سرکاری افسروں کی ایک قسم میں تو وہ حضرات آجاتے ہیں،جو اپنے فرائض سے سبکدوشی کے بعد چپکے بیٹھ جاتے ہیں اوراپنا دیکھا سنا کچھ بھی سامنے نہیں لاتے۔
ایسے اصحاب میں سب سے اوپرتو غلام اسحاق کا نام ہے، جنھوں نے بڑے بڑے سرکاری مناصب پر رہ کر بھی جو کچھ دیکھا ،اس کے بارے میں لکھنا تو درکنار کبھی کچھ بولنے کی زحمت بھی گوارانہ کی۔ دوسری قبیل میں وہ سرکاری افسران شامل ہیں جنھوں نے اپنے عرصئہ ملازمت میں رونما ہونے والے واقعات کے بارے میں لکھا تو ضرور لیکن ان کا سارا زور قلم خود کو بے قصور ثابت کرنے میں صرف ہوگیا اور بیچ میں تاریخ جو تھی وہ کہیں گم ہو کر رہ گئی۔اس ذیل میں قدرت اللہ شہاب اور الطاف گوہر کا نام رکھا جاسکتا ہے۔
کچھ افراد البتہ ایسے ضرور ہیں،جو ان قیمتی اور تاریخی واقعات جن کا وہ حصہ بنتے ہیں، انھیں معروضیت کے ساتھ سامنے لاتے ہیں، اور ان کے پیرائیہ اظہار میں خود کو ہیرو ثابت کرنے کا رجحان نہیں ہوتا۔ریاض محمد خان بھی فکری دیانت کے حامل ایسے افراد میں شامل ہونے کے لائق ہیں جنھوں نے اپنی کتابوں میں مذکورہ بالا دونوں صورتوں سے بچتے ہوئے، بڑے متین اورجچے تلے الفاظ میں اپنی بات دوسروں تک پہنچائی ہے۔ وزارت خارجہ میں افغانستان اور سوویت یونین سے متعلق امور کے نگران کی حیثیت سے حاصل ہونے والے مشاہدات وتجربات کو ریاض محمد خان نے اپنی کتاب’’ untying the afghan knot: negotiating soviet withdrawal‘‘میں پیش کیا۔
1989ء میں جارج ٹائون یونیورسٹی واشنگٹن سے وابستگی کے دوران تحریر کردہ یہ تصنیف 1991ء میں ڈیوک یونیورسٹی پریس سے شائع ہوئی جس میں انھوں نے 1979ء میں افغانستان میں روسی مداخلت سے لے کر جنیوا معاہدے (1989 )تک کے حالات کا جائزہ لیا ۔ اس کے بعد کی صورت حال کے بیان کے لیے انھوں نے2009ء میں وڈرو ولسن سنٹر میں بحیثیت پاکستانی اسکالر Afghanistan and Pakistan. Conflict Extremism, and Resistance to Modernity کے عنوان سے کتاب تحریر کی،جو حال ہی میں اضافوں اورمصنف کے قلم سے ہونے والے اردو ترجمے کی صورت میں ’’ افغانستان اور پاکستان:تصادم، انتہا پسندی اور عہد جدید سے مزاحمت ‘‘کے نام سے القا پبلی کیشنزلاہور نے چھاپی ہے۔
