کتنا بھدا اور بدنما ہو جاتا ہے عورت کا جسم ماں بننے کے بعد۔۔۔ سو درد اٹھانے کے بعد بھی اپنے اس بے ڈھنگے دکھائی دینے والے سراپے پر نظر اس وقت تک جاتی ہی نہیں، جب تک ننھے منے اور بھینی بھینی سی خوش بو والے نرم نازک وجود سے گود گرم رہتی ہے۔ پھر اس میں ہی گم رہنا، سونا جاگنا، کھانا پینا، آرام اور چین کو بھول کر اسی وجود کو کسی ننھی کونپل کی طرح سینچنا اور اس کی مکمل نگہ داشت کرنا۔
اسے بچپن سے ہی صاف ستھرا رہنے کا شوق تھا، اکلوتی بیٹی تھی تو والدین ناز بھی خوب اٹھائے، بھائی بھی ہاتھ کا چھالا بناکر رکھنے والے، ماں بچپن سے اسے خوب سجا سنوار کر رکھتیں، پاوڈر چھڑک کر، شیمپو کیے ہوئے بال، نت نئی فراک پہن کر وہ شہزادیوں کی آن بان سے رہا کرتی۔
سجنے سنورنے کی یہ عادت بچپن سے جوانی تک پختہ ہوگئی، روپے پیسے کی فراوانی نہ تھی، پھر اس کا ذوق بھی خوب تھا، گرمیوں میں ہلکے رنگوں کے لان کے جوڑے تو سردیوں میں جینز، کوٹ اور گہرے رنگوں کے اونی سوئٹر پہننا اسے بے حد پسند تھا۔
بالوں کی جدید تراش خراش اور باقاعدگی سے جلد کا خیال رکھنا اس کے معمولات میں شامل تھا۔ نازک نازک سے ہاتھ پاؤں اور ان کی صفائی ستھرائی کا دھیان عجیب بھلا سا تاثر دیتا تھا، اس کی شخصیت کو، پھر اس پر وہ خوشبوؤں کی دل داہ، مہنگے پرفیوموں کا ایک ڈھیر تھا۔
اس کی دل فریب اور اجلی و نکھری شخصیت لوگوں کو متوجہ کرتی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ جس محفل میں بھی جاتی اس کا رشتہ آجاتا۔ وہاج نے بھی اسے ایک ’میلاد‘ کی تقریب میں دیکھا، تو اس کی متاثر کن شخصیت دیکھ کر دل ہار بیٹھا۔ ہلکے گلابی کام دانی کے سوٹ میں چاندی کے آویزے پہنے گلابی نیل پالش سے سجے نازک ہاتھ، سیاہ سلکی زلفیں اور اس کے قرین سے آتی مسحور کن خوش بو۔۔۔ وہاج کو وہ اتنی بھاگئی کہ اسے اپنی دلہن بنا کر ہی دم لیا۔
شادی کے اولین دنوں میں نت نئے جوڑے اور زیور پہن کر وہ سجی سنوری رہا کرتی، وہاج تو دیوانہ تھا اس روپ کا لہذا خوب ناز نخرے اٹھایا کرتا۔ پھر شادی کے پہلے سال ’خوش خبری‘ کی نوید ملی، تو ان دنوں طبعیت کی خرابی، نقاہت کی وجہ سے اس کی خود پر توجہ کم ہونے لگی۔
وہاج دفتر سے آتا، تو وہ نڈھال سی ملگجے لباس میں بکھرے ہوئے بالوں کے ساتھ ملتی۔ وزن بھی اس کا کافی بڑھ گیا تھا۔ اس حلیے میں دیکھ کر وہاج اس سے بیزار ہونے لگا۔ اسے تو پلاسٹک کی گڑیا کی مانند نک سک سی درست تراشی ہوئی بیوی کی یاد ستاتی۔
