سعادت حسن منٹونے فلموں کا اسکرپٹ لکھا۔ مکالمے سپرد قلم کئے۔ فلمی پرچوں سے جڑے رہے۔ نامورفلمی ستاروں سے دوستانہ رہا۔ پری چہرہ نسیم، نرگس، شیام ، اشوک کمار، کے کے(کلونت کور) نورجہاں، ستارہ، پراسرارنینا اور پارو دیوی کے زبردست خاکے لکھے، جو ’’ گنجے فرشتے ‘‘اور’’ لائوڈ اسپیکر‘‘ میں شامل ہیں۔
قلمکارکی حیثیت سے فلمی دنیا سے منٹوکے تعلق پر پوری کتاب لکھی جا سکتی ہے۔ منٹو کا ایک فلم کی حد تک ہی سہی اداکاری سے بھی رشتہ تو رہا ، جس کا اس کے عشاق میں سے بھی کم ہی کو معلوم ہوگا۔اوران میں سے ایسے تو اور بھی تھوڑے ہوںگے جنھوں نے انھیں اداکار کے گیٹ اپ میں دیکھ رکھا ہوگا۔ لیکن اب ہم معروف تاریخ دان عائشہ جلال کی کتاب”The Pity of Partition: Manto’s Life, Times, and Work across the India-Pakistan Divide” میں منٹوکی شیل شوکڈ فوجی کرپا رام کے روپ میںتصویرملاحظہ کر سکتے ہیں۔ فلم کی کہانی اور مکالمے بھی منٹو کے قلم سے نکلے۔ ’’آٹھ دن‘‘میں منٹوکے ادبی حریف، افسانہ نگاراپندرناتھ اشک نے بھی پنڈت طوطا رام کا مزاحیہ رول کیا۔ فلم کے موسیقارایس ڈی برمن تھے۔ گلوکاروں میں ایس ڈی برمن، امیربائی، مینا کپور اوربیناپنی شامل تھے۔ ہیرواشوک کمار کی پروڈیوسر کی حیثیت سے یہ پہلی کاوش تھی۔
ہیروئین کے لیے ویرا کو چنا گیا۔ محسن عبداللہ کے ویرا پرڈورے ڈالنے کے تعلق سے منٹو نے بیان کیا ’’محسن عبداللہ (پراسرارنیناکا خاوند) اپنی یک آہنگ، خشک مجرد زندگی سے اکتا کر پارسی لڑکی ویرا کو جس کی زندگی اسی کی زندگی کی مانند سپاٹ تھی، شریک حیات بنانے کی کوشش کر رہا تھا۔ چنانچہ اس غرض کے لیے اسے ہمارے ساتھ سیکنڈ کلاس میں سفرکرنا چھوڑنا پڑا، کیونکہ ویرا فرسٹ کلاس میں آتی جاتی تھی۔ اس کے بعداس کو’’ایٹی کیٹ‘‘کے مطابق آتے جاتے اس کی کتیا کی زنجیرتھامنا پڑی۔۔۔ عاشقوں کے امام میاں مجنوںکو بھی لیلیٰ کی کتیا عزیز تھی۔‘‘شکاگو یونیورسٹی میں پروفیسرایمریتس اور ناموراسکالرسی۔ ایم۔ نعیم نے لکھا ہے کہ ویرا ٹیلنٹ اور گلیمر نہ ہونے کے باعث کمپنی (فلمستان) پر بوجھ ہی ثابت ہوئی۔ اشوک کمار کی فرمائش پر منٹو نے کامیڈی فلم لکھی جو باکس آفس پرکامیاب ہوئی۔ فلم کی کامیابی کے باوجود ’’فلمستان‘‘ میں منٹو کے قدم جم نہ سکے، جس کی وجہ عائشہ جلال کے خیال میں کم تعلیم یافتہ پروڈیوسروں اور ڈائریکٹروں کا ان کے اسکرپٹ سے کیڑے نکالنا اورایسے مکالمے لکھنے پرمجبورکرنا تھا جو منٹوجیسے رائٹرکے شایان شان نہ ہوتے۔
