ریاست جموں و کشمیر کے مجبور ومقہور مسلمان پچھلے دو سو برس سے غیر مسلم حکمرانوں کے ظلم وستم برداشت کر رہے ہیں۔
1947ء میں آزادی پانے کا سنہرا موقع ملا تھا مگر ہندو راجا،غدار اعظم شیخ عبداللہ ، بھارتی وزیراعظم پنڈت نہرو اور انگریز آقا کے گٹھ جوڑ نے ریاستی مسلمانوں کو بھارت کا غلام بنا دیا۔پھر بھی عام ریاستی مسلمان کے دل میں فروزاں آزادی پانے کی تمنا مٹ نہ سکی۔
بھارتی حکمران طبقہ اپنی سیکورٹی فورسز کے ذریعے ریاستی مسلمانوں پر تشدد کے بدترین طریقے آزما چکا مگر وہ تمنائے آزادی کی حدت ان کے دل ودماغ سے ختم نہیں کر سکا۔
خوف ودہشت کا ہتھیار
مسلمانان جموں وکشمیر کو اپنا غلام بنانے اور خاموش رکھنے کے لیے بھارتی حکمران طبقے نے ان میں خوف ودہشت پھیلانا اپنا وتیرہ بنا لیا۔
بھارتی لیڈر ریاستی مسلمانوں میں زیادہ سے زیادہ خوف ودہشت پھیلا کر یہ مقصد حاصل کرنا چاہتے ہیں کہ وہ آزادی پانے کی خاطر عملی اقدامات نہ کر سکیں۔یوں بھارتی حکومت دنیا والوں کو دکھا سکتی ہے کہ جموں وکشمیر میں تو امن وامان ہے اور وہاں کے مسلمان بھارت سے الگ نہیں ہونا چاہتے۔جموں و کشمیر کے مسلمانوں کو دہشت زدہ کرنے کے لیے اب وہاں بھارتی سیکورٹی فورسسز اور بھارتی انٹیلی جنس ایجنسیاں جعلی مقابلوں یا فیک انکاؤنٹرز کی اسپیشلسٹ(ماہر خصوصی)بن چکیں۔
مقبوضہ ریاست میں جعلی مقابلوں کی ریت نئی نہیں، مگر بھارتی افواج نے طریقہ واردات بدل لیا ہے۔مقصد یہ ہے کہ اول ریاستی مسلمانوں میں خوف وہراس پھیل جائے۔دوم بین الاقوامی سطح پر مجاہدین جموں وکشمیر کو ’’اسمگلر‘‘، دہشت گرد‘‘ اور ’’جرائم پیشہ‘‘کی حیثیت سے بدنام کیا جائے۔سوم پاکستان پر بھی یہ الزام دھرا جا سکے کہ وہ ’’دہشت گرد مسلمانان جموں وکشمیر ‘‘کی حمایت کر رہا ہے۔ اور پاکستان کو بدنام کرنے کیلئے بھارتی فوج پلوامہ حملے جیسے جعلی حملوں کے ڈرامے بھی کھیلتی رہتی ہے۔
تحریک آزادی کا آغاز
انیس سو نوے کی دہائی میں افغان مجاہدین نے ہلکے ہتھیار کی مدد سے سوویت یونین جیسی طاقتور سپرپاور کو شکست دے ڈالی۔تب جموں وکشمیر کے مسلمانوں کو احساس ہوا کہ وہ بھی مسلح جدوجہد کر کے بھارتی قابضین کو شکست دے سکتے ہیں۔
چناں چہ مقبوضہ ریاست میں مسلمانوں نے بھارتی قبضے کے خلاف جنگ کا آغاز کر دیا۔ اس جدو جہد میں انہیں پاکستانیوں اور آزاد علاقے کے باسیوں کی اخلاقی حمایت تو ہمیشہ سے ہی حاصل رہی ہے۔ ریاستی مسلمانوں کی جوش وجذبے سے بھرپور کارروائیوں نے جلد پوری ریاست میں آزادی کے شعلے بلند کر دئیے۔ ریاست کا بچہ بچہ بھارتی ظالموں کے خلاف سینہ سپر ہو گیا۔
جموں وکشمیر کے عام مسلمانوں کو بیدار ہوتا دیکھ کر بھارتی اسٹیبلشمنٹ کی سٹّی گم ہو گئی۔اس نے اب تک شیخ عبداللہ اور اس کے حواریوں کے سامنے ہڈی ڈالے رکھی تھی تاکہ ان کے ذاتی مفادات پورے ہوتے رہیں اور وہ بھارت کے خلاف کسی قسم کی سرگرمی نہ دکھائیں۔
مگر اب عام مسلمان بھارتی حکومت کے مقامی چمچوں اور مفادات کے اسیر ایلیٹ طبقے کی بات سننے کو تیار نہیں تھے۔بھارتی اسٹیبلشمنٹ کے ظلم وستم سے نجات پانا ان کا مشن بن گیا۔وہ بڑی تعداد میں اٹھ کھڑے ہوئے اور بھارتی حکمران طبقے کے خلاف احتجاج کرنے لگے۔
’’دی آرمڈ فورسسز (جموں وکشمیر)
اسپیشل پاورز ایکٹ‘‘
