Quantcast
Channel: Pakistani Magazine -- Urdu Magazine - میگزین - ایکسپریس اردو
Viewing all articles
Browse latest Browse all 4420

کینیڈا کے وزیر اعظم نے ’کاما گاٹا مارو‘ کے واقعے پر اسمبلی میں معافی مانگی تھی

$
0
0

چھٹی  قسط

کینیڈا میں 1914ء کے موسمِ گرما میں مشہور کوماگاٹا مارُو رزمیہ داستان کا راز کُھل گیا۔ ہندوستان کے ایک متمول تاجر کُلدیپ سنگھ نے کوماگاٹا مارُو کو کرائے پر لے لیا تھا اور وہ مال بردار بحری جہاز ہانگ کانگ سے وینکوور روانہ ہو گیا تھا۔

اس پر 376 پنجابی سوار تھے جن میں سے 340 سِکھ تھے جو آدھے سے زیادہ لاہور کے رہنے والے تھے۔ وہ کینیڈا کی جانب رواں تھے جہاں اُمید تھی کہ وہ مستقل آباد ہو کر ایک نئی زندگی کا آغاز کریں گے۔ جب کوما گاٹا مارُو وینکوور پہنچا تو بہت سے مسافروں کو جہاز پر ہی روک دیا گیا۔ انہوں نے دو ماہ انتظار کیا اور ہندوستانی برادری اور محکمہ تارکینِ وطن کے اہلکاروں کے مابین ملک میں داخلے پر جھگڑا جاری رہا۔

کینیڈا کی حکومت کو برطانوی حکومت نے خبردار کر دیا تھا، امریکا میں اور کینیڈا میں غدر پارٹی کی تشکیل کے بعد مہاجرین کے اجتماعات کو شک کی نگاہ سے دیکھا جا رہا تھا۔ ان کوششوں کے باوجود جب عدالتِ عالیہ نے ان کی تمام درخواستیں مسترد کر دیں تو جھگڑا ہی ختم ہو گیا۔

چنانچہ کوما گاٹا مارُو واپس جانے پر مجبور ہو گیا۔ اسے زبردستی کلکتہ بھیج دیا گیا۔ وہاں پہنچنے پر شکّی برطانوی حکام نے منتظمین کی نیت بھانپ کر پہلے ہی سے خبردار کی ہوئی پولیس بُلا لی۔ جونہی مسافر بحری جہاز سے اُترے، پولیس نے بلاوجہ فائر کھول دیا اور بیس مسافروں کو ہلاک کر دیا۔

بغاوت میں مدد دینے کے لیے ایک تخمینے کے مطابق آٹھ ہزار ’’غدری‘‘ ہندوستان لوٹے تھے۔ بہرصورت انگریزوں کو غدریوں کے منصوبوں کا علم ہو گیا اور 1914ء میں ایک فرمان جاری کر دیا گیا جس کی رُو سے صوبائی حکومتوں کو ہندوستان میں داخل ہونے والوں کی گرفتاری کا اختیار دے دیا گیا۔

غدری لوگ جو بڑے بڑے بحری جہازوں جیسے کوماگاٹا مارُو، نام سنگ اور ایس ایس کوریا میں آئے، سب دھر لیے گئے۔ بہت سے دیگر غدری لوگ کولمبو، بمبئی اور مدراس کی بندرگاہوں کے ذریعے آئے۔ بغاوت کی تاریخ 21 فروری 1913ء مقرر کی گئی تھی جسے آخری لمحات میں کم کر کے 19 فروری کر دیا گیا کیونکہ انگریزوں کو ان کے منصوبوں کا پتا چل گیا تھا۔

حکام نے بڑی تیزی سے عمل کر کے اور کوہاٹ، بنوں اور دینا پور کی چھاونیوں میں تعینات ہندوستان سپاہیوں کو بے ہتھیار کر کے قید میں ڈال دیا۔

غدر پارٹی کے سینکڑوں قائدین کو گرفتار کر کے لاہور جیل میں بند کر دیا گیا۔ اوّلین لاہور سازش مقدمے میں 24 پنجابیوں کو پھانسی پر چڑھا دیا گیا۔

بہرحال عوام کے زبردست احتجاج کے بعد وائسرائے لارڈ اہرڈنگ نے بذاتِ خود مداخلت کر کے ان میں سے سترہ لوگوں کی سزا کو عمر قید میں تبدیل کر دیا۔ جن سات غدریوں کو پھانسی دی گئی ان میں جوشیلا انقلابی کرتار سنگھ سرابھا بھی شامل تھا۔

