خواتین اپنی ذہنی اور نفسیاتی صحت کی اہمیت سے ناواقف ہونے کے علاوہ ’تن درستی‘ کے حوالے سے بھی بے پروائی کا شکار ہوتی ہیں، جب کہ خواتین جو نہ صرف ایک خاندان اور گھر میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہیں، ان کے لیے ضروری ہے کہ وہ خود کی ذہنی اور نفسیاتی صحت کے ساتھ جسمانی صحت اور فٹنس کا بھی خاص خیال رکھیں۔
جسمانی طور پر فٹ رہنا صرف پروفیشنل زندگی کے لیے ہی نہیں، بلکہ روز مرہ زندگی اور اس کی خوشیوں سے لطف اندوز کے لیے بھی بہت ضروری ہے۔ خواتین جو صبح سے رات تک مختلف کاموں میں مصروف رہتی ہیں، دن میں چند منٹ کی باقاعدہ ورزش کو معمول بنا کراپنی صحت اور فٹنس کو یقینی بنا سکتی ہیں۔
ہمارے معاشرے میں عام تصور ہے کہ ورزش صرف حضرات کی باڈی بلڈنگ کے عمل تک محدود اور ضروری ہے، جب کہ حقیقت کچھ مختلف ہے۔
ورزش خواتین کے لیے بھی اتنی ہی ضروری اور مفید ہے، جتنی کہ حضرات کے لیے۔ یہ ضروری نہیں کہ حضرات کی طرح خواتین بھی ورزش کرنے کے لیے مختلف مشینوں یا باقاعدہ کسی جَم (Gym) کا سہارا لیں۔ خود کو فِٹ رکھنے کے لیے خواتین دن میں کچھ لمحے ہلکی پھلکی ورزش کر کے اپنے جسم اور ذہن کو چاق و چوبند اور توانا رکھ سکتی ہیں۔
خواتین کے لیے خود کو جسمانی طور پر فٹ رکھنے اور ’ایکٹو‘ رکھنے کا ایک سب سے فائدہ یہ ہے کہ باقاعدگی سے ورزش کرنے والی خواتین کے بارے میں یہ رائے بدلنا پڑے گی کہ خواتین جمسانی طور پر کمزور ہوتی ہیں۔
کیوں کہ مختلف قسم کی ورزش کے ذریعے وہ خود کو اتنا مضبوط کر لیتی ہیں کہ کسی بھی قسم کے حالات کا مقابلہ ذہنی اور جسمانی طور پر ڈٹ کر کیا جا سکے۔
یاد رہے کہ خواتین کے لیے کچھ ایسی ’ایکسرسائز‘ بھی متعار ف کرائی گئی ہیں، جن کا مقصد کسی مشکل صورت حال میں اپنی حفاظت کرنا ہے، تاکہ خدانخواستہ کسی قسم کی ایسی مشکل سے نمٹنے کے لیے نہ صرف ذہنی، بلکہ جسمانی طور پر بھی وہ تیار ہوں اور کسی کی مدد کے بغیر اپنا دفاع کر سکیں۔
خواتین کی اچھی ذہنی اور جسمانی صحت کے لیے باقاعدہ جسمانی سرگرمیاں انتہائی اہمیت کی حامل ہیں، کیوں کہ یہ نہ صرف مجموعی صحت اور تن درستی کو یقینی بناتی ہیں، بلکہ ہمارے وزن کا توازن برقرار رکھنے، مختلف بیماریوں کے خطرے کو کم کرنے اور اچھی دماغی صحت کو فروغ دینے میں مدد گار ہوتی ہیں۔
ایک تحقیق کے مطابق اچھی ذہنی اور جسمانی صحت کے لیے روزانہ کم از کم 30 منٹ ورزش ضروری ہے، لیکن ’جِم‘ یا ’ایکسرسائز‘ کو باقاعدگی سے اپنا معمول بنانے کے لیے خواتین کو جن رکاوٹوں کا سامنا ہوتا ہے، ان میں گھریلو ذمہ داریوں اور وقت کی کمی کے علاوہ رجحان اور تحریک ملنے جیسے دیگر عوامل بھی شامل ہیں۔
بہت سی خواتین بچوں کی پرورش، گھریلو ذمہ داریوں اورنوکری وغیرہ میں مصروف ہوتی ہیں، اور اپنے لیے وقت نہیں نکال پاتیں۔ لیکن خود کو فٹ رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ جب بھی موقع ملے ورزش کرنے کی کوشش کیجیے۔
دن میں ورزش کے لیے 10 منٹ کے تین ’دور‘ سے بھی صحت کے لیے وہی فوائد حاصل ہوں گے، جو 30 منٹ کے مسلسل ’دور‘ سے ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ اپنے بچوں کے ساتھ ایکٹویٹیز جیسا کہ سودا لینے کے لیے دکان جانا یا بچوں کے ساتھ پارک میں کھیلنا ایکٹو اور فِٹ رہنے کا بہترین طریقہ ہے۔