بھارتی اسٹیبلشمنٹ جغرافیائی لحاظ سے نہایت اسٹرٹیجک اہمیت کی حامل ریاست جموں وکشمیر کو کسی قیمت پر کھونا نہیں چاہتی۔چناں چہ اس نے ستمبر 1990ء میں مقبوضہ ریاست میں ’’دی آرمڈ فورسسز (جموں وکشمیر)اسپیشل پاورز ایکٹ‘‘نافذ کر دیا۔اس ایکٹ کے تحت بھارتی سیکورٹی فورسسز نے جموں وکشمیر پر عملاً قبضہ کر لیا۔
اب پوری ریاست بھارتی افواج کے کنٹرول میں آ گئی۔جلد ہی وہاں لاکھوں بھارتی فوجی آ پہنچے۔انھوں نے ہر ضلع میں چھاؤنی بنائی اور پھر جگہ جگہ چیک پوسٹوں کا جال بچھا دیا۔مدعا یہی تھا کہ ریاستی مسلمانوں کو خوف ودہشت میں مبتلا کر کے انھیں ہر صورت تحریک آزادی چلانے سے روک دیا جائے۔ تب سے بھارتی اسٹیبلشمنٹ کی یہی پالیسی چلی آ رہی ہے۔
بھارتی فوجی قانون وانصاف سے ماورا
درج بالا ایکٹ نے بھارتی افواج کو جموں وکشمیر میں من مانی کرنے کی اجازت دے دی۔اب بھارتی فوجی کسی بھی راہ چلتے ریاستی مسلمان کو روک کر اس کی جامہ تلاشی لے سکتے تھے اور انھیں کوئی روک ٹوک کرنے والا نہیں تھا۔
اس طرح بھارتی حکمران طبقے نے ریاستی مسلمانوں کے بنیادی حقوق بھی غضب کر لیے اور ان سے بھیڑ بکریوں جیسا سلوک کیا جانے لگا۔
یوں ریاست میں بھارتی فوجی قانون وانصاف سے ماورا بن گئے۔انھیں اخلاقی اقدار اور قانون توڑنے کا پروانہ مل گیا۔یہی نہیں، بھارتی حکومت ریاستی مسلمانوں کو شہید کرنے پر اپنی سیکورٹی فورسسز کے افسروں وجوانوں کو نقد انعام دینے لگی۔
بھارتی فوجی افسروں کا فراڈ
شروع شروع میں انعام کے لالچ ہی میں بھارتی افواج کے افسروں نے جعلی مقابلوں کا آغاز کیا۔کوئی معصوم اور غریب ریاستی مسلمان ان کے ہتھے چڑھ جاتا تو وہ اسے شہید کر دیتے۔پھر یہ ڈراما کھیلتے کہ مقتول کے پاس سے اسلحہ برآمد ہوا ہے۔
یوں وہ انعام کے حقدار قرار پاتے۔شہید کے مجبور و بے بس لواحقین طاقتوروں کے سامنے کچھ نہ کر پاتے اور روپیٹ کر خاموش ہو جاتے۔لیکن جلد ہی بھارتی افواج کی اعلی قیادت کو اس دھوکے بازی کا پتا چل گیا۔لہذا انعام سے نوازنے کا عمل سخت بنا دیا گیا۔ظاہر ہے، جعلی مقابلوں کی وجہ سے عالمی میڈیا میں بھارتی فوج کی بدنامی بھی ہونے لگی تھی۔
جب جموں و کشمیر کے مجاہدین کی مسلح جدوجہد بڑھ گئی تو بھارتی سیکورٹی فورسسز ان کے حمایتیوں کو جعلی مقابلوں میں شہید کرنے لگیں۔مقصد یہ تھا کہ مقامی آبادی میں مجاہدین کے حامیوں کو خوفزدہ کر دیا جائے۔
اس طرح مجاہدین کی حمایت میں کمی آ جاتی اور انھیں ضعف پہنچتا۔اس طرح جعلی مقابلے پھر شروع ہو گئے۔اب ریاست میں بھارتی حکمران طبقے نے روپے پیسے سے مخبر خرید لیے۔بھارتی اسٹیبلشمنٹ کے یہ تنخواہ دار ایجنٹ بظاہر ریاستی مسلمان مگر حقیقت میں امت و قوم کے غدار ہیں۔
جموں وکشمیر کے غدار
یہ غدار ان ہم وطن بھائیوں اور بہنوں کی سن گن لینے لگے جو تحریک آزادی جموں وکشمیر میں شامل تھے یا اس سے ہمدردی رکھتے۔مخبر کو جس پر تھوڑا سا بھی شک ہوتا، اس کی خبر بھارتی سیکورٹی فورسسز تک پہنچا دیتا۔بھارتی فوجی عموماً رات کے اندھیرے میں آتے اورجدوجہد آزادی میں شامل مجاہد اور اس کے ساتھیوں کو گرفتار کر لیتے۔
بعض اوقات گرفتار شدگان اسی وقت شہید کر دئیے جاتے، ورنہ جیل میں انھیں خوفناک تشدد کا نشانہ بنایا جاتا۔اس ٹارچر کی وجہ سے کئی مسلمان شہید ہو جاتے۔
ایمان فروش اور ضمیر فروش مقامی مخبروں نے ذاتی دشمنی کی بنا پر بھی کئی ہم وطن مسلمان بھارتی سیکورٹی فورسسز کے ہاتھوں شہید کرا دئیے۔اکثر ایسا ہوتا کہ مخبر اپنے نمبر بنانے اور تنخواہ جائز کرنے کی خاطر کسی غریب مسلمان کو ’’دہشت گرد‘‘بنا ڈالتے۔اسی لیے مجاہدین بھی ان مخبروں کی کھوج میں رہتے۔کوئی مخبر مل جاتا تو موت ہی اس کا مقدر بنتی۔