ریاض محمد خان نے اس کتاب میں سیدھے سادھے انداز میں بڑی گہری باتیں کی ہیں۔انھوں نے ان تمام عوامل کا تجزیہ پیش کیا ہے، جو افغان پالیسی کی تشکیل میں کارفرما رہے۔پاکستان نے اس پالیسی میں جہاں جہاں غلطیاں کی ہیں، اس کی نشاندہی بھی انھوں نے بے تامل کردی ہے۔انھوں نے طرز تحریر میں معروضیت کو ملحوظ رکھا۔تجزیہ کرتے وقت کہیں بھی دلیل اور منطق کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا اور جذباتیت کو قریب نہیں پھٹکنے دیا۔معروف دانشور اور صحافی خالد احمد کے بقول’’ریاض محمد خود کو پاکستان کے حوالے سے تبصرہ کرنے والے کئی سابق جرنیلوں اور سفارتکاروں سے یہ کہہ کر منفرد اور جدا کرلیتا ہے کہ ریاستی کردار کے بارے میں اکثر تجزیے، معروضیت اور غیر جانبدارانہ معیار پر پورا نہیں اترتے۔‘‘ریاض محمد خان محض حالات وواقعات بیان کرنے پر اکتفا نہیں کرتے، ان کی توضیح و تعبیربھی کرتے ہیں۔
تاریخ پر بھی ان کی گہری نظر ہے، اس لیے وہ بعض اوقات اپنی بات کی اصابت کے لیے تاریخ سے بھی رجوع کرتے ہیں۔ مثلاًتاریخ کے تناظر ہی میںوہ بیان کرتے ہیں کہ تزویراتی گہرائی (Strategic Depth) کا تصورافغانستان پر لاگو نہیں ہوتا اور مطالعۂ تاریخ ہی انھیں یہ نتیجہ اخذ کرنے پرمجبورکرتا ہے: ’’حالیہ تاریخ کے مطالعہ سے یہ عیاں ہے کہ کوئی ملک جہاں ریاست کے کنٹرول میں کام کرنے والی باقاعدہ فوج اور امن وامان کے اداروں کے علاوہ،کسی بھی وجہ سے، مسلح گروپ یا پرائیویٹ ملیشیا پیدا ہوجائیں وہ ملک تباہی سے نہیں بچ سکتا۔‘‘ ریاض محمد خان کے خیالات کی طرف بڑھنے سے قبل ان کی ذاتی زندگی اورکیرئیر کا اجمالاً ذکر۔
چاربرس پنجاب یونیورسٹی میںریاضی کا لیکچراررہنے کے بعد 1969 ء میں ریاض محمدخان دفترخارجہ سے منسلک ہوگئے۔وہ وزارت خارجہ میں بڑے کلیدی عہدوں پر تعینات رہے۔ فروری2005ء سے اپریل2008تک سیکرٹری خارجہ کا منصب ان کے پاس رہا۔اس سے قبل کے تین برس وہ چین میں سفیر رہے۔ چاربرس ایڈیشنل سیکرٹری کے طورپر کام کیا۔یورپی یونین، بلجیم،لکسمبرگ،قازقستان اور کرغزستان میں سفارتی ذمہ داریاں ادا کیں۔سات برس پاکستان مشن برائے اقوام متحدہ سے وابستہ رہے۔وزارت خارجہ میں ڈائریکٹر جنرل کی حیثیت سے افغانستان اور سوویت یونین سے متعلق امورکے نگران رہے۔ کئی اہم کانفرنسوں اور مذاکرات میں پاکستان کی نمائندگی کی۔
ریاض محمد خان اپنے بارے میں بہت کم بات کرتے ہیں۔ اس لیے ان سے گفتگو میں ان کے بارے میں بہت کم معلوم ہو پایا۔ ریاض محمد خان کے والد ریلوے میں ملازم تھے۔ میٹرک کا امتحان راولپنڈی کے اردو میڈیم اسکول سے پاس کیا۔دسویں میں اپنے انگریزی کے ایک استاد کا ذکر وہ بڑی محبت سے کرتے ہیں، جو بہت جان مار کر بچوں کو پڑھاتے۔
