Quantcast
Channel: Pakistani Magazine -- Urdu Magazine - میگزین - ایکسپریس اردو
Viewing all articles
Browse latest Browse all 4420

امریکی مفادات کی تابعداری نے ہمیں بے دست وپا کر رکھا ہے

$
0
0

آخری حصہ

1960 ء کی دہائی کے آغاز ہی سے سرد جنگ شدت اختیار کر چکی تھی اور جرمنی اور کیوبا سمیت پاکستان ، بھارت چین اور سابق سویت یونین اس سرد جنگ میں غیر اعلانیہ طور پر شامل ہو گئے تھے۔

اس دوران سوویت یونین اور چین کے درمیان سرحدی تنازعات بڑھ گئے اور سرحدی جھڑپیں ہو ئیں دوسری جانب بھارت نے چین کے زیرِ کنٹرول تبت کے علاقے کے روحانی رہنما دلائی لاما کو سیاسی پناہ دے دی اور اس کے تھوڑے عرصے بعدچین اور بھارت کے درمیان لداخ ،کشمیر پر جنگ ہوئی اور چین نے بھارت سے یہاں ایک بڑاعلاقہ چھین لیا۔ دوسری جانب پاکستان نے اس موقع پر اپنی خارجہ پالیسی کو متوازن کر نے کی کامیاب کو شش کی۔

اس زمانے میں پاکستان کے نو جوان وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو تھے اُنہوں نے چین سے فوراً قریبی تعلقات استوار کئے اور استھائی چین یعنی لداخ کشمیرمیں پاکستان کے زیرِ کنٹرول پانچ ہزار مر بع کلو میٹر علاقہ ایک معاہدے کے تحت چین کو دے دیا اس علاقے پر چین کا دعویٰ تھا۔

اُس وقت تک اگر چہ چین آج کے مقابلے میں اس قدر ترقی یافتہ اور طاقتور نہیںتھا مگر بھارت کے مقابلے میں کہیں زیادہ طاقتور تھا جس کا ثبوت 1962 ء کی چین بھارت جنگ میں بھارت کی عبرت ناک شکست تھی، مگر دوسری جانب سابق سوویت یونین اور پاکستان کے تعلقات تلخ ہو چکے تھے کیونکہ پاکستان میں پشاور کے قریب بڈابیر امریکی اڈے سے U-2 طیارے اڑکر روسی علاقے میں جاسوسی کرتے تھے۔

یکم مئی 1960 ء کو سوویت یونین نے یو ٹو طیارے کو زمین سے فضا میں میزائیل مار کر گرا دیا ، سوویت یونین کو اس سے دو فائد ے ہو ئے ایک یہ کہ امریکہ عالمی سطح پر دوسرے ملک میں مداخلت کر نے کی وجہ سے بدنام ہو ااور مشرقی اور مغربی جرمنی کے حوالے سے جو پیرس امن معاہد ہ سوویت یونین اور امریکہ ، بر طانیہ ، فرانس کے درمیان طے پا نا تھا جو روس کے حق میں نہیں تھا U-2 واقعہ کی بنیاد پر سوویت یونین نے اس میں شرکت سے انکار کردیا اور اس کے ساتھ ہی سوویت یونین نے تیزی سے مشرقی اور مغربی جرمنی کے درمیان دیوار برلن تعمیر کر دی۔

اس وقت جہاں سوویت یونین نے دیوار برلن تعمیر کی وہاں سوویت یونین نے پاکستان کو دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ سوویت یونین نے پشاور کے گرد سرخ دائرہ بنا دیا ہے ، یہ دور خطے کی خارجہ پالیسی کے اعتبار سے بہت اہم تھا جس میں امریکہ ، برطانیہ اور فرانس کا کردار بھی اہم تھا مگر خطے میں بھارت چین دوستی جس کے لئے ہند چین بھائی بھائی کا نعرہ گونجتا تھا۔

بھارتی وزیراعظم نے کیوں تبت کے دلائی لامہ کو بھارت میں سیاسی پناہ دی اور پھر کشمیر لداخ کی جنگ ہو ئی، مگر حقیقت یہ تھی نہرو یہ جانتے تھے کہ چین کی مخالفت کی وجہ سے بھارت کو امریکہ اور سوویت یونین دونوں کی حمایت اور امداد بھی ملے گی اور بھارت کو چین کے مقابلے میں مضبوط اور طاقتور بنانے کے لیے سرد جنگ کے دونوں بلاک بھارت کی مدد کر یں گے۔

بھارت یہ جانتا تھا کہ سوویت یونین اور امریکہ ، فرانس اور برطانیہ کے مقابلے میں ترقی میں نمایاں نہیں ہو سکتا مگر وہ سرد جنگ کے دونوں بلاکوں کی حمایت سے وہ چین کا مقابلہ کر سکتا ہے ،ساٹھ کی دہائی کے درمیان تک پاکستان کی پوزیشن امریکہ سے اور چین سے تعلقات کی بنیاد پر متوازن اور مستحکم تھی۔