بیٹے کی پیدائش کے بعد وہاج خوشی میں اس کا پھیلا ہوا سراپا وقتی طور پر بھلا بیٹھا، تو اس نے بھی سُکھ کا سانس لیا۔ بچے کے ساتھ اس کے کام بڑھ گئے، اس لیے خود پر توجہ بھی کم ہوتی ہی چلی گئی۔ پرانے سارے کپڑے اس کے تنگ ہوگئے۔
تو سادہ سے ڈھیلے ڈھالے لباس سلوالیے۔ بچے کی پیدائش کے بعد سے سر کے بال جو گرنا شروع ہوئے، تو حال یہ ہوا کہ چوٹی آدھی رہ گئی۔ راتوں کو جاگ جاگ کر گہرے حلقے اور بیوٹی پارلر تو وہ بھول ہی بیٹھی تھی۔
اس کے سال بھر بعد ہی وہ ایک بیٹی کی بھی ماں بن گئی۔ اب تو اس کے حالات مزید سخت ہوگئے۔ وہاج تو ہر بات پر اس کے مُٹاپے کو نشانہ بناتا۔ بچوں کا رونا اسے برا لگا کرتا۔ کھانا پکنے میں دیر ہو جاتی، تو بھی وہ قصور وار ٹھہرتی۔ نتیجہ میں وہ کڑھ کڑھ اندر سے کھوکھلی ہوتی جا رہی تھی۔
وہ اولاد کو پاکر اپنے سراپے اور جوانی کی درگت بھلا بیٹھی تھی، ساری تکلیفیں جو اس نے زچگی میں سہیں، یاد بھی نہیں تھیں، لیکن جس کی اولاد کو اس نے اپنا خون دیا۔ پال ہوس رہی تھی، اس شخص سے اس کی ڈھلتی خوب صورتی برداشت نہیں ہورہی تھی۔
پھر آج تو حد ہی ہوگئی ان کی تین ماہ کی بیٹی صبح سے قے کررہی تھی اور وہ اس کے کپڑے تبدیل کروا کر اور بیڈ شیٹس تبدیل کر کے تھک چکی تھی اور جب اپنے اسی مسلے ہوئے حلیے اور قے کی بساند والے کپڑوں میں وہاج کو شام کی چائے پیش کی تو وہ سلگ اٹھا اور اس کے کانوں میں زہر انڈیلتا چلا گیا۔
کیسی لوتھڑے نما عورت ہوگئی ہو، ہر وقت دودھ کی بو مہکتی ہے، بال تو دیکھو سب جھڑ گئے۔ وہ والی عورت تم لگتی نہیں جس سے شادی کی تھی۔
یہ تو کوئی بے ڈھنگے وجود والی بھدی سی عورت ہے، تو اس لمحے اس چربی سے ڈھکے وجود میں اس کا نازک سا دل ٹوٹ گیا اور جی کیا کہ ایک ایک لمحہ اور ایک ایک اذیت کا حساب وہاج کو سنایا جائے، جس سے یہ ناواقف ہے۔ لیکن اس کا فائدہ کیا ہوگا اگر اسے احساس ہوتا تو اس کی سوچ مختلف ہوتی۔
اگر اسے بات کی تربیت ملی ہوتی کہ قربانی سب سے بڑی خوبی ہے۔ جسم ، جوانی تو ڈھل ہی جانی ہے، لیکن اصل دولت تو یہ خدا کی عطا کردہ صحت اور اولاد ہے۔
کوشش کیجیے کہ کم از کم اپنے بیٹوں کو یہ ضرور سکھا سکیں کہ خوب صورت اور دل کش جسم سے زیادہ وہ بے ڈھب سراپہ ہے جس کے وجود میں صرف تمہاری اولاد کی محبت اور پرواہ ہے اس سے زیادہ پیارا وجود کوئی اور نہیں ہو سکتا، جو اپنے خون سے سینچ کر تمہاری نسل کو بقا دیتی ہے۔
The post ’’میں نے تو ایسی عورت سے شادی نہیں کی تھی!‘‘ appeared first on ایکسپریس اردو.