اسکول کے اوقات ختم ہونے پر بھی ان کے فیض کا سلسلہ جاری رہتا۔یہی وہ استاد ہیں جنھوں نے انھیں بتایا کہ نصاب کی کتب پڑھنے سے انگریزی نہیں آئے گی، برٹش کونسل اورلائبریریوں کا رخ کرو گے تو پھر دنیا اور انگریزی دونوں کی سمجھ آئے گی۔بی اے آنرزگورڈن کالج راولپنڈی سے کیا۔1965 ء میں پنجاب یونیورسٹی سے ریاضی میں ماسٹرکرنے کے بعد وہ یہیں لیکچرار مقرر ہوگئے۔ریاضی میں ڈاکٹریٹ کا ارادہ تھا جو بوجوہ پورا نہ ہوسکااور وہ وزارت خارجہ سے متعلق ہوگئے جہاں انھوں نے عمر عزیز کے 39 برس گزارے۔ریٹائرمنٹ کے بعد انھوں نے اپنی تمام تر توجہ علمی سرگرمیوں پر مرکوز کررکھی ہے۔
ریاض محمدخان نے اپنے سفارتی سفر کا آغاز چینی امور کے ماہر کی حیثیت سے کیا۔چین میں بحیثیت تھرڈ سیکرٹری تقرری کے دوران چینی زبان بھی سیکھی۔اپنی تازہ کتاب میں اس زبان سے اپنی واقفیت کا ثبوت بھی انھوں نے فراہم کیا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ جدیدیت کو ہمارے ہاں مغرب پرستی سے تعبیر کیا جاتا ہے جس سے مغرب سے متعلق تعصبات ذہن میں گھر کرلیتے ہیں جب کہ جدیدیت اور مغربیت دو الگ معنے رکھنے والے لفظ ہیں۔اس بات کی توضیح وہ چینی زبان سے کرتے ہیں۔
بتاتے ہیں کہ چینی زبان میں ماڈرنائزیشن کے لیے’’سیئن تائی کھائن فا‘‘کا لفظ استعمال ہوتا ہے جس کا مطلب عہد حاضرکا طریق اورمغربیت کے لیے ’’شی فانگ کھائن فا‘‘کا لفظ برتا جاتا ہے، جس سے مراد مغرب کا طریق ہے۔ان کے بقول’’اس طرح کی وضاحت پاکستانی ذہن کو میسر نہیں۔‘‘ ریاض محمد خان سے بات چیت کا سلسلہ ہم نے چین کے بارے میں سوال پوچھ کر کیا۔ ’’چین کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کی نوعیت کو ہمارے ہاں عام طور پر کلیشے زدہ الفاظ میں بیان کیا جاتا ہے۔
مثلاً یہ کہنا کہ ہماری دوستی ہمالیہ سے بلند ہے، اور اسی طرح کی باتوں سے۔ہمیں بتائیں ،اصل میںچین سے ہمارے تعلقات کس نہج پر ہیں ؟‘‘ اس سوال پرریاض محمد خان کاجواب تھا ’’پاکستان اور چین کے تعلقات سیاسی اعتبار سے بہت مضبوط ہیں اور ان کی کوالٹی ایسی ہے کہ شاید چین کے کم ممالک سے ایسے تعلقات ہوں گے۔تعلقات کا ایک پہلو نہیں ہوتا، یہ ہمہ جہت ہوتے ہیں۔سیاسی پہلو ایک چیز ہے۔دیگر کئی پہلو ہوتے ہیں، جیسے تجارت ہے ، سرمایہ کاری ہے، معاشی اعتبار سے تعاون ہے۔باہمی روابط ہیں۔
