فلسطین کے محاصرہ زدہ گنجان آباد علاقے غزہ کی پٹی میں جولائی اور اگست کے دوران51 روز تک جاری رہنے والی خونخوار صہیونی سفاکیت اور جارحیت کے زخم ابھی مندمل نہیں ہونے پائے تھے کہ غاصب ریاست نے مقبوضہ مغربی کنارے، بیت المقدس اور شمالی فلسطین کے نہتے عرب باشندوں پرمشق ستم کا ایک نیاسلسلہ شروع کردیا۔
ایک ماہ سے مقبوضہ بیت المقدس اور غرب اردن میں جاری اسرائیل کی منظم ریاستی دہشت گردی کے ساتھ ساتھ اب ایک قدم اور آگے بڑھتے ہوئے مسلمانوں کے تیسرے مقدس ترین مقام مسجد اقصیٰ پربھی یہودی دست درازی کرنے لگے ہیں۔ تنگ آمد بہ جنگ آمد کے مصداق نہتے فلسطینیوں نے بھی بساط بھر صہیونی جارحیت کے خلاف سڑکوں پر نکل کر ریاستی دہشت گردی کے خلاف احتجاج شروع کردیا ہے۔
تازہ احتجاجی تحریک کو ایک ماہ ہونے کو ہے اور اس میں روز مرہ کی بنیاد پر شدت آتی جا رہی ہے۔ وحشیانہ کریک ڈائو ن کے باوجود فلسطینی ہر روز گھروں سے نکلتے اور یہودی شرپسندوں کے خلاف احتجاجی جلوس اور ریلیاں منعقد کرتے ہیں۔ پکڑ دھکڑ ، جیلیں اور حراستی مراکز میں روح فرسا تشدد فلسطینیوں کو صہیونی ریاست کے غاصبانہ قبضے کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنے سے نہیں روک سکا ہے۔
تازہ تحریک کاآغاز
اسرائیلی درندگی کے خلاف فلسطینی ویسے تو ہمہ وقت حالت جنگ میں رہتے ہیں مگر بعض واقعات صہیونی ریاست کے خلاف فلسطینی قوم کو زیادہ مشتعل کردیتے ہیں جس کے بعد پورا ملک میدان جنگ کا منظر پیش کرنے لگتا ہے۔ غرب اردن اور بیت المقدس میں حالیہ پرتشدد تحریک کا آغاز گزشتہ جولائی میں ایک 14 سالہ فلسطینی لڑکے محمد ابو خضیر کے اغواء کے بعد یہودی شرپسندوں کے تشدد کے نتیجے میں ظالمانہ شہادت کے بعد شروع ہوا لیکن اس تحریک کو مہمیز ستمبر میں مغربی کنارے میں دو فلسطینی بچیوں کو کار تلے کچل ڈالنے کے اندوہ ناک واقعے نے دی۔
اس واقعے میں ایک چھ سالہ بچی موقع پر شہید جبکہ دوسری شدید زخمی ہوئی جو اب جسمانی طورپر مکمل معذور ہوچکی ہے۔ دونوں اسکول سے واپسی پرگھر کے قریب سڑک پار کررہی تھیں کہ ایک جنونی یہودی آباد نے دانستہ طورپر اپنی کار ان پر چڑھا دی۔ اسرائیل کے قریباً تمام اہم اخبارات نے اس خبر کو شہ سرخی میں شائع کیا لیکن سب نے کار ڈرائیور کے دفاع میں زمین وآسمان کے قلابے ملانے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔ ہر ایک نے الگ الگ پہلو سے یہودی قاتل کا بھر پور دفاع کیا لیکن عینی شاہدین اور کار کی زد میں آنے والی دونوں معصوم بچیوں کی مائیں موقع پرموجود تھیں۔
انہوں نے بتایا کہ سڑک سنسان تھی اور بہت دور سے یہودی آباد کار ایک ہی رفتار کے ساتھ کار چلائے چلا آ رہا تھا بچیاں دور سے دکھائی دے رہی تھیں لیکن اس نے کھلی سڑک پر اپنی گاڑی کو دانستہ طورپر ان کے پیچھے لگا دیا جسکے نتیجے میںایک بچی اچھل کر دور جا گری اور وہیں تڑپ کرشہید ہوگئی جبکہ دوسری بھی بری طرح کچلی گئی۔ اس کی دونوں ٹانگیں ٹوٹ چکی ہیں۔ کھوپڑی میں میں بھی گہری چوٹیں آئی ہیں۔ وہ ھنوز رام اللہ کے ایک اسپتال میں انتہائی نگہداشت وارڈ میں داخل ہے۔
