اسلام آباد: افغانستان سے غیر ملکی افواج سال 2014 کے آخر تک نکل تو جائے گی لیکن افواج کا یہ انخلا افغان انتظامیہ کو ایک ایسے چیلنج سے دوچار کر جائے گا جس سے نمٹنا اُن کے لیے قریباً ناممکن نظر آتا ہے۔
دراصل طالبان نے جب سے افیون کی تجارت کو بہ طور ہتھیار استعمال کرنا شروع کیا ہے اُس پر اب قابو پانا مشکل ہے کیوں کہ افغان طالبان اس تجارت سے حاصل ہونے والی اربوں روپے کی آمدنی کو اپنی سرگرمیوں کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
خبر یہ ہے کہ سال2013 کے مقابلے میں 2014 کے دوران افغانستان میں پوست کی پیداوار والے صوبوں میں یہ شرح7 فی صد زیادہ رہی ہے۔ منشیات اور جرائم کی روک تھام کے لیے اقوام متحدہ کے دفتر UNODC کے ایک سروے کے مطابق 2014 کے دوران افغانستان میں افیون کی کاشت 224,000 ہیکٹر رقبے پر پھیل چکی ہے۔ اس وجہ سے ڈونر ممالک اور زیادہ امداد دینے والوں کو مزید شرمندہ اور فکرمند ہونا پڑے گا کیوںکہ انہوں نے انسداد منشیات کی مہم میں کئی ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کر رکھی ہے مگر اس کے باوجود افیون کی کاشت میں غیر معمولی اضافہ ہوا اور یہ ہی افغانستان میں کرپشن اور عدم استحکام میں اضافے کا سبب ہے۔
دوسری طرف غیر ملکی ایجنسیوں نے انسداد منشیات کی مہم میں کئی ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ یہ اعداد و شمار اس امر کی نشان دہی ہے کہ منشیات کے انسداد کی مہم ناکام ہو چکی ہے۔ اقوام متحدہ کے منشیات اور جرائم کے دفترکے ڈائریکٹر فار پالیسی اینڈ انیلیسز ژاں لیوک لیماہیو نے حال ہی میں کہا ہے کہ نئی افغان حکومت کے دور میں منشیات کی روک تھام پر قابو پانے کی امید ہے۔ اب اس امید پر پورا اترنا خواہ کتنا ہی دشوار ہو، نئی حکومت کو یہ کرنا ہی پڑے گا۔
ژاں لیوک لیماہیو مزید کہتے ہیں کہ افغانستان کا اہم ترین مسئلہ سیاست اور اقتصادیات کے جرائم ہیں، جن کے ذریعے سب کچھ حاصل کیا جا سکتا ہے جب کہ منشیات کے عادی افراد کی تعداد بھی افغانستان میں بہت زیادہ ہے۔ دوسری جانب افغانستان سے غیر ملکی دستوں کے مکمل انخلا کے بعد اس ملک میں طالبان ایک قوت کے طور پر باقی رہ جائیں گے اور ماضی میں اپنے کنٹرول والے علاقوں پر دوبارہ قبضہ کر کے اس کاروبار کو فروغ دیں گے۔ طالبان نے اس کا آغاز کر دیا ہے اور چند علاقوں پر قبضہ بھی کر لیا ہے۔
اعداد و شمار کے مطابق افغانستان دنیا بھر میں پیدا ہونے والی افیون کی کْل پیداوار کا 80 فی صد پیدا کرتا ہے اور اس کی غیر قانونی تجارت سے حاصل منافع طالبان، بغاوت کی فنڈنگ میں بھی استعمال کرتے ہتں۔ افیون کی فصل کے وافر ہونے کے سبب اگرچہ قیمتوں میں کمی آئی ہے لیکن یہ منافع 850 ملین ڈالر تک پہنچ چکا ہے، جو ملک کی مجموعی قومی پیداوار کا4 فی صد بنتا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا امریکی امداد افغانستان میں افیون کی کاشت کو کم کرنے میں مددگار ثابت ہوئی؟