مثلاً سیاحت ہے،آٹھ کروڑ چینی ہر سال دوسرے ممالک کی سیاحت کو جاتے ہیں۔ ہمارے ہاں!کتنے چینی سیاحت کے لیے آتے ہیں؟کام کرنے کے لیے آنے والے تو پھر بھی آٹھ دس ہزار ہوں گے۔تعلقات میں اس طرح کے پہلو بھی بہت اہم ہیں۔ چین کا پاکستان سے ٹریڈ بہت کم ہے، اس کے مقابلے میں امریکا سے اس کا ٹریڈ ہم سے کئی گنازیادہ ہے۔ بھارت کے ساتھ بھی اس کا ٹریڈ ہم سے زیادہ ہے۔ تعلقات میں تجارتی پہلو بھی ہمارے مدنظر رہنا چاہیے اور اس پر توجہ کی ضرورت ہے۔‘‘
٭ ’’آپ کے خیال میں چین سے ہم کیا سیکھ سکتے ہیں؟‘‘
’’اپنی غلطیوں سے سیکھنا سب سے بہتر ہوتا ہے۔ان کا مزاج مختلف ہے۔ ثقافت مختلف ہے۔تاریخ مختلف ہے۔ان کی تاریخ میں مائوزے تنگ انقلاب لے کرآئے۔اس سے میرے خیال میںتین اہم تبدیلیاں چین میں رونما ہوئیں۔اول:تعلیم کو عام کیا گیا۔اب سوائے چند دیہاتی علاقوں کے اسی نوے فیصدچینی پڑھے لکھے ہیں۔یہ بہت اہم بات ہے۔دوم:معاشرے کو منظم کیا۔وہ نظم کے ساتھ کام کرسکتے ہیں۔سب سے پہلے50ء کی دہائی میں انھوں نے نہریں کھودیں۔بند بنائے۔سیلاب بہت آتے تھے، ان کا مقابلہ کرنے کے لیے منصوبہ بندی کی۔آبی ذخائر بنائے۔پچاس کی دہائی میں انھوں نے قحط اور سیلاب جیسی آفات سے چھٹکارا حاصل کرلیا۔یہ سب محنت اور تنظیم کے ذریعے سے کیا۔
بعد میںانھوں نے اپنی پالیسی بدلی اور مغرب سے رجوع کیا۔معیشت کو اوپن کیا۔ ان کی Orientation مختلف ہوگئی اور اب دیکھیے اس عمل کا نتیجہ کہ ان کی تجارت اور تعلیم کہاں پہنچ گئی ہے۔اس وقت دنیا میں تعلیم کے لیے سب سے زیادہ چینی طالب علم دوسرے ممالک میں جاتے ہیں۔ایک اور تبدیلی جو چین میں آئی کہ انھوں نے اپناروایتی مائینڈ سیٹ جو بہت زیادہ تقدیر پرستی پرمبنی تھا ، اسے تبدیل کیا اورکہا کہ انسان اپنی تقدیر خود بدلتے ہیں۔اس لیے جب تنگ سیاو پنگ نے چین میں جدیدیت پسند پالیسیوں کو رواج دیا تو معاشرے میں ان کی مخالفت نہیں ہوئی۔ یہ اعتماد بڑی چیز ہے۔دنیا سے سیکھنے کی امنگ ان میں بہت ہے۔ علم کا منبع ہونے کی وجہ سے وہ مغرب کی اہمیت سے واقف ہیں۔ چین میں والی ترقی معجزہ ہے۔‘‘
٭ ’’ کیا سنکیانگ میں مسلم انتہا پسندوںکی مداخلت کی وجہ سے چین کو ہم سے ماضی میں شکایت رہی ہے؟‘‘
’’چین اس معاملے میں بہت حساس ہے۔ہم نے ہمیشہ کہا ہے کہ اس معاملے میں ہم ان سے پورا تعاون کریں گے اور چین ہم پر اعتماد کرتا ہے۔ہم نے انھیں یقین دلایا ہے کہ ہم ہرگز یہ برداشت نہیں کریں گے کہ ہماری سرزمین چین میں مداخلت کے لیے استعمال ہو۔‘‘
