھ ادھورا لگتا ہے۔ بہت کچھ رہ جاتا ہے۔
ہر انسان ایک کہانی ہے۔ ہر انسان کی ایک کہانی ہے۔ میں اپنی کہانی کے ساتھ اس لمحے یہ سب لکھ رہا ہوں۔ آپ اپنی کہانی کے اندر رہتے ہوئے یہ تحریر پڑھ رہے ہیں۔ یہ تحریر میری اور آپ کی کہانی کے درمیان ایک پل ایک رابطہ ایک Interaction ہے۔ میں آپ کو اور آپ کی کہانی کو نہیں جانتا۔ آپ مجھ سے اور میرے اندر و باہر کی کہانیوں سے لاعلم ہیں۔ لیکن لکھنے کا عمل میری اور کئی اور لوگوں کی کئی کہانیوں کو آپ تک پہنچانے کا ایک مختصر ذریعہ ہے۔
اس مختصر ذریعے میں مزید اختصار کی کوشش کسی پہاڑ کی چوٹی پر پہنچنے کے لیے شارٹ کٹ بنانے کی طرح ہے۔ کسی بھی پہاڑ کی چوٹی تک پہنچنے کے لیے مختصر ترین راستہ عام طور پر عمودی یا Vertical ہوسکتا ہے اور اسے ماہر سے ماہر کوہ پیما بھی سب سے جان لیوا اور خطرناک قرار دیتے ہیں۔
ہم چند سو لفظوں میں کسی بھی خیال، بات، تمہید یا کہانی کی عمومی منظرکشی تو کرسکتے ہیں لیکن پڑھنے والے کو اپنے ساتھ اپنے سفر پر نہیں لے جاسکتے اور سفر بھی انسان کی نفسیات کے اندرونی حلقوں کا، انسان کی ذات اور شخصیت کے پیچ در پیچ الجھے ہوئے زاویوں کا، انسان کے دل ، دماغ اور روح کے رنگا رنگ آئینوں کا۔
اور حلقے، زاویے اور آئینے بھی کیسے۔ ایک دوسرے کو کاٹتے ہوئے۔ ایک دوسرے سے متصادم۔ بنا کسی توازن، ربط اور ہم آہنگی کے۔ اور ان سب کا تھوڑا تھوڑا ذکر بھی کسی کا بھی پورا احاطہ نہیں کرسکتا۔
کچھ ایسی ہی چڑھتی اترتی الجھتی کہانی ساجد کی بھی ہے۔ ہوسکتا ہے آپ میں سے کچھ ساجد سے واقف ہوں۔ چوںکہ نام فرضی ہے کردار حقیقی، تو ہوسکتا ہے آپ ساجد کو نہ پہچان پائیں۔ یہ اور اچھی بات ہے۔ جان پہچان میں کیا رکھا ہے۔ اصل بات تو انسان کے اندر کے اصل آئینے کی ہوتی ہے اور کئی دوستوں کی طرح، ساجد سے بھی میری دوستی کافی پرانی ہے۔ تقریباً 34 برس۔ لیکن اور کئی دوستوں کی طرح ساجد بھی کئی سالوں سے امریکا میں مقیم ہے۔ آج کی شب وہ واپس امریکا جا رہا ہے۔ ساڑھے سات سال بعد تین ہفتے پہلے اپنے گھر آیا تھا اپنی والدہ سے ملنے۔ دو چار روز پہلے مجھ سے بھی ملاقات ہوئی۔ کئی سالوں کے بعد۔
عمر اور وقت نے ساجد پر کچھ خاص اثر نہیں ڈالا تھا۔ پہلے کی طرح ہنس مکھ، خاموش طبع، سنجیدہ، کم گو اور نپی تلی گفتگو کرنا۔ نفیس اور نستعلیق۔ میڈیکل کالج کے زمانے میں شطرنج اور کیرم میں طاق۔ ابن صفی اور شکیل عادل زادہ کی تحریروں کا متلاشی۔ خواب آمیز شاعرانہ مزاج۔ محدود دوستوں کی محدود محفلوں تک محدود۔ خاندانی سادگی اور شائستگی کے ساتھ بڑا دل بھی۔ بہت زیادہ اور بہت بڑے مقاصد زندگی ترتیب دینے کی بجائے مختصر سیدھا سادھا لائحہ عمل۔