اس صورت میں منٹو کو لاہور سے فلم میکرموتی بی گڈوانی نے تارکے ذریعے ایک ہزار روپے معاوضے پرکنسلٹنٹ کی حیثیت سے نوکری کی آفر دی، جس کومنٹو سنجیدگی سے زیرغورضرور لائے مگر پھر بمبئی ٹاکیز سے ان کا ایک برس کا کنٹریکٹ ہوگیا ،جس کے مطابق منٹو کو ساڑھے آٹھ سوروپے مہینے پر فلموںکے مکالمے اور سیناریو لکھنا تھے۔ دوفلموں کی کہانی پر پانچ ہزار الگ سے طے ہوئے۔ اشوک کمار پہلے سے ادھرموجود تھے۔ یہاں ٹھہرنا منٹو کی قسمت میں نہ تھا کیونکہ فرقہ وارانہ کشیدگی کی پرچھائیاں بمبئی ٹاکیز پر بھی پڑنے لگی تھیں، اس لیے منٹو چپ چاپ باجو کی گلی سے پاکستان چلے آئے۔ یہ بڑی اچھی بات ہوئی کہ منٹو اوراشک دونوں کا ’’آٹھ دن‘‘ کے بارے میں لکھا موجود ہے ، پہلے ہم منٹوکی تحریرسے رجوع کرتے ہیں۔
کہانی لکھنے اور اداکاری کا قصہ:
منٹو نے پہلے پہل جس خیال کے گرد کہانی کو بننا چاہا وہ بعد میں یکسر بدل گیا۔ یہ خیال ان کو دوستوں کے ساتھ ٹیرس پر بیٹھے اس وقت آیا جب ان کے لفظوں میں ایک ہانپتا ہوا سڑکیںکوٹنے والاانجن نمودارہوا۔ منٹو لکھتے ہیں ’’میں نے ایسے ہی سوچا۔۔۔۔ خدا معلوم کہاں سے یہ خیال میرے دماغ میں آن ٹپکا کہ اگر اس ٹیرس سے کوئی خوبصورت لڑکی ایک رقعہ گرائے، اس نیت سے کہ وہ جس کے ہاتھ لگے، وہ اس سے شادی کرے گی توکیا ہو؟ہو سکتاہے کہ رقعہ کسی پیکارڈ موٹرمیں جا گرے۔۔۔۔ اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اڑتا اڑتاسڑکیں کوٹنے والے انجن کے ڈرائیورکے پاس جا پہنچے۔۔۔ ہو سکنے کا یہ سلسلہ کتنا درازاور کتنا دلچسپ تھا۔‘‘
اس خیال کو اشوک اور ساوک نے پسند ضرور کیا اور بقول منٹو طے یہی پایا کہ ’’کہانی کی بنیادیں اسی خیال پراستوارکی جائیں۔‘‘ مگر جب کہانی تیار ہوئی تووہ کہیں اور ہی نکل گئی۔ منٹو نے اشوک کی خواہش کے مطابق کامیڈی فلم لکھی ، جو اسے پسند آئی۔ ’’آٹھ دن‘‘ کو ڈائریکٹ اشوک کمار نے کیا لیکن پردے پرڈائریکٹرکے طور پر نام ڈی این پائی کا تھا ۔ اس سارے کے بارے میں منٹو لکھتے ہیں ’’بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ ’’آٹھ دن‘‘تمام وکمال اشوک کی ڈائریکشن کا نتیجہ تھا جبکہ پردے پرڈائریکٹرکا نام ڈی این پائی تھا جس نے اس فلم کا ایک انچ بھی ڈائریکٹ نہیں کیا تھا۔ بمبئے ٹاکیزمیں فلم ڈائریکٹرکو بہت کم اہمیت دی جاتی تھی۔ سب مل کر کام کرتے تھے۔ جب فلم نمائش کے لیے پیش ہوتی تھی تو ایک کارکن کا نام بطور ڈائریکٹرکے پیش کردیا جاتا تھا۔ یہ طریقہ کارفلمستان میں بھی رائج تھا۔ ڈی این پائی فلم ایڈیٹرتھا اور اپنے کام میں بہت ہوشیار۔ چنانچہ متفقہ طور پر یہی فیصلہ ہوا تھاکہ بحیثیت ڈائریکٹر کے اس کا نام فلم کے کریڈٹ ٹائٹلز میں پیش کیا جائے۔ اشوک جتنا اچھا کردار کار تھا اتنا ہی اچھا ہدایت کار بھی ہے۔ اس کا علم مجھے’’آٹھ دن‘‘کی شوٹنگ کے دوران میں ہوا ۔‘‘
اس فلم میں منٹو نے شیل شوکڈ فوجی کا کردار نبھایا۔ وہ ذہنی طور پر اس کے لیے بالکل تیار نہ تھے، بلکہ انھیں بہ امرمجبوری مکرجی کے اس کردار کو کرنے سے مکرنے کے بعد کرنا پڑا، بقول منٹو’’جب مکر جی نے انکار کیا تواشوک بہت سٹپٹایاکہ ان کی جگہ اور کسے منتخب کرے۔ کئی دن شوٹنگ بند رہی۔ رائے بہادر چونی لال پیلے ہونے لگے تو اشوک میرے پاس آیا۔ میں چند مناظر کو دوبارہ لکھ رہا تھا۔ اس نے میز پر سے میرے کاغذ اٹھاکر ایک طرف رکھے اور کہا ’’چلومنٹو۔‘‘ میں اس کے ساتھ چل پڑا۔ میرا خیال تھا کہ وہ مجھے نئے گیت کی دھن سنوانے لے جا رہا ہے مگر وہ مجھے سیٹ پر لے گیا اور کہنے لگا’’پاگل کا پارٹ تم کروگے۔‘‘ مجھے معلوم تھا کہ مکرجی انکارکر چکا ہے اور اشوک کو اس خاص رول کے لیے کوئی آدمی نہیں مل رہا، لیکن یہ معلوم نہیں تھا کہ وہ مجھ سے کہے گا کہ میں یہ رول ادا کروں، چنانچہ میں نے اس سے کہا۔’’پاگل ہوئے ہو۔‘‘
اشوک سنجیدہ ہوگیااور کہنے لگاکہ نہیںمنٹوتمھیں یہ رول لینا ہی پڑے گا۔ راجہ مہدی علی خان اور اوپندرناتھ اشک نے بھی اصرار کیا۔ راجہ نے کہا۔’’تم نے مجھ کو اشوک کا بہنوئی بنا دیا حالانکہ میں شریف آدمی ہرگز اس کے لیے تیارنہ تھا کیوں کہ میں اشوک کی عزت کرتا ہوں۔ تم پاگل بن جائو گے تو کونسی آفت آجائے گی۔‘‘ اس پرمذاق شروع ہوگیا اور مذاق مذاق میں سعادت حسن منٹو پاگل فلائٹ لیفٹینٹ کرپارام بن گیا۔۔۔ کیمرے کے سامنے میری جو حالت ہوئی اس کو اللہ بہتر جانتا ہے۔ فلم تیار ہوکر نمائش کے لیے پیش ہوئی تو کامیاب ثابت ہوئی۔ ناقدین نے اسے بہترین کامیڈی قرار دیا۔
اوپندرناتھ اشک کی خامہ فرسائی:
