شہر سے کچھ پرے پانچ ہزار برس قدیم تہذیب سانس لیتی تھی۔ وہ قدیم مہک اُسے اپنی اُور کھینچتی۔ وہ بھید بھرے کھنڈرات کی سمت چل پڑتا۔ قدیم فضائوں سے گھل مل جاتا۔ وقت کے ٹھہرائو میں ڈھل جاتا۔
یہ ایک لاابالی نوجوان کا قصّہ ہے۔ آوارگی جس کا اوڑھنا بچھونا۔ مطالعے کا ذائقہ زبان پر۔ کتھائوں سے جیسے جنم جنم کا رشتہ۔ اعتماد ایسا کہ بھٹو صاحب کی کھلی کچہری میں عرضی لیے پہنچ گیا، اور اُن کے وزیر کی نااہلی کا تذکرہ کیے بغیر نہیں ٹلا۔ دیوانہ ایسا کہ جب آئی ایس ایس کا مرحلہ لگ بھگ طے ہوچکا تھا، وہ صحافت کی جانب آگیا۔ انوکھے موضوعات چُنے۔ کہانی سے اُسے عشق تھا، جس کے چوکھے رنگ صحافتی تحریروں سے جھلکے، تو دھوم مچ گئی۔ ملکی اخبارات و رسائل میں سکّہ جمانے کے بعد بین الاقوامی خبر رساں اداروں کا حصہ بنا۔ مصائب کی سرزمین، افغانستان کا رخ کیا، اور اگلے کئی برس وہاں کی کہانیاں بُنتا رہا۔ عسکریت پسندی کو جنم لیتے، ایک ناسور کے مانند پھیلتے دیکھا۔ وہاں موت کے بھی روبرو ہوا۔ سری لنکا، تھائی لینڈ اور کمبوڈیا جیسے مشکل محاذوں پر وقت گزرا۔ یہی نہیں، اسرائیل میں بھی رپورٹنگ کی۔
یہ معروف صحافی، اویس توحید کا تذکرہ ہے۔ کیریر کے آغاز میں اُنھوں نے انگریزی صحافت میں نام کمایا۔ اے ایف پی اور بی بی سی سے اُن کی وابستگی رہی۔ ’’ٹائم میگزین‘‘، ’’گارجین‘‘، ’’کرسچن سائنس مانیٹر‘‘، ’’وال اسٹریٹ جرنل، ’’خلیج ٹائمز‘‘، ’’دی ٹائمز آف انڈیا‘‘ اور ’’آئوٹ لک‘‘ جیسے اخبارات و رسائل میں باقاعدگی سے لکھتے رہے۔ الیکٹرانک میڈیا کا بھی خاصا تجربہ رکھتے ہیں۔ مختلف پرائیویٹ چینلز پر اعلیٰ عہدوں پر فائز رہے۔ نئے رجحانات متعارف کروائے۔
اویس توحید کے گھر کی کھڑکی سے لہروں کا شور سنائی دیتا ہے۔ سمندر گھر کے سامنے ہی ہے۔ صبح پانی سے چمکتا دمکتا سورج برآمد ہوتا ہے، شام ڈھلے خاموشی سے سمندر میں اتر جاتا ہے۔ یہ منظر اُنھیں سحر انگیز کر دیتا ہے، سمندر اُنھیں اپنی طرف کھینچتا ہے۔ اور کشش اتنی ہے کہ احتیاطاً ساحل پر جانے سے اجتناب برتتے ہیں۔ سوچتے ہیں؛ یوں نہ ہو کہ چلتے چلے جائیں، رک ہی نہ پائیں۔
گھر کی دیواروں پر سجے فن پارے، مصوری میں اُن کی دل چسپی کے عکاس ہیں۔ ایک جانب صادقین کے اسکیچز ہیں، ایک طرف تصدیق سہیل کی پینٹنگز۔ صادقین کے فن پارے تو بھاری قیمت ادا کر کے گھر لائے۔ مصوری کو اظہار کا پُرقوت وسیلہ سمجھتے ہیں۔ بہ قول اُن، کبھی کبھار انسان جو خیال لکھ نہیں پتا، اُسے کینوس پر اتار دیتا ہے۔ مصور تو خود بھی ہیں، بس تصویر کشی کے لیے رنگوں کے بجائے لفظ برتتے ہیں۔
جنون، اُن کے نزدیک عشق کا ساتواں اور آخری مرحلہ ہے، مگر صحافت میں یہ معاملہ الٹ ہے۔ ’’پہلا مرحلہ ہی جنون ہے، اِس کے بغیر بات نہیں بنتی، کیوں کہ صحافت عصری تاریخ کی عکاس ہوتی ہے۔ جب تک اندر سے آواز نہیں آئے، انسان صحافی نہیں بن سکتا۔‘‘
اب ذرا اُن کے حالات زندگی کھنگال لیں:
٭ آوارگی، آبائی وطن اور اویس
ابتدائی ایام کی یادیں
اویس توحید کے اجداد نے اترپردیش سے ہجرت کی۔ لاہور سے کراچی پہنچے، پھر لاڑکانہ کو مسکن بنایا۔ وہیں 11 نومبر 1967 کو انھوں نے آنکھ کھولی۔ نام اُن کا نانا نے رکھا، فارسی داں تھے وہ۔ اویس کے معنی اُن کے بہ قول، ہوا کا لمس ہے۔
