Quantcast
Channel: Pakistani Magazine -- Urdu Magazine - میگزین - ایکسپریس اردو
Viewing all articles
Browse latest Browse all 4420

زمین کی گہرائیوں سے خلا کی وسعتوں تک!

$
0
0

ارتقا، وقت کے مانند ایک کبھی نہ تھمنے والا عمل ہے۔ البتہ وقت کے برعکس اس کی رفتار یکساں نہیں رہتی۔ کچھ شعبہ ہائے زندگی میں یہ عمل کچھوے کی سی رفتار سے وقوع پذیر ہوتا ہے اور کچھ شعبوں میں اس کی تیزی برق کو بھی شرما دیتی ہے۔ بالخصوص جہانِ سائنس میں ترقی کا عمل اوج پہ ہے۔ ہر روز متعدد ایجادات، اختراعات، دریافتیں اور تحقیق منظرعام پر آجاتی ہیں۔

اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ دنیا کی ترقی، سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی سے مشروط ہے۔ ہزاروں، لاکھوں کے سال کے ارتقائی سفر میں کرۂ ارض کو ہر ہر قدم پر علم سائنس کا سہارا درکار رہا ہے۔ اسی علم کا اعجاز ہے کہ آج بنی نوع انسان زمین کی گہرائیوں اور خلائے بسیط کی وسعتوں میں پوشیدہ کتنے ہی اسرار سے پردہ اٹھا چکا ہے اور قدرت کی عطاکردہ فہم و دانش اور علم سائنس سے کام لیتے ہوئے راز ہائے کائنات کو بے نقاب کرنے کی جدوجہد میں مسلسل مصروف ہے۔

سالِ گذشتہ میں بھی سائنس و ٹیکنالوجی میں برق رفتار ترقی کا عمل جاری رہا۔ جہاں نت نئی ایجادات و اختراعات کی گئیں وہیں متعدد دریافتیں ہوئیں اور تحقیق کا میدان بھی گرم رہا۔
ذیل کی سطور میں سائنس و ٹیکنالوجی کی دنیا میں گذشتہ برس ہونے والی اہم پیش رفتوں اور سرگرمیوں کا اجمالی جائزہ پیش کیا جارہا ہے:

طب و صحت
طب و صحت ان چند شعبوں میں سے ایک ہیں جن میں 2014ء کے دوران کئی اہم پیش رفت ہوئیں۔ محققین نے کئی لاعلاج امراض کا علاج دریافت کرنے کے سلسلے میں کئی اہم کام یابیاں حاصل کیں۔ مثلاً اوکسفرڈ یونی ورسٹی کے سرجنوں نے جینیاتی تھراپی کی تیکنیک استعمال کرتے ہوئے چھے افراد کی بینائی بڑھادی جو دیکھنے سے تقریباً معذور ہوچکے تھے۔

٭خون کا سرطان (لیوکیمیا) انتہائی خطرناک بیماری ہے جو سالانہ لاکھوں انسانوں کو زندگیوں سے محروم کردیتی ہے۔ 2012ء میں لیوکیمیا کی وجہ سے دنیا بھر میں 265000 ہلاکتیں ہوئی تھیں۔ لیوکیمیا کے علاج کے سلسلے میں برطانیہ کی کارڈیف یونی ورسٹی کے سائنس دانوں نے اہم پیش رفت کی۔ انھوں نے ایک نئی ویکسین تیار کرنے میں کام یابی حاصل کی جو سرطان کے خلیوں کو خون میں پھیلنے سے پہلے نشانہ بناتی ہے۔ تحقیقی ٹیم کے رکن اور بیس سال سے اس بیماری پر تحقیق کرنے والے پروفیسر کرس پیپر کا کہنا تھا کہ اب بہت جلد لیوکیمیا ایک عام مرض بن جائے گا جس کا علاج ایک عام ڈاکٹر بھی کرسکے گا۔

٭لیوکیمیا کی طرح دل کے عوارض بھی جان لیوا ہوتے ہیں۔ دل کو دورے اور دیگر عوارض سے محفوظ رکھنے کے لیے اسپین میں ایک نئی دوا بنائی گئی۔ تجربات کے دوران اس دوا کے حیران کن نتائج سامنے آئے۔ ابتدائی طور پر اس دوا کی امریکا میں رجسٹریشن کے لیے درخواست دائر کردی گئی، بعدازاں اس کی یورپ میں فروخت کے لیے منظوری حاصل کی جائے گی۔ اس دوا سے متعلق تحقیقی مقالہ یورپین سوسائٹی آف کارڈیالوجی کے سالانہ اجلاس میں پیش کیا گیا تھا جسے حاضرین نے متاثرکُن اور اس دوا کو کرشماتی قرار دیا۔

٭ گذشتہ برس فالج کے علاج میں اس وقت بے حد اہم پیش رفت ہوئی جب نچلے دھڑ سے مفلوج ایک شخص خلیوں کی تبدیلی کے بعد چلنے کے قابل ہوگیا۔ ڈیرک فڈکا نامی پولش باشندے پر چاقو سے حملہ کیا گیا تھا۔ حملے میں ڈیرک کا حرام مغز شدید متاثر ہوا تھا اور اس کا نچلا دھڑ مفلوج ہوگیا تھا۔ پولینڈ اور برطانیہ کے سائنس دانوں کی مشترکہ ٹیم نے چالیس سالہ ڈیرک کے حرام مغز اور حفرہ بینی ( nasal cavity ) کے متاثرہ خلیوں کو صحت مند خلیوں سے بدل دیا۔ خلیوں کی تبدیلی کے بعد ڈیرک ڈھانچے یا فریم کے سہارے چلنے کے قابل ہوگیا۔ سائنس دانوں کا کہنا تھا کہ یہ فالج کے مریضوں کے علاج میں انتہائی اہم پیش رفت ہے۔