خصوصی الاوئنس اور مراعات
رفتہ رفتہ بھارتی سیکورٹی فورسسز مخبروں کے بغیر ہی ریاستی مسلمانوں کو نشانہ بنانے لگیں۔کبھی ان پہ بے پناہ تشدد کیا جاتا تو کبھی شہادت کا تمغہ ان کے سینے پر سج جاتا۔وجہ یہ کہ بھارتی افواج کے افسروں و جوانوں کو جموں وکشمیر میں ڈیوٹی دینے پر خصوصی الاؤنس ملتا ہے۔نیز مراعات اور سہولیات اس کے علاوہ ہیں۔
لہذا بھارتی فوجی افسر خصوصاً وقتاً فوقتاً ریاست میں جعلی مقابلے کرتے رہتے ہیں تاکہ ثابت کر سکیں، انھیں خصوصی الاوئنس اور مراعات بجا طور پہ مل رہی ہیں۔لالچی فوجی افسر گھر آئی مایا کو چھوڑنا نہیں چاہتے چاہے وہ اخلاقیات اور قانون کا گلا گھونٹ دیں۔
جنگجو پارٹی کی آمد
2014ء میں نریندر مودی کی زیرقیادت انتہا پسند ہندو جماعت، بی جے پی نے بھارت کی حکومت سنبھال لی۔یہ ایک جنگجو پارٹی ہے جو بھارت میں ہندوؤں کی بلا شرکت غیرے حکمرانی چاہتی ہے۔اس کی خواہش ہے کہ بھارتی مسلمان مملکت میں غلاموں کی طرح زندگی گذاریں اور انھیں کم سے کم حقوق حاصل ہوں۔پاکستان کی بھی کٹر مخالف ہے۔
پاکستان کو بھارت میں ضم کر کے ’’اکھنڈ ہندوستان‘‘کی تشکیل بی جے پی لیڈروں کا دیرینہ خواب ہے۔چناں چہ اس جنگجو جماعت کے آنے سے جموں وکشمیر میں بھارتی افواج مذید دلیر اور بے پروا ہو گئیں۔اب وہ ریاستی مسلمانوں پہ بلا دھڑک ظلم وستم کرنے لگیں۔مثلاً مسلم مظاہرین پہ پیلٹ گنوں کا استعمال معمول بن گیا جنھوں نے ہزارہا مسلمانوں کو بینائی سے محروم کر ڈالا۔
بی جے پی بنیادی طور پہ بھارتی ایلیٹ طبقے کے مفادات پورے کرتی ہے۔اس نے اپنے آٹھ سالہ دور اقتدار میں غریبوں کے لیے جتنے بھی ترقیاتی منصوبے بنائے ، ان سے امیر طبقے کو مالی طور پر زیادہ فائدہ پہنچا۔غریبوں کی حالت میں نمایاں تبدیلی نہیں آئی۔
اسی باعث آج بھی اسی کروڑ بھارتی غربت وپسماندگی کا شکار ہیں۔جبکہ اس عرصے میں بھارتی امرا کی دولت دگنی تگنی ہو گئی۔عالمی سماجی تنظیمیوں کی تحقیقی رپورٹیں یہی تلخ سچائی آشکارا کرتی ہیں۔بی جے پی نے مگر بھارت میں مسلم دشمنی اور ہندو برتری کا جو منفی مذہبی نعرہ بلند کر رکھا ہے، اس سے عام ہندو بہت متاثر ہیں۔
حتی کہ وہ اس کے سامنے بی جے پی کی بری کارکردگی کو بھی خاطر میں نہیں لاتے۔حقیقت یہ ہے کہ پہلے پانچ برس بی جے پی کی معاشی کارکردگی خراب رہی مگر صرف مسلم دشمنی کے سبب عام ہندؤں نے الیکشن 2019ء میں بی جے پی کو نہ صرف کامیاب کرایا بلکہ پارلیمنٹ میں اسے دو تہائی اکثریت بخش دی۔شاطر مودی نے اسی اکثریت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ریاست جموں وکشمیر کا آیئنی خصوصی درجہ ختم کیا اور اس پہ قبضہ کر لیا، یعنی اسے وفاقی علاقہ بنا دیا۔
قبضہ مستحکم کرنے کے اقدامات
مودی سرکار اب جموں وکشمیر پر اپنا قبضہ مستحکم کرنے کی خاطر مختلف اقدامات کر رہی ہے۔مثلاً لاکھوں غیر کشمیریوں کو جموں وکشمیر کی شہریت دی جا چکی۔ ریاستی اسمبلی میں جموں ڈویژن کی نشستیں بڑھا دیں تاکہ ریاست میں بی جے پی حکومت بن سکے۔
اسی ضمن میں غیر مسلم اقلیتی گروہوں کے لیے بھی سیٹیں مختص ہو چکیں۔مذید براں ریاستی مسلمانوں میں زیادہ سے زیادہ خوف وہراس پھیلانے کے لیے سیکورٹی فورسسز کو فری ہینڈ دے دیا گیا۔اس سلسلے میں جعلی مقابلے بھارتی افواج کا خاص ہتھیار بن چکے۔