امریکی ڈرون حملے پاکستان کو درپیش بڑے مسئلوں میں سے ایک مسئلہ ہے۔انھیں ملکی خود مختاری پر حملہ اور دہشت گردی کے واقعات میں فروغ کا باعث جانا جاتا ہے لیکن امریکا ہے کہ پاکستان کے احتجاج کے باوجود حملوں سے باز نہیں آتا۔ڈرون حملوں کے بارے ریاض محمد خان سے ہونے والی گفتگو کچھ یوں رہی’’2004 ء میں پہلا حملہ نیک محمد پر ہوا تھا۔وہ ہمارا ٹارگٹ تھا ، امریکیوں کا اتنانہیں تھا۔اس سے مگر امریکیوں کو ایک شہہ مل گئی کہ اب یہ کام ہوسکتاہے۔ ڈورن حملوں کی2007ء تک تعداد بہت کم تھی۔
بعض تخمینوںکے مطابق اس سال تک دس اور بعض کے مطابق سات حملے ہوئے۔ان پر احتجاج کیا گیا۔ساتھ میں زوردیا گیاکہ یہ حملے پاکستان کی کوارڈینیشن سے ہوں یا ہمیں ٹیکنالوجی دی جائے ہم خود کارروائی کریں گے، کیوں کہ ہم بھی شدت پسندی کے خلاف ہیں۔ہماری طرف سے چار پانچ حملوں پر بڑا سخت احتجاج ہوا اورہم نے کہا کہ آپ یہ ہماری اجازت کے بغیر نہیں کرسکتے۔ان سے بات چیت جاری تھی کہ حکومت بدل گئی اور2008ء میں نئی حکومت آنے سے ایک دم صورت حال تبدیل ہوجاتی ہے ۔
امریکا حملوں میں اضافہ کردیتا ہے۔2008ء میں درجنوں حملے ہوئے۔اس کی وجہ یہ تھی کہ پالیسی سی آئی اے کے ہاتھ میں آگئی اورایک طرح سے اسے کھلی چھوٹ مل گئی۔دوسرے غالباً انھیں ایسا اشارہ ملا ہو کہ پاکستان چشم پوشی (acquiesce) سے کام لے رہا ہے۔امریکا کو آپ convinceکرسکتے ہیںاگر آپ یہ ذمہ داری لیں کہ ہمارے علاقے سے افغانستان میں کچھ نہیں ہوگا۔ڈورن گرانے کے بہت سے مضمرات ہوسکتے ہیں۔ ہمارے امریکا سے تعلقات ہیں۔دفاعی سازوسامان ادھر سے آتاہے۔میرے خیال میںمستقبل میں حملے کم ہوں گے۔ہم کو اپنا دبائورکھنا چاہیے۔جیسا کہ نئی حکومت آنے کے بعد حملہ ہوا تو اس پربڑاپرزوراحتجاج کیا گیا۔ڈرون حملوں سے جہاں پاکستان کی خود مختاری متاثرہورہی ہے، وہاں امریکا کا اپنابھی نقصان ہورہا ہے، امریکا مخالف جذبات بڑھ رہے ہیں۔
امریکا کے اندر بھی دبائو بڑھ رہا ہے کہ اس کے باعث خرابی زیادہ ہورہی ہے اور فائدہ نہیں ہورہا۔اور اب تو اوبامہ نے بھی کہہ دیا ہے کہ ڈرون کا استعمال بڑی احتیاط سے ہونا چاہیے، پہلے ایسی بات وہ کب کرتے تھے۔ جہاں تک ڈرون حملے ختم ہونے کا سوال ہے تو ہر چیز کے ختم ہونے کا امکان ہوتا ہے۔اگر کسی اسٹیج پرامن ہوجائے اور شدت پسندی ختم ہوجائے تو ڈرون حملے ختم ہوسکتے ہیں۔ڈرون حملے پاکستانی فوج کی مرضی سے ہونے کے بارے میں صرف speculations ہیں۔فوج تو چاہتی تھی کہ ڈرون حملے ان کی کوارڈینشن سے ہوں۔
