پاکستانی حکومت کا فوری مسئلہ ڈالر پانا ہے تاکہ درآمدات جاری رہیں اور بیرونی قرضوں و سود کی ادائیگی بھی!ہماری حکومت نوٹ چھاپ کر مقامی مالیاتی اداروں کا قرض ادا کر دیتی ہے۔
گو یہ عمل ریاست میں افراط زر بڑھاتا ہے جو خود مہنگائی بڑھانے کا اہم سبب ہے لیکن اصل مسئلہ غیرملکی قرضوں کی ادائیگی اور درآمدات جاری رکھنا ہے جو ڈالر میں ہوتی ہے۔وافر ڈالر نہ رہیں توریاست دیوالیہ ہو سکتی ہے۔
ہر حکومت صرف دو طریقوں سے ڈالر جمع کرتی ہے:اول اپنے قدرتی وسائل یا خدمات (سروسز)بیرون ممالک کو فروخت کرے ،دوم بیرون ملکوں میں موجود شہری اپنے دیس ڈالر میں رقم بھجوائیں۔ بیرونی سرمایہ کاری سے بھی ڈالر ملتے ہیں مگر یہ تقریباً صفر ہو چکی۔
ڈالر نہ ہونے سے پٹرول و ڈیزل ہی نہیں اشیائے خورونوش کا زبردست بحران پیدا ہو سکتا ہے۔مثلاً کراچی کی بندرگاہ پر دالوں، پیاز، مسالوں وغیرہ کے کینٹر جمع ہو چکے۔انھیں ریلیز کرنے کی خاطر ڈالر چاہیں جو بینک فراہم نہیں کر رہے۔
قرضوں کی مے
پاکستان کی برآمدات عرصہ دراز سے منجمند ہیں۔وہ 25 سے 31 ارب ڈالر سالانہ سے آگے نہیں بڑھتیں۔جبکہ پچھلے مالی سال میں درآمدات 80 ارب ڈالر تک پہنچ گئیں۔
اگر بیرون ممالک مقیم پاکستانی تیس پینتس ارب ڈالر نہ بھجواتے تو پاکستان بھی سری لنکا کی طرح ڈالر کم ہونے سے دیوالیہ ہو جاتا۔ڈالر کی کمی دور کرنے کے لیے ہی پاکستانی حکمران طبقہ آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور دوست ملکوں کے در پہ دستک دیتا ہے۔بدقسمتی سے اس نے قرضے لے کر ڈالر کی کمی دور کرنا اپنا وتیرہ بنا لیا ہے۔
ایسے ٹھوس اقدامات نہیں کیے جاتے کہ درآمدات کم ہو جائیں اور برآمدات بڑھ سکیں۔برآمدات بڑھانے کی پالیسیاں بھی خام اور عوام دشمن ہیں ، مثلاً غذائیں ایکسپورٹ کرنے کی متنازع پالیسی!
پاکستان کی درآمدات میںرکازی ایندھن (پٹرول، ڈیزل، گیس ،کوئلہ،فرنس آئل، موبل آئل وغیرہ)کی خریداری سرفہرست ہے۔پچھلے مالی سال میں اس خریداری پر تیس ارب ڈالر خرچ ہوئے، یعنی تقریباً ہماری کل برآمدات کے برابر!اس بھاری بھرکم خریداری سے جان چھڑانے کا فوری حل یہ ہے کہ مقامی کوئلے کو بروئے کار لاتے ہوئے اس سے بجلی بنائی جائے۔
نیز ٹرانسپورٹ بھی جلد بجلی سے چلائی جائے۔ صرف یہ ایک عمل اپنا کر پاکستان اس دیوہیکل امپورٹ بل سے چھٹکارا پا لے گا جو ہمارے ڈالر کھا جاتا ہے۔
’’سیاہ سونا‘‘
