اسلام آباد: گذشتہ دنوں وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے خیبر پختون خواہ میں ساٹھ کلومیٹر طویل نئی شاہ راہ ہزارہ موٹر وے کی تعمیر کا افتتاح کیا، اس کو ’’پاک چائنا اکنامک کاریڈور‘‘ کا پہلا حصہ قرار دیا جارہا ہے۔
وزیر اعظم نوازشریف نے کہا ہے کہ یہ منصوبہ خطے میں گیم بدل دے گا۔کاشغرگوادر پراجیکٹ سے دنیا کے تین ارب لوگوں کو فائدہ ہوگا۔ اطلاعات کے مطابق اس کاریڈور نے پاکستانی کشمیر سے بھی گزرنا ہے، اس لیے بھارت نے اس منصوبے پر ناپسندیدی کا اظہار کیا ہے۔ کشمیر سے گزرے بغیر یہ شاہ راہ چین اور پاکستان کو ملا نہیں سکتی، اس لیے بھارت کو خوف پیدا ہو رہا ہے کہ اس شاہ راہ کی تعمیر کے بعد پاکستان کی اس علاقے میں عمل داری مزید مضبوط ہو جائے گی۔ یہ شاہ راہ چین کے شہر کاشغر کو پاکستان کی بندرگاہ گوادر سے ملائے گی۔
سڑک کے علاوہ اس کاریڈور میں ریلوے لائن، تیل اور گیس کی پائپ لائنیں اور فائبر آپٹکس کیبلز بچھائے جانے کی تجویز بھی منظور کی جاچکی ہے۔ یہ شاہ راہ چین کی’’گرینڈ ویسٹرین ڈیولپمنٹ اسٹریٹجی‘‘ کے نام سے شروع کیے جانے والے اُن منصوبوں میں سے ایک ہے جن کا آغاز1978 میں چینی رہ نما ڈنگ ژیاؤپنگ نے کیا تھا۔
اس منصوبے کے تحت اوئغور سنکیانگ کے علاقوں کو مشرقی چین سے جوڑنے کے لیے ہزاروں کلومیٹر لمبے ہائی ویز تعمیر کیے گئے،ریلوے لائنیں بچھائی گئیں،ٹیکس میں غیرمعمولی چھوٹ دی گئی اور اس کے علاوہ شنگھائی ‘ بیجنگ کے ساتھ مشرقی یا وسطی چین سے آنے والے صنعت کاروں کو صنعتیں لگانے میںہر طرح کی مراعات دی گئیں۔ چینی حکومت نے ہر سال بجٹ میں اس علاقے کو اربوں روپے کے خصوصی فنڈ فراہم کیے اور دیکھتے ہی دیکھتے چین کا یہ پس ماندہ علاقہ ترقی یافتہ مشرقی یا وسطی چین کے برابر آ گیا لیکن اس خطے کو مکمل فعال بنانے کے لیے ضروری تھا کہ اس علاقے میں تیار ہونے والی مصنوعات کو عالمی منڈی تک کم سے کم فاصلے کے ساتھ رسائی فراہم کی جائے۔
کاشغر سے شنگھائی تک کا فاصلہ پانچ ہزار کلو میٹر بنتا ہے اس لیے چینی قیادت نے بہت سوچ بچار کے بعد کاشغر کو پاکستان کی نئی بندرگاہ گوادر سے ملانے کے لیے اس تجارتی کاریڈور کی تعمیر کا منصوبہ بنایا، جس میں پاکستان نے بھی بھرپور دل چسپی کا مظاہرہ کیا۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں اس کاریڈور کو تعمیر کرنے سے متعلق بات چیت کا آغاز ہوا تھا اور اس شاہ راہ کے لیے دوہزار کلو میٹر روٹ فائنل کیا گیا۔ منصوبے کے مطابق اس روٹ نے ایبٹ آباد‘ حسن ابدال‘ میاں والی‘ ڈی آئی خان ‘ ژوب اورکوئٹہ سے گزرتے ہوئے گوادر تک جانا ہے اور اس شاہ راہ کو موٹر وے کی بجائے ٹریڈ کاریڈور طرز پر تعمیر کیا جانا ہے، جس پر مخصوص فاصلوں پر صنعتی زون قائم کیے جانے ہیں۔ ماہرین کے مطابق اگر یہ منصوبہ اُسی طرح تیار ہو، جس طرح ڈیزائن گیا تو اس سے پورے پاکستان اور بالخصوص فاٹا‘ خیبرپختون خوا اور بلوچستان، تجارت اور اقتصادی سرگرمیوں کا مرکز بنتے ہیں، اس سے ان علاقوں سے انتہاپسندی اور دہشت گردی کا خاتمہ بھی ممکن ہو سکتا ہے۔