بھارتی سیکورٹی فورسسز کا نیا طریق واردات یہ ہے کہ جموں وکشمیر کا جو نوجوان یامرد تحریک آزادی سے ہمدردی رکھے، اسے گرفتار کر لیا جاتا ہے۔اگر ایسے مسلمان میّسر نہ آئیں تو بھارتی فوجی غریب و بے یارومددگار نوجوانوں کو اغوا کر لیتے ہیں۔ان بے کسوں کو پھر لائن آف کنٹرول کے قریب لے جایا جاتا ہے تاکہ اپنے گھناؤنے اور شاطرانہ منصوبے کو عملی جامہ پہنایا جا سکے۔
ہوتا یہ ہے کہ گرفتار شدہ ریاستی مسلمان کسی پاکستانی علاقے کے قریب گولیاں مار کر شہید کیے جاتے ہیں۔پھر بھارتی اسٹیبلشمنٹ پریس کانفرنس منعقد کر کے یہ جھوٹا پروپیگنڈا کرتی ہے کہ مقتولین سے منشیات برآمد ہوئی ہے اور وہ پاکستانی ’’اسمگر‘‘تھے۔یا یہ دعوی ہوتا ہے کہ شہدا سے اسلحہ برآمد ہوا ہے اور وہ پاکستانی ’’دہشت گرد‘‘تھے۔اس سارے ڈرامے کا مقصد ریاستی مسلمانوں میں خوف ودہشت پھیلانا ، تحریک آزادی جموں وکشمیر کو بدنام کرنا اور عالمی سطح پہ پاکستان کے لیے مشکلات کھڑی کرنا ہے۔
مسلمانوں پر روا ظلم وستم
بھارتی اسٹیبلشمنٹ کسی صورت ریاست جموں وکشمیر سے ہاتھ نہیں دھونا چاہتی۔ریاستی مسلمانوں کو اپنا مطیع رکھنے کی خاطر وہ تمام اخلاقی اور قانونی حدود پار کر چکی۔
کون سا ایسا ظلم و ستم ہے جو اس نے ریاستی مسلمانوں پہ روا نہیں رکھا؟ جموں وکشمیر اور بیرون ممالک میں کام کرنے والی سماجی تنظیمیوں (این جی اوز)کی تحقیقی رپورٹوں کے مطابق جنوری 1989ء سے جنوری 2023ء تک ان چونتیس برسوں میں بھارتی سیکورٹی فورسسز نے مختلف جعلی واصلی مقابلوں اور فوجی آپریشنوں کے ذریعے کم ازکم ’’ایک لاکھ ریاستی مسلم نوجوان، مرد، خواتین، بوڑھے اور بچے‘‘ شہید کر دیئے۔
اس دوران ’’دس لاکھ‘‘سے زائد ریاستی مسلمان گرفتار کیے گئے۔ریاستی مسلمانوں کے ’’سوا لاکھ ‘‘گھر اور عمارتیں گرا دی گئیں۔بھارتی فوجی غنڈوں کے ہاتھوں’’ گیارہ ہزار‘‘سے زائد مسلم خواتین کی بے حرمتی ہوئی۔غرض بھارتی افواج نے مسلمانان جموں وکشمیر پر ظلم وستم کی انتہا کر دی۔
بے نام قبریں
قید وبند کی صعوبتیں جھیلتے جو ریاستی مسلمان شہید ہو جائیں، انھیں بے نام قبروں میں دفن کیا جاتا ہے۔ آج ایسی بے نام قبریں جموں وکشمیر کے چپے چپے پر پھیلی ہیں۔
یہ بھارتی حکمران طبقے کے خوفناک ظلم کا منہ بولتا ثبوت اور اذیت والم کی زندہ یادگاریں ہیں۔بھارتی سیکورٹی فورسسز نے ہزارہا ریاستی مسلم خاندان تباہ کر دیئے اور مسلمانوں کے معاشرے کا تاروپود بکھیر دیا۔ان بدترین مظالم کا حساب بھارتی حکمران طبقے کو ایک نہ ایک دینا ہو گا۔
سانحہ پتھری بل
بھارتی فوجی افسروں کا سٹیج کردہ پہلا مشہور جعلی مقابلہ تئیس سال قبل وقوع پذیر ہوا۔اس المیّے کا قصّہ یہ ہے کہ 20 مارچ 2000ء کو ضلع اننت ناگ کے گاؤں چھتی سنگھ پورہ میں مسلح افراد نے 35سکھ مار ڈالے۔ان مسلح افراد کی شناخت آج تک نہیں ہو سکی۔تب بھی بھارت میں بی جے پی کی حکومت تھی۔
اس نے الزام لگایا کہ یہ لشکر طیبہ کے ’’دہشت گردوں‘‘ کی کارروائی ہے۔مگر غیر جانب دار بھارتی ماہرین نے افشا کیا کہ یہ قتل عام بھارتی فوج یا بی جے پی کے ہندو غنڈوں نے انجام دیا جو جنوبی بھارت سے آئے تھے۔مقصد یہ تھا کہ مجاہدین جموں وکشمیر کو عالمی سطح پر دہشت گرد ثابت کیا جا سکے۔ نیز مسلمانوں اور سکھوں کے مابین اختلافات کے بیج بوئے جا سکیں۔