جس کا تعلق لاہور کے موچی دروازے سے تھا۔ انہیں لاہور سینٹرل جیل میں پھانسی پر لٹکایا گیا اس جگہ پر آج کل شاہ جمال کا بڑا چوراہا ہے۔ باور کیا جاتا ہے کہ کم از کم 145 غدریوں کو تختہ دار پر کھینچا گیا اور لاہور کے پانچ سازشی مقدمات میں 304 سے زائد غدریوں کو 14 برس سے زائد سزائیں سُنائی گئیں اور وہ تمام کے تمام ’’کالے پانی‘‘ میں انتقال کر گئے جیسا کہ اس زمانے میں جزائر انڈیمان کو کہا جاتا تھا۔

یہاں آپ کو ایک بات بتاتے چلیں کہ 18 مئی 2016ء کو کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے کاماگاٹا مارُو جہاز کے مسافروں کودو ماہ تک کینیڈا کی دھرتی پر اُترنے کی اجازت نہ دینے اور واپس ہندوستان روانہ کرنے کی اُس وقت کی حکومت کے سفاک رویے پر معافی مانگی تھی۔ بی بی سی کی خبر کے مطابق انہوں نے اپنے ٹویٹر اکاؤنٹ پر ایک بیان جاری کیا جو یوں تھا:

“No Words can fully erase the sufferings of Komagata Maru Victims. Today, we apologize and recommit to doing better.”

( ’’کوئی بھی الفاظ کاماگاٹا مارُو کے متاثرین کی صعوبتوں کی مکمل تلافی نہیں کر سکتے۔ آج ہم (اس واقعے) پر معافی مانگتے ہیں اور بہتر طور پر چلنے کے عزم کی تجدید کرتے ہیں۔‘‘)

انہوں نے دارالعوام میں بھی کاماگاٹا مارُو واقعے پر معافی مانگتے ہوئے کہا:

“Today – while knowing that no words can fully erase the pain and suffering experienced by the passengers – I offer a sincere apology on behalf of the government for the laws in force at the time that allowed Canada to be indifferent to the plight of the passengers of the Komagata Maru,”

“We have learned, and will continue to learn, from the mistakes of our past. We must make sure to never repeat them.”

https://www.bbc.com/news/world-us-canada-36326178

(’’آج یہ جانتے ہوئے بھی کہ کوئی بھی لفظ مسافروں کو پیش آنے والی تکالیف اور اذیت کا پُوری طرح مداوا نہیں کر سکتا، میں اپنی حکومت کی جانب سے تہہ دِل سے اُس وقت کے رائج اُن قوانین کے لیے معافی مانگتا ہوں ، جن کی وجہ سے کینیڈا نے ان مسافروں سے الگ طرح کا سلوک روا رکھ کر انہیں ابتلاء میں مبتلا کیا۔ ‘‘

’’ ہم نے ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھا ہے اور آئندہ بھی سیکھتے رہیں گے۔ تاکہ ان کو دُہرانے کی نوبت دوبارہ پیش نہ آئے۔‘‘)

جب ہم واپس ہوئے تو بارج نے ایک سڑک کنارے گاڑی کھڑی کر کے کہا کہ اس سڑک پر مختلف مذاہب کی عبادت گاہیں ہیں۔ چوک کے ایک جانب ایک مسجد تھی جس کا خوبصورت مینار دُور ہی سے دکھائی دے رہا تھا تو دوسری جانب ایک چرچ کی عمارت تھی۔ میں نے بارج سے کہا کہ کچھ تصاویر لے لوں۔

گاڑی سے نکل کر میں نے اندر کی چھوٹی سڑک بھاگ کرپار کی تو دُور سے کچھ گاڑیوں کی بند لائٹیں جل گئیں اور ساتھ ہی ہارن بھی بج گئے۔ میں نے حیرانی سے اردگرد دیکھا پھر چرچ کے بورڈ کی اور دیگر تصاویر لیں۔ جس کے بورڈ پر یہ تحریر تھی۔

St. Andrew`s

Newton

PRESBYTERIAN CHURCH

اُس کے بعد جب ایک مرتبہ پھر سے سڑک پار کرنے لگا تو پہلے والا ہی معاملہ پیش آیا۔ لائٹس اور ہارن ایک ساتھ۔ بارج اور جتندر گاڑی میں بیٹھے باتیں کر رہے تھے۔ میں نے کچھ دیر سوچا تو سمجھ آئی کہ میں زیبرا کراسنگ سے ہٹ کر سڑک عبور کر رہا تھا ورنہ یہاں پر ہارن بجانا انتہائی معیوب سمجھا جاتا ہے۔

میں نے زرعی پالیسی کے حوالے سے پوچھا تو بارج کا کہناتھا کہ زرعی زمینوں کے حوالے سے سرکار انتہائی سمجھ بوجھ کے ساتھ پالیسی سازی کرتی ہے۔

شہروں کے پھیلاؤ اورنئے شہروں کو بسانے کے حوالے سے بھی وہ زرعی رقبے کا خاص خیال رکھتے ہیں، جہاں کسی بھی قسم کے تعمیراتی کام کی اجازت نہیں۔ برٹش کولمبیا اور اونٹاریو (Ontario)دونوں صوبوں کی اس معاملے میں ایک سی سخت پالیسی ہے۔