گوادر بندرگاہ سے خلیج فارس محض200 میل دور ہے،جو دنیا کے سب سے بڑے آئل امپورٹر چین کے لیے خوش کن بات ہے کہ گوادر کا روٹ کھلنے سے اُسے 12 ہزار کلو میٹر طویل سمندری مسافت کے دوران امریکا کی ممکنہ بلیک میلنگ اورسمندری مسافت کے اخراجات سے چھٹکارہ ملنے کے علاوہ تیل کو آف لوڈ کرنے کے بعد پائپ لائنوں سے گزارنے کی مشقت سے بھی جان چھوٹ جائے گی اور یوں بیجنگ مسلسل دباؤ سے آزاد ہو جائے گا۔ اس بات کو امریکا بھی اچھی طرح سمجھتا ہے، اس لیے یہ منصوبہ چین سے زیادہ پاکستانی قیادت کا امتحان بن سکتا ہے۔ پاک چین اکنامک کاریڈور کا یہ ہی وہ پہلو ہے جس سے فریقین فی الوقت جان بوجھ کر اغماض برت رہے ہیں جب کہ صورت حال سے نمٹنے کی حکمت عملی کے برعکس بھی کچھ ہو سکتا ہے، جس سے پاکستان کی نسبت چین کو کم نقصان ہو گا کیوں کہ چین کے لیے دیگر راستے بدستور کھلے ہیں۔
چین کی وسطی ایشیا کے ساتھ تجارت میں ترقی کے لیے طویل شاہ راہوں کا سلسلہ پایۂ تکمیل تک پہنچ چکا ہے اور بڑے دہانوں والی پائپ لائنیں بھی بچھ چکی ہیں۔ برما سے لے کر چین تک پائپ لائن پراجیکٹ پر کام ختم ہوچکاہے۔ خدانخواستہ گوادر پورٹ آپریشنل نہیں ہوپاتی تو بھی چین اپنے آئل ٹینکروں کو برما کے ساحل پر خالی پائپ لائن میں ڈال سکتا ہے، اس سے بارہ ہزار نہیں تو چین کو کم از کم چھ ہزار کلومیٹر سفر کی بچت تو ہوگی۔
اسی طرح اس کے ہم سائے میں موجود روس کے انرجی وسائل بھی چین کی آنکھوں سے اوجھل نہیں۔ جاننے والے جانتے ہیں کہ روس سے تیل اور گیس کی درآمد کا ایک زبردست معاہدہ جلد ہی منظر عام پر آنے والا ہے۔ شاید اسی لیے ایک امریکی تھنک ٹینک فرماتے ہیں’’پاک چین اکنامک کاریڈور بے معنی شور شرابے کے سوا کچھ نہیں ہوگا، سنکیانگ میں جاری اسلامی تحریکوں اور علیحدگی پسندی کے ڈانڈے پاکستان کے اندر ہیں جن کو اسلام آباد، بیجنگ کی منشا کے مطابق اگر کچلا نہ گیا تو یہ منصوبہ دھرے کا دھرا رہ جائے گا۔ چین کی خواہش کے باوجود کچھ بھی نہیں ہو پائے گا اور قرآئن بتاتے ہیں کہ مستقبل میں بھی کچھ نہیں ہوگا۔
جب کہ روس کے انسٹی ٹیوٹ برائے تزویری تحقیق کے محقق بورس وولہونسکی کے مطابق’’اس منصوبے کی معاشی اہمیت سے انکار نہیں۔ اوّل، یہ چین کی ترقی کے لیے خوش آیند ہوگا اور علاقے سے سرگرم بنیاد پرستوں اور علیحدگی پسندوں کے پاؤں تلے سے زمین سرکائی جا سکے گی۔
دوئم ،چین کو خلیج فارس سے تیل لانے کا مختصر ترین زمینی راستہ مل جائے گا، اس سے چین کو آبنائے ملاکا سے نہیں گزرنا پڑے گا اور یوں یہ ضمانت بھی مل جائے گی کہ کوئی بھی غیر ملکی قوت خام مال کی آمد میں حارج نہیں ہو گی۔ اس کے علاوہ کاریڈور بننے سے پاکستان میں سرمایہ کاری بڑھنے کا امکان پیدا ہو جائے گا اور زیادہ اہم بات یہ ہوگی کہ ساری ترقی پس ماندہ صوبوں کے پی کے اور بلوچستان میں ہوگی‘‘۔ جب کہ چین اور پاکستان بھی کہ چکے ہیں’’اس منصوبے کی تکمیل سے صرف ہمیں ہی نہیں، نزدیکی ہم سایہ ملکوں کو بھی فائدہ ہوگا‘‘۔