25 مارچ 2000ء کو بھارتی فوج نے اعلان کیا کہ اس نے پاکستان سے آئے پانچ ’’دہشت گرد‘‘مار ڈالے ہیں جو چھتی سنگھ پورہ قتل عام میں ملوث تھے۔انھیں مارنے والے بھارتی فوجی دستے کا سربراہ کرنل اجے سیکسینا تھا۔
آنے والے دنوں میں مگر افشا ہوا کہ یہ پانچ مسلمان ’’دہشت گرد‘‘ضلع اننت ناگ میں واقع علاقہ پتھری بل کے رہائشی تھے۔23 مارچ کو بھارتی فوجیوں نے انھیں اغوا کر لیا تھا تاکہ فیک انکاؤنٹر کیا جا سکا۔علاقہ پتھری بل میں یہ خبر پھیلتے ہی رہائشیوں میں غم وغصّہ پھیل گیا۔گاؤں والے بھارتی فوج سے ڈرتے ہیں مگر یہ واقعہ اتنا دلدوز تھا کہ وہ خاموش نہ رہ سکے۔
3 اپریل 2000ء کو علاقے کے دو ہزار مسلمانوں نے جعلی مقابلے کیخلاف جلوس نکالا۔بھارتی اسٹیبلشمنٹ میں تو کھلبلی مچ گئی کیونکہ اسے گوارا نہیں کہ مسلمانان جموں وکشمیر کسی قسم کا جلوس نکالیں یا احتجاجی مظاہرہ کریں…اس طرح بھارتی حکومت کا یہ موقف غلط قرار پاتا ہے کہ جموں وکشمیر میں امن وامان ہے۔
طاقت و جبر سے مرعوب نہیں
پتھری بل کے احتجاجی مسلمانوں کو بھارتی فوج نے منتشر کرنا چاہا مگر اسے ناکامی ہوئی۔تب فوجیوں نے مظاہرین پہ گولیاں چلا دیں۔مزید نو مسلمان شہید ہو گئے۔اس کے بعد ریاست کے دیگر علاقوں میں بھی احتجاجی مظاہرے منعقد ہونے لگے۔
انھیں ختم کرنے کی خاطر بھارتی فوجی سیدھی فائرنگ کرنے لگے۔یوں اگلے ایک ہفتے میں پچاس سے زیادہ ریاستی مسلمانوں نے ظلم وآمریت سے لڑتے ہوئے جانیں قربان کر دیں۔یوں ثابت کیا کہ مسلمانان جموں وکشمیر طاقت و جبر سے مرعوب نہیں ہوں گے۔
فوجی افسروں کو سزا ضرور ملے
قومی اور عالمی میڈیا کے دباؤ پر بھارتی حکومت نے پتھری بل مقابلے کی تحقیقات شروع کرا دیں۔مگر بھارتی فوج نے اول دن سے تحقیق کرنے والوں کے ساتھ تعاون نہیں کیا بلکہ جرم کے ثبوت مٹانے کی کوششیں کرتی رہی۔اس کے پانچ افسروں پہ الزام تھا کہ انھوں نے جعلی مقابلے میں پانچ مسلمان شہید کیئے۔
فروری 2003ء میں کیس بھارتی سول تحقیقی ایجنسی، سی بی آئی کو دے دیا گیا۔اس دوران شہدا کے وارثوں نے بھارتی فوج کے خلاف عدالتی جنگ شروع کر دی۔بھارتی فوج نے عدالتوں میں یہ موقف اختیار کیا کہ مقابلہ حقیقی تھا لہذا اس کے افسر بے قصور ہیں۔مقدمہ نچلی عدالتوں سے ہوتا 2012ء میں سپریم کورٹ پہنچ گیا۔مارچ 2012ء میں سی بی آئی نے اپنی تحقیقاتی رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش کی۔رپورٹ میں انکشاف کیا گیا:
’’پتھری بل میں بارہ سال قبل انجام پایا مقابلہ جعلی تھا۔تب بھارتی فوجی افسروں نے بے گناہ کشمیری شہریوں کو بڑی بے دردی سے قتل کر دیا۔عدالت سے استدعا ہے کہ پانچوں فوجی افسروں کو سخت سے سخت سزا دی جائے۔‘‘
سی بی آئی کے سینئر وکیل، اشوک بھان نے سپریم کورٹ کو بتایا :’’فوجی افسروں کو سزا دینے کے لیے حکومت سے کوئی اجازت درکار نہیں۔ان افسروں کو سزا ضرور ملنی چاہیے تاکہ عوام کا قانون کی حکمرانی پر اعتماد بحال ہو سکے۔
اور انھیں یقین آ جائے کہ ہماری عدالتوں سے انصاف ملتا ہے۔سی بی آئی کی تحقیق سے افشا ہو چکا کہ جعلی مقابلہ تھا اور فوجی افسروں نے بڑی سفاکی سے معصوم شہریوں کو نشانہ بنایا۔‘‘
قانون وانصاف کی مٹی پلید
مئی 2012ء میں فیصلہ سناتے ہوئے مگر بھارتی سپریم کورٹ نے قانون وانصاف کی مٹی پلید کر ڈالی۔سی بی آئی رپورٹ سے واضح تھا کہ پانچوں فوجی افسر قاتل ہیں۔اور پھانسی یا کم از کم عمر قید کی سزا انھیں ملنی چاہیے۔بھارتی سپریم کورٹ نے لیکن بھارتی فوج کو یہ اختیار بخش دیا کہ وہ فوجی افسروں کا کورٹ مارشل کرتی ہے یا سول عدالت میں ان پر مقدمہ چلایا جائے۔بھارتی فوج نے کورٹ مارشل کرنے کا راستہ چن لیا۔