پاکستان میں چالیس سال قبل کوئلے کے وسیع ذخائر دریافت ہوئے تھے مگر حکمران طبقے نے اس سے فائدہ نہیں اٹھایا۔وجہ ؟وہی دور اندیشی کی کمی، غفلت اور قومی مفادات پر ذاتی مفاد کو ترجیح۔اب آ کر مقامی کوئلے سے بجلی بن رہی ہے مگر ذخائر قابل استعمال بنانے کا کام سست رفتاری سے جاری ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں کوئلے کے 185 ارب ٹن ذخائر موجود ہیں۔اگر 150 ارب ٹن بھی ہوئے تو یہ کوئلہ ڈیرھ سو سال تک بجلی کی مقامی ضروریات پوری کر سکتا ہے۔حالات دیکھتے ہوئے اس کوئلے کو ’’سیاہ سونا‘‘ اور’’ گیم چینجر‘‘ کہنا چاہیے۔
واضح رہے، مستبقل میں عالمی معیشت تیل و گیس نہیں بجلی پر استوار ہو گی۔کوئلہ بھی ماحول دشمن گیسیں خارج کرنے والا ایندھن ہے۔مگر اب ایسی ٹیکنالوجی ایجاد ہو چکی جس کی مدد سے کوئلے کے بجلی گھر کم سے کم آلودگی خارج کرتے ہیں۔لہذا یہ وقت کی پکار ہے کہ پاکستان میں ساری بجلی مقامی ایندھن،پانی اور کوئلے سے بنائی جائے۔
(مستقبل میں سورج اور ہوا سے بھی بجلی بن سکے گی)۔مقامی ذرائع سے بجلی بننے پر پاکستان میں معاشی انقلاب آ سکتا ہے۔ درحقیقت ملک وقوم کو جو زبردست فائدے مل سکتے ہیں، انھیں دیکھتے ہوئے جنگی بنیادوں پر مقامی ذرائع سے بجلی بنانے کے منصوبے شروع ہونے چاہیں۔یوں پاکستان کو درج ذیل بیش بہا فوائد حاصل ہوں گے:
٭…ایندھن کی درآمد کا خرچ کم ہونے سے اربوں ڈالر بچیں گے۔یوں ڈالروں کے قومی ذخیرے میں استحکام آئے گا۔دیوالیہ ہونے کی جو تلوار ہر وقت سر پر لٹکتی رہتی ہے، اس سے نجات ملے گی۔درآمدات کا ہمارا سالانہ بل کم ہو گا۔ تجارتی خسارے میں بھی کمی آئے گی۔
٭…پاکستانی قوم کو سستی بجلی میّسر آئے گی جو فی الوقت مہنگی بجلی کے ہاتھوں پریشان ہے۔مہنگی بجلی نے عوام کے ماہانہ بجٹ اتھل پتھل کر دئیے۔اور وہ کئی ضروری خرچے بھی کم کرنے پر مجبور ہو گئے۔
٭…سستی بجلی پا کر نئے کارخانے اور کمپنیاں کھلنے کی سبیل پیدا ہو گی کیونکہ پیداواری اخراجات میں کم آ ئے گی۔ کاروبار اور صنعت و تجارت کو فروغ حاصل ہو گا۔
پاکستانی صنعت کار اپنی اشیا کی قیمتیں سستی کر کے انھیں عالمی منڈی میں پُرکشش بنا سکیں گے۔ بیرون ممالک پاکستانی مصنوعات کی زیادہ کھپت سے قومی برآمدات میں اضافہ ہو گا۔یہ مثبت تبدیلی پاکستان کا تجارتی خسارہ مذید کم کرے گی۔
٭…سستی بجلی سے بیرون ممالک کی کمپنیوں کو تحریک ملے گی کہ وہ پاکستان میں اپنے کارخانے و دفاتر کھول لیں۔مقصد یہ ہو گا کہ اپنے پیداواری اخراجات کم کیے جائیں۔پاکستان میں وافر افرادی قوت بھی دستیاب ہے۔
٭… نئے کارخانے و کمپنیاں کھلنے سے بیروزگار پاکستانی نوجوانوں کو روزگار ملے گا۔یوں بیروزگاری کا عفریت ختم ہو گا۔ترقی و خوشحالی کی راہیں جنم لیں گے۔غربت پر قابو پانے کا بھی موقع ملے گا۔
٭…سستی بجلی کے ذریعے غریب طبقے کو موقع ملے گا کہ چھوٹا موٹا کاروبار کر لیں۔اس طرح وہ غربت سے نجات پا سکے گا ۔
