Korowai یعنی کورووائی قوم ایک ایسی عجیب و غریب قوم ہے جو جنوب مشرقی پاپوائے نیوگنی کے گھنے جنگلات میں آباد ہے۔
اس قوم کو Kolufo کہہ کر بھی پکارا جاتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق کورووائی قوم کی آبادی کم و بیش 3000افراد پر مشتمل ہے۔ 1970تک مہذب دنیا کو اس عجیب و غریب قوم کے بارے میں کچھ معلوم نہیں تھا اور یہ قوم بھی اس بات سے مکمل طور پر ناواقف تھی کہ دنیا میں اس کے علاوہ بھی لوگ اور اقوام بستی ہیں اور یہ کہ یہ ان سے کہیں زیادہ ترقی یافتہ ہیں۔
٭ زبان: کورووائی زبان کا تعلق Awyu–Dumutفیملی سے ہے۔ یہ زبانوں کا ایک قدیم خاندان ہے جس سے کورووائی زبان نکلی ہے۔ یہ زبان جنوب مشرقی پاپوائے سے تعلق رکھتی ہے اور نیوگنی میں آباد خاندانوں اور نسلوں میں رائج چلی آرہی ہے۔ کسی زمانے میں یہاں ایک ولندیزی مشنری سے تعلق رکھنے والا ایک شخص رہتا تھا جو اس زبان کا ماہر بھی تھا۔ اس نے اس زبان پر ریسرچ کرکے اس کی گرامر بھی لکھی تھی اور ایک ڈکشنری بھی تیار کی تھی۔
٭ طرز رہائش: کورووائی قوم کے لوگوں کی اکثریت ایسے گھروں میں رہتی ہے جو بلند درختوں کی چوٹیوں پر بنائے جاتے ہیں۔ یہ لوگ زمین پر اس لیے نہیں رہ سکتے، کیوں کہ ان کا علاقہ بہت الگ تھلگ اور خطرناک کیڑے مکوڑوں اور رینگنے والے جانوروں سے بھرا ہوا ہے۔ چناں چہ اپنی حفاظت اور سلامتی کے لیے یہ لوگ بلندی پر بنائے گئے گھروں میں رہتے ہیں۔پھر ان کے خطے میں بہتری آئی اور رہائشی انقلاب آیا۔
یہ 1980کی بات ہے جب ان لوگوں نے درختوں پر بنے ہوئے گھروں کو چھوڑا اور Yaniruma کے علاقے میں آباد کیے گئے نئے دیہات کی طرف نقل مکانی کی۔ یہ گاؤں کورووائی قوم کے لوگوں نے دریاؤں کے کناروں پر خود بسائے تھے۔ یہ کورووائی کا کومبائی علاقہ کہلاتا ہے۔ اس علاقے کے ساتھ قریبی مو اور مباسمن نامی علاقے بھی شامل کرلیے گئے تھے۔ پھر 1987 میں ایک اور گاؤں Manggélقائم ہوا، 1988میں دریائے Eilanden کے کنارے Mabül نامی گاؤں آباد ہوااور 1989اور 1998میں Khaiflambolüp نامی گاؤں بھی آباد ہوگیا۔ اس کے باوجود اب بھی گاؤں کم ہیں اور یہاں رہنے والے کورووائی قوم کے لوگوں کو خوراک کے حصول میں بہت پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
٭ کورووائی کی معیشت: چوں کہ کورووائی قوم کے لوگوں کو خوراک کے حصول میں بہت مشکلات پیش آتی ہیں، اس لیے ان کا گزارہ شکار پر ہوتا ہے۔ وہ لوگ بڑی محنت سے جانور شکار کرتے ہیں اور انہی سے اپنا اور اپنی فیملیوں کا پیٹ بھرتے ہیں۔ جانوروں کے شکار کے علاوہ یہ لوگ باغ بانی بھی کرتے ہیں اور کاشت کاری بھی۔ انہیں اس شعبے میں اچھی خاصی مہارت حاصل ہے۔ یہ لوگ اپنے کھیتوں پر فصلیں بدل بدل کر اگاتے ہیں۔ شکار اور کھیتی باڑی کے علاوہ کورووائی قوم کے لوگ بہت اچھے ماہی گیر بھی ہیں۔