٭ رعشہ یا پارکنسن کا شمار لاعلاج امراض میں ہوتا ہے۔ دیگر مہلک بیماریوں کی طرح اس مرض پر بھی عرصۂ دراز سے تحقیق جاری ہے۔ سویڈن کے سائنس دانوں نے اپنی تحقیق میں بتایا کہ دماغ کے مخصوص حصے کے خلیوں کا متاثر ہونا رعشہ کا سبب بنتا ہے، ان متاثرہ خلیوں کا علاج اسٹیم سیلز کے ذریعے کیا جاسکتا ہے۔ تحقیق کے دوران سائنس دانوں نے چوہوں کے ان دماغی خلیوں کو ختم کردیا جو ڈوپامائن نامی کیمیکل خارج کرتے ہیں۔ نتیجتاً چوہے رعشے میں مبتلا ہوگئے۔ بعدازاں انھوں نے انسانی ایمبریونک اسٹیم سیلز کو ڈوپامائن پیدا کرنے والے خلیوں میں تبدیل کردیا۔ ماہرین کا کہنا تھا کہ اس تحقیق سے رعشے کے علاج میں اہم پیش رفت ہوئی ہے، تاہم انسانوں پر اس طریقۂ علاج کی آزمائش کے لیے وقت درکار ہوگا۔

٭ گذشتہ برس عالمی ادارۂ صحت نے اینٹی بایوٹکس کی مزاحمت کے بارے میں پہلی جامع رپورٹ جاری کی جس میں کہا گیا تھا کہ صحت انسانی کا مستقبل مخدوش ہوتا جارہا ہے۔ اس رپورٹ کے لیے 114ممالک سے اعدادوشمار اور دیگر معلومات حاصل کی گئی تھیں۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ مختلف امراض کا سبب بننے والے جراثیم میں اینٹی بایوٹک ادویہ کے خلاف مزاحمت بڑھتی جارہی ہے، جس کی وجہ سے ان دوائوں کی افادیت محدود ہوتی جارہی ہے۔ جراثیم میں بڑھتی ہوئی یہ مزاحمت انسانی صحت کے لیے سنگین خطرہ ہے۔ اگر دنیا نے اس پر توجہ نہ دی تو پھر آج کے معمولی امراض مستقبل میں ہلاکت خیز صورت اختیار کرجائیں گے۔

ستارے ؍ سیارے ؍ خلا ؍ دوربین ؍ خلائی جہاز
خلا پر سائنس دانوں کی توجہ بڑھتی جارہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نت نئے سیارے دریافت ہونے کے ساتھ ساتھ خلائے بسیط میں چھپے بہت سے رازوں سے پردہ اٹھ رہا ہے۔

٭گذشتہ برس ماہرین فلکیات نے سب سے ’ بوڑھا‘ ستارہ دریافت کیا۔ کائنات کے ’معمر ترین‘ ستارے کو SM0313 کا نام دیا گیا۔ ماہرین کے مطابق اس ستارے کی تشکیل بگ بینگ کے فوراً بعد ہوئی تھی۔ ہائیڈروجن، ہیلیئم اور تھوڑی مقدار میں لیتھیئم پر مشتمل SM0313 ایک گیسی ستارہ ہے۔

٭ ناسا کی دوربین کیپلر کی مدد سے فلکیاتی ماہرین نے زمین کا ’جُڑواں سیارہ‘ دریافت کیا۔ سائنس دانوں کے مطابق یہ سیارہ ہماری زمین سے پانچ سو نوری سال کے فاصلے پر واقع ہے۔ اس کی جسامت زمین سے کچھ بڑی ہے اور یہ اپنے ستارے سے اتنی دوری پر ہے کہ اس کا سطحی درجۂ حرارت نہ تو بہت زیادہ ہے اور نہ ہی بہت کم۔ یعنی اس کا سطحی درجۂ حرارت پانی کی موجودگی کے لیے موزوں ہے۔ اسی وجہ سے یہ اپنی دیگر طبعی خصوصیات میں بھی زمین سے مماثل ہوسکتا ہے۔

سائنس دانوں نے Chariklo نامی سیارچے کے گرد دو کثیف ہالے دریافت کیے۔ یہ دریافت ماہرین فلکیات کے لیے یوں باعث حیرت ہوئی کہ Chariklo نظام شمسی کی حدود میں موجود سب سے چھوٹا جسم ہے جس کے گرد دائرے دریافت ہوئے۔ مشتری، زحل، یورینس اور نیپچون کے بعد یہ ہالہ دار پانچواں جَرم فلکی ہے۔

٭امریکی خلائی ادارے ناسا نے 715 نئے سیاروں کی دریافت کا اعلان کیا۔ ناسا کے کیپلر مشن سے متعلق ماہرین فلکیات کے مطابق نودریافت شدہ سیارے 305 ستاروں کے گرد گردش کرتے ہیں۔ ان میں سے کچھ ستارے ہمارے نظام شمسی جیسے نظاموں کا مرکز ہیں۔ نئے سیاروں میں سے 95 فی صد نیپچون سے چھوٹے ہیں جو زمین سے چار گنا زیادہ بڑا ہے۔