٭…سستی بجلی کے باعث مہنگائی میں بھی کمی آئے گی ۔خاص طور پہ ٹرانسپورٹ بھی بجلی پر چلنے لگے تو صورت حال میں بڑی مثبت تبدیلی آئے گی۔روزمرہ اشیا خصوصاً خوراک مہنگی ہونے کا اہم سبب مہنگا ڈیزل وپٹرول بھی ہے۔اگر ریلیں ہی بجلی سے چلنے لگیں تو ٹرانسپورٹیشن کا خرچ کافی کم ہو جائے گا۔
٭…آئی ٹی انڈسٹری کو سستی بجلی سے بہت فائدہ پہنچے گا۔وہ سستے داموں اپنی خدمات بیرون ممالک فروخت کر سکے گی ۔اس طرح مذید اربوں ڈالر پاکستان آئیں گے۔
٭…بڑھتی مہنگائی کی وجہ سے عوام اٹھتے بیٹھتے حکمرانوں کو کوسنے دیتے ہیں۔سستی بجلی کی بدولت حکمران طبقہ عوام میں اپنی مقبولیت بڑھا سکے گا۔
٭…حکمران طبقہ مذید قرضے لینے کی لت سے نجات پائے گا۔اسے بھکاری بن کر آئی ایم اف اور دوست ممالک کے در پہ نہیں جانا پڑے گا۔
سب سے بڑا چیلنج
قرضوں کے بوجھ سے نجات پانا پاکستانی قوم کے سامنے بہت بڑا چیلنج بن چکا۔درحقیقت معیشت ِپاکستان کے تمام مسائل نے اسی بوجھ کے بطن سے جنم لیا۔ اپنے ذاتی مفادات اور لالچ وہوس کے ذریعے حکمران طبقے اور امرا میں موجود ٹیکس چوروں ہی نے پاکستان کو مقروض بنایا۔ایک عام پاکستانی تو شروع دن سے اپنے حصّے کے ٹیکس دے رہا ہے جن کی شرح مسسل بڑھتی رہی۔
ہمارے ایلیٹ طبقے نے مگر اپنی نااہلی، کرپشن اور شاہانہ طرز حیات سے ہر پاکستانی کو لاکھوں روپے کا مقروض بنا دیا۔آج ہر پاکستانی بچہ مقروض ہونے کا طوق گردن میں لٹکائے ہی دنیا میں وارد ہوتاہے۔
انسانی معاشروں میں قرض کو بہت بڑی لعنت سمجھا جاتا ہے کیونکہ یہ انسان کا سکھ چین برباد کر دیتا ہے۔ہمارے لیڈران کرام نے تو پورے ملک وقوم کو ہی اس لعنت میں گرفتار کرا دیا۔اس روش کی داستان کچھ یوں ہے کہ پاکستان آزاد ہوا تو اس پہ پھوٹی کوڑی تک کا قرض نہ تھا۔
رفتہ رفتہ مگر حکمران طبقہ اپنے اخراجات پورے کرنے کے لیے ملکی وغیرملکی مالیاتی اداروں سے قرض لینے لگا۔اس نے قوم کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کی ٹھوس کوششیں نہیں کیں تاکہ وہ دوسروں کی محتاج نہ رہے۔
قرضوں کی تاریخ
قرض لینے کی شرح بہرحال ابتدائی پچیس برس کم رہی۔اسٹیٹ بینک پاکستان کے اعدادوشمار کی رو سے جون 1973ء تک ریاست پر 50.10ارب روپے کا مجموعی قرض تھا۔اس میں 32.2قرب روپے تو بیرونی اور17.8 ارب اندرونی قرض تھا۔
جولائی 1977ء میں ذوالفقار علی بھٹو حکومت کا خاتمہ ہوا جس نے جنوری 1972ء میں شروعات کی تھیں۔تب تک ریاست پر چڑھا قرضہ86.3 ارب روپے ہو چکا تھا۔اس میں53.6 ارب روپے بیرونی اور 32.7ارب اندرونی قرض تھا۔