مچھلی پکڑنے میں ان کی صلاحیتوں سے کوئی انکار نہیں کرسکتا۔ اس کے علاوہ کورووائی لوگوں کے پیشوں سے متعلق مزید معلومات نہیں مل سکیں۔ ان کی عورتوں کی گھریلو سرگرمیوں کے بارے میں بھی کچھ پتا نہیں۔ بس یہ پتا چلا ہے کہ اس قوم کے لوگ ’’ساگو‘‘ نامی پکوان بنانے میں ماہر ہوتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ مذہبی تقاریب کا اہتمام بھی بڑے جوش و خروش سے کرتے ہیں ، مگر ان تمام سرگرمیوں میں اس قوم کے مرد دکھائی دیتے ہیں۔
٭ذریعۂ آمدنی: 1990 کے عشرے کے اوائل سے اس خطے میں بیداری کی لہر آئی ہے جس کے بعد بعض کورووائی لوگوں نے خود کو جدید دور کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کی ہے۔ اب یہ لوگ بعض سیاحتی کمپنیوں کے ساتھ کام کرنے لگے ہیں اور اس کے بدلے میں نقد آمدنی (کرنسی نوٹوں کی شکل میں) حاصل کرنے لگے ہیں۔ یہ لوگ ان کمپنیوں کو اپنے علاقے میں سفر و سیاحت کے سہولیات بھی فراہم کرنے لگے ہیں۔ گویا انہوں نے اپنے ہاں ٹورسٹ انڈسٹری کو متعارف کرادیا ہے اور اپنے علاقے کی حالت بدلنے کی کوشش کی ہے۔ اس قوم کے لوگ اپنے علاقے میں آنے والے سیاحوں کو ہر طرح کی خدمات فراہم کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر جب اس خطے میں ساگو فیسٹیول کا انعقاد ہوتا ہے تو بیرونی دنیا سے سیاح اسے دیکھنے آتے ہیں۔ یہاں کے لوگ ان کا سامان ڈھوتے ہیں اور انہیں راستے بتاکر ان کی راہ نمائی بھی کرتے ہیں۔
٭قیمتی لکڑی کہاں گئی؟ اس خطے کی سب سے قیمتی لکڑی gaharu یا Agarwoodکہلاتی ہے جس کے لالچ میں غیرملکی اس علاقے میں آتے ہیں۔ 1997میں ایک کلو gaharu یا Agarwood کی قیمت چار ڈالر بنتی تھی جو مقامی کورووائی وصول کرتا تھا، مگر جب یہی لکڑی مشرق وسطیٰ اور یورپ کی مارکیٹ میں پہنچتی تو اس کی قیمت ایک ہزار ڈالر فی کلو تک پہنچ جاتی تھی۔ اس خطے سے اس لکڑی gaharu یا Agarwood کو پاپوائے تک متعدد بندرگاہوں کے ذریعے بھیج دیا جاتا تھا، جن میں جایا پورا کے جنوبی ساحل کی Agatsنامی بندرگاہ اور شمالی ساحل کی بندرگاہ شامل ہیں۔
اس کے علاوہ انہیں مشنری فلائٹس کے ذریعے یانیروما اور بوما سے باہر بھجوادیا جاتا ہے۔مگر بعد gaharuکی تجارت پر اس خطے کی فوجی حکومت نے کنٹرول کیا اور پھر اس بزنس کو منظم طریقے سے شروع کیا۔ اس قیمتی لکڑی gaharu کی تجارت کی وجہ سے پاپوائے کے گھنے جنگلات میں بدکاری بھی تیزی سے بڑھی، جس نے اس خطے کے لوگوں کو ایڈز کا تحفہ دیا اور یہ بیماری پورے خطے میں پھیل گئی۔