٭یورپین اسپیس ایجنسی نے خلاء میں چٹانی سیاروں کا سراغ لگانے کے لیے زمین کے مدار میں رصدگاہ روانہ کرنے کا اعلان کیا۔ Plato نامی رصدگاہ 2024ء میں راکٹ کے ذریعے ارضی مدار میں پہنچائی جائے گی۔ اس منصوبے پر 60 کروڑ یورو کی لاگت آئے گی۔

٭ خلائی جہاز Cassiniکو ارضی مدار کی حدود سے باہر نکلے ہوئے دس برس مکمل ہوگئے۔ یہ خلائی جہاز 30جون 2004ء کو سیارہ زحل کی جانب روانہ کیا گیا تھا۔ دس برس کے دوران اسپیس کرافٹ نے زحل، اس کے دائروں اور چاند کے بارے میں قیمتی معلومات ارسال کیں۔

٭ناسا کا خلائی شٹل پروگرام بند ہونے کے بعد امریکی خلاباز، ارضی مدار میں جانے کے لیے روس کے محتاج ہیں۔ تاہم گذشتہ برس ناسا نے بوئنگ اور اسپیس ایکس نامی امریکی کمپنیوں سے معاہدہ کیا، جس کی رُو سے 2017ء کے بعد روس پر امریکی انحصار ختم ہوجائے گا اور مذکورہ کمپنیاں اپنے تیار کردہ خلائی جہازوں میں خلابازوں کو بین الاقوامی خلائی اسٹیشن تک پہنچائیں گی۔

٭ہندوستان کا پہلا خلائی جہاز ’’منگلیان‘‘ مریخ کے مدار میں داخل ہوگیا۔ سرخ سیارے کی جانب یہ خلائی مشن گذشتہ برس روانہ کیا گیا تھا۔ اہم بات یہ ہے کہ ہندوستان کا پہلا ہی خلائی جہاز کام یابی سے مریخ کے مدار میں داخل ہوگیا۔ اس سے قبل امریکا، روس اور چین کی اپنے اپنے خلائی جہاز مریخ کی حدود میں پہنچانے کی اولین کوششیں ناکامی سے دوچار ہوئی تھیں۔

٭ ورجن گلیکٹک برطانیہ کی نجی تجارتی خلائی کمپنی ہے جو مسافروں کو ارضی مدار میں لے جانے کے لیے ارب پتی رچرڈ برانسن نے قائم کی ہے۔ ورجن گلیکٹک کا راکٹ جہاز آزمائشی پرواز کے دوران کیلی فورنیا کے صحرائے موجائو میں گر کر تباہ ہوگیا۔ اس حادثے میں طیارے کا ایک پائلٹ ہلاک اور دوسرا زخمی ہوا۔

٭ دس برس تک خلا میں محوِ سفر رہنے کے بعد ’’فلائی‘‘ نامی تحقیقی خلائی جہاز ایک سیارچے پر اترنے میں کام یاب ہوگیا۔ یہ جہاز یورپین اسپیس ایجنسی نے روانہ کیا تھا۔ یہ پہلا موقع تھا جب کسی خلائی جہاز نے سیارچے پر ’سوفٹ لینڈنگ‘ کی ہو۔

خلائی حیات
سائنس داں برادری کے ساتھ ساتھ عام انسان بھی ایک عرصے سے خلائی مخلوق کے سحر میں مبتلا ہیں۔ انھیں یقین ہے کہ اس لامتناہی کائنات میں انسان اکیلا نہیں بلکہ زمین کے علاوہ بھی کہیں نہ کہیں زندگی موجود ہے۔ ٹیکنالوجی میں تیزرفتار ترقی کے ساتھ ساتھ سائنس دانوں کی خلائی مخلوق کا سراغ لگانے کی خواہش بھی جنون کی شکل اختیار کرگئی ہے۔ اس مقصد کے لیے مریخ ان کی توجہ کا خصوصی مرکز چلا آرہا ہے۔ اس کے علاوہ دیگر سیاروں پر بھی وجود حیات کی کھوج لگانے کی کوششیں جاری ہیں۔ اس سلسلے میں ان کی توجہ مریخ اور دیگر سیاروں اور سیارچوں کی سطح پر پانی کا سراغ لگانے پر ہے، کیوں کہ سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ جہاں پانی ہوگا وہاں زندگی بھی لازماً کسی نہ کسی شکل میں وجود رکھتی ہوگی۔

٭ ناسا کے خلائی جہاز ’’کیسینی‘‘ اور ’’ڈیپ اسپیس نیٹ ورک‘‘ نے زحل کے چاندEnceladus پر زیرزمین آبی سمندر دریافت کرلیا۔ اس دریافت کے بعد Enceladus میں ماہرین فلکیات کی دل چسپی بڑھ گئی ہے۔ اس سے پہلے 2005ء میں خلائی جہاز نے زحل کے چاند کی فضا میں آبی بخارات کا سراغ لگایا تھا، جس کے بعد سائنس دانوں نے خیال ظاہر تھا کہ وہاں پانی موجود ہوسکتا ہے۔