اوپندرناتھ اشک نے اپنے مشہور مضمون ’’منٹو میرا دشمن‘‘ میں لکھا ہے کہ فلمستان سے وابستہ ہونے کے بعد ان کی پہلی فلم’’ مزدور‘‘باکس آفس پرکامیاب نہ ہوئی مگر اس کے مکالمے اس برس کے بہترین مکالمے قرار پائے۔ دوسری فلم ’’سفر‘‘باکس آفس پرکامیاب ٹھہری۔ اس لیے جب اشوک کمار نے الگ سے فلم پروڈیوس کرنا چاہی تومنٹو کے بجائے ان کے پاس فلم کی کہانی لکھوانے آئے کیونکہ بقول اشک’’منٹوکی دونوں فلمیں ’’چل رے چل رے نوجوان‘‘اور ’’شکاری‘‘دودوسال لینے کے باوجود ناکام رہیں۔‘‘ پروفیسر سی ایم نعیم کو اس کی اس بات سے اتفاق نہیں کہ منٹو کی دونوں مذکورہ فلمیں ناکام رہیں۔ ان کے خیال میں ’’چل رے چل رے نوجوان‘‘ اور ’’شکاری‘‘ دونوں نے، خاص طورسے موخر الذکر فلم نے معقول حد تک بزنس کیا ۔ اشک کا کہنا ہے کہ فلم لکھنے کے واسطے پہلے اشوک نے اس سے رابطہ کیا تھا لیکن پھر منٹو نے سازش کر کے اس کا پتا کاٹ دیا۔ اشک کے بقول’’منٹو کو یہ خبرمل گئی کہ اشوک میرے پاس پہنچا ہے اور میں دوہزارروپیہ مانگ رہا ہوں تو اس نے واچا کو ساتھ ملا لیا۔
واچا اشوک کو اپنے فلیٹ پرلے گئے۔اشوک کو انھوں نے اس وقت تک نہ آنے دیاجب تک یہ طے نہیں کرلیا کہ منٹو نئے فلم کی کہانی لکھے گا اور دوسرے دن اس کا مہورت ہوجائے گا۔ چونکہ کہانی کوئی تیارنہ تھی اور مہورت ہوگیا تھا، اس لیے ’’آٹھ دن‘‘کے فلمانے کے سلسلے میں کیاکیا دقتیں پیش آئیں یہ ایک لمبی کہانی ہے، لیکن چونکہ منٹو نے یہ جانتے ہوئے کہ میں نے الگ سے معاوضہ مانگاتھا، بغیرمعاوضہ لیے افسانہ لکھ دینا منظور کرلیا (یہ اور بات ہے کہ جب آدھی فلم بن گئی تو اس نے پریشان کرنا شروع کیا اور کہانی کی مد میں بھی کچھ معاوضہ لے لیا) اوراچھی خاصی سازش کرکے میرا پتہ کاٹ دیا اس لیے مجھے بہت برا لگا۔۔۔ خصوصاً اس وقت جب میں افسانہ کاخاکہ لکھ کراشوک کے آنے کا انتظارکرتارہا۔۔۔ مہورت ہوگیا۔ مکرجی مجھ سے خوش نہ تھے، اس لیے سوا اس کے کہ میں زہرکا گھونٹ پی کر رہ جاتا،اور کچھ نہ ہو سکتاتھا۔ لیکن کچھ ہی دن بعد میں نے منٹو سے بدلہ لینے کی ترکیب نکال لی۔
آٹھ دن کا ڈائریکٹر فلمستان کا ایڈیٹر دتارام پائی مقرر ہوا تھا۔ اگرچہ ڈائریکشن تواشوک ہی کرتا تھا، لیکن چونکہ پائی بڑا قابل ایڈیٹر تھا، اس لیے اس کی چلتی تھی۔ میں نے واچا کو ساتھ ملایااور آٹھ دن میںپنڈت طوطا رام کا ایک مزاحیہ رول لے لیا۔ جب کہانی شروع ہوئی تھی تو یہ دو ایک مناظرکا رول تھا۔ لیکن میں نے اس خوبی سے اپنا پارٹ کیا اور بغیر ری ٹیک کے کیا کہ اشوک کو بہت پسند آیا اور اس نے طے کیا کہ یہ رول بڑھا کر ساری فلم میں رکھا جائے۔ اس کے علاوہ وہ پنڈت طوطا رام چونکہ ہندی بولتا تھا، اس لیے پنڈت کے سب ڈائیلاگ میں لکھتا تھا۔ منٹو ایک لائن لکھتا تو میں چار کر دیتا۔ منٹوایک سین لکھتا تو میں اس کو دو بنادیتا۔ مجھے سٹیج ایکٹنگ تو پسند ہے، لیکن فلم ایکٹنگ کو فلم ناٹک کی طرح میں کوئی اہمیت نہیں دیتا۔ لیکن منٹو کو پریشان کرنے کے لیے وہ مضحکہ خیزرول میں کرتا رہا اور منٹواتنا پریشان ہوا کہ ایک دن سیٹ پر ہاتھا پائی تک کی نوبت آگئی۔‘‘
معروف نقاد مظفرعلی سید نے پاکستان بننے کے بعد منٹو سے لاہور میں اپنی ملاقاتوں کا احوال اس مایہ نازفکشن نگار پر اپنے خاکے میں قلمبند کر دیا ہے۔ فلم’’آٹھ دن‘‘جب ریلیز ہوئی تو وہ امرتسر میں تھے۔ اس فلم کے بارے میں ان کے تاثرات کا ذکرمنٹو پر ان کے خاکے میں کچھ یوں بیان ہوا ہے۔
’’ ایک دن مقامی سینما پرل ٹاکیزکی دیوار پر لکھا دیکھا کہ سہراب مودی کی فلم’’مرزا غالب‘‘جس کی کہانی مکالمے منٹوصاحب نے لکھے ہیں، جلد ہی آنے والی ہے، آپ کے شہرمیں۔ یہ اشتہارآزادی سے دو ایک سال پہلے دیکھا تھا اور تبھی سے اس کا شدت سے انتظارہونے لگا تھا لیکن یہ فلم دیرتک نہ بن پائی، پھر بھی میری طرح شہر کے بہت لوگ منیجر کے پاس جاجاکر پوچھا کرتے کہ کب آ رہی ہے، اور وہ یہی بتاتا کہ بس تھوڑے سے دنوں میں آنے ہی والی ہے۔ اتنے میں شور ہوا کہ منٹو صاحب خود ایک فلم میں آ رہے ہیں، اداکار کے طور پر۔ انھیں دیکھنے کا اشتیاق تو تھا ہی لیکن جب فلمستان کی ’’آٹھ دن‘‘ لگی تو خاصی مایوسی ہوئی کہ منٹو صاحب نے اس میں چھوٹا سارول ایک پاگل فوجی افسرکا اداکیا تھا، جس کا دماغ جنگ کے دوران کوئی بہت بڑا دھماکا سن کر ہل گیا تھا اور وہ لوگوں کو جنگ سے ڈرانے کے لیے ایک فٹ بال پھینک پھینک پر ایٹم بم، ایٹم بم چلاتا رہتا تھا۔ تاہم اتنی خوشی ضرور تھی کہ منٹوصاحب کوکسی روپ میں سہی،دیکھا تو۔ ‘‘
ممتازادیب انتظارحسین ہجرت کرکے لاہور پہنچے تو یہاں ان کا جن ادیبوں سے تعلق گہری دوستی میں بدلا ان میں مظفرعلی سید کو اولیت حاصل ہے۔ مظفرعلی سید کی طرح انتظارحسین نے بھی’’ آٹھ دن ‘‘کو دیکھ رکھا ہے، اوراس کا ذکران کے ایک مضمون میں کچھ اس انداز میں آیا۔
’’مجھے تقسیم سے فوراً پہلے کی بنی ہوئی بمبئی کی ایک فلم’’آٹھ دن‘‘یادآگئی۔ منٹوصاحب نے اس میں کام کیا تھا۔ شاید اس کا اسکرپٹ بھی انھوں نے ہی لکھا تھا۔ انھوں نے ایک ایسے نیم دیوانے کا کرداراداکیا تھاجس کے ہاتھ میںایک گولاہے۔ اسے وہ ایٹم بم بتاتا ہے اور باربار دھمکی دیتا ہے کہ کہو توایٹم ماروں۔ اس فلم کے خیال نے مجھے اور ڈرایادیا۔ خیرمیں تو بزدل ہوا۔ ویسے اس وقت برصغیرکے لوگ بالعموم ایٹم بم کے سحر میں ہیں۔‘‘
