اسلامی ثقافت اپنے جن فنون پر فخر کرسکتی ہے، ان میں خطاطی ایک ایسا منفرد اور حسین و جاذب ِ توجہ فن ہے، جس کی نظیر کوئی اور قوم پیش نہیں کرسکتی۔
دوسری ساری قوموں کے پاس مصوری ایک مقبول فن کے طور پر رائج رہی ہے، لیکن مسلمانوں میں مصوری کے حرام ہونے کے تصور کی وجہ سے ایک ترفع (Sublimation) کے تحت یا متبادل کے طور پر کہ تسکین ذوق کا کوئی سامان ضرور ہو، فن خطاطی نے مثالی فروغ پایا۔
اگرچہ یہ فن دیگر قوموں میں بھی موجود ہے اور ان کی ثقافتی روایات کا حصہ بھی ہے، لیکن مسلمانوں نے اپنی خطاطی کو جس فنی توازن اور پختگی، حسن و کشش اور نزاکت و دل نشینی کے ساتھ ساتھ رنگ آمیزی سے نوا زا ہے، یہ فنی و جمالیاتی لحاظ سے کسی بھی مہذب سے مہذب قوم کی خطاطی سے زیادہ حسین و دل کش ہے۔ چناں چہ مسلمانوں کی خطاطی کے شاہ کار، اپنے فنی و تاریخی ارتقا اور علاقائی مناسبت سے، ایک تقابلی حیثیت میں خود دیگر تہذیبوں اور قوموں سے تعلق رکھنے والے مستشرقین کی توجہ اور ستائش کا موضوع بنے ہیں اور اس طرح بنے ہیں کہ متعدد مجموعے اور منتخبات مغربی دنیا میں بھی آئے دن شائع ہوکرداد و تحسین وصول کرتے رہتے ہیں۔
بعض مغربی ناشرین نے تو خود کو صرف اسلامی خطاطی کے انتخابات شائع کرنے کے لیے مخصوص کر رکھا ہے اور ان کے شائع کردہ خطاطی کے انتخابات اور نمونے جہازی سائز کی خوب صورت جلدوں میں مغربی شائقین اور امراء کے مابین تحفوں کے طور پر تقسیم ہوتے اور ان کے ڈرائنگ روموں میں میزوں پر رکھے اور الماریوں میں سجے نظر آتے ہیں۔ مغربی ممالک کے متعدد عجائب گھروں میں تو اسلامی خطاطی کے گوشے بھی مخصوص ہیں، جہاں شائقین انھیں بصد شوق دیکھ کر سراہے بغیر نہیں رہتے۔
اسلامی خطاطی کی تاریخ میں عرب دنیا کے کئی ملکوں اور ایران نے جو فنی امتیاز حاصل کیا ہے، اس سے وہ سب ہی واقف ہیں جو اس فن میں کسی طرح کی بھی دل چسپی رکھتے ہیں۔ عرب دنیا میں تو عربی خط یا خط نسخ یا ان سے قریب تر روایتی خطوط کو اُس فن میں فروغ حاصل ہوا، لیکن ایران اس اعتبار سے مختلف ہے کہ یہاں اس فن میں تجربات بھی بکثرت ہوئے اور ایرانی خطاطوں نے اپنا ایک ایسا خاص انداز بھی وضع کیا، جو ان ہی کے ساتھ مخصوص ہے اور یہاں فارسی کے اپنے خط، نستعلیق کے ساتھ ساتھ خط نسخ نے بھی ایسا فروغ پایا جو اپنی مثال آپ ہے۔ پھر عصری اور جدید رجحانات کے زیر اثر جو جو صورت گری اس فن کی ایران میں ہوئی ہے وہ بھی ایک مثال ہے۔
یہی صورت بر عظیم پاک و ہند کی بھی ہے۔ یہاں مسلمانوں کے فنون میں فن تعمیر اور خطاطی دونوں نے وہ امتیاز پیدا کیا کہ بعض مثالوں میں، خصوصاً فن تعمیر میں، وسط ایشیا، ترکی اور ایران کی تعمیرات بھی ان کا مقابلہ نہیں کرسکتیں۔ یہی کچھ یہاں کی مصوری اور خطاطی کے لیے بھی کہا جاسکتا ہے۔ عہد مغلیہ نے جہاں جنوبی ایشیا کو نہایت پختہ کار ماہرین تعمیرات سے نوازا، وہیں مصور اور خطاط بھی بے مثال دیے۔ ایک بڑی تعداد میں سے مُلا عبدالرحیم عنبریں رقم، خواجہ عبدالصمد شیریں رقم، محمد حسین کشمیری زریں رقم، میر عبداﷲ مشکیں رقم، آقا عبدالرشید دیلمی، عبدالباقی حداد یاقوت رقم، سید علی خاں جواہر رقم، غلام محمد ہفت قلم، امیر علی پنجہ کش ایسے چند نام ہیں، جنھیں خطاطی کی مقامی تاریخ میں نمایاں مقام حاصل رہا ہے۔