٭ کارنیگی ملن یونی ورسٹی کے سائنس دانوں کی ٹیم نے ہمارے نظام شمسی سے باہر پانی کی موجودگی کے شواہد دریافت کیے۔ برفابی بادلوں کی صورت میں پانی مشتری، زحل، یورینس، اور نیپچون جیسے سیاروں پر بھی موجود ہوسکتا ہے مگر یہ پہلی بار ہے جب نظام شمسی کی حدود سے باہر پانی کے شواہد ملے ہوں۔

گلوبل وارمنگ
دنیا کا بڑھتا ہوا درجۂ حرارت اور اس کے نتیجے میں جنم لینے والی موسمیاتی تبدیلیاں کئی عشروں سے عالمی توجہ کا مرکز بنی ہوئی ہیں۔ پچھلے دس پندرہ برسوں سے خاص طور پر یہ مسئلہ عالمی سطح پر اٹھایا جارہا ہے۔ اس سلسلے میں متعدد تحقیقی کاوشیں منظرعام پر آچکی ہیں جن میں بتایا گیا تھا کہ گلوبل وارمنگ کے بطن سے جنم لینے والی موسمیاتی تبدیلیاں نہ صرف جنگلی حیات کے لیے مہلک ثابت ہورہی ہیں بلکہ بہ تدریج یہ انسان کو بھی بقا کی جدوجہد سے دوچار کردیں گی۔

گلو بل و ارمنگ کے حوالے سے تحقیق اور رپورٹوں کے اجرا کا سلسلہ گذشتہ برس بھی جاری رہا۔

٭گذشتہ برس مارچ میں جاری کی جانے والی ایک رپورٹ کے مطابق گلوبل وارمنگ کے سبب سطح سمندر میں اضافے کی وجہ سے بہت سے ساحلی مقامات زیرآب آجائیں گے۔ ان میں 720 ایسے تاریخی مقامات بھی شامل ہوں گے جنھیں یونیسکو عالمی ثقافتی ورثہ قرار دے چکا ہے۔ رپورٹ کے مطابق اگر عالمی درجۂ حرارت میں موجودہ شرح سے اضافہ ہوتا رہا تو پھر آنے والی چند صدیوں میں مجسمۂ آزادی، لندن ٹاور اور سڈنی کے اوپیرا ہائوس سمیت سات سو بیس تاریخی مقامات اور یادگاریں سمندربُرد ہوجائیں گی۔ ظاہر ہے کہ ان کے ساتھ ساتھ متعدد شہر بھی غرقاب ہوجائیں گے۔

٭ یورپی خلائی جہاز Cryosat کے بھیجے گئے اعدادوشمار کی روشنی میں سائنس دانوں کا کہنا تھا کہ انٹارکٹیکا میں بڑی مقدار میں برف پگھلنے کی وجہ سے سال کے آخر تک سمندروں کی سطح 0.43 ملی میٹر بلند ہوجائے گی۔ اس رپورٹ کے لیے 2010ء سے 2013ء کے درمیان ’سفید براعظم‘ میں برف کے پگھلنے کی رفتار کا جائزہ لیا گیا تھا۔

عالمی حدت کا سبب بننے والی سبزمکانی (گرین ہائوس) گیسوں کے بارے میں کیے گئے ایک جامع تحقیقی مطالعے میں بتایا گیا ہے کہ فضا میں ان گیسوں کا ارتکاز بڑھ رہا ہے۔ اس اسٹڈی کی بنیاد پر عالمی موسمیاتی تنظیم (WMO ) نے ایک بین الاقوامی موسمیاتی معاہدے کی ضرورت پر زور دیا۔

٭ برطانوی محققین کی تحقیق میں بتایا گیا کہ سمندروں میں بڑھتی ہوئی تیزابیت آبی حیات کو شدید متاثر کرے گی جس سے لامحالہ انسان بھی متاثر ہوں گے۔ تحقیقی رپورٹ کے مطابق فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی بڑھتی ہوئی مقدار کی وجہ سے سمندروں کی ’پی ایچ‘ گر رہی ہے، نتیجتاً ان کا پانی تیزابی ہوتا جارہا ہے۔ اسی نوع کی ایک رپورٹ اقوام متحدہ کے کنوینشن برائے حیاتی تنوع ( CBD ) نے بھی شائع کی ۔ اس رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ سمندروں میں بڑھتی ہوئی تیزابیت ایک سنجیدہ مسئلہ ہے جس کے متعلق ایک مربوط پالیسی تشکیل دیے جانے کی ضرورت ہے۔

کمپیوٹر ٹیکنالوجی
روزمرّہ زندگی کے مختلف شعبوں میں انقلابی تبدیلیوں کا سہرا بلاشبہ کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کے سر ہے۔ جیسے جیسے کمپیوٹر کا استعمال اس کی رفتار میں اضافے کی ضرورت بھی شدید تر ہوتی چلی گئی۔ بعدازاں انٹرنیٹ کی آمد کے بعد تو تیز رفتار کمپیوٹر ناگزیر ضرورت بن گئے۔ دو عشرے قبل کے مقابلے میں آج کمپیوٹر کئی گنا تیزی سے کام کررہے ہیں، اس کے باوجود یہ استعمال کنندگان کو دھیمے محسوس ہوتے ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ صارفین چاہتے ہیں یہ مشین پلک جھپکنے میں ہر کام کی تعمیل کردے۔ ان کی خواہش ہوتی ہے کہ ادھر وہ بٹن دبائیں اور اُدھر کئی گیگابائٹ حجم رکھنے والی وزنی فائل ڈائون لوڈ یا ٹرانسفر ہوجائے۔ بہرحال کمپیوٹر کی رفتار اور ڈیٹا ذخیرہ کرنے کی گنجائش میں اضافے کی کوششیں گذشتہ برس بھی جاری رہیں۔