انتظارحسین سے ہم نے پوچھا کہ انھیں کچھ یاد ہے، یہ فلم انھوں نے کہاں دیکھی تھی، تو انھوں نے بتایا کہ میرٹھ میں انھوں نے محمد حسن عسکری کے ساتھ یہ فلم دیکھی ۔ منٹو جب شیل شوکڈ فوجی کے روپ میں پردۂ سکرین پرنمودار ہوئے توعسکری نے ہی انھیں بتایا کہ یہ اداکارکوئی اور نہیں منٹوصاحب ہیں۔
مظفرعلی سید اورانتظارحسین نے اس فلم کو دیکھ لیا۔ اس پر رائے دے دی۔ انتظارحسین کے ایک اور دوست کے ہاں بھی، جب یہ فلم آئی اسے دیکھنے کی خواہش پیدا ہوئی مگر والد گرامی کی طرف سے ’’آٹھ دن‘‘دیکھنے کی اجازت نہ ملی۔ اس فلم کو دیکھنے سے متعلق ذوق وشوق کا ذکرفکشن نگاراکرام اللہ کی ان یادداشتوں میں آگیا جن کو وہ ان دنوں لکھ رہے ہیں، ہمیں انھیں پڑھنے کا موقع ملا تو ہم نے ’’آٹھ دن‘‘ کے بارے میں ٹکڑے کو زیرنظر تحریر میںشامل کرنے کی اجازت حاصل کرلی۔ وہ لکھتے ہیں:
’’ ماہ اپریل کا وسط چل رہا تھا۔ ہرنیا دن پچھلے دن سے زیادہ گرمی کی تلخی لے کرآتا۔ انھی دنوں’’آٹھ دن‘‘نامی فلم کے امرتسر میں ریلیز ہونے کے موقع پر مشتہری کی مہم بڑے زوروں پرچل رہی تھی۔ دکانوں پراور خاص طور پر نائیوں اور پان والوں کی دکانوں پر اشوک کمار(ہیرو)اور ویرا(ہیروئین)کی آرٹ پیپر پر بڑی بڑی رومان چھلکاتی تصویریں لگ رہی تھیں۔ ہرتصویر میں نیچے سرخ الفاظ میں لکھا ہوتا: کہانی اورسکرین پلے ازسعات حسن منٹوآف امرتسر۔ اس کے باوجود فلم بہ مشکل دو ہفتے چل سکی البتہ امرتسرکے پرانے کشمیری مسلم خاندانوں کی ٹھہرے پانیوںجیسی خاموش زندگیوں میں ایک لرزش سی ضرور پیدا ہوئی جوکہ بزرگوں میں دبی دبی سی سعادت حسن کے خلاف تھی اور وہی جوانوں میں کچھ فخرومباہات کا رنگ لیے تھی۔
مجھ میں ابھی والد کے حکم کی خلاف ورزی کرنے کی ہمت پیدا نہ ہوئی تھی، اس لیے تشہیرکے متاثرین میں سے ہونے کے باوجود فلم نہ دیکھ سکا صرف اپنے دوست کپل سے پوچھ لیا کہ کیسی ہے اوریوں فرض ادا کر لیا۔کپل نے بتایا کہ’’پھیکی پھیکی سی ہے۔ بات کچھ بن نہیں سکی۔
’’چلواچھا ہوا میں گناہ بے لذت سے بچ گیا۔کیا منٹو کو دیکھا؟‘‘
’’ہاں، آدھے منٹ کا رول ہوگا۔ بالکل فالتوسا۔‘‘
’’یہ بتائوتم نے کبھی اسے امرتسرکی گلیوں میں گھومتے پھرتے دیکھا تھا۔‘‘
’’وہ میرے ہوش سنبھالنے سے پہلے امرتسر چھوڑ کر جا چکا تھا۔‘‘