مقابلے کے اس دور میں کیریئر بنانا اور خودمختاری حاصل کرنا ہر لڑکی کی اولین ترجیح بنتی جا رہی ہے۔
تعلیم حاصل کرنے کے بعد فوری طور پر کسی نوکری کا مل جانا انھیں کسی قارون کے خزانے سے کم نہیں لگتا۔ اب وہ اپنے کیریئر بنانے کے خواب، شادی کے خواب کی طرح ہی دیکھنے لگی ہیں، لیکن اگر ترجیحی بنیادوں کی بات کریں تو پہلے کی نسبت آج کی لڑکی سب سے پہلے آگے پڑھنے کی خواہش اور پھر اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کی بات کرتی نظر آئے گی۔
ہمارے معاشرے میں یہ بدلاؤ بہت تیزی سے پھیلا ہے، ان حالیہ برسوں میں تیزی سے بدلتے ہوئے سماجی رجحانات نے اس لیے لڑکیوں کو اس طرف سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ اب صرف پڑھی لکھی لڑکی نہیں، بلکہ ملازمت پیشہ لڑکی کا رشتہ جلد ہونے کے امکان زیادہ ہوتے ہیں۔
دوسری وجہ یہ ہوتی ہے کہ ان کے دماغ میں یہ بات بھی بٹھا دی گئی ہے کہ خود مختار لڑکی کسی پر بوجھ نہیں ہوتی۔ نہ شادی سے پہلے اور نہ شادی کے بعد، بلکہ اگر ان کی شادی شدہ زندگی کسی اونچ نیچ کا شکار ہو بھی جاتی ہے، تو وہ خود کو بہ آسانی سنبھال سکتی ہیں۔
اور اس خود مختاری کے بعض نتائج ازدواجی زندگی شروع ہونے سے پہلے ہی وہ اپنے والدین کے گھر میں دیکھ لیتی ہیں، جب جاب سے آنے والی لڑکی کو اپنے ہی گھر میں خوب پروٹوکول ملتا ہے اس کے کھانے پینے سے لے کر آرام تک کا خصوصی خیال رکھا جاتا ہے۔
چھوٹے بہن بھائیوں کے علاوہ اس سے بڑے بہن بھائی بھی اس کی ہر بات کو ماننا شروع کر دیتے ہیں۔ سونے پر سہاگہ معاش سے وابستہ بیٹی، منتوں مرادوں سے مانگے ہوئے بیٹے پر بھی بھاری ہو جاتی ہے اور اس کا مقام گھر میں بیٹے سے بھی اونچا ہو جاتا ہے۔
سب سے بڑھ کر گھر کے معاملات میں جب اس کے فیصلوں کو ترجیح دی جاتی ہے، تو وہ اپنی خود مختاری کو کسی نعمت سے کم نہیں سمجھتی اور وہ اسی سوچ کے تحت پیا گھر قدم رکھتی ہیں۔ اْسے لگتا ہے جیسی پذیرائی، ستائش اور پروٹوکول میکے میں ملا، ویسے ہی سسرال میں بھی ملے گا۔
وہ بہترین خواب لے کر سسرال پہنچتی ہے، تو زندگی فلم کے کسی ’صدماتی منظر‘ میں بدلتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔
یہاں نہ تو اس کی ملازمت کے زعم کو قبول کیا جاتا ہے، نہ ہی تھکے ہارے جسم کو سکون میسر ہونے کا وقت دیا جاتا ہے، بلکہ اسے جاب سے واپسی پر سسرال میں باورچی خانہ سنبھالنے سے لے کر مہمانوں کی آؤ بھگت تک سارے معاملات دیکھنے کی توقع رکھی جاتی ہے۔
ایسے میں اکثر ملازمت پیشہ لڑکیاں جب کبھی نہ چاہتے ہوئے بھی صاحب اولاد ہوجاتی ہیں، تو ان کی پہلا انتخاب بچوں کو دادی یا پھر نانی کے حوالے کرنا ہوتا ہے، کیوں کہ ان کے نزدیک دادی نانی سے بڑھ کر ان کی اولاد کی اچھی پرورش کون کر سکتا ہے، اور اس ہی مقام پر ان کی سوچ غلط ہوتی ہے۔ کیوں کہ دادی یا نانی کے حوالے کر دینے سے ایک ماں اپنے فرائض یا ذمہ داریوں سے سبک دوش نہیں ہو سکتی۔
کیریئر بنانے کا ’بھوت‘ ایک لڑکی کے سر پر اتنا حاوی کر دیا گیا ہے کہ وہ اپنے نومولود بچے کو دادی یا نانی کے سپرد کر کے بڑی بے فکری سے سرمایہ دارانہ نظام کی ضرورتیں پوری کرنے میں مصروف ہوجاتی ہے، حالاں کہ بچے کو اس وقت صرف اپنی ماں چاہیے ہوتی ہے۔
جس کے پاس سب سے قیمتی آسودہ اور پرسکون آغوش ہوتی ہے، لیکن ملازمت پیشہ یا کیریئر بنانے والی لڑکیوں کو یہ لگتا ہے کہ دادی یا نانی چوںکہ بزرگ اور تجربے کار بھی ہیں اور گھر میں فارغ بھی ہوتی ہیں، سارا دن گھر پر ان کا کام ہی کیا رہ گیا ہے، اگر یہ بچے کی نگہداشت کر لیں گی، تو کون سا کوئی بڑا مسئلہ ہے۔