اولین دنوں میں ساجد کی شخصیت کے جو Traits تھے وہ امریکا جانے کے بعد وہاں کے مرتب اور مربوط نظام میں ڈھلنے کے بعد اور نکھر گئے تھے۔ پالش ہوگئے تھے۔ بہت کم لوگ اتنے سالوں اور اتنی تبدیلیوں کے باوجود خود کو اپنے ذاتی متوازن نظام کے تابع رکھنے میں کام یاب ہوتے ہیں۔ عام طور پر حالات و واقعات کے پے درپے حملے اچھے بھلے متوازن لوگوں کا توازن بگاڑ دیتے ہیں۔ اور سات سمندر پار ہجرت تو بڑے بڑوں کی پالش تک اتار دیتی ہے۔ آج کے ہنگامہ پرور اور ہر پل بدلتے ہوئے ماحول اور حالات میں ساجد نے جس طرح اپنے وجود اور اپنی نفسیات کی اکائی کو برقرار رکھا، اس کا اندازہ اس کے ساتھ چار پانچ گھنٹے گزارنے کے بعد ہوگیا۔
ساجد نے چار پانچ ماہ پہلے بذریعہ فیس بُک مجھے مطلع کردیا تھا کہ وہ کراچی آرہا ہے۔ میں اس کا منتظر تھا۔ مگر کراچی پہنچ کر جب اس نے مجھے فیس بک پر پیغام بھیجا پندرہ دن پہلے کہ وہ آچکا ہے اور کب مجھ سے ملنے آسکتا ہے تو وہ پیغام میں پڑھ نہیں پایا۔ اپنے اوٹ پٹانگ بے ترتیب چاروں پانچوں سمتوں میں پھیلائے ہوئے مشاغل کی وجہ سے۔ پھر اس کا الوداعی پیغام آیا جو پڑھنے کو مل گیا کہ وہ اب واپس جا رہا ہے۔ اور پھر آئندہ کسی وزٹ میں ملاقات ہوتی۔ مگر قسمت میں ملاقات تھی، سو سیر حاصل ملاقات بل کہ ملاقاتیں ہوگئیں۔
یہ بھی اتفاق ہے کہ آج اللہ تعالیٰ کی کسی مصلحت کے تحت میری رہائش کا بندوبست بھی ساجد کے محلے میں ہی ہے۔ پانچ منٹ کی ڈرائیو کے فاصلے پر۔ پہلے دن تو وہ ملاقات کے لیے کلینک آگیا۔ پھر اگلے روز میں اسے اپنے گھر لے آیا۔
’’آپ بہت بدل گئے ہیں صابر بھائی!‘‘ ساجد نے میری بیوی سے ملنے کے بعد کہا۔ ’’مگر یہ بالکل نہیں بدلیں۔‘‘
’’کسی ایک کو بدل جانا ہوتا ہے بھائی اگر دوسرا بالکل نہ بدلے۔‘‘ میں نے کہا۔
ساجد سچ کہہ رہا تھا۔ 26 سالہ ازدواجی زندگی میں میری بیوی کسی بھی لحاظ سے بالکل نہیں بدلی تھی۔ قلبی، ذہنی، روحانی جہتوں کے ساتھ حتیٰ کہ جسمانی طور پر بھی اس میں محسوس نہ ہونے والی تبدیلی آئی تھی، اگر آئی ہو تو۔
اور میں ، مجھے یوں لگتا ہے کہ 26 برسوں میں مجھے جانے کتنے سو سالوں اور کتنی ہزار جہتوں اور کتنے راستوں اور کتنی منزلوں کا سفر طے کرنا پڑا ہے۔ اتنے سارے سفروں کی تھکن نے دل، دماغ، روح اور بدن سب کی چولیں ہلادی ہیں۔ ایسا یقیناً سب کے ساتھ نہیں ہوتا ہوگا۔ آپ کے ساتھ بھی شاید ایسا نہ ہوا ہو۔ لیکن اگر روحانی، قلبی اور ذہنی ہم آہنگی نہ ہو تو دو میل کا سفر بھی دو ہزار کلومیٹر جتنا طویل ہوجاتا ہے۔
میرے ساتھ بھی کچھ یوں ہی ہوا اور چوںکہ جو ہوا اس میں میری خواہش اور رضا شامل تھی تو اس کی Penalty دینے میں ندامت نہیں ہوتی۔ کبھی کبھی ہم خود اپنے لیے کسی کٹھن راستے کا چناؤ کرلیتے ہیں۔ فیصلہ کرتے وقت نہ اندازہ ہوتا ہے نہ شعور۔ ہم کسی بھی خاص وجہ سے اپنی زندگی میں کوئی لمحاتی فیصلہ کرلیتے ہیں اور پھر وہ لمحہ ہماری پوری زندگی پر محیط ہوجاتا ہے۔