تدریس خاندانی پیشہ۔ دادا، والد، بھائی؛ سب ہی اِس سے منسلک رہے۔ بس، وہی بھٹک گئے۔ اُن کے والد، توحید احمد صدیقی لاڑکانہ میں عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔ پوری ایک نسل کو زیور تعلیم سے آراستہ کیا۔ بزم ادب کی سرگرمیوں میں کلیدی حیثیت انھیں حاصل رہی۔ والد کی یادیں، اُن کے تذکرہ کے وسیلے اویس تک پہنچیں کہ کم سنی ہی میں شفقت پدری سے محروم ہوگئے تھے۔یاد ہے، بچپن میں، جب لُو چل رہی ہوتی، لاڑکانہ پر سورج قہر برسا رہا ہوتا، وہ اپنی والدہ کا ہاتھ تھامے والد کی قبر پر جایا کرتے۔ وہ کرب کا گہرا تجربہ تھا۔
لاڑکانہ ذہن میں محفوظ ہے، جس کے ماحول پر ادبی، ثقافتی اور سیاسی رنگ غالب تھا۔ خواندگی کی شرح خاصی بہتر تھی۔ مہاجرین اور مقامی افراد کے درمیان اچھا تال میل تھا۔ مشاعرے ہوا کرتے تھے۔ فیض اور جوش وہاں آتے۔ صابری برادرز قوالیوں کی محفل جماتے۔ ہوش سنبھالنے کے بعد بھٹو اور کھوڑو خاندان کی سیاست قریب سے دیکھنے کا موقع ملا کہ نانا، محمد مرتضیٰ شہر کی جانی مانی ادبی شخصیت تھے، خاص و عام اُن سے ملنے آتے رہتے۔ اُن کی صحبت نے اویس پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ نانی اور والدہ بھی سماجی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا کرتیں۔
بچپن ہی سے آوارگی کی خُو ہے۔ بے ساختگی اور لاابالی پن تھا طبیعت میں۔ وہی سرگرداں رکھتا۔
٭ ’’جی نوجوان؟‘‘
بھٹو صاحب کا سوال
آوارگی اپنی جگہ، مگر طالب علم وہ قابل تھے۔ اسکول میں داخلے کے لیے ٹیسٹ دیا، تو وظیفے کے حق دار ٹھہرے۔ آدھی فیس معاف ہوگئی۔ خاندان پر بوجھ نہیں بننا چاہتے تھے، سو پوری فیس معاف کروانے کے لیے لاڑکانہ میں لگی بھٹو صاحب کی کھلی کچہری پہنچ گئے۔
واقعہ یوں بیان کرتے ہیں،’’اُنھوں نے مجھے دیکھ کر کہا؛ جی نوجوان؟ میں نے مسئلہ بیان کیا۔ اُنھوں نے اسی وقت فون پر اسکول کے پرنسپل سے رابطہ کیا۔ پھر پوچھنے لگے؛ تم نے وزیرِتعلیم سے رابطہ کیوں نہیں کیا؟ میں نے کہا؛ وہ صاحب میرے پڑوس میں رہتے ہیں، اور میں جانتا ہوں کہ اُنھیں نوٹ بھی لکھنا نہیں آتا۔ اِس پر وہ ہنسنے لگے۔ اُن صاحب کو سندھی میں صلواتیں سنائی۔ خیر، پوری فیس معاف ہوگئی۔‘‘
٭ نگری نگری پھرا مسافر
ہاسٹل کا زمانہ، مارشل لا اور مزارات
تعلیمی سفر اُنھیں حیدرآباد لے گیا۔ پبلک اسکول کا حصہ بن گئے۔ رہایش ہاسٹل میں تھی۔ 82ء میں میونسپل ہائی اسکول، لاڑکانہ سے میٹرک کیا۔ وہ دن یادوں میں محفوظ ہیں۔ اُسی زمانے میں سندھ دریافت کیا۔ نگری نگری پھرے۔ صوفیوں کے مزارات کا رخ کیا۔ اِس ضمن میں کہتے ہیں،’’میری شخصیت میں دیہی اور شہری، دونوں معاشرت کا امتزاج ہے۔ مجھے سندھ کی دھرتی سے تعلق پر، موئن جودڑو کی پانچ ہزار پرانی تہذیب سے تعلق پر فخر ہے۔ یہ صوفیوں کی سرزمین ہے۔‘‘مارشل لا کے زمانے کا جبر بھی خوب یاد ہے۔ باوردی قافلے گزرا کرتے تھے۔ دروازوں پر اجنبی دستک ہوتی، تو سراسیمگی پھیل جاتی۔ دھیرے دھیرے محافل ماند پڑنے لگیں۔ لاڑکانہ کا مدینہ ہوٹل، جہاں ادبی نشستیں جمتیں، دوست اکٹھے ہوتے، اب خالی پن کا شکار ہوگیا۔
٭ سائنس کبھی مت پڑھنا!