اس انسانیت سوز واقعے کے بعد مغربی کنارے اور مقبوضہ بیت المقدس میں پرتشد د مظاہرے پھوٹ پڑے۔ صہیونی ریاست نے حسب معمول مظاہرین پر طاقت کا وحشیانہ استعمال کیا ۔ مگر معاملہ تھمنے کے بجائے مزید اشتعال پکڑتا چلا گیا۔ اکتوبر کے آخری ہفتے میں بیت المقدس میں ایک فلسطینی نوجوان نے اپنی کار یہودی آباد کاروں پر چڑھا دی جس کے نتیجے میں ایک یہودی ہلاک اور آٹھ زخمی ہوگئے۔ اس واقعے کو بنیاد بنا کر صہیونی فوجیوںنے اہالیان بیت المقدس پرقیامت ڈھا دی۔
درجنوں افراد کو نہایت بے دردی سے حراست میں لینے کے بعد انہیں بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنایاگیا۔ فلسطینیوں میں اشتعال مزید بڑھنے لگا ۔ انہی ایام میں ایک دوسرے فلسطینی نوجوان نے ایک انتہا پسند یہودی ربی’’یہودا گلیک‘‘ کو فائرنگ کرکے شدید زخمی کردیا۔ اگلے روز اسرائیلی فوجیوں نے یہودی ربی پرحملہ کرنے کے الزام میں فلسطینی نوجوان کو اس کے گھر میں گھس کر گولیاں ماردیں اور اسے بھی ماورائے عدالت قتل کردیا گیا۔
اس واقعے کو ابھی تین روز ہی گزرے تھے کہ ایک اور فلسطینی وین ڈرائیور نے اپنی گاڑی اسرائیلی پولیس اہلکاروں پر چڑھاد ی جس کے نتیجے میں دوپولیس اہلکار ہلاک اور چودہ زخمی ہوگئے۔ پولیس کی فائرنگ سے فدائی حملہ آور بھی جام شہادت نوش کرگیا۔ ان واقعات نے فلسطینی شہریوں اور یہودی آباد کاروں کو ایک دوسرے کے مد مقابل لا کھڑا کیا۔ اسرائیلی فوج نے تشدد کا دائرہ بیت المقدس سے بڑھاتے ہوئے مغربی کنارے اور شمالی فلسطین تک وسیع کردیا اور نومبر کے پہلے دس ایام میں دونوں شہروں میں پانچ فلسطینی شہید کردیے گئے۔ فلسطینیوں کی سنگ باری اور جوابی کارروائیوںمیں ایک خاتون سمیت تین یہودی بھی ہلاک ہوگئے۔
اسرائیلی حکومت جب فلسطینیوں کے مظاہرے روکنے میں ناکام رہی تو اس نے مسجد اقصیٰ میں فلسطینیوں کے داخلے پرپابندی عائد کردی۔ مسجدا قصیٰ پرپابندی ایک نیا صہیونی حربہ تھا جس پر فلسطین بھر میں شدید رد عمل ہوا۔ یہ رد عمل صرف فلسطین تک محدود نہ رہا بلکہ مسلمان ملکوں کے ساتھ ساتھ امریکا نے بھی خلاف توقع اس کی شدید مذمت کردی۔ جب یہ سطور احاطہ تحریر میں تھیں تو یہ خبر آ رہی تھی کہ اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاھو نے اردن میں امریکی وزیرخارجہ جان کیری سے ملاقات میں مسجد اقصیٰ پرعائد پابندیاں اٹھانے کا اعلان کردیا ہے۔ لیکن اسرائیل کے اس اعلان پریقین کون کرے گا۔ اب تک کتنے ہی اعلانات، قراردادیں اور معاہدے ہوچکے جن میں اسرائیل نے فلسطینیوں کو ان کے حقوق دینے کی یقین دہانی کرائی مگر وہ سب قصہ پارینہ ہوگئے۔
عملاً اس وقت فلسطین میں ایک نئی تحریک شروع ہوچکی ہے۔ اسرائیل تھینک ٹینک ، ذرائع ابلاغ اور سکیورٹی ادارے یہ ماننے لگے ہیں کہ فلسطینیوں کی موجودہ عوامی مزاحمتی تحریک فیصلہ کن تحریک میں بدلتی جا رہی ہے۔ فلسطین میں یہودی شرپسندی کے خلاف فلسطینی قوم نے جس جرات اور بہادری کے ساتھ صہیونی ریاست کے خلاف پرامن احتجاج کا سلسلہ شروع کیا ہے یہ کسی بھی قیمت پراسرائیل کے لیے قابل برداشت نہیں ہے۔