ہم سب وقت کے ساتھ Grow کررہے ہوتے ہیں جسمانی عمر میں اضافے کے ساتھ ذہنی، قلبی اور روحانی دائروں کے مدار میں ہم میں اضافہ ہورہا ہوتا ہے۔ کبھی کم کبھی زیادہ۔ کہیں تھوڑا کہیں بہت، کبھی شعوری سطح پر نظر آنے والا اور کبھی ہمارے اندر نہ دِکھنے والا۔ زندگی کے سفر کا ہر قدم ہمارے علم میں کسی نہ کسی شکل میں اضافہ کر رہا ہوتا ہے۔Learning کی رفتار بھی کہیں سست ہوتی ہے اور کبھی تیز۔ ہم چاہنے کے باوجود اس سلسلے کو روک نہیں سکتے۔ عام طور پر ہم سب ہی اس فطری عمل کا حصہ بنتے ہیں لیکن ہم میں سے کچھ لوگ مختلف النوع وجوہات کی بنا پر بعض اوقات اپنی عمر اور زندگی کے کسی ابتدائی مرحلے یا اسٹیج پر اس طرح خود کو Fix کرچکے ہوتے ہیں کہ کسی بھی قسم کی Learning یا زندگی کا کوئی تجربہ یا مشاہدہ یا بات ان کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتی۔
Fixation کی وجہ سے ان کے اندر کی Flexibility کی اہلیت ختم ہوجاتی ہے ایسے لوگ تمام حقائق کو جان کر، پرکھ کر اور آزماکر بھی ان کو ماننے اور اپنانے سے انکاری ہوتے ہیں۔ وہ ہر بات، ہر فرد کو اپنی عینک سے دیکھنے کے عادی ہوتے ہیں اور وہ عینک بھی بچپن اور لڑکپن کے ابتدائی دنوں میں Develop ہوئی ہوتی ہے اور ان گنت اندرونی و بیرونی تبدیلیوں اور اشد ضرورت کے باوجود نہیں بدل پاتی۔ اس کی فطرت ہی یہی ہے۔ وہ بالکل نہیں بدلا، اس کا کچھ نہیں بگاڑا جاسکتا، وہ یہی سننے سمجھنے والا، اس کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی اور اس طرح کے ہزار جملے۔
لیکن نفسیاتی اصطلاح میں ہم ہر اس فرد کے لیے Fixation کا لفظ استعمال کرتے ہیں جو حالات وواقعات یا انھیں مخصوص شخصیت کی وجہ سے ذہنی طور پر وقت کے ساتھ ساتھ Grow نہیں کر پاتا اور ایک عمر کے بعد بھی اپنی سوچ، اپنے سچنے کے انداز، اپنے اطوار، اپنے افعال، اپنے Reactions اور اپنے عمومی Attitude کو بدل نہیں پاتا۔ حالات وواقعات کے تبدیل ہوجانے کے باوجود ایسے افراد اپنے اندر کوئی خاطر خواہ نمایاں مثبت تبدیلی نہیں لاپاتے۔ نہ کسی تبدیلی کو برداشت کرپاتے ہیں۔ بظاہر ان کے علم اور دائرہ معلومات میں اضافہ ہوتا رہتا ہے، ماحول اور ارد گرد کے لوگ بدلتے رہتے ہیں۔ سماجی اور معاشی حالات میں اتار چڑھاؤ آتا رہتا ہے لیکن Fixated افراد کی شخصیت اور نفسیات کا بنیادی نیوکلس (Nucleus) اس مدار میں رہتا ہے جہاں وہ دس، بیس، تیس، پچاس سال پہلے تھا۔