روشنیوں کے شہر کا تذکرہ
نئی زمین اپنی اور پکارنے لگی۔ نئے تجربات منتظر تھے۔
اویس اب کراچی میں تھے، جہاں زندگی دوڑ رہی تھی۔ میٹھارام ہاسٹل میں ڈیرا ڈالا۔ ڈی جے کالج میں پری میڈیکل کے مضمون سے وہ الجھتے رہے۔ کالج میگزین بھی نکالا۔ اِسی کے طفیل باچا خان، غوث بخش بزنجو اور دیگر سیاسی شخصیات سے رابطہ ہوا۔ کرکٹ نے بھی دیوانہ بنائے رکھا۔ کراچی کے تمام میدانوں میں کرکٹ کھیلی۔
کسی مغربی درس گاہ کا حصہ بننے کی خواہش تھی، مگر اُسی زمانے میں بہن کے انتقال کا سانحہ پیش آگیا، جس سے ابھرنے میں خاصا وقت لگا۔
سائنس تج کر آرٹس کی جانب آگئے۔ یہ شعبہ مزاج کے قریب تھا۔ یاد ہے، اسکول میں ایک مضمون لکھا تھا، موضوع تھا؛ قدرتی آفات۔ تاریخی ذائقے کے حامل، ادبی پیرائے میں لکھے اُس مضمون پر ’’صفر‘‘ ملا، البتہ استاد نے دو نصیحتیں کیں: ’’سائنس کبھی مت پڑھنا، اور لکھنا کبھی مت چھوڑنا۔‘‘ چاہتے تو وہ بھی یہی تھے۔ من کی مانی۔ پرائیویٹ امیدوار کے حیثیت سے گریجویشن کرنے کے بعد وہ جامعہ کراچی کا حصہ بن گئے۔ 90ء میں تاریخ کے مضمون میں ماسٹرز کیا۔ بہ طور طالب علم خاصے سرگرم رہے۔
٭ آپ تو کہانی کار ہیں!
قصّہ گو کوچۂ صحافت میں
گھر والوں کے اصرار پر مقابلے کا امتحان دیا۔ پاس ہوگئے، مگر وہ بیل منڈھے نہیں چڑھی۔ ہوا یوں کہ نظر سے اُن کی ’’دی نیوز‘‘ کا اشتہار گزرا۔ اخبار کو رپورٹرز درکار تھے۔ ایڈیٹر اُن دنوں غازی صلاح الدین ہوا کرتے تھے۔ اویس سیدھے اُن کے پاس پہنچ گئے۔ بتاتے ہیں،’’اُنھوں نے مجھ سے پوچھا؛ آپ کیا کرنا چاہتے ہیں؟ ہم نے کہا؛ لکھنا چاہتے ہیں۔ کہنے لگے؛ کس موضوع پر لکھیں گے؟ ہم نے جواب دیا؛ لوگوں پر لکھیں گے۔ بس زندگی بھر یہی کیا۔ لوگوں پر لکھا۔‘‘
ایڈیٹر کی تجربہ کار نظر نے اویس کو پرکھ لیا۔ جنوری 91ء میں وہ ساڑھے تین ہزار روپے ماہ وار پر ملازم ہوگئے۔ پہلی اسٹوری کوڑھ کے دو مریضوں سے متعلق تھی، جنھیں محبت نے رشتۂ ازدواج میں باندھ دیا۔ لڑکی افغانی، لڑکا پاکستانی۔ اُس کہانی کا تعاقب کرتے ہوئے قابل احترام اور قابل تقلید سماجی کارکن، ڈاکٹر روتھ فائو سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔ غازی صاحب نے کہانی کی طرز پر لکھی اِس رپورٹ کو خوب سراہا۔ کہا:’’آپ کو کہانی کار ہیں!‘‘
سینئر صحافی، عمران اسلم کی سرپرستی بھی حاصل رہی۔ حوصلہ افزائی کام آئی۔ فیچرز کی جانب رجحان رہا۔ ایڈز کے مریضوں، ہم جنس پرستوں پر کام کیا۔ کراچی میں جاری آپریشن ’’کور‘‘ کیا۔ ’’نیوز لائن‘‘ میں بھی اُن کی رپورٹس باقاعدگی سے شایع ہوتی رہیں۔ اُن کی رپورٹنگ کی طرز پر چند لوگوں نے ناک بھوں بھی چڑھائی، مگر قارئین کا ردعمل مثبت رہا۔ بین الاقوامی جرائد اور اخبارات میں بھی رسائی حاصل کی۔ ’’خلیج ٹائمز‘‘، ’’ٹائمز آف انڈیا‘‘ اور ’’آئوٹ لک‘‘ میں لکھتے رہے۔ اُسی زمانے میں محمد حنیف، حسن مجتبیٰ، وسعت اﷲ خان سے دوستی ہوئی، جو قائم ہے۔ بعد میں بی بی سی میں بھی اُن کے ساتھ کام کیا۔ احمد شاہ بھی حلقۂ یاراں میں شامل ہیں۔ ممتاز سندھی شاعر، حسن درس اور معروف صحافی، مصدق سانول اور مسعود عالم کا نام بھی دوستوں کی فہرست میں رہا، جن کے انتقال پر گہرے صدمے سے گزرے۔