٭اسٹینفرڈ یونی ورسٹی کے بایو انجنیئرز نے انسانی دماغ کی ساخت کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک سرکٹ بورڈ تخلیق کیا۔ ماہرین کا کہنا تھا کہ یہ بورڈ کمپیوٹنگ کے ساتھ ساتھ روبوٹکس کے میدان میں بھی انتہائی کارآمد ثابت ہوگا۔ نیوروگرڈ نامی یہ سرکٹ بورڈ سولہ چِپس پر مشتمل ہے۔ ماہرین کے مطابق اس سرکٹ بورڈ کی وجہ سے کمپیوٹر پروسیسر کی رفتار کئی گنا بڑھ جائے گی۔

ہارڈ ڈسک اور میموری کارڈ بنانے والی کمپنی سین ڈسک نے سب سے زیادہ، 512 گیگابائٹ گنجائش کا حامل ایس ڈی کارڈ فروخت کے لیے پیش کردیا۔ اس کارڈ کا سائز ڈاک ٹکٹ کے برابر ہے۔
٭دنیا کا مقبول ترین کمپیوٹر آپریٹنگ سسٹم بنانے والی کمپنی مائیکروسوفٹ نے نیا آپریٹنگ سسٹم ونڈوز 10 جاری کرنے کا اعلان کیا۔

جینیات
٭چینی محققین نے ڈی این اے انجنیئرنگ سے کام لیتے ہوئے تبدیل شدہ جینز کے حامل بندر کام یابی سے ’ تیار ‘ کرلیے۔ یہ جینیات کی تاریخ میں اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ تھا۔ سائنس دانوں کا کہنا تھا جینیاتی تبدیلیوں کے حامل جانوروں کی پیدائش میں کام یابی سے انسانوں کے جینیاتی خرابیوں سے بچائو میں مدد ملے گی۔

٭برطانوی سائنس دانوں نے آلو کو جینیاتی تبدیلیوں کے ذریعے گلنے سڑنے سے مامون کردیا۔ یہ کام یابی اس لحاظ سے بے حد اہم ہے کہ سبزیاں اور ترکاریاں گلنے سڑنے ہی کی وجہ سے خراب ہوتی ہیں۔ اس تحقیق کے بعد، سائنس دانوں نے امید ظاہر کی کہ آلو کی فصل لمبے عرصے تک تروتازہ رہے گی۔

٭ کیمبرج یونی ورسٹی کے سائنس دانوں پر مشتمل ایک ٹیم نے سرطان پر ریسرچ کے دوران خلوی تقسیم کے سب سے اہم اور پیچیدہ ترین پروٹین کی ساخت دریافت کی۔ ماہرین کا کہنا تھا کہ اس کام یابی سے انھیں یہ سمجھنے میں مدد ملے گی کہ خلیے کس طرح اپنے کروموسومز کی نقول تیار کرتے ہیں اور تقسیم ہوتے ہیں۔ سب سے اہم بات یہ کہ اس تحقیق سے سرطان کی مزید مؤثر ادویہ کی تیاری میں بھی پیش رفت ہوگی۔

اسٹیم سیل
اسٹیم سیلز سے مکمل انسانی اعضا اُگانے کی باتیں کئی برس سے ہورہی ہیں۔ اس سلسلے میں سب سے اہم پیش رفت گذشتہ برس اُس وقت ہوئی جب ورجینیا یونی ورسٹی میں ایمبریونک اسٹیم سیلز سے مچھلی کا جنین بنالیا گیا۔ یہ کارنامہ انجام دینے والی ٹیم کا کہنا تھا کہ اس تحقیق کی بنیاد پر آنے والے دنوںمیں اسٹیم سیلز کو مکمل انسانی اعضا میں ڈھلنے پر ’ آمادہ‘ کرلیا جائے گا۔

٭اسٹروک یا فالج کے حملے کے علاج میں اہم پیش رفت ہوئی۔ ایک تحقیق کے دوران ماہرین نے مریضوں کے ہڈیوں کے گودے سے حاصل کردہ اسٹیم سیلز کو بہ طور علاج استعمال کیا۔ اس کے نتائج خاصے حوصلہ افزا ثابت ہوئے۔ اہم بات یہ کہ کسی بھی مریض میں اس کا منفی اثر دیکھنے میں نہیں آیا۔ محققین کے مطابق یہ اسٹیم سیلز ایسے کیمیکلز خارج کرتے ہیں جو دماغ کے متاثرہ حصے میں نئے خلیوں اور خون کی نئی نالیوں کی پیدائش کے عمل کا آغاز کرتے ہیں۔

٭ذیابیطس کے علاج کے سلسلے میں بھی اہم پیش رفت ہوئی۔ ہارورڈ یونی ورسٹی کے سائنس دانوں نے انسان کے ایمبریونک اسٹیم سیلز کو انسولن پیدا کرنے والے خلیوں میں بدل دیا۔ سائنس داں کئی برس سے اس موڑ تک پہنچنے کی کوشش کررہے تھے جہاں سے ذیابیطس کے علاج کے نئے راستے نکل سکتے ہیں۔ ذیابیطس کے کروڑوں مریض دوران خون میں شکر کی سطح معمول کے مطابق رکھنے کے لیے انسولن لینے پر مجبور ہیں، مگر یہ ذیابیطس کا حتمی علاج نہیں ہے۔ محققین نے یہ طریقۂ علاج چند مریضوں پر کام یابی سے آزمایا۔ ان کے جسم میں داخل کردہ خلیے انسولن کی کمی کی صورت میں ازخود یہ مرکب پیدا کرنے لگے تھے۔ سائنس دانوں کا کہنا تھا کہ فی الحال اس طریقے سے مریضوں کی بڑی تعداد کا علاج ممکن نہیں، کیوں کہ ابھی تک وہ زیادہ مقدار میں اسٹیم سیلز حاصل کرنے کی تیکنیک وضع نہیں کرسکے۔