٭ خونی رشتے: کورووائی کے معاشرے میں چچا، خالو، ماموں وغیرہ جیسے رشتے موجود ہیں۔ یہاں کے لوگ شادی بھی کرتے ہیں اور اس کے نتیجے میں قائم ہونے والے رشتے کو تسلیم بھی کرتے ہیں۔ یہ لوگ ایک سے زیادہ شادیاں کرتے ہیں اور اپنے قبیلے کے علاوہ دوسرے قبیلوں میں بھی شادیاں کرلیتے ہیں۔
٭سماجی زندگی: کورووائی کے لوگ لیڈر یا راہ نما بھی رکھتے ہیں۔ ان کے ہاں ہر وہ شخص لیڈر یا قبیلے کا سربراہ بن سکتا ہے جو غیرمعمولی صلاحیتوں کا مالک ہو، وہ مضبوط اور توانا ہو اور اس کی ذاتی خصوصیات زبردست ہوں۔ ویسے تو یہ لوگ لڑائی جھگڑا نہیں کرتے، مگر ان کے ہاں صرف دو چیزوں کی وجہ سے مسائل پیدا ہوتے ہیں جیسے: یہ لوگ جادو ٹونے اور خاص طور سے کالے جادو پر ایک دوسرے کی جان کے دشمن ہوجاتے ہیں۔ یہ لوگ جادو ٹونے یا وچ کرافٹ پر اتنا یقین رکھتے ہیں کہ اس کے بغیر ایک قدم بھی نہیں اٹھاتے۔ جب انہیں کوئی نیا کام کرنا ہوتا ہے تو پہلے جادو ٹونے کرنے والوں سے رابطہ کرتے ہیں، شادی کرنی ہوتی ہے تو ان کی مدد لیتے ہیں اور دشمنوں سے نمٹنے کے لیے بھی انہی جادوگروں کے مشوروں پر عمل کرتے ہیں۔
٭مذہبی زندگی: کورووائی لوگ کوئی خاص عبادت تو نہیں کرتے، مگر ان کے مذہبی عقائد کا دائرہ روحوں کے گرد گھومتا رہتا ہے۔ ان کے عقیدے کے مطابق کورووائی کی دنیا ہر قسم کی اچھی اور بری روحوں سے بھری ہوتی ہے۔ ان میں سے بعض روحیں ذاتی ہوتی ہیں یعنی ان کے اپنے رشتے داروں کی ہوتی ہیں جو دنیا سے جاچکے ہوتے ہیں، جب کہ بعض روحیں افسانوی یا کرداری ہوتی ہیں۔ یعنی یہ تمام روحانی کردار اس قبیلے کے اپنے بنائے ہوئے ہیں۔ خاص طور سے یہ لوگ اپنے آبا و اجداد کی روحوں کو بہت اہمیت دیتے ہیں، ان سے مشورے بھی کرتے ہیں۔
انہی سے بات چیت کرنے کے بعد یہ کوئی قدم اٹھاتے ہیں۔ ان کے عقیدے کے مطابق اس دنیا کو تخلیق کرنے والی روح کا نام Ginol Silamtenaہے جسے یہ سب سے بڑی روح مانتے اور تسلیم کرتے ہیں۔ کورووائی لوگ اپنی روزمرہ زندگیوں میں نہ تو کوئی ذمہ داری قبول کرتے ہیں اور نہ کسی کے سر کوئی کام تھوپتے ہیں۔ کورووائی لوگوں پر یہ لازم ہے کہ وہ اپنی زندگی میں ایک بار ساگو کا تہوار ضرور منعقد کرے یا اس میں حصہ لے۔ ایسا کرنا اس کی خوش حالی اور بہتری کے لیے ضروری سمجھا جاتا ہے۔ مذکورہ فرد ایک مذہبی تقریب میں یہ رسم انجام دیتا ہے۔مشکل زمانے میں مسائل سے نجات حاصل کرنے کے لیے کورووائی لوگ اپنے پالتو سؤر اپنے آبا و اجداد کی روحوں کے لیے قربان کردیتے ہیں، تاکہ ان پر سے بدحالی اور بدقسمتی دور ہوجائے۔