٭ اے ایف پی کی یادیں
نئے امکانات انھیں پکارنے لگے۔ کچھ انوکھا کرنے کی خواہش من کے بَن میں ہمک رہی تھی۔
95ء میں کہانی میں موڑ آیا۔ اویس اے ایف پی کا حصہ بن گئے۔ اگلے برس اُس کے بیوروچیف ہوگئے۔ وہاں نئے رجحانات متعارف کروائے۔ کراچی میں جاری خوں ریزی ان کی رپورٹس کا موضوع بنی رہی۔
کچھ برس بعد افغانستان کا رخ کیا۔ بھرپور تجربہ رہا وہ۔ اے ایف پی ہی کی جانب سے سری لنکا جانا ہوا۔ تامل ٹائیگرز اور حکومت کے درمیان جاری تصادم کو ’’کور‘‘ کیا۔ برما مسائل میں گِھرا تھا، مہاجرین کے قافلے تھائی لینڈ پہنچ رہے تھے۔ برما میں داخل نہیں ہوسکے، تو اس کی سرحد پر ڈیرا ڈال لیا۔ اُس کہانی کا احاطہ کیا۔ پھر ویت نام کا رخ کیا، جہاں تبدیلیوں کی ہوا چل پڑی تھا۔ کمبوڈیا میں Khmer Rouge (کمیونسٹ عسکریت پسند تنظیم) کے راہ نمائوں پر Killing Fields (خانہ جنگ کے بعد 75ء تا 79ء ہونے والی قتل و غارت گری) کا مقدمہ چل رہا تھا، اُس کی رپورٹنگ کی۔
٭ بی بی سی کے دن
2000 میں وہ بی بی سی اردو سروس سے جُڑ گئے۔ انگریزی سروس کے لیے بھی لکھتے رہے۔ اسی زمانے میں اسرائیل کا رخ کیا۔ 9/11 کے بعد دو ماہ پشاور میں گزرے۔
وطن لوٹنے کی خواہش تھی۔ لندن جی بھر کر گھوم چکے تھے، سو رومنگ پروڈیوسر کی حیثیت سے پاکستان تبادلہ کروا لیا۔ کچھ عرصے یہاں کام کیا۔
بی بی سے علیحدگی کے بعد فری لانسر کی حیثیت سے ’’ٹائم میگزین‘‘ اور ’’گارجین‘‘ کے لیے لکھتے رہے۔ پھر امریکا کے معتبر اخبار ’’کرسچن سائنس مانیٹر‘‘ سے بہ طور خصوصی نمایندہ منسلک ہوگئے۔ دو برس اُس سے نتھی رہے۔ ذمے داریاں قبائلی علاقوں کی سمت لے گئیں۔ وانا، میران شاہ، پارہ چنار، مہمند ایجینسی میں وقت گزارا۔ جانتے تھے کہ افغانستان پر امریکی حملے کے اثرات اُن ہی علاقوں میں ظاہر ہوں گے۔ وقت نے اُن کے خیال کو دُرست ثابت کیا۔
٭ وقت کے ساتھ دوڑ
2005 میں ایک پرائیویٹ چینل سے بہ طور ڈائریکٹر نیوز منسلک ہوگئے۔ فیصلے کا سبب الیکٹرانک میڈیا کا بڑھتا اثر اور نئے تجربے کی آرزو تھی۔ وہاں ٹیم تشکیل دی۔ بلدیاتی انتخابات بڑی خوبی سے کور کیے۔ زلزلے سے جڑی الم ناک کہانیاں بیان کیں۔
ایک بڑے میڈیا گروپ نے انگریزی چینل لانے کا فیصلہ کیا، تو اُنھیں پیش کش کی، جسے اُنھوں نے قبول کیا۔ وہ چینل کبھی لانچ نہیں ہوسکا، جس کا سبب پرویزمشرف کی نافذ کردہ ایمرجینسی کو قرار دیتے ہیں۔ وہاں سے نکلے، تو لاہور کے ایک پرائیویٹ چینل میں کلیدی عہدہ سنبھالا۔ پھر کچھ عرصے کا وقفہ لیا، مگر آرام کرنے کے بجائے ’’کرسچن سائنس مانیٹر‘‘ اور ’’وال اسٹریٹ جرنل‘‘ کے لیے مضامین لکھتے رہے۔ 2011 میں اُسی چینل میں ہیڈ ہوگئے، جہاں سے الیکٹرانک میڈیا کا سفر شروع کیا تھا۔ گذشتہ برس کے اواخر میں اُس سے الگ ہوئے۔