آنے والے وقت نے عیاں کیا کہ یہ فیصلہ بھارتی فوج اور سپریم کورٹ کے مابین سازباز سے سے دیا گیا۔ہوا یہ کہ بھارتی فوج نے اپنے افسروں کا کورٹ مارشل کرنے کے بجائے ’’سمری آف ایویڈینس(summary of evidence)نامی عمل کا آغاز کر دیا۔
بتایا گیا کہ اس عمل کے ذریعے ملزم فوجی افسروں کے خلاف ثبوت جمع کیے جائیں گے۔20 جنوری 2014ء کو بھارتی فوج نے اعلان کیا کہ سمری آف ایویڈینس عمل سے افسروں کے خلاف کافی ثبوت جمع نہیں ہو سکے۔اس لے ان کا کورٹ مارشل نہیں ہو گا۔
گویا بھارتی فوج نے اپنے قاتل افسروں کو کسی قسم کی سزا نہیں دی بلکہ انھیں بے گناہ و معصوم قرار دے ڈالا۔یہ قانون و انصاف کا کُھلا قتل ہے جو بھارتی جرنیلوں نے انجام دیا۔گویا اپنی دیرینہ برہمن روایات کے مطابق بھارتی جرنیل مسلمانان جموں وکشمیر کو انسان و شہری نہیں شودر واچھوت سمجھتے ہیں…اسی لیے ان کا قتل بھی جائز قرار پاتا ہے۔
ہندو ججوں کا متنازع فیصلہ
شہدا کے وارث مگر چین سے نہیں بیٹھے، اپریل 2016ء میں انھوں نے بھارتی فوج کے خلاف جموں وکشمیر ہائی کورٹ میں پٹیشن دائر کر دی۔ان کا موقف تھا کہ سپریم کورٹ نے بھارتی فوج کو حکم دیا تھا کہ وہ فوجی افسروں کا کورٹ مارشل کرے کیونکہ سی بی آئی کی تحقیقات انھیں مجرم ثابت کر چکی تھیں۔مگر بھارتی فوج نے اپنی کارروائی ڈال کر انھیں آزاد کر دیا۔
اب ازروئے قانون بھارتی فوج کو افسروں کا کورٹ مارشل کرنا چاہیے جیسا کہ سپریم کورٹ کا حکم ہے۔شہدا کے ورثا نے جموں وکشمیر ہائیکورٹ سے استدعا کی کہ فوجی افسر بے گناہ نہیں لہذا ان پر کرمنل مقدمہ چلایا جانا چاہیے۔جموں وکشمیر ہائیکورٹ نے لیکن پٹیشن خارج کر دی۔اس کے ہندو ججوں نے یہ موقف اختیار کیا کہ سپریم کورٹ نے فوجی افسروں کو بھارتی فوج کے سپرد کر دیا تھا۔
چونکہ بھارتی فوج کو افسروں کے خلاف ثبوت نہیں مل سکے لہذا وہ انھیں آزاد کرنے میں حق بجانب تھی۔ہائیکورٹ نے یہ حقیقت نظرانداز کر دی کہ سی بی آئی کی تفتیش فوجی افسروں کے خلاف ثبوت جمع کر چکی تھی۔اسی لیے سپریم کورٹ نے افسر بھارتی فوج کے حوالے کیے تاکہ ان کا کورٹ مارشل ہو سکے۔
27 جولائی 2016ء کو شہدائے پتھری بل کے وارث بھارتی سپریم کورٹ پہنچ گئے اور وہاں بھارتی فوج کے خلاف پٹیشن دائر کی۔پٹیشن میں سانحے کے تمام پہلو تفصیل سے بیان کیے گئے۔سپریم کورٹ نے پٹیشن قبول کرنے میں پورا سال لگا دیا۔
آخر اگست 2017ء میں اسے قبولتے ہوئے کورٹ نے وفاقی حکومت، جموں وکشمیر حکومت، بھارتی فوج اور سی بی آئی کو نوٹس جاری کر دئیے۔تب سے بھارتی سپریم کورٹ میں مقدمہ زیرسماعت ہے …جبکہ قاتل بھارتی فوجی افسر کھلے عام دندناتے گھومتے پھرتے آرام وسکون کی زندگیاں گذار رہے ہیں۔
بھارتی عدلیہ باندی بن چکی
سانحہ پتھری بل کا مقدمہ واضح کرتا ہے کہ بھارت میں عدلیہ بی جے پی کی باندی بن چکی۔حکمران جماعت کی خواہش پر بھارتی جج قانون وانصاف کو پیروں تلے روند ڈالتے ہیں اور اپنے ضمیر پہ کوئی بوجھ محسوس نہیں کرتے۔
آج کے بھارت میں کسی بھارتی مسلمان کو عدالتوں سے انصاف نہیں مل سکتا…وہاں سے انصاف نہیں ظلم وجبر ملتا ہے۔بھارتی جج قانون واصول نہیں مفادات مدنظر رکھ کر فیصلے کرتے ہیں۔ان کے ضمیر بکاؤ مال بن چکے۔یہ ہے ’’شائنگ انڈیا‘‘کا حقیقی مکروہ چہرہ!