ایسے لوگ چوںکہ خود کو بالکل صحیح سمجھتے ہی، لہٰذا ان کے اندر خود کو تبدیل کرنے کی خواہش بھی نہیں ہوتی۔ اور یہی ان کے ساتھ رہنے والے ان کے قریب ترین لوگ بھی ان کے اندر کوئی تبدیلی لاپاتے ہیں۔ ہر طرح کی تبدیلی کی ہر طرح کی کوشش رائیگاں جاتی ہے اور چوںکہ ایسے لوگ یہ بات ماننے کے لیے بھی رضامند نہیں ہوتے کہ ان کے کچھ مخصوص رویے اور اعمال و افعال و معاملات و معمولات و مصروفیات ایسے بھی ہیں جن کی وجہ سے ان کو خود کو بار بار تکلیفیں اٹھانی پڑتی ہیں اور یا پھر ان کے ساتھ رہنے والے دیگر افراد کو مسائل یا ذہنی و جذباتی دکھوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ لہٰذا یہ لوگ یا تو کسی کی پر اصلاح رائے کو اول تو سننا بھی گوارا نہیں کرتے اور اگر کسی وجہ سے ان کو اپنے بارے میں کوئی معمولی سی بھی تبدیل بھی لانے کی کوشش کرتے ہیں۔
اب دیکھیں بات پھر طویل ہوگئی۔ اس طوالت کو آپ میری Fixation کہہ سکتے ہیں۔ دیکھا جائے تو ہم سب ہی کہیں نہ کہیں ایسی عادت، رویے یا بات کے غلام ہوتے ہیں جس سے بار بار پیچھا چڑھانے کی کوششوں کے باوجود پیچھا نہیں چھڑا پاتے۔
آپ نے ان تین جملوں کو نوٹ کیا!! نہیں تو ایک بار پھر اوپر کے تین جملے دوبارہ پڑھ لیجیے۔ جب اور جہاں ہمیں اپنی کچھ خاص عادتوں، باتوں یا رویوں کا اچھی طرح علم و شعور ہو ان کی وجہ سے اکثر ہمیں مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہو اور پھر ہم ان کو ترک کرنے یا بدلنے کی خواہش بھی رکھیں اور off and on کوشش بھی کرتے رہیں تو یہ ایک عام نارمل شخصیت کی عام نارمل نفسیات کا حصہ کہلائے گا۔ نفسیاتی اصطلاح میں Fixation نہیں ۔ کیوںکہ Fixationکا مربوط استعمال میں وہی ہوتا ہے جب کون سی چیز اس طرح ہمارے وجود کا جز بن چکی ہو کہ ہمیں اس کی موجودگی کا احساس ہو یا نہ شعور اور نہ ہی ہم اس کے اچھے برے پہلوؤں کو دیکھنے کے قابل ہوں اور نہ ہی ہم اس کو اپنے آپ سے الگ کرنے یا Modlilyکرنے کے خواہش مند ہوں۔ حتیٰ کہ اس کی وجہ سے ہونے والے نقصانات اور مسائل بھی ہمیں اس کی طرف توجہ نہ دلاپارہے ہوں۔
’’میں ہزار بار شمسہ کو سمجھا چکا ہوں۔ اتنے سال ہوگئے ہیں شادی کو مگر وہ میری ہر بات سنی ان سنی کردیتی ہے۔ نہیں مانتی اور وہی کرتی ہے اور وہی اب تک کرتی چلی آرہی ہے جو شادی کے پہلے دن سے کررہی تھی۔‘‘ ساجد بتارہا تھا اور میں اس کی باتوں کے عکس میں ان دونوں کی ازدواجی زندگی کی جھلک دیکھ رہا تھا۔ ’’بس اب فیصلہ کرلیا ہے میں نے۔ چاہے کچھ بھی کرنا پڑے واپس امریکا جاکر شمسہ کو آخری وارننگ دے دوں گا۔ پھر بھی اگر اس نے خود کو نہیں بدلا اور اپنی خودسری ختم نہیں کی تو بس اب سب ختم۔‘‘