اس فن نے اپنی روایات کے تمام تر محاسن کے ساتھ پاکستان میں بھی فروغ پایا ہے۔ یوسف دہلوی نے دہلی سے ہجرت کرکے پاکستان کو اپنا وطن بنایا اور اپنے فن کو یہاں ایک مثال کی حیثیت دی کہ جس کو پیش نظر رکھ کر اور ساتھ ہی اپنی ذاتی کاوشوں اور لگن سے ایک پہلے سے موجود اور ابھرتی ہوئی نسل نے یہاں اس فن کو ایسی حیات تازہ دی اور اپنی اختراعات اور اپنے مزاج و انداز سے اس فنی انتہا تک پہنچادیا کہ حال، ماضی کے عروج سے نیچے نہ رہا۔
اس نسل میں جہاں عبدالمجید دہلوی، عبدالمجید پرویں رقم، حافظ محمد یوسف سدیدی، انور حسین نفیس رقم اور شفیق الزماں خاں جیسے ممتاز خوش نویس نظر آتے ہیں، جنھوں نے روایات کی پاس داری کرتے ہوئے یہاں اس فن کو زندہ رکھا اور جلا بخشی، وہیں اس فن میں جدید رجحانات اور عصری میلانات کے مطابق، کچھ فن مصوری کے زیراثر اور کچھ اپنی اختراعات کے شوق میں، ایسے شاہ کار پیش کیے جن سے اس فن میں ایک جدیدتَر اور جداگانہ طرز و اسلوب کی نمائندگی ہوتی ہے۔
ایسے فن کاروں میں صادقین سب سے جدا اور مختلف ہیں، جب کہ اسلم کمال، شاکر علی، گل جی، جمیل نقش، حنیف رامے وغیرہ جیسے پختہ کار مصور ہیں یا نوجوان مصوروں کے متعدد نام ہیں جوان مصوروں میں شامل ہیں، جنھوں نے خطاطی کو بھی بطور فن اختیار کیا اور نہایت پُرکشش شاہ کار تخلیق کیے۔
ان خطاطوں اور مصوروں کی تخلیقات کے متنوع مجموعے یا انتخابات انفرادی یا اجتماعی جلدوں میں وقتاً فوقتاً منظر ِ عام پر آتے رہے ہیں، جنھیں ہم اپنی ثقافت کے اس نوع کے اظہار کا ایک مؤثر وسیلہ قرار دے سکتے ہیں۔ ایسے انتخابات اور مجموعے جب دیگر قوموں اور معاشروں تک پہنچتے ہیں تو پاکستان کا ایک خوب صورت تعارف ثابت ہوتے ہیں۔ یہ تعارف ایک بے حد مثبت اور دوررس اثرات کا حامل ہوتا ہے۔ یہاں ایک ایسے ہی انتخاب کا حوالہ مقصود ہے جسے ’’علم بالقلم‘‘ کے عنوان سے جدہ، سعودی عرب میں پاکستانی قونصل خانے نے بے حد عمدگی اور نفاست کے ساتھ بڑے سلیقے و اہتمام سے انتہائی پُرکشش اور مؤثرانداز میں کچھ ہی عرصہ قبل 2012 کے آخر میں شائع کیا ہے۔
یہ ایک حیران کُن اور تعجب خیز کارنامہ ہے، جس کی بظاہر کسی پاکستانی قونصل خانے یا سفارت خانے سے توقع نہ ہوسکتی تھی۔ کیوں کہ یہ حکایتیں اور روایات عام ہیں، اور خود راقم کا بیرونی ممالک کا 26 سالہ ذاتی مشاہدہ اور تلخ تجربہ بھی ایسا ہی ہے کہ پاکستانی عمّال حکومت بیرونی ممالک میں تعینات ہوکر بالعموم اپنے وہ فرائض بھول جاتے ہیں جو ان کے منصب کا حقیقی تقاضا ہوتے ہیں۔
وہاں زیادہ تر اپنا عیش و آرام انھیں عزیز رہتا ہے یا سہولتوں اور آسائشوں کے حصول پر بالعموم ان کی توجہ اور ترجیحات مرکوز رہتی ہیں۔ چناں چہ جب ’’علم بالقلم‘‘ ہمدست ہوا تو ایک خوش گوار حیرت اب تک طاری ہے، کیوں کہ اس انتخاب کی خوبیاں ہیں کہ جو اسے بار بار دیکھتے رہنے پر اور ہر ایک کو دکھاتے رہنے پر ہمیشہ مجھے آمادہ رکھتی ہیں۔