مسلمان بیدار ہو جائیں
جموں وکشمیر کے سوا کروڑ مسلمان اب بھارتی سیکورٹی فورسسز کی بندوقوں کی سنگینوں تلے زندگیاں بسر کر رہے ہیں۔وہ آزادی وخودمختاری سے اپنی روایات، اقدار اور رسوم ورواج پر عمل نہیں کر سکتے۔ہندو اکثریت رفتہ رفتہ ان کا اسلامی و مقامی تشخص ہڑپ کر رہی ہے۔صرف جموں و کشمیر کی نوجوان مسلمان نسل ہی وہاں مسلم قوم کی تباہی روک سکتی ہے۔
ماضی کی نسبت اب کثیر تعداد میں ریاستی مسلمان تحریک آزادی جموں وکشمیر میں شامل ہو چکے لیکن انھیں زیادہ متحرک وسرگرم ہونا پڑے گا۔اپنی بقا کے لیے بھارتی حکمرانوں سے انھیں دوبدو مقابلہ کرنا ہو گا ورنہ بھارتی اسٹیبلشمنٹ اپی چالوں اور سازشوں سے جموں وکشمیر پہ مکمل قبضہ کر کے مسلمانوں کو بے اثر بنا دے گی۔بی جے پی کا منصوبہ یہی ہے کہ مسلم اکثریت کو اقلیت میں بدل دیا جائے۔
یہی وقت ہے کہ مسلمانان جموں وکشمیر ایکا کر کے بھارتی حکمران طبقے کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں۔بھارتی اسٹیبلشمنٹ نے بندوقوں کے ذریعے مسلمانوں کے گرد خوف ودہشت کا جو جال تان دیا ہے، اسے توڑنا ضروری ہے۔انھیں چاہیے کہ اپنے حقوق کی خاطر جدوجہد کریں اور ان کو حاصل کر کے دم لیں۔اگر مسلمانان جموں و کشمیر حرکت میں نہ آئے تو رہے سہے حقوق سے بھی محروم ہو جائیں گے۔ہندو ریاست میں پے در پے زمینیں خرید کر اپنی اکثریت بنا لیں گے۔
بھارتی حکمران طبقے کو احساس ہے کہ جموں وکشمیر پر قبضے کا پلان انجام دیتے ہوئے پاکستان بھرپور مزاحمت کرے گا۔یہ ریاست پاکستان کے لیے بہتے دریاؤں کی وجہ سے ’’لائف لائن ‘‘کی حیثیت رکھتی ہے۔اسی لیے مودی سرکار نے حالیہ قومی بجٹ میں عسکری بجٹ کے لیے 72.6ارب ڈالر مختص کر دئیے۔
یہ پچھلے عسکری بجٹ سے ’’13 فیصد‘‘زیادہ رقم ہے۔اس مزید رقم سے جنگی طیارے ، ہیلی کاپٹر، میزائیل وغیرہ خریدے جائیں گے۔نیز جموں وکشمیر میں انفراسٹرکچر بہتر بنایا جائے گا۔بھارتی اسٹیبلشمنٹ کی رو سے یوں ریاست میں چین کے بڑھتے عمل دخل کا مقابلہ کرنا مقصود ہے۔لیکن تاریخ شاہد ہے، بھارتی افواج کا جمع کردہ اسلحہ پاکستان کے خلاف ہی استعمال ہوتا ہے۔
مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کے خفیہ پیغامات افشا
نوجوانوں کو اسمگلنگ میں پھنسا کر جعلی مقابلوں میں ہلاک کر دیا جاتا ہے
پاکستان کی انٹیلی جنس ایجنسیوں نے ہندوستانی ایجنسیوں کے اس گھٹیا منصوبے کو بے نقاب کیا ہے جس کے تحت مجبور کشمیریوں کو پیسے کا لالچ دے کر سمگلنگ پر آمادہ کیا جاتا اور موقع ملتے ہی اس بے خبر ’سمگلر‘ کو جعلی آپریشن میں مار دیا جاتا۔ بعدازاں اسے آپریشن کارنگ دے کر ذاتی تشہیرکی جاتی اور الزام پاکستان کے سر تھوپ دیا جاتا۔
٭ابتدائی طور پر اسلحہٰ اور منشیات کی چھوٹی کھیپ کو کشمیر پولیس سے خفیہ رکھ کر سمگل کیا جاتا۔ کامیابی کی صورت میں ایک بڑی کھیپ) 50 رائفل، 30 پستول، 20 دستی بم، 50 کلوگرام منشیات کا آزاد کشمیر سے سمگلنگ کا ڈرامہ رچایا جاتا۔
سمگلنگ کے دوران جعلی سمگلرز کو بھارتی فوج کے ہاتھوں مروا دیا جاتا اور اسے آپریشن کا رنگ دے کر پاکستان پر در اندازی اور دہشتگردی کا الزام لگایا جاتا۔آپریشن میں ملوث افسران کو انعام کے طور پر بہترین کارکردگی کی رپورٹ سے نوازا جاتا۔
اس ضمن میںCID کشمیر کا جموں و کشمیر پولیس کے سر براہ کو مراسلہ منظر عام پر آیا ہے۔ اس مراسلے میں CIDکشمیر کا سربراہ جموں و کشمیر پولیس کے سربراہ کو منصوبے سے آگاہ کرتے ہوئے اسے نظر انداز کرنے کی ہدایات دے رہا ہے۔