اب جنرل ضیاالحق کی حکومت کا آغاز ہوا جو اگست 1988ء تک برقرار رہی۔ان گیارہ برس میں ملک پر چڑھا قرض 521 ارب روپے تک پہنچ گیا جس میں288.8 ارب اندرونی اور 232.4 ارب بیرونی تھا۔گویا اس عرصے میں حکومت نے کافی قرض لیا۔قرضوں کی بیشتر رقم تین شعبوں پر خرچ ہوئی:عوامی ترقیاتی منصوبے، دفاع اور قرض وسود کی ادائیگی۔
مثلاً 1985-4ء کے مالی سال حکومت کا کل خرچ 116.8 ارب روپے رہا۔اس میں سے 39.5فیصد رقم عوامی ترقیاتی منصوبوں، 38فیصد دفاع ، 14فیصد قرض و سود کی ادائیگی اور 8.4فیصد دیگر اخراجات پر لگی۔
جنرل ضیاالحق حکومت کا خاتمہ ہوا تو سیاست دانوں کا جمہوری دور آیا۔انھوں نے نئے قرضے لینے میں پچھلوں کو پچھاڑ دیا۔جون1998 ء تک پاکستان پر 2518.3 ارب روپے کا قرض چڑھ گیا۔اس میں 1366.9 ارب بیرونی اور 1151.4ارب اندرونی قرض تھا۔اگلے سال پھر فوجی حکومت آ گئی۔اس نے بھی قرضے لینے جاری رکھے۔
گویا حکمران طبقے کو قرض لینے کی لت پڑ گئی۔جون2008 ء تک ریاست پاکستان پہ6400 ارب روپے کا مجموعی قرض چڑھ چکا تھا۔اس میں 3384 ارب بیرونی اور 3016ارب اندرونی تھا۔اسی سال پھر سیاست دانوں کادور اقتدار شروع ہوا جو ابھی تک جاری ہے۔گو اس دوران بعض سیاسی راہنماؤں کی طرف سے یہ بیان آیا کہ حکومت وہ نہیں اسٹیبلشمنٹ چلا رہی تھی ۔
بہرحال جون 2018 ء تک ریاست 25ہزار ارب روپے کی مقروض ہو گئی۔ اس میں16.4 ہزار ارب اندرونی اور 8.6ہزار ارب بیرونی قرض تھا۔اسٹیٹ بینک پاکستان کی تازہ رپورٹ(نومبر 2022 ء )کی رو سے مملکت پہ چڑھا کل قرضہ 62.466ہزار ارب روپے تک پہنچ چکا۔
(اس میں سرکاری و نجی قرضے، دونوں شامل ہیں) 31.401ہزار ارب تو اندرونی قرض ہے اور 17.997ہزار ارب بیرونی ۔جون 21ء میں یہ عدد 50.490ہزار ارب روپے تھا۔گویا صرف ایک سال میں حکمران طبقے نے پاکستان پر تقریباً 12 ہزار ارب روپے کا نیا قرض چڑھا دیا۔لگتا ہے، قرضے لینے کی بد عادت ایک دن ریاست کو لے ڈوبے گی۔
اہم ترین بات یہ کہ ہماری حکومت کو ٹیکسوں سے جو آمدن ہوتی ہے، اب ا س کا بیشتر حصہ قرضے اتارنے اور سود دینے پر لگ رہا ہے۔حد یہ ہے کہ نئے قرض لے کر پرانے قرضے اتارے جا رہے ہیں۔جو رقم بچ جائے، وہ دفاع ، تنخواہوں، پنشنوں اور حکمران طبقے کے شاہانہ سیٹ اپ پر لگ جاتی ہے۔
چناں چہ اب عوام کی فلاح وبہبود کے ترقیاتی منصوبوں کے لیے بہت کم رقم بچتی ہے۔یہی وجہ ہے، حکومت پہلے بجلی، گیس اور پٹرول کی مد میں جو سبسڈی دیتی تھی، وہ ختم کی جا چکی۔اب صرف کسانوں، ایکسپورٹروں اور کھانے پینے کی چند اشیا کو سبسڈی دی جا رہی ہے تاکہ عوام میں اپنا ووٹ بینک برقرار رکھا جا سکے۔
The post پاکستان کا ’’گیم چینجر‘‘ خزانہ appeared first on ایکسپریس اردو.