روبوٹکس؍ خود کار ہاتھ
میکانیکی مصنوعی انسانی اعضا کئی برس پہلے بنالیے گئے تھے۔ گذشتہ سے پیوستہ برس میں انسانی سوچ کے تحت کام کرنے والے ہاتھ بنائے گئے تھے۔ 2014ء میں ماہرین نے ایسا مصنوعی ہاتھ بنالیا جس کے ذریعے قدرتی ہاتھ ہی کی طرح چیزوں کو محسوس کیا جاسکتا ہے۔ اس مصنوعی بازو میں ایک انتہائی حساس ڈیوائس نصب ہے جو مختلف احساسات کو بازو کے اعصاب تک منتقل کرتی ہے۔ یہ ہاتھ امریکی ریاست اوہایو کے ایک شخص کو لگایا گیا۔

کلوننگ
گذشتہ برسوں کے دوران کلوننگ کی تیکنیک میں ہونے والی اہم پیش رفت نے سائنس دانوں کو اس قابل کردیا کہ وہ معدوم ہوجانے والے جانوروں کو پھر سے وجود میں لانے کے لیے کوششوں کا آغاز کرسکیں۔ صفحۂ ہستی سے مٹ جانے والے جان داروں کو کرۂ ارض پر بھاگتے دوڑتے دیکھنا ایک سنسنی خیز تصور ہے جسے حقیقت میں بدلنے کے لیے سائنس دانوں کی کوششیں گزرے سال بھی جاری رہیں۔

٭ قدیم دور کے دیوقامت ہاتھی جنھیں ’میمتھ‘ کہا جاتا ہے کو ’وجود میں لانے‘ کے سلسلے میں سائنس دانوں نے اہم پیش رفت کا اعلان کیا۔ روس، برطانیہ، امریکا، ڈنمارک، جنوبی کوریا اور مالدووا کے ماہرین پر مشتمل ٹیم نے جمہوریہ سخا کے دارالحکومت یاقوتسک سے میمتھ کا رکاز دریافت کیا تھا۔ محققین نے جدید آلات کی مدد سے رکاز کا جائزہ لیا۔ اس دوران ان پر انکشاف ہوا کہ رکاز بہترین حالت میں تھا۔ اس دریافت نے سائنس دانوں کو پُرجوش کردیا تھا۔ انھیں یقین تھا کہ وہ اس رکاز سے ڈی این اے حاصل کرنے میں کام یاب ہوجائیں گے۔ اس سلسلے میں تحقیق جاری ہے۔ رشین ایسوسی ایشن آف میڈیکل اینتھروپولوجسٹس کے نائب صدر Radik Khayrullin کا کہنا تھا کہ رکاز کے جائزے سے حاصل ہونے والی معلومات کے مطابق میمتھ کی کلوننگ کی روشن امکانات موجود ہیں۔

موبائل ٹیکنالوجی ؍ بیٹری ؍ چارجر
موبائل فون ہماری روزمرّہ زندگی کا جزو لازم بن چکا ہے۔ یہ ڈیوائس ہمارے معمولات میں اتنی دخیل ہوگئی ہے کہ اگر اس سے عارضی دوری بھی اختیار کرنی پڑجائے تو ایک طرح کی کمی اور ادھورے پن کا احساس ہونے لگتا ہے۔ موبائل فون کے اسمارٹ فون کی شکل اختیار کرلینے کے بعد اس کا استعمال کئی گنا بڑھ گیا ہے۔ نتیجتاً اس کی بیٹری بھی جلدختم ہونے لگی ہے۔ بیٹری ری چارج کرنے میں اچھا خاصا وقت صَرف ہوتا ہے۔ اسی لیے ایسے موبائل فون کے صارفین کو ایسے چارجر کی شدت سے ضرورت محسوس ہورہی ہے جو چند منٹوں میں بیٹری ری چارج کردے۔

٭ ایک اسرائیلی کمپنی نے مائیکروسوفٹ کی کانفرنس کے دوران اپنے تیار کردہ چارجر کی نمائش کی جو محض 30 سیکنڈ میں اسمارٹ فون کی بیٹری ری چارج کردیتا ہے۔ ’اسٹور ڈاٹ‘ نامی کمپنی چارجر کی کارکردگی کا عملی مظاہرہ بھی کیا۔ اس دوران چارجر نے فقط نصف منٹ میں بیٹری کو مکمل طور پر ری چارج کردیا۔ یہ چارجر آزمائشی طور پر تیار کیا گیا تھا۔ کمپنی کا کہنا تھا کہ تین برس کے بعد یہ ڈیوائس عام فروخت کے لیے تیار ہوگی۔