اویس کے بہ قول مختلف اداروں کی جانب سے انھیں پیش کش ہوئی ہے، مگر فی الحال آرام کرنے کے موڈ میں ہیں۔ ’’بہت سی کتابیں پڑھنی ہیں۔ لکھنے کا بھی ارادہ ہے۔ پھر دوستوں سے ملنا ہے، گھوما پھرنا ہے۔ پھر دیکھیں گے۔‘‘
٭ انگریزی چینلز کی غلط ’’ریسیپی‘‘
خیالات کی جھلکیاں
الیکٹرانک میڈیا کا بڑھتا اثر، اُس کا مستقبل زیر بحث آیا، تو کہنے لگے،’’گہرائی لکھے ہوئے الفاظ میں ہوتی ہے، یعنی پرنٹ میڈیا میں۔ مگر زیادہ اثر تصویر یا ’ویژل‘ کا ہوتا ہے۔ الیکٹرانک میڈیا کا ہمارے ہاں مستقبل روشن ہے، مگر چینلز کو چادر دیکھ کر پائوں پھیلانے ہوں گے۔‘‘
پاکستان میں انگریزی چینلز کے تجربے کو کام یابی نہیں ملی۔ اِس کی وجہ اُن کے نزدیک غلط ’’ریسیپی‘‘ تھی۔ ’’اگر آپ اردو چینل کی ’ریسیپی‘ کے ساتھ انگریزی چینل شروع کریں گے، تو وہ کام یاب نہیں ہوگا۔ آپ کو ’ٹارگیٹ آڈینس‘ سامنے رکھتے ہوئے پروگرام بنانے ہوں گے۔ انگریزی چینل کو عالمی دنیا اور پاکستان کے درمیان پُل کا کردار ادا کرنا تھا۔ دنیا بھر کی توجہ اِس خطے پر مرکوز تھی، خبریں یہیں جنم لے رہی تھیں۔ تو یہ ذریعہ بہت کام آتا، مگر ایسا نہیں ہوسکا۔ اس کام کے لیے ہمیں عالمی دنیا کے تقاضے پیش نظر رکھنے ہوں گے۔ پاکستان کو دنیا کے سامنے پیش کرنے لیے حکمت عملی وضع کرنی ہوگی۔‘‘
٭ روشن خیال حلقے کم زور ہورہے ہیں
آج پاکستان صحافیوں کے لیے خطرناک ترین ملک تصور کیا جاتا ہے، اِس بات کا اُنھیں دُکھ ہے۔ عدم برداشت، بڑھتی عسکریت پسندی اور گھٹن کو وہ اِس کا بنیادی سبب گردانتے ہیں۔ ’’ادیب، شاعر، مصور، صحافی؛ اِن روشن خیال حلقوں کو کم زور کیا جارہا ہے۔ اظہار پر قدغن سے معاشرے میں گھٹن پیدا ہورہی ہے۔ اور یہ گھٹن موت سے بدتر ہے، کیوں کہ آپ زندہ ہیں، اور سانس لے رہے ہیں۔‘‘
پاکستان کے حالات زیربحث آئے، تو اپنے اندیشوں کا ذکر کیا۔ اِس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ رجعت پسندوں کو تسلیم کر لیا گیا ہے۔ اُن کے نزدیک سیاسی اختلافات پر تو بات ہوسکتی ہے، حقوق کی جنگ بھی قابل فہم ہے، مگر یہاں نظریات کی جنگ ہے، جہاں مکالمے کا امکان دم توڑ دیتا ہے۔
٭ زندگی کا سب سے خوش گوار لمحہ
26 نومبر 98ء کا دن، جب وہ نازش بروہی کے ساتھ کراچی میں ہونے والا ایک تھیٹر پلے دیکھنے گئے، زندگی کا حسین ترین دن تھا۔ دو برس بعد دونوں کی شادی ہوگئی۔ نازش بروہی ممتاز قانون داں، اے کے بروہی اور نام وَر ادیب اور مورخ، علی احمد بروہی کی بھتیجی ہیں۔ سماجی کارکن کی حیثیت سے سرگرم ہیں۔ شورش زدہ علاقوں میں بسنے والی خواتین اُن کی ریسرچ کا خاص موضوع رہیں۔ اخبارات و رسائل میں اُن کے مضامین تواتر سے شایع ہوتے ہیں۔ ایک بیٹی ہے اُن کی، نام جس کا رِسا ہے۔ یہ لاطینی لفظ ہے، جس کے معنی مسکراہٹ کے ہیں۔
٭ مارکیز اور منٹو
مطالعے کے رسیا، اویس توحید منٹو اور گبرئیل گارسیا مارکیز کے مداح ہیں۔ منٹو کے افسانہ آج بھی انھیں بامعنی لگتے ہیں۔ مارکیز سے متعلق کہتے ہیں؛ قلم ان کا اتنا پُرقوت ہے کہ ترجمے کے بعد بھی تحریر میں چاشنی برقرار رہی۔ عبداﷲ حسین کا ناول ’’باگھ‘‘ بہت اچھا لگا۔ شعرا میں غالب کا نام لیتے ہیں۔ فلمیں بہت شوق سے دیکھتے ہیں۔ ایرانی سنیما کو سراہتے ہیں۔ بھارتی اداکاروں میں امیتابھ بچن اور نصیرالدین شاہ کا تذکرہ کرتے ہیں۔ طفیل نیازی کی آواز اچھی لگی۔