اس ہی طرح بہت سی خواتین مختلف گھریلو ذمہ داریوں کے مصروف رہنے کے باعث فٹنس یا جِم جانے لیے وقت نہیں نکال پاتیں اس کے لیے فیملی یا دوستوں میں کسی کی مدد لی جا سکتی ہے۔ فٹنس ٹائم میں اپنے بچوں کو دیکھ بھال کے لیے کسی قابل اعتماد قریبی رشتہ دار یا دوست کے گھر چھوڑا جا سکتا ہے۔
پیشہ وارانہ امور یا دن بھر گھر کی ذمہ داریوں کے بعد خواتین تھک جانے کے باعث بھی ورزش کو اپنی روز مرہ زندگی کا حصہ نہیں بنا پاتیں، لیکن باقاعدگی سے ورزش خواتین کوروزمرہ کی زندگی کے تقاضوں سے بہتر طور پر نمٹنے کے لیے توانائی فراہم کرتی ہے۔
اگر خواتین دیر تک ورزش کرنے کے بہ جائے تسلسل کے ساتھ روز کچھ منٹس کی ورزش پہلے چند ہفتوں کے دوران ہی تھکاوٹ کو دور کرنے میں مدد دے سکتی ہے۔
خواتین کو صحت کے دیگر مسائل کی وجہ سے بھی باقاعدگی کے ساتھ ورزش کرنے میں دشواری کا سامنا ہوتا ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ خواتین اپنے ڈاکٹر سے مشاورت کے بعد ایسی ورزش کا انتخاب کریں، جو ان کی بیماری کم یا دور کرنے میں مددگار ثابت ہوں، جیسا کہ باقاعدگی کے ساتھ صبح کی واک سے بہت سی بیماریوں سے بچا جا سکتا ہے۔
ورزش یا ’ایکسرسائز‘ سے متعلق ایک رجحان یہ بھی ہے کہ ان کے لیے مہنگے ’جِم‘ جانا ضروری ہے، جب کہ ورزش کی بہترین شکل تیز تیز چلنا بھی ہے۔ باقاعدگی سے واک خواتین کو ذہنی اور جسمانی طور پر فٹ رکھنے میں بہترین مددگار ہوتی ہے۔
ایک تاثر یہ بھی پایا جاتا ہے کہ خواتین کو اگر اپنا وزن کم کرنا ہے یا جسمانی طور پر فٹ لگنا ہے، تو بس سارا دن گھر کے کاموں مثلاً جھاڑو پونچھا، کپڑے دھونا وغیرہ جیسے کاموں میں مصروف رہیں، اس طرح جسم کی خود بہ خود ورزش ہو جائے گی، جو کہ بالکل ایک غط تصور ہے۔
کیوں کہ ورزش ایک ایسا باقاعدہ عمل ہے، جس میں انسان دنیا کی تمام فکروں اور پریشانیوں کو دماغ سے نکال کر صرف اپنی جسمانی صحت کے لیے یک سو ہوتا ہے۔ ورزش کے وقت اگر خواتین دن بھر کے مسائل مسئلے اور کاموں کی فکر چھوڑ کر صرف ’ایکسرسائز‘ پر توجہ دیں، تو یہ اب کی جسمانی صحت کے ساتھ ذہنی صحت کے لیے بھی فائدہ مند ہوتا ہے۔
لہٰذا ورزش کو روزمرہ زندگی میں شامل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ پہلے ان مسائل کی نشاندہی کی جائے، جو کہ ورزش کرنے میں رکاوٹ بننے کا سبب بن رہے ہوں اور پھر ان کے ممکنہ حل کے بارے میں بھی سوچیں۔ جیسا کہ وقت کی کمی یا پھر اس بات کو سمجھنا کہ دوسرے جتنے کام اہم ہیں، خواتین کا ورزش کرنا بھی اتنا ہی ضروری ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ روزمرہ زندگی کے معمولات کے ساتھ ساتھ ایسی سرگرمیوں کا انتخاب کریں، جس سے خود بھی لطف اندوز ہوں اور جسمانی طور پر بھی ’پرسکون‘ ہو سکیں۔ ساتھ ہی اپنی ڈائری لکھیں اور قابل حصول اہداف طے کریں، خود کو ’سب کچھ یا کچھ بھی نہیں‘ والی ذہنیت کا شکار نہ ہونے دیں۔
اگر آپ اس وقت فی ہفتہ صرف ایک یا دو ورزشی ’دور‘ کے لیے وقت نکال سکتی ہیں، تو بھی یہ آپ کی بڑی کام یابی ہے، کیوں کہ تھوڑی دیر کی گئی ورزش کچھ مدد گار ضرور ثابت ہوگی اور کچھ دیر ورزش بالکل بھی ورزش نہ کرنے سے نمایاں طور پر بہتر ہے۔
The post کیا گھر کے کام باقاعدہ ورزش کا متبادل ہیں؟ appeared first on ایکسپریس اردو.