دو دلوں کا ملن، سدا کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ کے عہدوپیمان اور پھر جس طرح لفظ شادی کے معنی خوشیوں کے ہیں، بالکل ویسے ہی اس تقریب کے ایک پس منظر میں تفکرات اور پریشانیاں موجود ہوتی ہیں۔
دکھاوا اور نمود و نمائش کے بعد خصوصی طور پر لڑکی والوں کا نام متاثرین میں لکھا جاتا ہے۔آج ایسا لگتا ہے کہ نئے شادی شدہ جوڑوں کی کام یابی براہ راست مادی چیزوں سے جڑی ہوئی ہے۔
ہمارے سماج کے بہت سے سفید پوش گھرانے بیٹی رخصت کرنے کے لیے اپنی عمر بھر کی پونجی صرف کر ڈالتے ہیں۔ پچھلے زمانے میںجب بھی بڑے اپنی بیٹی کے لیے مناسب بَر کی تلاش شروع کرتے، تو ان کی اولین شرط ’’کماؤ پوت‘‘ کی ہوتی ہے۔
رشتہ کرانے والیوں سے پہلا سوال یہ ہی کیا جاتا ہے کہ لڑکا کرتا کیا ہے، کتنا کماتا ہے؟ یا اس خواہش کا اظہار کیا جاتا ہے کہ ’’ایسا لڑکا چاہیے۔
جس کی آمدن مستحکم اور نوکری پکی ہو۔ اگر قسمت سے لڑکے کو سرکاری نوکری مل گئی ہو تو چار چاند والی مثل صادق ہو جاتی۔زمانہ حال میں جہاں اور معاملات بدل گئے ہیں، وہیں ایسی لڑکیوں کے رشتوں کو اولیت دی جانے لگی ہے، جو ملازمت پیشہ ہو، کسی بڑے عہدے پر فائز ہو، تو سونے پہ سہاگا۔
ہر لمحہ منہ زور ہوتی ہوئی مہنگائی اور معاشی مسائل کی وجہ سے شاید زمانے کی ترجیحات اور چلن بھی بدلتا جا رہا ہے یا آسائشوں کی خواہش اور لڑکے کی ناکافی تنخواہ جیسے ٹھوس حقائق ہیں۔ اسی وجہ سے نئے زمانے کی ساسیں اچھی ملازمت کرنے والی بہوئیں ڈھونڈتی ہیں۔
پہلے صرف گوری، دبلی پتلی اور اچھے ناک، نقشے والی لڑکی ہی ماؤں کے معیار پر پورا اترتی تھی، مگر اب متوسط طبقے کی خواتین ایسے رشتوں کی طالب ہوتی ہیں، جو ان کے راج دلارے کو باہر بھجوا سکے، یا یہیں کاروبار کرادے۔
اگر یہ سب نہ ہو توکم از کم لڑکی اچھی تنخواہ پر کسی بڑے ادارے میں ملازم ہو۔ اس طرح پیا کے دیس سدھارنے والی دلہن مکمل طور پر نہ صحیح، لیکن جزوی طور پر’’ سیاں جی‘‘ کے شانہ بہ شانہ مسائل کا حل ڈھونڈنے کے لیے نکل پڑتی ہے۔
گزرے زمانوں میں معاشرے کی سوچ اس اکائی سے مربوط تھی کہ ’’عورت کا کام گھر سنبھالنا، اور مرد کا کام کمانا ہے‘‘ یہ ہی وجہ ہے کہ خواتین کا کام کرنا بہ امر مجبوری ہی ہوتا تھا۔ اگر کسی جدت پسند گھرانے کی عورت گھر سے نوکری کے لیے نکل جاتی تھی، تو اسے شوق سے تعبیر کیا جاتا تھا، جب کہ اب حالت یہ ہے کہ مرد اور عورت، دونوں کو ہی مل کر اپنے اخراجات پورے کرنا پڑتے ہیں۔
اس لیے کچھ لڑکیاں شادی سے قبل اور کچھ اس کے بعد ملازمت کرنے لگتی ہیں۔ یہ کہنا صحیح ہوگا کہ ایک اچھی نوکری خواتین کی ضرورت بن گئی ہے۔ بعض شوہر اس بات کا برملا اقرار کرتے ہیں کہ بیوی کی ملازمت سے ان کے گھر کا پورا نظام تہہ و بالا ہو جاتا ہے، مگر وہ بھی یہ کڑوا گھونٹ پینے پر مجبور ہیں۔
ملازمت پیشہ لڑکی جب سسرال جاکر اپنی ملازمیانہ ذمہ داریاں ادا کرتی ہے، تو اسے اندازہ ہوتا ہے کہ اب اور غیر شادی شدہ زندگی میں نوکری کرنے میں کافی فرق ہوتا ہے، لیکن دوسری طرف جب یہ بات ہوتی ہے کہ اس کی نوکری ہی دراصل اس کے اس نئے رشتے کی وجہ بنی ہے۔
لہٰذا وہ ایسے کسی بھی فیصلے سے گریز کرتی ہے کہ جس سے سسرال والوں کو کچھ کہنے کا موقع ملے۔ اگر لڑکے والے لڑکی کی ملازمت دیکھ کر اس سے شادی کرتے ہیں، تو پھر کل کلاں کو اگر لڑکی کی ملازمت ختم ہوتی ہے، تو یقیناً اس کے اثرات ازدواجی زندگی پر پڑنے کے بہت زیادہ خدشات ہوتے ہیں۔
کیوں کہ ملازمت کو ہی بنیاد بنا کر رشتہ کرایا گیا ہوتا ہے۔ ماہانہ آمدن کو گویا جہیز کا حصہ سمجھ لیا جاتا ہے۔ محض ملازمت کے خاتمے کو تو براہ راست بنیاد نہیں بنایا جاتا، البتہ اسی بنا پر دیگر باتوں پر نکتہ چینی اور تنازع کھڑے کر دیے جاتے ہیں، جو کہ نہایت غیر مناسب امر ہے۔
The post بہو کی ملازمت appeared first on ایکسپریس اردو.