دوسرے امریکا ڈرون حملوں کا دائرہ بڑھانا چاہتا تھا لیکن ہم نہیں مانے۔اصل میں تو ڈرون surveillanceکے لیے تھے۔اگر ہم اپنی خود مختاری برقراررکھنا چاہتے ہیں اوراس پراصرارکرتے ہیں تو پھر خود مختاری کی ایک ذمہ داری یہ بھی ہے کہ آپ اپنی سرزمین کسی بھی صورت کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہ ہونے دیں۔شمالی وزیرستان میں ہمارا کنٹرول ذرا کم ہے تو ادھر سے مسلح کارروائیاں ہوتی ہیں۔حقانی گروپ کرتا ہے یا دوسرے گروپ کرتے ہیں، جس کی وجہ سے ہمیں ڈرون حملوں کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔اس کے باوجود ہم نے بعض معاملات میں بڑی واضح ریڈ لائن کھینچی اور انھیں باور کرایا کہ آپ ان حدود میں نہیں آسکتے۔ بعض مواقعوں میں ہم نے سخت ردعمل کے ذریعے اپنا پیغام انھیں پہنچایا۔جیسے جالا خیل اور سلالہ میں امریکی کارروائی پر ہم نے بڑا سخت موقف اختیار کیا۔‘‘
ہمارے ہاں!خارجہ پالیسی سے متعلق معاملات کے ساتھ غیرت کاجو تصور وابستہ ہے، اس کے بارے میں دو مکاتب فکر ہیں۔ایک وہ جن کا خیال ہے کہ خارجہ پالیسی مفادات کے تابع ہوتی ہے، غیرت کا اس سے کوئی لینا دینا نہیں۔ اس سوچ کے حامل افراد اپنے مخالفین کو طنزاً غیرت بریگیڈ قرار دیتے ہیں اور خود اس کے جواب میں لبرل فاشسٹ کہلاتے ہیں۔ہم نے ریاض محمد خان سے خارجہ پالیسی میں غیرت کے تصور کے بارے میں جاننا چاہا تو ان نے بتایا ’’ سب سے پہلے توآپ کو غیرت اور بے غیرتی کے تصورکی تعریف کرنا ہوگی کہ اصل میں یہ کیا ہے۔
غیرت اور بے غیرتی کا تصور واضح ہونا چاہیے۔ جس وقت آپ بھیک مانگتے ہیں تو کیا وہ غیرت کی بات ہوتی ہے؟جب آپ قرض لینے جاتے ہیں وہ غیرت کی بات ہوتی ہے؟آپ کے سوشل انڈیکٹرزبہت ہی نیچے ہیں تو کیا یہ غیرت کی بات ہے؟ دوسرے ممالک بھی ہیں۔ باقی دنیا میں مثلاً یورپ کو لیجیے یا دوسرے ممالک کواگر وہاں پر عوام کی حالت خراب ہے تو وہ سمجھتے ہیں کہ یہ ہماری عزت کا سوال ہے کہ ایسی چیز نہ ہو۔حقوق ملنے سے لوگوں میں احساس تفاخر پیدا ہوتا ہے۔ماڈرن سوسائٹی میں یہ بنیادی بات ہے ،حقوق سلب ہونے پران معاشروں میں بڑا ردعمل ہوتا ہے۔ان کا دھیان معاملات سدھارنے کی طرف ہوتا ہے۔ہمارے ہاں غیرت کا عجب تصور ہے، اس کے نام پر قتل ہوجاتے ہیں۔پسند کی شادی پر قتل کردیا جاتا ہے جوایک طرح سے قبائلی جذبے کے تحت ہوتا ہے کیوں کہ اسلام میں تو اس کی اجازت نہیں ۔‘‘