اس انتخاب کی ایک اور بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ محض پاکستانی خطاطوں کی خطاطی کے نمونوں کا ایک عام سا انتخاب نہیں۔ ایسے انتخاب آئے دن شائع ہوتے رہے ہیں اور عمدگی کے ساتھ بھی شائع ہوئے ہیں، لیکن یہ انتخاب کئی وجوہات سے ان سب سے مختلف اور زیادہ مؤثر ہے۔ صاف لگتا ہے کہ اس کے مرتبین کے پیش نظر محض خطاطی کے ایک انتخاب کی اشاعت ہی پیش ِ نظر نہ تھی، بلکہ اسے وہ ایک ایسے انتخاب کے طور پر شائع کرنا چاہتے تھے، جس سے اس فن کی نمائندگی پاکستانی تناظر میں اور خاص پاکستان کے حوالے سے ہوسکے۔
پھر یہاں یہ نمائندگی صرف پاکستانی خطاطی ہی کی نہیں، پاکستان کی اسلامی خطاطی کی نمائندگی کے مقصد سے ہوئی ہے، جس میں اس کا اسلامی تشخص نمایاں رہے۔ اس مقصد کے پس ِ پشت ایک اسلامی ملک میں، جو خود اس فن کا ایک امین ہے، ایک دوسرے اسلامی ملک کے قونصل خانے نے یہ انتخاب شائع کیا ہے، جسے اپنے ملک کے فنی امتیاز کو لازماً اجاگر کرنا تھا اور بصد فخر و اعتماد اس انتخاب کو پیش کرنا تھا، جس میں وہ پوری طرح کام یاب اور ظاہر ہے سرخ رُو ہوا ہے۔
اس مثالی انتخاب کو قونصل خانہ جدہ کے عمران احمد صدیقی (نائب قونصل جنرل) اور ڈائریکٹر حج سید ابو احمد عاکف ( فرزند ارجمند ڈاکٹر سید ابوالخیر کشفی) نے مرتب کیا ہے۔ اس پیش کش یا انتخاب کا تصورعمران احمد صدیقی کا ہے جو قابل ستائش ہے۔ ایسے کسی تصور کا ذہن میں آنا ہی ایک بڑی نیک نیتی اور اخلاص کا مظہر ہے۔
پھر اس تصور کا فہم اور اسے عملی صورت دینا ناممکن ہوتا اگر وہ سرپرستی نہ ہوتی جو اس انتخاب کی اشاعت کے لیے لازم تھی۔ اس مناسبت سے قونصل خانے کے سربراہ عبدالسّالک خان مبارک باد کے مستحق ہیں، جنھوں نے اپنے اس عمل سے یہ ثابت کیا ہے کہ اگر ہمارے سفارت خانے اور قونصل خانے اپنے فرائض سے مخلص ہوں تو کیا کچھ نہیں کرسکتے۔
اس انتخاب کا یہ پہلو بھی نہایت قابل ستائش ہے کہ مرتبین نے تخلیقات کا انتخاب بڑی جستجو اور کدوکاوش سے کیا ہے اور بہتر سے بہتر نمونے یک جا کرنے کی کام یاب اور متاثر کُن کوشش کی ہے۔ اسے دیکھ کر یہ کہا جاسکتا ہے کہ شاید اس سے بہتر انتخاب ممکن نہ تھا، جس میں نہ صرف فن کے روایتی اسالیب کا لحاظ رکھا گیا ہے اور متعلقہ تمام فن کاروں کو مناسب نمائندگی دی گئی ہے، بلکہ جدیدتَر اور مقبول فن کاروں کے فن کو بھی جائز نمایندگی دی گئی ہے۔
اس طرح یہ ایک بھرپور نمائندگی کا حامل منتخب مجموعہ ہے جو بیرونی ممالک میں پاکستان کے ایک عمدہ تأثر کو عام کرنے میں اپنا کردار ادا کرے گا۔ یقینا یہی اس کے مرتبین کا بنیادی مقصد نظر آتا ہے جس میں وہ پوری طرح کام یاب بھی کہے جاسکتے ہیں۔ اس کتاب کے خوش کُن تأثر میں اس کی طباعت کی نفاست اور ترتیب و تزئین کی خوبیاں بھی شامل ہیں۔ ان سب کو دیکھ کر کہا جاسکتا ہے کہ اس کے مرتبین نے اس انتخاب کو ہر لحاظ سے ایک مثالی اور مؤثر پیش کش بنانے کی شعوری اور کام یاب کوشش کی ہے۔
اب اس پیشکش کو ایک مثال اس طور پر بھی بننا چاہیے کہ اسے دیکھ کر ہمارے دیگر سفارت خانے اور قونصل خانے بھی ایسی کوششیں کریں کہ ہمارے ملک کے اوصاف دنیا کے سامنے نمایاں ہوسکیں اور پاکستان کا حقیقی اور ایک اچھا تأثر عام ہو۔