بہت سی صورتوں میں ماضی ایک کرب ناک حقیقت کے طور پر بھی سامنے آتا ہے، جسے یاد کر کے ہم صرف خود کو ہلکان ہی کر سکتے ہیں۔
گزری ہوئی تلخیوں کو تازہ کر کے ہم اپنے دل کو پریشان ہی کر سکتے ہیں، کیوں کہ جو کچھ ہو چکا ہے، بیت چکا ہے اب اس پر کُڑھنے سے کیا حاصل ہوگا؟ یہ سوال آج ہم مل کر خود سے پوچھتے ہیں اور جائزہ لیتے ہیں کہ ہم اس ماضی کی وجہ سے اپنی آنے والی کتنی خوشیوں کا گلا گھونٹ رہے ہیں۔
یادوں کی کھڑکی نہ جانے کیوں اسی وقت کھلتی ہے، جب ہم کچھ دیر خوش ہونا چاہتے ہیں، اس کھڑکی کو اسی وقت بند کرنے کی کوشش کیجیے اور خود کو آنے والی خوشی میں مگن رکھیں۔ ہم میں سے بہت سی حساس خواتین کسی بھی خوشی کے موقع پر ماضی کے دکھ لے کر بیٹھ جاتی ہیں اور گھنٹوں آنسو بھی بہاتی ہیں۔
حساس ہونا اچھی بات ہے، لیکن اتنا زیادہ حساس ہونا بالکل بھی اچھا نہیں، کیوں خود پر ظلم کر رہی ہیں، یہ کیوں نہیں دیکھتیں کہ آج آپ کے پاس کیا کچھ نہیں ہے۔کس چیز کی کمی ہے۔ اگر میں اپنی بات کروں، تو پچھلی باتیں پریشان ہی کرتی ہیں، ماضی میں لوگ کی طرف سے کی جانے والی زیادتیوں کی وجہ سے ڈپریشن کا شکار ہی ہونا ہے، اس سے بہتر ہے کہ بھولنے کی کوشش کی جائے۔ بے شک بھولنا آسان نہیں ہے، لیکن بھولنے کی کوشش تو کی جا سکتی ہے۔
آپ پر ماضی میں کیے گئے طنز، نیچا دکھانے کی کوشش اور تنگ کرنے کے طریقے اختیار کیے گئے۔ یہ سب کچھ وقتی تھا اب اگر آپ زندگی میں مطمئن اور پرسکون ہیں، تو چھوڑیجیے سب اور خوش رہیں اور مزید زندگی کی خوب صورتی بڑھائیں، رنگوں سے آشنائی بڑھائیں اور دل سے سب گلے شکوے نکال دیں۔آج ہم صرف خوشیوں کی بات کریں گے۔
دکھوں اور غموں سے دور سکھ کی وادی کی سیر کریں گے۔ صبر کے پھل کی بات کریں گے اور چٹکتی کلیوں کے کھکھلاتے شبنم کے قطروں کی بات کریں گے۔
دور وادیوں کے اس پار ایک ایسی کٹیا کی بات کریں گے، جس میں درد کی بھرمار تھی لیکن صبر و تحمل نے زندگی کو سچے موتیوں کی مالا سے بھر دیا۔ روئی جیسے سفید بالوں والی اماں زندگی کے دکھوں میں ایسی بکھریں کہ انھیں اب خوشیوں سے ڈر لگنے لگا ہے، وہ خوش ہوتے ہوئے بھی کئی بار سوچتی ہیں۔
زندگی کا بیش تر حصہ دکھوں اور تکلیفوں میں گزر گیا تھا، لیکن انھوں نے ہمیشہ صبر کا دامن تھامے رکھا۔ چرخے کی روں روں انھیں زندگی کی خوشیوں کا راگ سناتی رہی۔ چرخہ کاتتے کاتتے عمر بیت گئی۔ بیٹیاں اپنے گھر چلی گئی تھیں۔ بیٹا کوئی تھا نہیں، شوہر بھی جوانی میں روڈ حادثے میں جاں کی بازی ہار گیا۔
بہت مشکل اور تکلیف دہ وقت تھا، جو انھوں نے گزارا تھا، لیکن اب ان کی کُٹیا میں خوشیاں ہی خوشیاں تھیں۔ وادی کے ننھے بچوں کو صبح سویرے قرآن پاک پڑھاتیں۔ گھر کے ایک کونے میں چھوٹا سا باغیچہ تھا جو بڑی بی کی زندگی تھا۔ اسے سجاتیں، سنوارتیں اور پھول توڑ کر مالا پرونا شروع کر دیتیں۔ وادی کے بازار سے ایک دکان دار آتا اور سبھی مالا لے جاتا اور انھیں پیسے دے جاتا۔ کچھ پیسوں سے راشن لاتیں اور کچھ نئے پودے خرید لاتیں۔
بیٹیاں آتیں، تو گھر کی رونق بڑھ جاتی۔ دن گزر جاتا، شام میں کچھ بچیاں سلائی سیکھنے آ جاتیں، تو ان کا دل بہل جاتا۔ ماضی کے دریچوں سے کبھی کبھار چنگاری سی اٹھتی، لیکن وہ جلد ہی اسے بجھا دیتیں۔ زندگی میں اب سُکھ ہی سُکھ تھا۔
اس لیے وہ اس پر اللہ کی شکر گزار تھیں۔ جو گزر گیا، سو گزر گیا، اسے یاد کر کے اب کچھ نہیں ملے گا، اس لیے بہتر ہے کہ سُکھ اور خوشی سے ’دوستی‘ کر لی جائے۔ انھیں یاد آتا کہ جب کبھی وہ دکھی ہوتی تھیں اور پریشانی ان کے گھر کا راستہ نہیں چھوڑتی تھی تو وہ اللہ کے سامنے سجدہ ریز ہو جاتیں اور سب تکلیفیں آنسوؤں میں بہا کر اللہ کے سامنے پیش کر دیتیں۔ نتیجتاً اللہ نے صبر کا ایسا حوصلہ دل میں ڈالا اور ایسا سکون بخشا کہ دکھ بھی سُکھ جیسا مزہ دینے لگے۔
جب ہم تکالیف کو آزمائش سمجھ لیتے ہیں اور صبر کا دامن تھام لیتے ہیں، تو پھر کچھ بھی مشکل نہیں لگتا۔ پریشانیوں سے گھبرانا اور ہمت ہارنا آج کے دور میں ایک عام سی بات بن چکی ہے۔ پریشانیاں تو زندگی کا حصہ ہیں۔ انھی کے ساتھ جینا سیکھیے اور خوشیوں کی اچھی امید رکھیں اور جو گزر گیا ہے اس پر کڑھنے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا، سوائے دماغی اضطراب کے۔ خوشیوں کے مواقع تلاش کیجیے۔
جینا سیکھیے اور خود سے منسلک رشتوں کی طرف توجہ دیجیے، بالخصوص جو آپ کے چہرے پر مسکراہٹ دیکھنا چاہتے ہیں اور آپ کی پریشانی ان کے لیے تکلیف کا باعث ہے۔ آپ موتیوں کی مالا ہیں اور بہت اہم ہیں ان کے لیے جنھیں آپ کا خیال اور احساس ہے۔ اس لیے انھی کے لیے جینا سیکھیے اور اس کے بعد زندگی کے رنگ دیکھیں وہ کیسے آپ کے لیے خوش بو سے معطر بارش کی بوندیں لے کر آتی ہے۔
The post حال کو بے حال نہ بنائیے! appeared first on ایکسپریس اردو.