٭لوک ورثہ اور آواگون کا تصور: کورووائی لوگ غیرمعمولی اور خوب صورت روایات کے امین ہیں جن میں داستان گوئی کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ اس خطے کی لوک کہانیاں (جادوئی) اقوال اور جادو منتر اور قدیم تہذیبوں کے مظاہر بے مثال ہیں۔ موت اور موت کے بعد کی زندگی کے بارے میں کورووائی لوگوں کا عقیدہ یہ ہے کہ موت کے بعد انسان اس دنیا میں کسی اور شکل میں دوبارہ آتا ہے۔ گویا یہ لوگ آوا گون کو مانتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جو لوگ ایک بار دنیا میں مرگئے، وہ کسی بھی وقت اس دنیا میں دوبارہ جاسکتے ہیں۔ اس سارے عمل کے بعد وہ انسان کسی بھی نومولود بچے کی شکل میں دنیا میں دوبارہ آجاتا ہے اور اس کی آمد سے اس کا خونی رشتے دار واقف ہوتا ہے۔
٭اہل مغرب سے رابطہ: اہل مغرب سے کورووائی لوگوں کا پہلا باقاعدہ دستاویزی رابطہ 17مارچ 1974کو ہوا تھا جب کچھ سائنس دانوں نے Peter Van Arsdale کی سربراہی میں یہاں کا دورہ کیا تھا۔ اس کے ساتھ ماہرِجغرافیہ Robert Mitton اور کمیونٹی ڈویلپر Mark (Dennis) Grundhoeferبھی تھا۔ یہاں دریا کے کنارے اس ٹیم کے ملاقات لگ بھگ تیس افراد سے ہوئی تھی۔ 1970 کے عشرے کے اواخر میں چند مسیحی مشنریوں نے اس خطے میں آکر رہنا شروع کردیا۔ ایک انڈونیشیائی سماجی سائنس داں Dea Sudarman نے کورووائی پر متعدد دستاویزی فلمیں تیار کیں۔ یہ فلمیں جاپانی ٹیلی ویژن کے لیے 1980کی دہائی میں تیار کی گئی تھیں۔ 1993میں ایک فلمی عملے نے Dayoگاؤں کے علاقے میں سماجی سائنس کے مطالعے پر ایک دستاویزی فلم بنائی، جس میں درختوں پر گھر بنانے کو موضوع بنایا گیا تھا۔
٭مقامی مزاحمت: اس دوران مقامی لوگوں کی طرف سے مشنریوں کو بھی اور دستاویزی فلمیں بنانے والوں کو بھی اچھی خاصی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ خاص طور سے ان کے وچ ڈاکٹرز اور جادوگروں نے نئے آنے والوں کے خلاف پورا محاذ کھڑا کردیا۔ چوں کہ اس جگہ کے بعض لوگ انسانوں کو بھی کھاجاتے ہیں، اس لیے اس بات کا اندیشہ پیدا ہوا کہ کہیں باہر سے آنے والے مقامی جنگلیوں کی خوراک نہ بن جائیں۔ اس مزاحمت کی وجہ سے بعض مقامی افراد نے اس علاقے میں آنے والے غیرملکی سیاحوں کے ساتھ تعاون بھی بند کردیا ہے، جس سے علاقے کی خوش حالی پر برا اثر پڑا ہے۔ اس کے علاوہ حکومت نے بھی ویزے کے مسائل کھڑے کردیے ہیں جس سے یہاں آنے والے سیاحوں کی تعداد میں خاطر خواہ کمی ہوئی ہے۔
بعض لوگ کہتے ہیں کہ کورووائی میں آج بھی چوری چھپے آدم خوری کا سلسلہ جاری ہے۔ مگر بعض لوگوں کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ اس علاقے سے آدم خوری اب مکمل طور پر ختم ہوچکی ہے۔ یہاں کے ذمہ دار لوگ کورووائی کو اب ایک ایسا صاف ستھرا اور محفوظ علاقہ بنانے کے لیے سرگرم ہیں جہاں غیرملکی سیاح بے فکری سے آسکیں تاکہ اس خطے میں بھی خوشیاں اور خوش حالی آسکے۔