اسی دوران پاکستان نے عالمی سطح پر بھارتی خارجہ تعلقات کا درست اندازہ لگائے بغیر بھارت سے کشمیر کے مسئلے پرستمبر1965 ء ۔ جنگ کی اور نتیجے میں 1966 ء معاہدہ تاشقند ہو ااور پاکستان اور بھارت کو اپنی فوجیں زمانہ امن کی پوزیشن پر لانی پڑیں۔

اس کے دو سال بعد عرب اسرائیل جنگ ہو ئی جس میں عربوں کو ذلت آمیز شکست ہوئی ، 1965 کے آغاز ہی پر صدر ایوب خان اور محترمہ فاطمہ جناح کے درمیان صدارتی انتخابات میں صدر ایوب خان پر خصوصاً مشرقی پاکستان اور کراچی کے عوام میں یہ تاثرعام تھا کہ جنرل ایوب خان نے یہ انتخابات دھندلی کی بنیاد پر جیتے تھے اب معاہد ہ تاشقند کے بعد ذولفقار علی بھٹو استعفیٰ دے کر ایوب خان کے خلاف ہو گئے۔

اب ملک میں ایک سیاسی بحران نے جنم لیا1968 ء کے بعد جنرل یحییٰ خان نے ملک میں مارشل لا نافذ کر دیا۔

اگر چہ جنرل یٰحی خان بھی اقتدار کے لالچی تھے اور اُن کا سیاسی وژن بہت کم تھا مگر اُن کی کابینہ میں بھی کافی تجربہ کار لوگ تھے اور ساتھ ہی بیورو کریسی بھی بہت معیاری تھی، مگر جنرل یٰحی خان نے اس سے ملک کی خاطر کو ئی فائدہ نہیں اٹھایا یوں اس دوران پاکستان نے خارجہ پالیسی کو چین امریکہ تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے اور اس کے درمیان اپنے لیے عالمی سطح پر بہتر راستہ بنانے کے لیے کوششیں کیں اور جولائی 1971 ء میں جب مشرقی پاکستان میں حالات بہت کشیدہ تھے اور تھوڑے عرصے پہلے سوویت یونین اور چین کے درمیان سرحدی جھڑپیں ہو ئی تھیں۔

یوں امریکہ کے ہنری کسنجر نے جب پاکستان سے پی آئی اے کے طیارے میں چین کا خفیہ دورہ کیا جو بدقسمتی سے خفیہ نہیں رہ سکا اور پھر عالمی سطح پر غیر جانبدار کہلانے والے ملک بھارت نے سوویت یونین سے ایک دفاعی معاہدہ کر لیا جس کے مطابق بھارت اور سوویت یونین میں طے پا یا کہ اگر اِن دونوں ملکوں میں سے کسی ایک ملک پر حملہ کیا گیا تو ایک ملک ہی پر حملہ تصور کیا جا ئے گا۔

بدقسمتی یہ ہوئی کہ جب دسمبر 1971 ء میں پاک بھارت جنگ ہو ئی تو سوویت یونین نے بھارت کا بھر پو ر ساتھ دیا لیکن امریکہ کا بحری بیڑہ پاکستان کی مدد کو نہیں آسکا اور یوں 16 دسمبر 1971 ء کو پاکستان دو لخت ہو گیا۔ 20 دسمبر 1971 ء کو ذولفقار علی بھٹوکو مغربی پاکستان یعنی آج کے پاکستان میں صدر اور چیف مارشل لا ایڈ مینسٹرٹر بنا کر اقتدار پیپلز  پارٹی کے سپرد کر دیا گیا ، جنہوں فروری 1972 ء میں عبوری آئین بنا کر ملک میں پارلیمانی جمہوری حکومت کا آغاز کیا۔

1973ء آئین بنا اور 1973 ء ہی میں عر ب اسرائیل جنگ شروع ہو ئی جس میں بھٹو نے عرب ممالک کی بھر پور مدد کی اس جنگ میں اسرائیل کے مقابلے میں خصوصاً مصر نے اچھا مقابلہ کیا یہ پہلی جنگ تھی جس میں میزائل ٹیکنالوجی استعمال ہوئی۔

جنگ بندی کے ساتھ ہی عربوں نے تیل کو بطور ہتھیار استعمال کیا پاکستا ن میں اسلامی سر براہی کانفرنس ہو ئی جو اس کی تاریخ کی سب سے کامیاب کانفرنس تھی یہ وہ موقع تھا جب بھٹو نے بدلتی ہو ئی عالمی سیاست خصوصاً خطے کی سیاست میں اہم کردار ادا کیا یہی وہ دور ہے جب متحدہ عرب عمارات بھی بر طانیہ کے تسلط سے آزاد ہو ئی تھیں اِن کو صنعت ، اقتصادیات کے شعبوں میں پاکستان نے مدد دی ، مگر 1977 ء کے انتخابات میں دھندلی کے الزام کے بعد پاکستان میں ذولفقار علی بھٹو کی حکو مت ختم ہو گئی اور جنرل ضیا الحق نے مارشل لا نافذ کر دیا۔