جواب یہ ہے کہ امریکانے افغانستان میں منشیات کا قلع قمع کرنے کے لیے سات ارب ڈالر کی خطیر رقم خرچ تو کی لیکن ملک افیون کی پیداوار کے اعتبار سے ہنوز سرفہرست ہے۔ کیا امریکی امداد درست طریقے سے خرچ ہوئی؟ یہ دوسرا سوال ہے، جو ذہنوں میں اُٹھتا ہے۔ میڈیا کے مطابق وہ علاقے جہاں طالبان کا کنٹرول ہے وہاں کچھ رقم مقامی حکومتی اہل کاروں اور طالبان کو دے کر اب بھی افیون کاشت کی جاسکتی ہے۔ تیسرا سوال یہ ہے کہ امریکی امداد کہاں خرچ ہوئی؟ اس کا سراغ لگانا امریکا کے لیے بھی ناممکن ہو گیا ہے ۔
صوبہ ہلمند میں افیون کی سب سے زیادہ پیداوار ہوتی ہے۔ یہ صوبہ دنیا میں افیون کی مجموعی کھپت کا 80 فی صد مہیا کرتا ہے۔ اس بات کی تصدیق اقوام متحدہ کے دفتر برائے منشیات اور جرائم نے اپنی ایک رپورٹ میں کی ہے۔افیون کی پیداوار میں اضافے کی ایک وجہ کاشت کے لیے استعمال کی جانے والی ٹیکنالوجی میں ترقی بھی ہے۔ ہلمند میں انسداد منشیات کے محکمے کے سربراہ لعل محمد عزیزی نے میڈیا کو بتایا کہ وہ نہیں جانتے کہ ان کے صوبے میں افیون کی پیداوار کو روکنے کے لیے کتنی رقم صرف ہوئی؟ وہ صورت حال کی خرابی کی ذمے داری افغان حکام پر عائد کرتے ہوئے کہتے ہیں ’’سن دو ہزار نو میں افیون کی پیداوار میں کمی ہوئی تو اس کی وجہ امریکا اور برطانیہ کی کوششیں ہی تھیں تاہم وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان ممالک کی اس ضمن میں دل چسپی کم ہوتی گئی اور کاشت پھر سے بڑھتی گئی۔
امریکی حکومت کے اخراجات پر نظر رکھنے والے حکام نے اکتوبر2014 میں کہا تھا کہ امریکا گذشتہ 13 سال میں افغانستان کی تعمیر نو کے پروگرام کے تحت افیون کی روک تھام پر سات ارب 60 کروڑ ڈالر خرچ کر چکا ہے۔ اقوام متحدہ کا خیال ہے کہ 2013 میں افغانستان میں افیون کی فصل کی کل مالیت تین ارب ڈالر کے قریب تھی جو کہ 2012 کے مقابلے میں 50 فی صد زیادہ تھی۔ یاد رہے کہ 2010 سے افغانستان میں افیون کی کاشت میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔
افیون کی کاشت کم ہونے کی ایک دل چسپ وجہ یہ بھی رہی ہے کہ جب ایران پر اقوام متحدہ کی جانب سے اقتصادی پابندیاں عائد ہوئی تھیں اور ایرانی کرنسی کی قدر میں کمی اور پاکستان میں ڈیزل کی قیمتوں میں اضافہ ہوا تو اس صورت حال نے پاک ایران سرحد پر ڈیزل کی اسمگلنگ کو انتہائی منافع بخش کاروبار بنا دیا تھا۔ اس سے اسمگلرز کی چاندی ہوگئی اور انہوں نے ڈیزل اسمگل کرنے کے نت نئے طریقے اختیار کیے۔ کچھ لوگ ڈیزل کو پیپسی کی بوتلوں میں بھر کے بچوں کے ذریعے اسمگل کراتے تو کچھ پلاسٹک کے ڈرموں میں خچروں کے ذریعے۔
چھوٹی پک اپ گاڑیاں بھی تیل سے بھرے ڈرموں کو اسمگل کرنے کے لیے استعمال کی جاتیں کیوں کہ پاکستان میں طلب زیادہ ہونے کی وجہ سے ڈیزل ہاتھوں ہاتھ بک جاتا تھا اورتیل کی اسمگلنگ میں منافع اس قدر بڑھ گیا تھا کہ افیون کی خرید و فروخت کرنے والے اپنا دھندا چھوڑ کر اسی کام میں لگ گئے۔