ریاض محمد خان ترک قیادت کی بصیرت کے بہت قائل ہیں۔ان کے بقول’’ طیب اردگان اور عبداللہ گل کا مداح ہوں۔ میں تو کوئی اچھا مسلمان نہیں ہوں۔لیکن وہ بڑے مخلص اوراچھے مسلمان ہیں۔ اپنی سوچ اور باتوں میں وہ بہت زیادہ پریکٹیکل ہیں اور اس میں وہ جذبات کو شامل نہیں کرتے۔طرز حکومت سیکولر ہے اور عوام اور خاص طور سے دیہی علاقوں میں ان کا ثقافتی جذبہ مذہبیت کی طرف مائل ہے،انھوں نے اپنی دانش مندی سے اس دوری کو کم کیا۔
جب یہ چیزیں ہوتی ہیں تو اس سے بڑی فریکشن جنم لیتی ہے جس کو کنٹرول کرکے،ترقی کے عمل کو جاری رکھنا بڑی بات ہے، جس کا کریڈٹ میں ترگت اوزال کو بھی دوں گا، عبداللہ گل کو بھی دوں گا اور اردگان کو بھی دوں گا۔ اصل میں توجہ تو معیشت پر ہونی چاہیے۔معاشی ترقی نہ ہونے سے سیاسی عدم استحکام جنم لیتا ہے۔ملک کے اندر انتشار پیدا ہوتا ہے۔کئی اور خرابیاں جنم لیتی ہیں۔عہد حاضر میں زندہ رہنے اور بہتر طریقے سے زندگی گزارنے کے لیے سائنٹفک اپروچ کی ضرورت ہے۔گڈگورنس کا ہونا بہت ضروری ہے۔شہری ذمہ داریاں ہوں یا حکومتی ذمہ داریاں ہر چیز کے آداب ہوتے ہیں۔امید کی جاسکتی ہے کہ مستقبل میں ہمارے بھی حالات بہتر ہوں گے کیوں کہ اس الیکشن میں پہلی بار ووٹرزنے کارکردگی کی بنیاد پر ووٹ دیا ہے ۔الیکشن میں ٹرن آئوٹ کا ساٹھ فیصد ہونا بھی اچھی بات ہے۔‘‘
ریاض محمد خان ہندوستان سے تعلقات بہتربنانے کے لیے مذاکرات کے حامی ہیںلیکن ساتھ ہی کشمیر، سیاچن اورسرکریک کے جو بنیادی مسائل ہیں، انھیں حل کرنے پرزور دیتے ہیں۔ٹریڈ سے متعلق معاملات کے بارے میں ان کی رائے ہے کہ یہ اس طریقے سے طے ہوں کہ دونوں ممالک کا فائدہ ہو۔ان کا اس بات پر یقین ہے کہ آج کی دنیا میں مہم جوئی کا فائدہ نہیں اور اس سے اجتناب میں ہی بھلا ہے۔خارجہ پالیسی کی تشکیل کے سلسلے میں وہ عقل سلیم سے کام لینے پرزور دیتے ہیں۔ان کے بقول’’ طے کریں کہ آپ کا مفاد کس میں ہے۔
چین نے جب ماڈرنائزیشن کو ترجیح بنایاتو پھر ہر شعبہ کو جدید خطوط پر استوار کیا۔ساری پالیسی اس اصول کے ماتحت کردی۔خارجہ پالیسی میں مغرب سے تعلقات قائم کرنے کا فیصلہ کیا۔ہم کو ایسی پالیسیاں تشکیل دینی چاہییں، جس سے معیشت مضبوط ہو۔معیشت بیٹھ جائے تو دفاع بھی بیٹھ جاتا ہے۔دنیا کو تجارت کے لیے راستہ بھی آپ اس وقت ہی فراہم کرسکتے ہیں، جب ملک میں امن ہو۔پڑوس میں امن ہوگا تبھی معاشی سرگرمیوں کو ترقی ملے گی۔ افغانستان میں حالات کی خرابی سے امریکا کو فرق پڑتا ہے نا ہندوستان کو، اس سے افغانستان کے بعد سب سے زیادہ پاکستان متاثرہوتا ہے۔‘‘خارجہ پالیسی میں اسٹیبلشمنٹ کے کردار کے بارے میں سوال پران کا کہنا تھا ’’اسٹیبلشمنٹ کچھ نہیں ہے۔