حالاں کہ دیکھا جائے، تو یہ ایک نئی نئی ماں بننے والی لڑکی کی انتہائی سنگ دلانہ سوچ ہوتی ہے اور اس سوچ کے متاثرین وہ دو فریقین ہیں، جو بنیادی طور پر کمزور جسم و جان کے مالک ہوتے ہیں ایک تو وہ نومولود بچہ جسے صرف اپنی ماں کے لمس کی ضرورت ہوتی ہے، اور اس کی تمام تر بے چینیوں میں چین کی گھڑی اس کی ماں کی گود ہوتی ہے، کیوں کہ یہ اس کی سب سے محفوظ پناہ گاہ ہے۔
دوسرا فریق اس کی ساس ہے، جو اتنی بھاری ذمہ داری کے لیے اتنی اچھی صحت اب نہیں رکھتی۔ جس نے اپنی جوانی کا پہلے ہی سارا قیمتی وقت اور توانائی اپنے بچوں کو پالنے میں لگا دی ہے، وہ اپنے گھر اور بچوں کو اپنا بھرپور وقت دینے کے بعد جب ان کی شادی کر دیتی ہے، تو اس کے بعد خود کو ہر ذمہ داری ہر معاملے سے ریٹائر اور بری الزمہ تصور کرتی ہے، لیکن دوبارہ سے جب اپنی ہی اولاد کے بچوں کی پرورش کی مکمل ذمہ داری ہی اس کے ناتواں کندھوں پر ڈال دی جاتی ہے، تو دراصل یہ اس کے ساتھ سخت نا انصافی کی جاتی ہے، کیوں کہ بچے پالنا کوئی آسان کام نہیں ہوتا، بچے کے سونے جاگنے کے اوقات سے لے کر اسے کھانا کھلانے اور پوتڑے بدلنے تک کے سارے کام انتہائی محنت اور دقت طلب ہوتے ہیں، جس کے لیے اچھی صحت کا ہونا ضروری ہے، جب کہ ہمارے ہاں دادی نانی بننے والی خواتین کی صحت کوئی اتنی قابلِ رشک نہیں ہوتی۔
وہ جسمانی طور پر اتنی توانا نہیں ہوتیں کہ وہ بچے سے منسلک یہ سخت ذمہ داری سرانجام دے سکیں۔ میرے خیال میں تو دادی ہو یا نانی انھیں اپنی پرسکون زندگی گزارنے کا پورا حق ملنا چاہیے۔ وہ اپنی زندگی کا بھرپور وقت اپنی اولاد اور گھر کو پہلے ہی دے چکی ہوتی ہیں، تو اب اولاد کی شادی کے فرائض پورے کرنے کے بعد انھیں یہ موقع ملنا چاہیے کہ وہ جب چاہیں سو کر اٹھیں، گھومنے جائیں۔
کسی رشتہ دار سے ملنا ہو تو گھر کی مکمل بے فکری کے ساتھ وہاں گپیں لگاتے ہوئے تسلی سے بیٹھ سکیں اور اگر اپنے نواسے یا پوتے کو اپنی خوشی سے اپنی گود میں کھلانا چاہیں تو ضرور کھلائیں۔ جبراً ان پر اس ذمہ داری مسلط کرنا ان کے ساتھ سخت زیادتی ہے، اگر یہ ذمہ داری آپ انہیں دیتی بھی ہیں تو پھر ان کے ساتھ ایک آیا ضرور رکھیں۔
اگر اللہ نے اپ کو اولاد دی ہے، تو اسے مکمل طور پر سنبھالنے کی ذمہ داری بھی آپ پر ہے، نہ کہ آپ اسے خود پر بوجھ سمجھتے ہوئے دادی یا نانی کے سپرد کر دیں کہ ان سے اچھا کون پال سکتا ہے۔ یاد رکھیے اپنی ماں اپنی ہی ہوتی ہے، ماں کا نعم البدل کوئی رشتہ نہیں بن سکتا۔ آپ اپنے شوق ،اعلیٰ تعلیم یا کیریئر کی آڑ میں اپنی اولاد کو فراموش نہیں کر سکتیں۔ کیریئر یا بچے میں سے جب آپ کیریئر کو چنتی ہیں، تو دراصل آپ خود کو بچے پر ترجیح دیتی ہیں جو سراسر گھاٹے کا سودا ہے۔
وہ وقت کہ جس میں بچے کو آپ کی سب سے زیادہ ضرورت ہوتی ہے اور اگر آپ اس وقت موجود نہیں ہیں، تو یقین کیجیے،کہ اس محرومی کا ازالہ آپ ساری زندگی کسی صورت نہیں کر پائیں گی، اگر معاش کے مسائل نہیں ہیں اور خاوند اچھا کماتا ہے، تو بہتر ہے کہ اپنی دل چسپی کا مرکز اپنے گھر اور بچے کو بنائیں، کیوں کہ بچہ بھی دراصل ایک ’کُل وقتی ملازمت‘ ہی ہوتا ہے، اس لیے ایک لڑکی کو اپنا قیمتی وقت اپنی اولاد کی تربیت اور کردار سازی پر صرف کرنا چاہیے، تاکہ معاشرے کو رشتوں سے بیزار، ٹوٹی پھوٹی شخصیت کی بہ جائے کار آمد انسان میسر ہو سکے۔
The post اولاد آپ کی ذمہ داری ہے، دادی یا نانی کی نہیں! appeared first on ایکسپریس اردو.