اہل مغرب افیون سے خوف زدہ کیوں ہے اس کی وجہ بھی مغرب کا وہ کارنامہ ہے جو اُس نے خود سرانجام دیا۔ اس نے افیون کے انتہائی نقصان دہ جوہر کو اس سے الگ کر کے اسے مسکن درد، مقوی قلب اور سکون آور ’’ثابت‘‘ کر کے اشتہار بازی کے ذریعے اس کو فروغ دیا۔ 1813 میں صارفین کو افیون سے کشید کیے گئے اس جوہر کو جنگ میں زخمی ہو جانے والے سپاہیوں کو اس صدی کے آخر تک استعمال کرایا گیا، جس کی وجہ سے اس جوہر کا نام ہی ’’فوجیوں کی دوا‘‘ پڑ گیا تھا حالاں کہ یہ افیون سے دس گنا زیادہ نقصان دہ تھا۔
ہیروئن بھی دنیا میں پہلی بار امریکا نے ہی متعارف کرائی۔ 1890 میں بہت بلند بانگ دعوؤں کے ساتھ اس کو امراض قلب کے لیے بہترین دو اقرار دیا گیا اور لوگوں کو باور کرایا گیا کہ اس سے زیادہ بے ضرر اور خواب آور دوا کوئی نہیں ہے جب کہ یہ افیون سے 80 گنا زیادہ نشیلی تھی۔ 1898 میں امریکا میں اسے ڈائسٹائل مارفین (Diacetyl Morphine) کے نام سے باقاعدہ پریکٹس میں شامل کر لیا گیا۔ انیسویں صدی کے آخر میں ایک جرمن فرم سے تیار کروا کے اس ’’دوا‘‘ کو انتہائی وسیع پیمانے پر مارکیٹ میں یہ کہ کر متعارف کرایا گیا کہ درد دل سے فوری نجات کے لیے یہ مارفین سے زیادہ مؤثر اور نشے سے بالکل پاک دوا ہے۔
اہل مغرب نے مارفین اور ہیروئن کے علاوہ 25 دیگر نشیلے اجزا بھی نکالے، جن میں گوڈین (Goodain)، پاپاویرین (Papaverine)، تھی بین (Thebaine)، نارسین (Narcene) اور نار کوٹین (Narcotine) اہم ہیں۔ آخر الذکر کی وجہ سے ہی اب ہر نشہ آور چیز کو نارکوٹک (Narcotics) کہا جاتا ہے۔ اسی پر اقبال نے مغرب کو خبردار کیا تھا ’’تمہاری تہذیب آپ اپنے خنجر سے خودکشی کرے گی‘‘۔
اس لیے یہ کہا جا سکتا ہے کہ امریکا اور مغرب افیون کے نقصانات کی وجہ سے اس کے خلاف عالمی تحریک نہیں چلا رہے بل کہ اس کا سبب کچھ اور ہے اور وہ سبب اس کے سوا کچھ اور نہیں کہ امریکی ہپیوں اور یورپی نشہ بازوں کو مغرب کی شراب کے بجائے مشرق کی افیون سے سکون ملتا ہے اور جب 400 روپے کلو گرام بکنے والی افیون سے ہیروئن برآمد ہو کر پاکستان اور بھارت کے ڈرگ مافیا کے ایجنٹوں کے پاس پہنچتی ہے تو اس کی قیمت لاکھوں روپے کلو گرام اور امریکا میں بریف کیس کی تبدیلی کے بعد کم از کم پچاس لاکھ روپے فی کلو گرام تک چلی جاتی ہے۔
مغرب جو اس بات کا عادی تھا کہ مشرق سے انتہائی سستے داموں خام مال خریدے اور اس سے مصنوعات تیار کر کے انہیں بیس گنا قیمت پر بیچے، یہاں آ کر مار کھا گیا۔ اب نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ امریکی ڈالر اور برطانوی پاؤنڈ اِس نشے پر اڑائے جا رہے ہیں اور اُن کا رُخ مشرق کی طرف ہے۔ اب ’’چمڑی جائے، دمڑی نہ جائے‘‘ کے مصداق اپنی دولت کو بچانے کے لیے انہوں نے نشے کے پردہ میں اس کام کے خلاف جہاد کا نعرہ لگا دیا۔
کہنے والے یہ بھی کہتے ہیں کہ اگر صرف امریکا میں ہیروئن کی فیکٹریاں ہوتیں تو1981 سے پہلے کی طرح ان کو ہرگز تکلیف نہ ہوتی۔ اس سارے کھیل میں ایک دل چسپ اور قابل افسوس امر یہ بھی ہے کہ بھارت میں پاکستان سے زیادہ مارفین اور ہیروئن بھی وہیں تیار ہوتی ہے لیکن بدنام بے چارا پاکستان اور آپ جانیے، بدنام، حقیقی بد سے برا زیادہ برا قرار پاتا ہے۔