انسٹی ٹیوٹ برائے عالمی معیشت و بین الاقوامی تعلقات کے ایک ماہر اور روس کی وزارت برائے امور خارجہ کی سفارتی اکادمی برائے مشرق تحقیق مرکز کے سربراہ آندرے وولودین کہتے ہیں’’چین نے ایک بار پھر پاکستان کو اپنا سچا اتحادی اور اہم ترین تزویری شریک کار ظاہر کردیا ہے۔ اب چین کی رضامندی کے بغیر پاکستان میں کچھ ہو سکتا ہے اور نہ ہی کچھ ہوگا۔
اب چین دنیا میں سرمایہ کاری کی سب سے بڑی قوت ہے، وہ ہر ممکن کوشش کرے گا کہ افغانستان سے اتحادی دستوں کے انخلا کے بعد پاکستان مستحکم ہو کیوں کہ پاکستان کے حالات بہت ناقابل قیاس ہیں، یہ بھی ممکن ہے کہ امریکا کے جانے کے بعد افغانستان ٹوٹ جائے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہاں سے امریکا کے نکلنے کے بعد افغانستان کے لیے اچھے حالات پیدا ہوجائیں۔ میرے خیال میں اس وقت دوسرے امکان پر شی جن پنگ اور ان کے رفقا کام کر رہے ہیں۔ اسی طرح پاکستان کی قیادت بھی یہ سمجھتی ہے کہ ان کے لیے امکانات بہت اچھے نہیں چنانچہ وہ چین کی مدد سے کبھی انکاری نہیں ۔ یہ خیال بھی کیا جاتا ہے کہ پاکستان میں زیادہ کام اور اثرورسوخ امریکا کا ہے مگر اس نقطہ نظر کو اب درست کیے جانے کی اشد ضرورت ہوگی ‘‘۔
اگر چین پاکستان کاریڈور کو بطور معاشی کاریڈور لیا جائے تو علاقے میں انفراسٹرکچر کے کئی معاملات حل ہونے کے امکانات ہیں جو جنوبی، مرکزی اور وسط ایشیا سے شمالی یوریشیا تک پھیلے ہوئے ہیں لیکن اس کاریڈور کے روٹ میں جب سے تبدیلی کی باتیں سامنے آنے لگیں ہیں، اُس وقت سے اس منصوبے کے متنازعہ بننے کے خدشات بڑھ گئے ہیں۔ خبر یہ ہے کہ میاں نواز شریف نے اپنے حلقۂ انتخاب یعنی لاہور کو اس کاریڈور سے مستفید کرنے کے لیے اس سڑک کا رخ اصل روٹ سے ہٹا کر لاہور کی طرف موڑنے کی منصوبہ بندی کی ہے، جس پر بلوچستان اور خیبر پختون خوا کے سینیٹرز نے حکومت کو سخت احتجاج کی دھمکی دی تھی، تاحال یہ معاملہ راکھ میں دبا ہواہے لیکن یہ چنگاری کسی وقت بھی جنگل کی آگ بن سکتی ہے ۔ روٹ بدلنے سے متعلق حکومت کی دلیل یہ ہے کہ وسائل کم ہونے کے باعث نئی سڑک تعمیر نہیں کی جاسکتی ۔
اس لیے حسن ابدال سے گوادر تک نئی سڑک بنانے کی بجائے اس ٹریڈ کاریڈور کے لیے موجودہ موٹروے (ایم ٹو) کو ہی استعمال کیا جائے، بعد ازاں اس کو ملتان سے گوادر کے ساتھ ملا دیا جائے گا لیکن سوال یہ ہے کہ اس بہانے کی آڑ میں بلوچستان اور خیبر پختون خوا کو اس نعمت سے محروم کیوں رکھا جارہا ہے؟ جب کہ شہر شہر میٹرو منصوبوں کے اعلانات نے سوچنے والوں کو ایک مخمصے میں ڈال دیا ہے،حال آں کہ اس کاریڈور پر کئی صنعتی بستیاں تعمیر ہونے والی ہیں، جن کی سب سے زیادہ بلوچستان اور کے پی کے کو ہی ضرورت ہے۔