٭سنگاپور کی نانیانگ ٹیکنالوجی یونی ورسٹی کے محققین نے انتہائی کم وقت میں ری چارج ہوجانے والی بیٹری تخلیق کرلی۔ یہ بیٹری محض دو منٹ میں 70 فی صد تک ری چارج ہوجاتی ہے۔ ایک اور اہم بات یہ ہے کہ نئے طرز کی یہ بیٹری بیس سال تک کارآمد رہ سکے گی۔ اس طرح اس کا ’عرصۂ حیات‘ موجودہ لیتھیم آیون والی بیٹریوں کے مقابلے میں دس گنا زیادہ ہے۔ ماہرین کے مطابق اس بیٹری کا استعمال محض موبائل فون تک محدود نہیں رہے گا، بلکہ یہ ٹیکنالوجی تمام صنعتوں پر دور رس اثرات مرتب کرے گی۔ برقی کاروں کی صنعت کو اس بیٹری سے خاص طور پر فروغ ملے گا، کیوں کہ بیٹری کو ری چارج کرنے میں صَرف ہونے والے طویل وقت کے پیش نظر لوگ بجلی سے چلنے والی کاریں خریدنے میں ہچکچاتے ہیں۔

ڈائنو سار
گزرے برسوں کے دوران مختلف ممالک میں ڈائنوسارز کی کئی اقسام کے رکاز دریافت ہوچکے ہیں۔ 2014ء میں بھی یہ سلسلہ جاری رہا۔

٭ارجنٹائن میں سائنس دانوں نے ڈائنوسار کا رکاز دریافت کیا۔ خاص بات یہ تھی کہ یہ رکاز کرۂ ارض پر لاکھوں سال قبل دندنانے والے سب سے بڑے (معلوم ) ڈائنوسار کا تھا۔ ماہرین کے مطابق رکاز سے اندازہ ہوتا ہے کہ ڈائنوسار 65 فٹ اونچا اور 130 فٹ لمبا تھا۔ اس کا وزن 77 ٹن تھا جو چودہ افریقی ہاتھیوں کے وزن کے برابر ہے۔ اس سے قبل دریافت ہونے والے سب سے جسیم ڈائنوسار کا وزن گیارہ ٹن تھا۔

٭ صحرائے صحارا میں ماہرین رکازیات نے ایک دیوقامت ڈائنوسارز ’’اسپائنوسارس‘‘ کی باقیات دریافت کیں۔ اسپائنوسارس معلوم جسیم ترین گوشت خور ڈائنوسار ہے۔ تاہم ساڑھے نوکروڑ سال پرانے رکاز پر تحقیق سے اس نظریے کی تصدیق ہوگئی کہ اسپائنوسارس تیرنے والا اولین ڈائنوسار بھی ہے۔

نیورو سائنس
اپنے طرز کے اولین تجربے کا مظاہرہ کرتے ہوئے سائنس دانوں نے دو انسانوں کے درمیان دماغی رابطہ ممکن بنادیا، جب کہ ان کے درمیان ہزاروں میل کا فاصلہ تھا۔ دماغوں کے درمیان معلومات کا تبادلہ انٹرنیٹ کے ذریعے عمل میں آیا۔ ہاورڈ میڈیکل اسکول کے محققین کی ٹیم نے ایک دوسرے سے پانچ ہزار میل کی دوری پر موجود دو انسانوں کی کھوپڑی پر دماغ کی سوچ پڑھنے اور اسے منتقل کرنے والے آلات نصب کیے۔ ان آلات کے ذریعے ایک انسان کے خیالات دوسرے کے دماغ میں منتقل ہوگئے۔ یوں انھوں نے محض سوچ کے ذریعے تبادلۂ خیال کیا۔ یہ اپنی نوعیت کا منفرد تجربہ تھا۔ ماہرین کا کہنا تھا کہ یہ تجربہ آگے چل کر ایسی ٹیکنالوجی کی بنیاد بن سکتا ہے جس کے ذریعے انسان کو اپنے عزیز و اقارب سے رابطے کے لیے موبائل فون اور انٹرنیٹ کی ضرورت نہیں رہے گی اور وہ ان سے دماغی رابطہ کرسکے گا۔

تھری ڈی پرنٹنگ
گذشتہ برس جو ٹیکنالوجیز سائنس کے افق پر چھائی رہیں، ان میں سے ایک تھری ڈی پرنٹنگ ہے۔ جہاں تھری ڈی پرنٹرز کے ذریعے نت نئی اشیاء بنائی گئیں وہیں جدید ترین تھری ڈی پرنٹر بھی سامنے آئے۔ سوئی سے لے کر گاڑیاں تک تھری ڈی پرنٹرز کی مدد سے بنالی گئیں۔ برطانیہ میں ایک انجنیئر نے تھری ڈی پرنٹر سے تخلیق کیے گئے اسپیئر پارٹس کو کار کی شکل دے دی۔ امریکا میں اسی پرنٹر کی مدد سے قابل استعمال گن بنالی گئی۔ تھری ڈی ٹیکنالوجی سے بنائی گئی پستول کی خبروں نے عوامی سطح پر یہ تشویش دوڑا دی کہ اب کسی کے لیے بھی غیرقانونی ہتھیار حاصل کرنا مشکل نہیں رہے گا۔ مجرمانہ ذہنیت کے حامل افراد گھر بیٹھے اسلحہ ’چھاپ‘ سکیں گے۔ تھری ڈی پرنٹر کے ذریعے خوراک تیار کرنے کا تصور بھی سامنے آیا۔ ابتدائی طور پر امریکی فوج کے لیے مخصوص قسم کے تھری ڈی پرنٹرز تیار کرنے کا منصوبہ بنایا گیا جن کے ذریعے محاذ جنگ پر رہتے ہوئے ہر سپاہی اپنے لیے ’تھری ڈی فوڈ‘ تیار کرکے نوش کرسکے گا۔