سویلین کیconvictionمضبوط ہونی چاہیے تبھی آپ اس پر دوسروں کو قائل کرسکیں گے لیکن اگرسامنے سے کوئی مضبوط دلیل آجائے جو آپ کے موقف سے میل نہ کھاتی ہو تو آپ کو اپنی رائے سے رجوع بھی کرلینا چاہیے۔ بنیادی بات ہے کہ سویلین کو خود پر یقین ہونا چاہیے کہ جو بات کررہے ہیں، وہ صحیح اور ملک کے مفاد میںہے، اس پرپھرآپ اسٹیبلشمنٹ کو بھی قائل کرسکیںگے۔کیوں کہ جو چیز ملک کے مفاد میں ہوگی،وہ فوج کے مفاد میں بھی ہوگی۔حکومت کے فائدے میں بھی ہوگی اور بیوروکریسی کا مفاد بھی اسی میں ہوگا۔‘‘
ریاض محمد خان اس بات کو تسلیم نہیں کرتے کہ خارجہ پالیسی اسٹیبلشمنٹ ہی بناتی ہے اور اس میں وزارت خارجہ کا عمل دخل نہیں ہوتا۔ان کا بتانا تھا کہ ہر معاملے میں دفترخارجہ کیinputs Institutional ہوتی ہے اور کئی دفعہ اس نے اپنی بات منوائی ہے۔ اس ضمن میں وہ جنیوا معاہدے کی مثال دیتے ہیں جس پردستخط کرنے کے معاملے میںاسٹیبلشمنٹ کے بجائے دفتر خارجہ کی بات مانی گئی۔ ریاض محمد خان کے خیال میں، افغانستان میں امریکا کی موجودگی چین کے لیے زیادہ پریشانی کی بات نہیں ، کہ وہ ماضی میں جاپان ، کوریا اور تھائی لینڈ میں امریکی ہمسائیگی کو برداشت کرتا رہا ہے۔
ریاض محمد خان سازشی تھیوریوں پریقین نہیں رکھتے۔ان کا موقف ہے کہ اس طرح کی باتیں اپنی ذمہ داریوں سے بچنے کے واسطے کی جاتی ہیں۔وہ مثال دیتے ہیںکہ ہمارے ہاں یہ بات کہی جاتی رہی کہ امریکا نے ایٹمی پروگرام کی وجہ سے بھٹو کوراستے سے ہٹایا لیکن اس پروگرام کو تو ضیاء الحق نے بھی آگے بڑھایا۔ریاض محمد خان کا کہنا ہے ’’خود مختاری عزیز ہونی چاہیے، لیکن اس کے لیے آپ کو دوسروں کی خود مختاری کا احترام کرنا پڑتا ہے۔اس بات کو یقینی بنانا ہوتا ہے کہ آپ کی سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہیں ہوگی۔
خود مختاری جو ہے وہ آپ پر ذمہ داری بھی ڈالتی ہے، اس لیے نان اسٹیٹ ایکٹرز کی ریاست میںکوئی گنجائش نہیں۔‘‘ ریاض محمد خان کی ایک بار منگولیا کے وزیر خارجہ سے ملاقات ہوئی تو انھوں نے دوران گفتگو اپنے تیسرے ہمسایہ ملک کا ذکر کیا۔ یہ سن کر وہ حیران رہ گئے اور سوچنے لگے کہ منگولیا کے ہمسائے میں روس اور چین ہی تو ہے، اس لیے یہ تیسراہمسایہ کون سا ملک ہے، ان کی حیرانی اس وقت دور ہوئی، جب منگولیا کے وزیرخارجہ نے انھیں بتایا کہ تیسرے ہمسائے سے امریکا مراد ہے، کیوں کہ سپرپاور کہیں بھی آباد ہو،وہ آپ کی ہمسایہ ہی ہوتی ہے۔