دوسری جانب چین نے بھی اس منصوبے میں اس تبدیلی کو پسند نہیں کیا، وہ اب بھی برہان سے براستہ میانوالی اور ڈی آئی خان ‘ ژوب اور کوئٹہ سے ہوتے ہوئے گوادر تک رسائی چاہتا ہے۔ لاہور سے ملتان اور پھر کوئٹہ سے گوادر روٹ کے باعث چین کے لیے یہ فاصلہ کئی سوکلومیٹر بڑھ جائے گا۔ اس حوالے سے یہ خبر بھی سامنے آئی ہے کہ وزیراعظم نے روٹ میں تبدیلی کے ارادے کو ملتوی کردیا ہے لیکن اس کے باوجود خطرہ یہ بھی ہے کہ مستقبل میں اس منصوبے کو تبدیلی کے ساتھ ہی مکمل کیا جائے گاکیوں کہ میاں نوازشریف نے ایبٹ آباد حسن ابدل سیکشن کا افتتاح تو کردیا لیکن حسن ابدال تا گوادر تک شاہ راہ کی تعمیر کے لیے کوئی روڈ میپ نہیں دیا۔
اسلام آباد میں پاک چین اکناک کاریڈور سیکریٹریٹ 27 اگست 2013 سے فعال ہوگیا تھا لیکن بعض حلقوں کے نزدیک یہ منصوبہ خواب دیکھنے کے مترادف ہے۔اس منصوبے کا عرصۂ تکمیل متعین نہیں،منصوبے کے اخراجات کا تخمینہ 35 بلین ڈالر بتایا جارہا ہے،اس کے علاوہ بھی تخمینے سامنے آرہے ہیں۔ یہ بھی وضاحت نہیں کہ اس میں چین اور پاکستان کا حصہ کتنا ہوگا اور پاکستان کی ذمہ داری کیا ہوگی؟ قیاس یہ بھی ہے کہ انرجی، انفرا اسٹرکچر اور داخلی شاہ راہوں پر اٹھنے والے اخراجات کا بڑا حصہ پاکستان کو ہی برداشت کرنا پڑے گا۔ چین کی جانب سے تعاون آیا تو قرضے کی شکل میں ہوگا مگر یہ واضح ہے کہ بین الاقوامی تعلقات میں جذبات نہیں چلتے ہر کوئی اپنے مفاد کا تحفظ کرتا ہے۔
ایک وقت تھا جب پاکستان کے دوستوں کی ترتیب یوں ہوا کرتی تھی،سعودی عرب، امریکا، برطانیہ اور اس کے بعد چین آیا کرتا تھا، اس دفعہ اپنے اولین بیرونی دورے کے لیے وزیر اعظم نواز شریف نے چین کا انتخاب کرکے اپنی فارن پالیسی کی ترجیحات کا بڑا واضح اظہار کیا تو ہے لیکن سوال یہ بھی ہے کہ اس فارن پالیسی میں اس تبدیلی کے فیصلے سے خطے میں حقیقی تبدیلی کا نقطۂ آغاز طے ہو جائے گا؟ کیا اس مرتبہ معاملات واقعی مختلف ہوں گے ؟
کاریڈور کے آغاز اور اختتام پر مذہبی انتہاپسندی اور عسکری تنظیموں نے جو غیریقینی صورت حال پیدا کررکھی ہے اور اگر اس کا مکمل سدباب بھی نہیں ہورہا تو ایسے میں یہ سارا منصوبہ دیوانے کی بڑ ثابت ہوگا؟ گوادر خود بھی محفوظ جگہ نہیں اور علاقے میں تعمیراتی کاموں کے دوران چینی کارکنوں کو اس کا تجربہ ہے اور پائپ لائن اور متعلقہ تنصیبات ہر وقت دہشت گردوں کے نشانہ پر ہوتی ہیں۔ موجودہ قراقرام ہائی وے بھی گوناگوں مسائل سے دوچار رہتی ہے۔ یہ 800 کلومیٹر طویل شاہراہ کبھی قدرتی آفت کی تو کبھی فرقہ واریت کی زد پر ہوتی ہے۔ اس کی شکست و ریخت اور اپ گریڈیشن کا مسلسل عمل ایک الگ کہانی ہے، پھر اس شاہ راہ کی سیکیوریٹی کا مسئلہ اس قدر شدید ہے کہ اس سے نمٹنے کے لیے فورسز کو دن رات ایک کرنا پڑتا ہے۔ اس لیے اکنامک کوریڈور کے حوالے سے پاکستان فطری طور پر نسبتاً زیادہ پرجوش تو ہے مگر اقتصادی پریشانیوں سے نکلنے کے لیے اس کے آپشنز بہت محدود ہیں۔
مندرجہ بالا امکانات کو سامنے رکھتے ہوئے حکومت کو فوری طور پر اس کاریڈور کا حتمی روٹ، مالی تخمینہ، اس تخمینے میں پاکستان کا حصہ اور منصوبے کی تکمیل کی مدت کو جاری کردینا چاہیے تاکہ اس منصوبے کو ابہام اور تحفظات سے نکال کر شفافیت کے اُجالے میں لایا جاسکے۔