اقوام متحدہ کے منشیات سے متعلق ادارے کے ایک اہل کار کا کہنا ہے کہ افغانستان کے لوگوں نے اب افیون، یہ سوچ کر جمع کرنا شروع کر دی ہے کہ جب غیر ملکی افواج یہاں سے چلی جائیں گی تو مشکل حالات سے نمٹنے کے لیے اسی پر انحصار کیا جاسکتا ہے۔ افغان شہریوں اور حکومت میں بے یقینی کی یہ کیفیت اس لیے پیدا ہوئی کہ منصوبے کے تحت2014 میں نیٹو افواج کی اکثریت ملک سے چلی جائے گی، اور صورت حال خراب ہوجائے گی تو اس سے بچنے کے لیے انھوں نے افیون کی ذخیرہ اندوزی کرنا شروع کردی ہے۔
دوسری جانب افغانستان میں افیون کی کاشت پر روس کی بڑھتی تشویش کے بعد روس نے مغربی دفاعی اتحاد نیٹو پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ افغانستان میں متعین نیٹو افواج افیون کی کاشت اور اسمگلنگ کی روک تھام میں ناکام ہو چکی ہے۔ روس کا الزام ہے کہ نیٹو افواج، پوست کے ’’کھیتوں‘‘ کو تباہ نہیں کرتیں بل کہ کسانوں کو معاوضہ دے کر ان سے ’’کھڑی فصلوں‘‘ کو تلف کرنے کی بات کرتے ہیں، یہ کیسا آپریشن ہے اور اس کے مقاصد کیا ہیں؟
روس کی نیٹو پر مسلسل تنقید کی ایک اہم وجہ یہ بھی ہے کہ ماسکو حکومت کے اعداد و شمار کے مطابق روس میں 30 ہزار نوجوان ہر سال منشیات کے عادی ہو کر ہلاک ہو رہے ہیں۔ نیٹو کے لیے روسی مندوبروگوزین دیمتری نے کہا تھا کہ وہ افغانستان میں افیون کی کاشت تلف کرنے کی جانب نیٹو اور امریکا کی عدم توجہ کے سبب بہت زیادہ غیر مطمئن ہیں۔ یاد رہے کہ افغانستان میں اس کی کاشت کا رواج سابقہ سوویت یونین کے حملے کے بعد ہی فروغ پایا تھا۔ سوویت فوج نے افغانستان میں آب پاشی کے ذرائع جیسے، کاریز اور کینال وغیرہ تباہ کر دیے تھے، جس کے بعد کسانوں نے کم پانی سے زیادہ منافع بخش فصل کے طور پر افیون کی کاشت کو ترجیح دینا شروع کر دی تھی۔
امریکا اور اس کے اتحادی ممالک 2002 سے اب تک انسداد منشیات کے سلسلے میں ایک ارب ڈالر سے زیادہ خرچ کرچکے ہیں۔ ان کا موقف ہے کہ نئی پالیسی کے تحت منشیات کے اسمگلروں اور اس ناجائز کاروبار سے زیادہ منافع کمانے والوں کو تو نشانہ بنایا جارہا ہے مگرعام کسان زد پر نہیں آتے۔ روس البتہ سخت ترین اقدامات کا مطالبہ کرتے ہوئے فضائی سپرے کرنے کا مطالبہ کر رہا ہے جس سے افیون کے علاہ دیگر فصلوں کے ساتھ ساتھ انسانوں کو بھی نقصان پہنچنے کا ڈر ہے۔ ماضی میں کولمبیا اور برما میں اس نوعیت کے فضائی سپرے سے پانی اور کھیت شدید متاثر ہوئے تھے اور دیہات میں بیماریاں پھیلی تھیں۔ افغان اور نیٹو حکام افیون کے کھیتوں پر سپرے کے عمل کی مخالفت کرتے ہوئے دیگر ذرائع تلاش کررہے ہیں۔
افیون ۔۔۔ سکندراعظم کی سوغات