نوبیل انعام 2014ء
طبیعیات
بجلی کی لوڈشیڈنگ کا عذاب بھگتتے پاکستانی عوام کی بڑی تعداد اپنے گھروں کو روشن رکھنے کے لیے مقامی یا چینی ساختہ ایمرجینسی لائٹیں استعمال کرتی ہے۔ یہ ایمرجینسی چھوٹے چھوٹے درجنوں بلبوں یا روشنیوں پر مشتمل ہوتی ہیں جنھیں سائنس کی زبان میں light-emitting diodesکہا جاتا ہے۔ ایمرجینسی لائٹ کے علاوہ یہ ننھے بلب ٹریفک کے اشارات، گاڑیوں سے لے کر ہزاروں اشیاء میں استعمال ہورہے ہیں۔ عام بلبوں کے مقابلے میں ان میں بجلی کا استعمال کئی گنا کم ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ عام بلب کے مقابلے میں ماحول دوست ہیں اور 85 فی صد کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج کرتے ہیں۔

نوبیل انعام برائے 2014ء ان ہی ’لائٹنگ امیٹنگ ڈائی اوڈز‘ کے تخلیق کاروں کو دیا گیا ہے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ ایل ای ڈی کے تینوں موجدوں جاپانی ہیں۔ پروفیسر اسامو اکاساکی، ہیروشی امانو اور شوجی ناکامورا نے پہلی نیلی ایل ای ڈی 1990ء کی دہائی کے آغاز میں بنائی تھی۔

کیمیا
نوبیل انعام برائے کیمیا مشترکہ طور پر اسٹینفرڈ یونی ورسٹی کے ولیم موئرنر، ہوورڈ ہیوز میڈیکل انسٹیٹیوٹ کے ایرک بیزگ اور میکس پلانک انسٹیٹیوٹ برائے بایوفزیکل کیمسٹری کے اسٹیفن ہیل کے حصے میں آیا۔ ابتدائی دو سائنس دانوں کا تعلق امریکا سے ہے جب کہ اسٹیفن ہیل جرمن شہری ہے۔ انھیں نوبیل انعام کا حق دار محققین کو خلیوں کے اندر جاری سرگرمیوں کا مشاہدہ کرنے کے قابل بنانے کے عوض قرار دیا گیا۔

ان سائنس دانوں کی وضع کردہ تیکنیک کی بنیاد پر انتہائی طاقت ور خردبینیں وجود میں آئیں جن کی مدد سے یک مالیکیولی سطح پر نسیجوں ( ٹشیوز) کا مشاہدہ کیا جاسکتا ہے۔ خلیوں پر تحقیق کے ضمن میں یہ طاقت وَر خردبینیں انقلابی ثابت ہوئی ہیں۔ ان کی مدد سے اب تحقیق کار اعصابی خلیوں کی سرگرمیوں کے مشاہدے سے لے کر مختلف امراض کا سبب بننے والے پروٹین پر نگاہ رکھنے تک، مالیکیولی سطح پر مختلف افعال سے واقفیت حاصل کرسکتے ہیں۔

طب
ایڈورڈ موسر اور مے برٹ موسر ناروے ایک دوسرے کے جیون ساتھی اور نیوروسائنٹسٹ ہیں۔ ان کا تعلق ناروے سے ہے۔ جان اوکیفی بھی ان ہی کے ہم پیشہ ہیں۔ ان کے پاس برطانوی شہریت ہے۔ طب کا نوبیل انعام ان ہی تینوں سائنس دانوں کو دیا گیا۔

دماغ کے مختلف افعال پر تحقیق ان سائنس دانوں کا میدان ہے۔ اعصابی خلیے ان کی خصوصی توجہ کا مرکز ہیں۔ جسم میں ایسے اعصابی خلیے پائے جاتے ہیں جو ہمارے اردگرد کا نقشہ ترتیب دیتے ہیں اور پھر جب ہم چلتے پھرتے ہیں تو یہ خلیے ہماری ’حرکات‘ پر ’نگاہ ‘ رکھتے ہیں۔ ان خلیوں کی دریافت کا سہرا تینوں سائنس دانوں کے سَر ہے۔ اس انقلابی دریافت کے بعد دماغ کے افعال کا مطالعہ کرنے والے سائنس دانوں اور فلسفیوں کو اس دیرینہ سوال کا جواب مل گیا تھا کہ انسان کے دماغ میں اس کے گرد وپیش کا نقشہ کیسے ترتیب پاتا ہے؟ دوسرے الفاظ میں وہ یہ کیسے محسوس کرپاتا ہے کہ کون سا مقام یا کون سی عمارت کہاں ہے؟ یا کوئی شے کہاں رکھی ہے؟

ان اعصابی خلیوں کو place cells کہا جاتا ہے جو دماغ میں گردوپیش اور مختلف اشیاء کے محل وقوع کا احساس پیدا کرتے ہیں۔ تینوں سائنس دانوں نے مجموعی طور پر چالیس برس ان خلیوں پر تحقیق کرتے ہوئے گزارے۔


Viewing all articles
Browse latest Browse all 4420

Trending Articles



<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>