28 اپریل 1978 ء کو افغانستان میں صدر سر دار داؤد کو قتل کر دیا گیا اور یہاں سوویت یونین نواز حکو متیں قائم ہو نے لگیں۔

11 فروری 1979 ء کو ایرانی انقلاب کی وجہ سے شہنشاہ ایران رضا شاہ پہلوی حکومت اور سلطنت کا خاتمہ ہو گیا ،24دسمبر 1979 ء کو سابق سوویت یو نین نے افغانستان میں فوجیں داخل کر دیں پاکستان سرد جنگ کے اس فائنل رونڈ میں فرنٹ لائن کا ملک بن گیا 1988 ء جنیوا معاہدہ ہوا مگر اس پر عملدر آمد نہ ہوسکا اور افغانستان خانہ جنگی کا شکار ہو گیا 1996 ء میں افغانستا ن میں پہلی طالبان حکومت قائم ہو ئی جو نائن الیون یعنی 11 ستمبر 2001 ء کے واقعہ کے بعد امریکہ اتحادی فوجوں کے افغانستان پر حملے کے بعد اکتوبر 2001 ء کو ختم ہو گئی۔

پاکستا ن نے 28 مئی1998 ء کو بھارت کے جواب میں چھ ایٹمی دھماکے کئے ، 1999 ء کارگل جنگ کے بعد 12 اکتوبر 1999 ء کو وزیر اعظم نواز شریف کی حکومت ختم ہو گئی اور جنرل پروز مشروف برسر اقتدار آئے ، یوں پاکستان ایک بار پھر افغانستان کی جنگ میں امریکہ کے ساتھ الجھ گیا ۔

ہم اگر مختصر جا ئز لیں تو 1972 ء میں پاکستان نے جو آزادنہ اور متوازن خارجہ پالیسی بنائی تھی اُس کا دوبارہ جھکاؤ  1977 ء سے امریکہ کی طرف ہو نے لگا اور باوجود اس کے کہ افغانستان میں 1988 ء کے جیوا معاہدے بعد سوویت یونین کو شکست ہوئی اور امریکہ کامیاب ہو ا،نیوورلڈ آڈر نافذالعمل ہوا مشرقی یورپ سے بھی  اشتراکیت رخصت ہوئی اور خود سوویت یونین کی پندر ریاستیں آزاد ملک بن کر اقوام متحد ہ کی رکن بن گئیں وہ دیوار برلن جو پاکستان کی وجہ سے یعنی یو ٹو طیارے کے گرائے جا نے کی وجہ سے تعمیر ہو ئی تھی پاکستان کے ذریعے سے سوویت یونین کی افغانستان میں شکست کے بعد پاکستان کی وجہ سے گرادی گئی، مگر پاکستان کو اس کا نقصان ہوا۔

نائن الیون کے بعد ہماری خارجہ پالیسی امریکہ اور نیٹو ممالک کے مفادات کے تابع رہی اور آج ملک کے معاشی سیاسی بحران کے باعث ہم جو اب بھی علاقے میں اپنی خاص جغرافیائی اہمیت یعنی اسٹرٹیجک پوزیشن رکھتے ہیں بے دست و پا نظر آتے ہیں۔

اگر چہ چین آج بھی ہمار اایک ایسا ہمسایہ ملک ہے کہ جس کو ہماری اور ہم کو اُس کی ضرورت ہے، گوادر کی بندر گاہ ،سی پیک اور بیلٹ اینڈ روڈ منصوبوں کی وجہ سے دونوں ملکوں کے مفادات ایک دوسرے سے وابستہ ہیں ، روس ، یو کرئن جنگ کی وجہ سے ہمیں امریکہ اور یورپ کے دباؤ کا سامنا ہے لیکن یہ وقت ہے کہ باجود مسائل کے ہم امریکہ ،روس ،چین اور بھارت کے درمیان ایک متوازن اور مستحکم پالیسی اپنائیں۔

واضح رہے کہ اس وقت اگر ہم نے کسی ایک ملک کے مفادات کے لیے ماضی کی طرح خود کو قر بان کیا تو اس سے ملک کے وجود کو خطرہ لاحق ہوگا ، الیکشن کے بعد کوئی بھی حکومت ہو اُسے  متوازن اور مستحکم ایسی پالیسی اپنانی چاہیے جو پاکستان کے حق میں ہو ۔

The post امریکی مفادات کی تابعداری نے ہمیں بے دست وپا کر رکھا ہے appeared first on ایکسپریس اردو.


Viewing all articles
Browse latest Browse all 4420

Trending Articles