افیون در حقیقت خشخاش کے پودے کے کچے پھل کا ایک منجمد رس ہوتا ہے، جو بذات خود نقصان دہ نہیں۔ طب اسلامی اور ویدک طریقۂ علاج میں بے شمار امراض کے لیے اس کو مفید قرار دیا گیا ہے۔ یہ بے خوابی کو دور کر کے نیند لاتی ہے لیکن نشیلی نہیں ہوتی۔ قدیم یونانی اس دوا سے متعارف تھے۔ بقراط کا ہم عصر ریاگوراس اس کے استعمال سے واقف تھا اور دماغی اور نخاعی امراض کے لیے مریضوں کو استعمال کرایا کرتا تھا۔ حضرت عیسیؑ کی پیدائش سے 300 سال قبل حکیم ثاؤفرطس اور دسقیوریدوس نے بھی اس کا تذکرہ کیا ہے۔ جالینوس، پلاتینی، رومی، بو علی سینا اور رازی نے بھی افیون کی افادیت بیان کی ہے۔ چودھویں صدی میں شائع ہونے والی ویدک کی معروف تصنیف شارنگندھر اور سولہویں صدی میں بھاؤمشر میں اس کے سُن کرنے اور نیند لانے کی کیفیت کا تذکرہ موجود ہے۔
برصغیر کے تمام معروف اطبا اور وید اس کو استعمال کرتے تھے۔ کوئی بھی طبی اور ویدک تصنیف ایسی نہیں ہے جس میں تیار ہونے والی ادویہ کو بعض امراض کے لیے مفید تسلیم نہ کیا گیا ہو۔ 1979 میں حدود آرڈیننس کے نفاذ سے پہلے تک پاکستان میں آٹے اور چینی کے ڈپوؤں کی طرح افیون کے ڈپو بھی ہوتے تھے اور اس وقت یہ سستے داموں ملتی تھی مگر افیونیوں کی تعداد دیہات اور قصبوں میں انگلیوں پر گنی جا سکتی تھی۔ شہروں کے اندر کسی محلے میں ہی کوئی افیونی ہوتا تھا اور اسے بھی لوگ برداشت نہیں کیاکرتے تھے۔ حکماء اور وید جن مریضوں کو ایسی دوا دیتے تھے، جس میں افیون شامل ہوتی تو انہیں اس کے ساتھ دودھ اور گھی کثرت سے استعمال کرنے کی تاکید کیا کرتے، تاکہ اس کی خشکی سے محفوظ رہا جاسکے لیکن اہل مغرب کی طرح دھوکے باز نہ تھے۔
افیون جسے ’’فتنہ عظیم‘‘ بھی کہا جاتا ہے دراصل یہ برصغیر پاکستان و ہند، ایران، افغانستان کی پیداوار ہے لیکن اس علاقہ میں اس کو لانے والا یونانی فاتح سکندر اعظم تھا۔ انگریز نے جب ہندوستان پر قبضہ کیا تو سب سے پہلے افیون کی تجارت پر ہی اجارہ حاصل؛ کیا اور کاشت کاروں پر پابندی لگا دی کہ وہ انگلش سرکار کو ساری فصل فروخت کریں گے۔ وہ ڈپو کے ذریعہ لائسنس ہولڈرز کو معمولی مقدار مہیا کرکے باقی افیون چین اور دوسرے ممالک کو برآمد کردیتا تھا۔ یہ مقدار بلامبالغہ ٹنوں میں ہوتی تھی، انگریز اور امریکی سمگلر مل کر یہ ’’خدمت‘‘ سر انجام دیتے تھے۔
اس کی آمدن کا 20 فی صد انگریز لے جاتا تھا۔ برطانیہ اور چین کے درمیان ’’جنگ افیون‘‘ کے نام سے دو معرکے بھی ہوئے جن کے نتیجے میں چین کو ہانگ کانگ کے ہاتھ سے گیا۔ انگریزکی اس سازش نے اچھی بھلی چینی قوم کی پہچان ’’افیونی قوم‘‘ کے نام سے کرائی۔ 1913 تک چینی آبادی کا ہر چوتھا آدمی افیونی تھا۔ امریکی خود افیون کے دوائی خواص کے اس حد تک مداح تھے کہ انیسویں صدی کے آخر میں شمالی امریکا میں تیار ہونے والی 78 فی صد ادویات میں افیون شامل کرتے تھے۔
1888 میں بوسٹن میڈیکل سٹورز کے ایک سروے میں بتایا گیا کہ 1800 نسخوں میں سے 1481 میں افیون شامل ہوتی ہے۔ انیسویں صدی میں یورپ میں اس کی مقبولیت اس قدر زیادہ تھی کہ بڑے بڑے دانشور، زعما اور امرا راحت، سکون اور دردوں سے نجات کے لیے اس کا فخریہ استعمال کرتے تھے۔ معروف انگریز مصنف سموئیل کولرج نے اپنی مشہور تصنیف ’’قبلائی خان‘‘ پوری کی پوری افیون کے نشے میں ڈوب کر لکھی تھی۔