یہ تحریک اس سے قبل برپا ہونے والی دو تحاریک ہائے انتفاضہ کا ایک تسلسل ہے ۔ یہ تحریک ایسے وقت میں شرو ع ہوئی ہے جب عالمی سطح پر فلسطینی ریاست میں حمایت میں سفارتی اور سیاسی مساعی بھی تیزی سے جاری ہیں۔ کئی یورپی ملکوں نے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا باضابطہ اعلان کیا ہے جبکہ یورپی یونین نے بھی اپنی پالیسی واضح کرتے ہوئے فلسطینی ریاست کے قیام کی حمایت کا عندیہ دیا ہے۔ فلسطینی عوام کی موجودہ تحریک انتفاضہ اگر مزید کچھ عرصہ جاری رہتی ہے تو یہ عالمی برادری، اسرائیل اور اس کے سرپرست اعلیٰ امریکا کے لیے واضح پیغام ہوگا کہ فلسطینی اب آزادی سے کم کسی چیز پرراضی نہیں ہوں گے۔
اگر عارضی طورپر اس تحریک کو دبا بھی دیا گیا جیسا کہ حالات اس کا اشارہ بھی کررہے ہیں تو فلسطین میں اسرائیل کے خلاف ایک بڑی عوامی تحریک جلد شروع ہوجائے گی۔ عوامی انتفاضہ سے بچنے کا صرف ایک ہی راستہ ہے وہ یہ کہ اسرائیل فلسطینیوں کی منشاء کے مطابق انہیں آزاد او ر خود مختار ریاست تشکیل دینے کا حق فراہم کرے۔ ہٹ دھرمی کا مظاہرہ خود اسرائیل کی تباہی کا پیش خیمہ ثابت ہوگا۔
صہیونی حکومت کے مقرب سمجھے جانے والے اخبار’’یروشلم پوسٹ‘‘ نے بجا طورپر لکھا ہے کہ ’’فلسطینیوں کی تازہ تحریک اسرائیلی سیاست دانوں اور برسراقتدار اتحاد کے لیے نوشتہ دیوار ہے۔ اسے پڑھ لینا چاہیے ۔ اب اس تحریک میں فلسطینی تنہا نہیں ہیں بلکہ انہیں عالمی برادری بالخصوص یورپی یونین کی بھی غیراعلانیہ حمایت حاصل ہے۔ ایسے میں اسرائیل کے پاس صرف ایک ہی راستہ بچا ہے کہ وہ فلسطینی اتھارٹی کو ایک خود مختار حکومت تشکیل دینے کی اجازت دے اور عالمی برادری کو ساتھ ملاکر فلسطینی ریاست کی جغرافیائی حدو د کا تعین کرے‘‘۔
قبلہ اول کو تقسیم کرنے کی گھناؤنی سازش
سنہ 1967ء کی چھ روزہ عرب، اسرائیل جنگ میں صہیونی ریاست نے پورے بیت المقدس اور مقبوضہ مغربی کنارے پرفوجی طاقت کے بل بوتے پرجائز تسلط جمالیا۔ اس طرح فلسطین کے قریباً تمام مقدس مقامات اسرائیل کے قبضے میں آگئے۔ انتہا پسندیہودیوں کا یہ ایک دیرینہ خواب تھا کیونکہ وہ مسجد اقصیٰ کی جگہ ہیکل سلیمانی کی تعمیر کی سازش کے ساتھ فلسطین کے تمام اہم مقدس مقامات کویہودیانے کی مکروہ منصوبہ بندی کررہے تھے۔
اپنے اس مذموم مقصد کی تکمیل کی خاطر شرپسند یہودیوں نے مسجد اقصیٰ اور مغربی کنارے میں مسجد ابراہیمی کو شورش کے ذریعے یہودی معابد میں بدلنے کی سازشیں شروع کردیں۔ مسجد اقصیٰ میں آتش زدگی اور مسجد ابراہیمی کی مسلمانوں اور یہودیوں میں مکانی اور زمانی اعتبار سے تقسیم انہی سازشوں کا تسلسل ہیں۔ اب تک یہودی الخلیل شہرمیں جامع مسجد ابراہیمی کو یہودیوں اور مسلمانوں میں تقسیم کرنے میں کامیاب ہوچکے ہیں اور اب یہ تجربہ مسجد اقصیٰ کے بارے میں بھی دہرانا چاہتے ہیں۔