٭ میں تو ایک قصّہ گو ہوں
اویس خود کو ایک قصّہ گو سمجھتے ہیں۔ یہی تیکنیک رپورٹنگ کے میدان میں برتی۔ اپنے اندر کے کہانی کار کو دریافت کرچکے ہیں۔ اب اسے دنیا کے سامنے پیش کرنے کا ارادہ ہے۔ چند افسانے لکھے ہیں، نوک پلک ان کی سنوار رہے ہیں۔ اس میدان میں انگریزی اور اردو؛ دونوں ہی زبانیں برتیں گے۔ یعنی مستقبل کتاب کی اشاعت سے وابستہ ہے۔
٭ ’’انگریزی نما‘‘ آدمی کی شستہ اردو
رہے انگریزی صحافت میں، اِسی زبان میں اظہار خیال کیا، مگر اردو پر بھی خوب گرفت ہے۔ بہت بہائو ہے قلم میں۔ کہتے ہیں،’’ہمارے بارے میں پہلا تاثر یہی ہوتا ہے کہ انگریزی صحافت سے ہیں، اردو نہیں جانتے ہوں گے۔ جب میں 2005 میں الیکٹرانک میڈیا میں آیا، تو اسکرپٹ میں غلطیاں پکڑنی شروع کیں۔ لوگوں سے کہا کہ اخباری زبان کے بجائے اچھی زبان لکھیں۔ اس پر لوگ حیران ہوئے کہ یہ تو ’’انگریزی نما‘‘ آدمی ہے، اس کا اردو سے کیا تعلق (قہقہہ)۔ اردو تو بچپن ہی سے پڑھ رہے ہیں، یہی زبان بولی، اسی میں خواب دیکھے۔
٭ ایریل شیرون کا آگ بگولا ہونا
اسرائیل کا سفر
دنیا کی قدیم ترین سرزمین پر انتفادہ کا دوسرا دور شروع ہوگیا۔
ٹینکوں کا سامنا کرتے فلسطینیوں کے پاس فقط غلیل تھی، جس کے استعمال کی پاداش میں اکثر اُنھیں موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا۔اسرائیل میں عام انتخابات ہونے کو تھے۔ اُنھیں کور کرنے کی ذمے داری اویس کو سونپی گئی۔ بہ مشکل ’’راہ داری‘‘ کے ذریعے اسرائیل میں داخلہ ممکن ہوا۔ جنوری 2001 میں لندن سے تل ابیب پہنچے۔ وہاں سے یروشلم کا رخ کیا۔ اندازہ تھا کہ پھر یہاں آنے کا موقع نہیں ملے گا، سو انتخابی سرگرمیوں کے ساتھ اسرائیل فلسطین تنازعے پر بھی نظریں مرکوز رکھیں۔ ہوٹل میں ٹِک کر نہیں بیٹھے۔ کہانیاں کھوجتے رہے۔ ایک مقامی صحافی کو بہ طور مترجم ساتھ کر لیا۔ رملہ میں اویس پر عجیب واقعہ بیتا۔ اسرائیلی فوج کی فائرنگ سے ایک فلسطینی شہید ہوگیا تھا۔ اس کے جنازے کو فلسطینی جھنڈے میں لپیٹ کر احتجاج کیا جارہا تھا۔ وہ اپنے مترجم کے ساتھ وہاں موجود تھے۔ جب اسرائیلی فوج نے مظاہرین پر شیلنگ شروع کی، ربڑ کی گولیاں برسائیں، تو بھگڈر مچ گئی، مگر اویس جہاں تھے، وہیں کھڑے رہے۔
زمین نے ان کے پیر پکڑ لیے تھے۔ سکتے کی کیفیت تھی۔ یہی تو وہ منظر تھا، جسے ٹی وی دیکھتے ہوئے وہ اور اُن کی نسل جوان ہوئی تھی۔ فلسطینی صحافی بازو سے کھینچتے ہوئے وہاں سے نکال کر لایا۔جمعے کے روز مسجد اقصیٰ میں جانا ہوا۔ انوکھا تجربہ تھا وہ۔ وہاں ریکارڈنگ کی۔ یاسر عرفات اور حماس کے رانمائوں کے ساتھ ایرل شیرون کا بھی انٹرویو کیا۔ قدیم بستی بیت اللحم بھی جانا ہوا۔ انتخابی مہم کے دوران اویس نے ایریل شیرون سے بات چیت کی تھی۔ جب کہا؛ آپ کو صبرا اور شتیلا کیمپ کا قاتل تصور کیا جاتا ہے، تو وہ آگ بگولا ہوگئے۔ اِس جملے کے بعد گفت گو مختصر ہی رہی۔یاسرعرفات اُن کے بہ قول، کرشماتی شخصیت کے مالک تھے۔ دوران ملاقات اویس نے اُنھیں خاصا پُرامید پایا۔ ’’اُن کا کہنا تھا کہ مسلم ممالک میں جو جدوجہد اور تحریکیں چل رہی ہے، وہ ہر صورت سیاسی نوعیت کی ہونی چاہییں۔ مسلمان شدت پسندی اور مسلح جدوجہد سے نتائج حاصل نہیں کرسکتے۔‘‘