کئی گھنٹوں تک اور بہت سی باتیں ہوئیں ساجد سے اور چوںکہ ساجد سے دوستی و شناسائی کو 34 برس گزر گئے ہیں تو اس کی باتوں کی سچائی میں کوئی شک نہیں تھا۔ وہ بھی جذباتی فیصلے کے جذباتی فیصلے کے ہاتھوں شادی کر بیٹھا تھا ذہنی و روحانی ہم آہنگی نہ ہونے کے باوجود۔ اور اب اس فیصلے کے اثرات اس کے بھی اعصاب پر پڑ رہے تھے۔ یہ اور بات ہے کہ بظاہر اس کے خدوخال اور نفسیات کی اندرونی ساخت وہیئت پر ان اثرات کا کوئی امپیکٹ نظر نہیں آرہا تھا۔ ’’میں روزانہ جِم جاتا ہوں باقاعدگی سے۔ کھانے میں صرف مچھلی اور دیگر پروٹین لیتا ہوں۔ کوئی آئی استعمال نہیں کرتا۔ سلاد اور پھل اور پانی وافر مقدار میں۔ اور اپنا کھانا خود ہی بناتا ہوں، بڑا نظم ہے۔ وہاں کی لائف میں ہر چیز ٹائم ٹیبل کے مطابق کوئی افرا تفری نہیں سکون ہے‘‘ ساجد نے اپنے مخصوص مدھم لہجے میں بتایا۔
لیکن تمام تر ظاہری نظم و سکون و آرام کے باوجود ساجد کی روح کی بے چینی اس کی باتوں سے عیاں تھی۔ ایسا عام طور پر اس وقت دیکھنے میں آتا ہے جب ہمیں تمام تر آرام و سکون اور سہولیات کی وافر فراہمی کے باوجود ایسے ماحول اور ایسے لوگوں کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا اور رہنا پڑتا ہے جو روحانی و نفسیاتی طور پر جامع ہوں۔ Fixation کا شکار ہوں اور وقت کے ساتھ ساتھ ذہنی و جذباتی سطحوں پر Grow نہ کررہے ہوں اور بدلتے ہوئے حالات اور حال کی ضروریات کے مطابق خود کو Adoptاور Adjust اور Transfer نہ کررہے ہوں۔
صورت حال جب کچھ اس طرح کی ہو تو عام طور پر Fixated ماحول اور لوگوں کے چیخ اٹھتے بیٹھتے رہنے والے لوگ بڑے آتش صفت اور ReactionaryاورRebellion ہوجاتے ہیں، جس کی وجہ سے ہمہ وقت دھواں دار حال اور ماحول رہتا ہے۔ تصادم کی فضا برپا رہتی ہے۔ چنگاریاں اڑتی رہتی ہیں اور محض ایک فرد کی Fixation کی وجہ سے خاندان کے تمام افراد اور ان متاثرہ افراد کی وجہ سے ان گنت اور لوگ تمام عمر نہ صرف پریشان حال رہتے ہیں بل کہ صلاحیت و اہلیت رکھنے کے باوجود ساجد اور انور کی طرح اپنے مکمل Potential کو استعمال نہیں کر پاتے۔ بھرپور تعمیری اور کار آمد کام نہیں کرپاتے۔
انور کون ہے؟ انور کی کہانی پھر کبھی۔Fixation کی سنگلاخ دیواروں کے بیچ بند ایک اور روح … زخمی روح … آج کے لیے اتنا ہی سہی، مسئلہ یہ ہے کہ اس مسئلے کا کوئی حل نہیں۔ سوائے ہجرت کے۔ کوئی اور حل ہوتا تو یقیناً لفظوں کی لپیٹ میں آتا مگر جب دلوں پر مہر لگادی جاتی ہے اور آنکھوں پر پردے پڑے ہوتے ہیں تو اپنے عہد کا عالم فاضل فرد بھی ’’ابوجہل‘‘ کا خطاب پالیتا ہے۔
اس صورت حال میں مذہب بھی یہی حل تجویز کرتا ہے اور جدید نفسیات کی تحقیقات بھی یہی کہتی ہیں۔ ہجرت get away …… keep awayجن کے دلوں پر مہر لگی ہوئی ہو۔ جن دیواروں میں کھڑکیاں، دروازے نہ ہوں، جن کو نہ توڑا جاسکتا ہو، نہ بدلا جاسکتا ہو، نہ سمجھایا جاسکتا ہو۔ ان جگہوں، ان لوگوں سے رخصت لے لینے میں ہی عافیت ہے، سب کی عافیت۔
The post ہجرت ضروری ہے appeared first on ایکسپریس اردو.