چونکہ مسجد اقصیٰ مسلمانوں کا قبلہ اول ہے اور اس کے ساتھ اس دور فسوں کار کے گئے گزرے مسلمانوں کو بھی کسی نہ کسی شکل میں عقیدت ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اسرائیل بیت المقدس پرقبضہ کرنے کے باوجود قبلہ اول کو یہودیوں کی ملکیت قرار دینے کی کسی سازش میں کامیاب نہیں ہوسکا۔ پچھلے چند ہفتوں سے جاری شورش کامرکز و محور بھی مسجد اقصیٰ ہی رہی۔ اسرائیلی پارلیمنٹ میں اس وقت دو آئینی بل زیرغور ہیں جن میں کنیسٹ سے کہا گیا ہے کہ وہ مسجد اقصیٰ کو یہودیوں اور مسلمانوں کے مابین زمانی اور مکانی اعتبار سے تقسیم کرنے کی منظوری دے۔
اگرچہ پارلیمنٹ ابھی تک ایسا کوئی فیصلہ نہیں کرسکی لیکن عملاً پچھلے کئی سال سے یہودیوں نے قبلہ اول کو تقسیم کر رکھا ہے۔ انتہا پسند یہودی ربیوں کی معیت میں روز مرہ کی بنیاد پر علی الصباح صہیونیوں کے گروہ قبلہ اول میں داخل ہوتے ہیں اسرائیلی فوج اور پولیس انہیں فول پروف سکیورٹی مہیا کرتی ہے۔مقامی وقت کے مطابق دن گیارہ بجے تک کسی فلسطینی کو مسجد میں داخل نہیں ہونے دیا جاتا۔ مسجد اقصیٰ کے ساتھ داخلی دروازوں میں باب المغاربہ(مراکشی دروازہ) یہودیوں کی آمد و رفت کے لیے مختص ہے۔ اس دروازے سے فلسطینیوں کو مسجد میں داخلے کی اجازت نہیں۔
دن کے پچھلے اوقات میں فلسطینی مشروط طورپر مسجد اقصیٰ میں داخل ہوسکتے ہیں لیکن اسرائیلی فوج نے کے داخلے کے لیے عمر کی قید مقرر کر رکھی ہے۔ نماز جمعہ کے اجتماعات میں صرف 50 سال یا زائد عمر کے افراد کو داخلے کی اجازت دی جاتی ہے۔ دیگر فلسطینی صہیونی فوجیوںکے ساتھ مسلسل مڈبھیڑ کے بعد باہر سڑکوں ہی پرنماز ادا کرتے ہیں۔اس لحاظ سے صہیونی حکومت نے غیراعلانیہ طوررپر مسجد اقصیٰ کو یہودیوں اور مسلمانوں میں تقسیم کررکھا ہے۔ مسجدا قصیٰ کی دونوں مذاہب کے پیروکاروں میں تقسیم ایک نہایت ہی خطرناک سازش ہے اور یہ نہ صرف فلسطین، مشرق وسطیٰ بلکہ اسلامی دنیا میں اشتعال پھیلانے کا موجب بن سکتی ہے۔
فلسطینی ریاست کوتسلیم کرنے کا غصہ
صہیونی ریاست کے فلسطینی عوام پر غم و غصے کی ایک اور وجہ عالمی سطح پرفلسطینی ریاست کی فروغ پذیرحمایت بھی ہے۔ اگرچہ فلسطینیوں کے خلاف طاقت کے استعمال کا ایک فائدہ فلسطینی عوام کو بھی ہورہا ہے۔ جولائی اور اگست کے دوران غزہ کی پٹی پراسرائیلی یلغار کے خلاف عالمی سطح پر جو رد عمل سامنے آیا ماضی میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ یورپی ممالک جو ماضی میں اسرائیل کے ہرناجائز اقدام پر اعلانیہ یا درپردہ حامی رہے ہیں اب وہ بھی صہیونی جارحیت پر کھل کرمخالفت کرنے لگے ہیں۔
عالمی سطح پر فلسطینیوں کی بڑھتی حمایت ا ور آزاد فلسطینی ریاست کو تسلیم کیے جانے کے لیے جو رائے عامہ ہموار ہو رہی ہے۔ اس نے صہیونی ریاست کو بوکھلاہٹ سے دوچار کرر کھا ہے۔شاید یہی وجہ ہے کہ اسرائیل اب یورپی ممالک کے سفیروں اور حکومتی شخصیات کو فلسطینی علاقوں کے دورے سے روکنے کی بھی کوشش کررہا ہے۔ یورپی یونین کی جانب سے آزاد فلسطینی ریاست کی حمایت اس بات کا ثبوت ہے کہ اب عالمی برادری مسئلہ فلسطین کو مثبت انداز میں دیکھنے لگی ہے اور وہ وقت اب زیادہ دور نہیں جب فلسطینیوں کے سلب شدہ حقوق انہیں ملیں گے اور اسرائیل کو اپنی ہٹ دھرمی ترک کرنا پڑے گی۔