٭ قندھار کا ایک مندر
افغانستان میں رپورٹنگ کا تذکرہ
قریبی سرزمین پر ایک بڑی خبر جنم لینے کو تھی، جو اویس توحید کو اپنی جانب کھینچ رہی تھی۔ یہ اکتوبر 98ء کا تذکرہ ہے۔ اقوام متحدہ اور مُلا عمر کے درمیان رابطوں کی بازگشت تھی۔ افغانستان کی رکنیت ان دنوں عالمی مباحث کا گرما گرم موضوع تھا۔ اِس معاملے کی کشش اُنھیں افغانستان لے گئی۔ سہ پہر چار بجے کراچی سے کوئٹہ روانہ ہوئے۔ اگلی دوپہر وہ قندھار میں مُلا عمر کے گھر کے سامنے تھے۔ مُلا برادر، متوکل اور دیگر طالبان راہ نمائوں سے اُن کی ملاقات ہوئی۔ جینز میں ملبوس وہ شہر میں پھرتے رہے۔ مذہبی پولیس دیکھی، جو ہنٹر لیے گھوم رہی تھی، اور اُن کے لباس پر کاٹ دار تبصرے کیا کرتی تھی۔ شٹل کاک برقعے میں عورتیں دیکھیں۔قندھار کے احمد شاہ ابدالی چوک کا بھی رخ کیا۔ وہاں اُنھیں ایک مندر نظر آیا۔ پتا چلا کہ وہاں ہندو اور سکھ برادری آباد ہے۔ اس اطلاع نے تجسس سے بھر دیا۔ اُن سے ملاقات کی۔ اُن کے طرز زندگی اور مسائل کا جائزہ لیا۔ اُن کے لباس پر پیلے رنگ کی کترن لگی دیکھی، تو اِس بابت استفسار کیا۔ پتا چلا، یہ انتظامیہ کا حکم ہے۔ بہ قول اویس کے،’’جواز یہ تھا کہ ایسا اقلیتوں کی حفاظت کے لیے کیا گیا ہے۔ ہم نے تاریخ پڑھ رکھی تھی۔
فوراً ذہن نازیوں کی طرف گیا، جنھوں نے یہودیوں کو ’یلو اسٹار‘ پہنا دیے تھے۔‘‘نسلی امتیاز کے گرد گھومتی اُس اسٹوری نے ہل چل مچا دی۔ مذاکرات پر اعتراضات ہونے لگے۔ حالات بگڑے، تو خیرخواہوں کے مشورے پر وہاں سے چلے آئے، مگر بعد میں درجنوں بار افغانستان جانا ہوا۔ انتہائی مشکل حالات میں کام کیا۔ وہاں کے خانہ بدوشوں پر ایک بھرپور اسٹوری کی۔ شمالی اتحاد کے راہ نمائوں کے بھی انٹرویوز کیے۔موت کو بھی بے حد قریب سے دیکھا۔ ہرات میں طالبان کے قافلے پر مخالف گروہوں نے بھرپور حملہ کیا۔ بم اور گولیوں کی بوچھاڑ نے 26 جانیں لے لیں۔ اویس اُس قافلے میں موجود تھے۔ وہ ہیبت ناک تجربہ ذہن میں محفوظ ہے، مگر صحافتی سفر میں رکاوٹ نہیں بنا۔ رپورٹنگ کا سلسلہ جاری رکھا۔ اگلا تجربہ مزار شریف میں منتظر تھا، جہاں وار لارڈز کی بدلتی وفاداریوں نے گھاتک شکل اختیار کر لی۔ رشید دوستم کے جنگ جوئوں نے دھاوا بول دیا۔ ہزاروں افراد اپنی جان سے گئی۔ اویس کے بہ قول، گولیوں کی آواز سنتے ہی وہ زمین پر لیٹ گئے تھے۔ نہ جانے کب تک یہ سلسلہ جارہا۔ جب اٹھے، تو چاروں طرف لاشیں ہی لاشیں۔ خود بھی خون میں لت پت۔ پہلا خیال تو یہی آیا کہ شاید انھیں بھی گولی لگی ہے، مگر قسمت اُن پر مہربان تھی۔9/11 کے بعد اِس خطے میں اُن کا تجربہ بی بی سی اور دیگر غیرملکی خبررساں اداروں کے خوب کام آیا۔