اُن کی اس بات سے میرے دماغ میں اپنے ملک کی زوال پذیر زراعت کا خیال آ گیا۔ پنجاب کے بڑے چھوٹے شہروں کے مضافاتی علاقوں سے زرعی رقبے ختم کر کے ہاؤسنگ سوسائٹیز کو رواج دے دیا گیا۔ زراعت سے منسلک لوگوں کی ہر طرح سے یہ کوشش ہوتی ہے کہ اُن کے رقبے کے قریب سے کوئی نہ کوئی سڑک گزر جائے تاکہ وہ وہاں ہاؤسنگ سوسائٹی بنا کر ایک کنال کا پلاٹ بیچ کر ایکڑ کی قیمت وصول کر سکیں۔

جتندر نے پوچھا کہ کینیڈا میں سردی تو اچھی خاصی ہوتی ہے، گرم ممالک سے آنے والوں کو موافقت اختیار کرنے میں خاصی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہوگا۔ بارج نے بتایا کہ کینیڈامیں اب بھی کئی ایسے دُور دراز کے صوبے ہیں جہاں درجہ حرارت منفی35 سے 40 تک چلا جاتا ہے اور کئی ایسے قبائل بھی اُدھر بستے ہیں جن کی آبادی اب محض 800سے 3 ہزار افراد تک ہے۔

ان قبائلی لوگوں کو اُن کے سُرخی مائل رنگ کے سبب طویل عرصہ تک(Reds) کہہ کر بُلایا جاتا رہا ہے۔ صدیوں سے اپنے خاص ثقافتی رنگ میںبسنے والے لوگوں کے لیے یہ ترقی،جدیدیت اور باہر سے آئے لوگ قطعاً بآسانی قابل قبول نہ تھے۔

یہی وجہ ہے کہ اُن کی کئی نسلیں نشے کی لت میں مبتلا ہو گئیں اور اب بھی ہیں۔ سرکار کی جانب سے کئی طرح کے وظائف بھی دیئے جا رہے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ اُن کو سماجی برابری کے اصول کے تحت کچھ عرصہ قبل تکRed سےNative کہا جانے لگا ہے اور اب اُنہیں فرسٹ نیشن (First Nation) کہا جاتا ہے۔

First Citizen فرسٹ سٹیزن اور ’تائے کے‘ پچھلی صدی عیسوی میں امریکہ اور کینیڈا میں یہاں کے مقامی افراد کے ساتھ معاملات بالکل الگ طریقے سے تھے۔ پھر نوکریوں میں یہاں پر ہزاروں برسوں سے سے بسنے والے افراد کو اور طریقے سے دیکھا جا رہا ہے۔

اُن کی زبان اور ثقافتی ورثے کی بحالی میں ہندوستانی پنجاب سے گئے پنجابی اور خصوصاً سکھ برادری بہت بڑھ چڑھ کر سرکار کے ساتھ مل کر کام کر رہی ہے۔ اُن کو اُن ہی کے علاقوں میں جدید تعلیم سے بہرہ مند کرنے اور موزوں شہری بنانے کے ساتھ ساتھ اُن کی زبانوں کوبھی سنبھالا جا رہا ہے۔اس سماجی عمل میں بارج بھی حصہ ڈال رہے ہیں۔

میں نے بارج سے پھر سوال کیا کہ ’تائے کے‘ سے کیا مراد ہے تو اُن کا جواب تھا کہ پنجابیوں نے ان قدیم قبائل کو ’’تائے کے‘‘ کا نام دے رکھا ہے۔

’’تائے کے‘‘ یعنی اپنے والد کے بڑے بھائی کی اولاد۔ اس کی وجہ تسمیہ یوں ہے کہ جب آج سے کوئی ایک سو بیس سے ایک سو چالیس برس قبل پنجابی کینیڈا میں گئے تو اُن میں سے اکثریت مرد حضرات کی تھی۔ روزگار اور ہندوستان کے سیاسی مسائل کے پیش نظر ان پنجابیوں نے اسی سرزمین کو اپنے لیے ایک نیا گھر سمجھا۔ پھر یہیں کے پُرانے قبائلی افراد میں ان لوگوں کی شادیاں بھی ہو گئیں۔ اس وجہ سے ان کی قربت وہاں پر آکر بسنے والی دیگر اقوام کے ساتھ بہت ہی زیادہ ہے۔

The post کینیڈا کے وزیر اعظم نے ’کاما گاٹا مارو‘ کے واقعے پر اسمبلی میں معافی مانگی تھی appeared first on ایکسپریس اردو.


Viewing all articles
Browse latest Browse all 4420

Trending Articles



<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>