٭مراسلے میں بھارتی فوج کی 3راجپوت بٹالین کے حاجی پیر سیکٹر، 12جاٹ کے اُڑی سیکٹر اور لیفٹیننٹ کرنل اکشنت کا ضلع کپواڑہ میں جعلی آپریشن کا ذکر ہے۔
٭ایک اورمراسلے میں CID ‘K’فورس کا اہلکار کمانڈنگ آفیسر کے غیر آمادہ رویے کو مبینہ طور پر SPبارہ مولا اور 12جاٹ رجمنٹ کے درمیان ہونے والے آپریشن کی ناکامی کی وجہ بتا رہا ہے۔ مراسلے میں مزید یہ بھی کہا گیا کہ کمانڈنگ آفیسر کے چھٹی جانے کی صورت میں سیکنڈ ان کمانڈ اس جعلی آپریشن پر رضا مند ہے۔
٭بھارت تحریکِ آذادی کے کشمیر کو دبانے اور پاکستان کو بدنام کرنے کے لیے پہلے بھی یہ حربے آزما چکا ہے۔
٭26 فروری 2019 کو BJP کی انتخابات میں جیت یقینی بنانے کیلئے جعلی سرجیکل سٹرائیک کا ڈرامہ رچایا گیا۔
٭16جنوری2021کو The Wireکی رپورٹ میں ارناب گوسوامی کی لیک واٹس ایپ چیٹ کے مطابق پلوامہ حملے میں مودی سرکار خود ملوث تھی۔
٭18 جولائی 2020 کو بھارتی فوج نے تین کشمیریوں کو دہشت گرد قرار دے کر شہید کر ڈالا۔شور مچنے پر نام نہاد انصاف کا پرچار کیا۔لیکن جنوری 2021میں اسی واقعے میں ملوث بریگیڈیر کٹوچ کو ’یدھ سیوا میڈل‘ سے نوازا گیا۔
٭3 فروری 2022 کو بھارتی فوج نے شبیر احمد کو چند گیر، بانڈی پورہ سے اسلحہ سمیت گرفتار کیا۔
٭جبکہ کشمیرCID کے مطابق شبیر احمد 19 جنوری سے زیرِ حراست تھا۔
٭2010 میں مچھل میں تین نوجوانوں کو جعلی مقابلوں میں شہید کر ڈالا۔
٭14مارچ 2022کو جعلی مقابلے میں ابرار نامی شخص کو اسلحہ سمیت زخمی حالت میں گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا۔
٭28نومبر 2022 کو بھارتی فوج نے ضلع کپواڑہ کے گاؤں پنج ترن میں ایک گھر کے نزدیک اسلحہ چھپایا۔ جسے مکان مکین نے فون میں ریکارڈ کر لیا۔
٭ویڈیومیں بھارتی فوجیوں کو اسلحہ چھپاتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔
٭30نومبر کو بھارتی فوج نے چھاپہ مار کر وہی ہتھیار برآمد کرلیے اور الزام پاکستان پر لگا دیا۔
٭ہندوستانی فوج کے افسران، سینئر افسران کی چاپلوسی کے لئے منشیات اور اسلحہ اسمگل کر رہے ہیں۔
٭کشمیر میں 1279 دن کے غیر قانون محاصر ے کے باوجود بہادر کشمیری آج بھی آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں۔
٭کشمیریوں کی تحریک آزادی سے توجہ ہٹانے اور2023 میں 9 ریاستوں کے انتخابات جیتنے کے لئے، ہندوستانی فوج ان ہتھکنڈوں کا استعمال کررہی ہے۔
٭باراک اوباما نے اپنی کتاب، The Promised Land میں لکھا تھا کہ پاکستان مخالف موقف پر ہندوستانی انتخابات جیتتا ہے۔
٭عالمی میڈیا کئی بار ان جعلی مقابلوں پر آواز اٹھا چکا ہے۔
٭2010 اور 2015میں BBC نے کشمیر میں ہونے والے جعلی مقابلوں پر سوال اُٹھایا تھا۔ رپورٹ کے مطابق 25مارچ 2020کو کابل میں سِکھ گْردوارے پر حملے میں بھی بھارتی دہشت گرد ملوث تھے اور بھارتی قوانین ایسے جرائم میں ملوث فوجیوں کا تحفظ بھی کرتے ہیں۔
٭امریکی جریدے فارن پالیسی نے بھی بھارتی دہشت گردی کے حوالے سے بھارت کو بے نقاب کیا تھا جس میں داعش اور بھارتی روابط کو دْنیا کے سامنے لایا گیاتھا اور اس گٹھ جوڑ کو عالمی اور علاقائی خطرہ قرار دیا گیا۔
٭30دسمبر 2020 کو TRT World نے بھی بھارتی جعلی مقابلوں کا پردہ چاک کیا تھا۔
The post بھارتی فوج جعلی انکاؤنٹر اسپیشلسٹ بن گئی appeared first on ایکسپریس اردو.