٭ پھر لسانی فتنے جنم لیں گے
امریکی انخلا اور افغان انتخابات
عسکریت پسندی اور مسئلہ افغانستان پر اُن کا خاصا کام ہے، اِس ناتے اویس سے امریکی انخلا اور افغان انتخابات کی بابت پوچھا۔ کہنے لگے،’’ہمیں دیکھنا ہوگا کہ اختیار کی منتقلی کس سطح پر ہوگی۔ میرے خیال میں امریکی بیس سے تیس ہزار فوجی افغانستان میں چھوڑ کر جائیں گے۔ سوال یہ ہے کہ اُن کے اور افغان فورسز کے درمیان کس قسم کا رابطہ ہوگا۔ پھر ایک سیاسی ’ٹرانژیکشن‘ ہوگی۔ کیا انتخابات نتیجہ خیز ثابت ہوں گے؟ میں ایسا نہیں سمجھتا۔ پھر سے لسانی فتنے جنم لیں گے۔ ازبک، تاجک اور طالبان کے درمیان تصادم ہوگا۔ اِس معاملے میں بہت سے ’اگر، مگر‘ ہیں۔ اُن کی معیشت بیرونی امداد پر انحصار کر رہی ہے، اب امریکی انخلا کے بعد کیا بیرونی دنیا امداد دی گی؟ مجھے ایسا نہیں لگتا۔ تو حالات خاصے مشکل ہیں۔‘‘
٭ دھماکے کی خبر میں کل کے اخبار میں کیوں پڑھنا چاہوں گا؟
پرنٹ میڈیا کے لیے چند تجاویز
اِس خیال سے کُلی طور پر تو متفق نہیں کہ پاکستان کا پرنٹ میڈیا، الیکٹرانک میڈیا کے نرغے میں آگیا ہے، البتہ اخبارات میں جدید رجحانات متعارف کروانے کی ضرورت پر زور دیتے ہیں۔ ’’الیکٹرانک میڈیا کے بڑھتے اثر کا یہ مطلب نہیں کہ پرنٹ میڈیا غیرمتعلقہ ہوگیا، مگر ہمیں تبدیلی کی ضرورت ہے۔ مغرب میں بھی یہ ’فیز‘ آیا تھا۔ اُنھوں نے ویب سائٹ کو ایونٹ رپورٹنگ کے لیے مخصوص کردیا، اور اخبارات میں رپورٹنگ کے انداز کو بدل دیا۔ اب اگر کراچی میں ایک دھماکا ہوتا ہے، تو اِس کے بارے میں مَیں کل کے اخبار میں کیوں پڑھنا چاہوں گا؟ ہر اخبار میں ایک جیسی باتیں ہوں گے۔ ہاں، اگر کوئی نیا زاویہ ہوگا، مثلاً دھماکے کی وجہ سے اسکول دو دن کے لیے بند ہوگئے، ایک خانہ بدوش بچہ زخمی ہوگیا، لوگوں کی نفسیات پر اثر پڑا، تو میں دل چسپی لوں گا۔‘‘
خواہش مند ہیں کہ اخبارات قارئین کے ذہن کو سمجھیں، ڈیجیٹل میڈیا سے خود کو ہم آہنگ کریں۔ رپورٹنگ میں وہ قصّہ گوئی کو ضروری خیال کرتے ہیں۔ ’’ہمارے ہاں کئی ایسے صحافی ہیں، جو ادبی ذوق رکھتے ہیں، مگر اپنے ادبی مزاج کو اُنھوں نے صحافت سے الگ کر رکھا ہے، اِس رکاوٹ کو عبور کرنا پڑے گا۔ ہمیں صحافت اور ادب کو قریب لانا ہوگا۔ میں نے اپنے صحافتی کیریر میں ایسا ہی کیا۔‘‘
٭ وہ جادوئی مسکراہٹ
پیشہ ورانہ سفر میں جن اُجلی شخصیات سے ملاقات ہوئی، اُن میں مدرٹریسا بھی شامل تھیں۔ یہ 91ء کا ذکر ہے۔ وہ پاکستان کے دورے پر آئی ہوئی تھیں۔ پہلے ایئرپورٹ پر اویس کی اُن سے ملاقات ہوئی۔ بعد میں تفصیلی انٹرویو کیا۔ کہتے ہیں،’’وہ بڑی ہی Humble خاتون تھیں۔ بڑے سے بڑا سوال کرلیں، وہ مسکراتے ہوئے مختصر جواب دیتیں۔ ایدھی صاحب سے متعلق بات کرتے ہوئے جب میں نے ان کے لیے ’فادر ٹریسا‘ کی ترکیب استعمال کی، تو وہ مسکرا دیں۔ اُن کا کہنا تھا کہ جو بھی انسانیت کی فلاح کے لیے کام کر رہا ہے، وہ قابل ستایش ہے۔‘‘