دنیا کے عظیم مصلح اور سیاسی راہ نما نیلسن منڈیلا نے ایک بار کہا تھا کہ ’’میں نے اپنی زندگی میں سیکھا ہے کہ بہادری اور ہمت و جرأت، خوف کی غیرموجودگی کا نام نہیں ہے بلکہ خوف پر قابو پانے کا نام ہے۔‘‘
واضح رہے کہ جب کوئی خطرہ اچانک سے ہمارے سَر پر منڈلانے لگے یا کسی افتاد ٹوٹ پڑنے کا اندیشہ لاحق ہو تو ہم شدید ’’خوف‘‘میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ یعنی کسی خاص صورت حال یا شئے کے متعلق ہم جتنا زیادہ متذبذب یا انجان ہوتے ہیں، اُس قدر ہی اُس واقعے یا شئے سے خوف زدہ ہوتے اور ڈر جاتے ہیں۔
ماہرین نفسیات کے مطابق اکثر کسی بھی خوف یا ڈر کے شکار لوگوں پر ایک طویل عرصے بعد منکشف ہوتا ہے کہ وہ جس چیز سے خوف زدہ تھے، وہ تو کوئی ایسا حقیقی خطرہ سرے سے تھا ہی نہیں کہ جس سے خوف زدہ ہوا جاتا۔ لیکن بعض اوقات تشویش، پریشانی اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے خوف کی بہت واضح اور معقول وجوہ بھی ہوتی ہیں، جنھیں نظرانداز نہیں کرنا چاہیے۔ اس مناسبت سے شاعر عبدالمتین نیاز نے کیا خوف شعر کہا ہے کہ
انتشار و خوف ہراِک سَر میں ہے
عافیت سے کون اپنے گھر میں ہے
زیرنظر مضمون میں انسانوں میں کچھ عجیب و غریب ، منفرد اور مضحکہ خیز قسم کے ’’خوف ‘‘ اور ’’ڈر ‘‘ کے نتیجے میں پیدا ہونے والی کیفیات کا مختصر سا احوال پیش خدمت ہے۔ اس حسن ظن کہ ساتھ قارئین دورانِ مطالعہ بالکل بھی خوف زدہ نہیں ہوں گے۔
٭پیسے کا خوف
’’جناب ! اگلے ماہ مجھے 2 تاریخ کو پوری تنخواہ دے دیجیے گا، کیوںکہ مجھے اُس دن رقم کی شدید ضرورت ہے، یہ یاددہانی اس لیے کروا رہا ہوں کہ آپ نے پچھلے ماہ 10 تاریخ کو تنخواہ دی تھی۔‘‘ کاشف نے اپنے دفتر کے کیشیئر سے استدعا کرتے ہوئے کہا۔
’’بھئی پچھلے ماہ فیکٹری میں کام ذرا مندی کا شکار تھا، اس لیے تنخواہوں کی ادائیگی میں تاخیر ہوگئی تھی ۔ بہرحال اگر تمہیں پیسوں کی سخت ضرورت ہے تو تمہیں اگلی ماہ کی تنخواہ ابھی دے دیتا ہوں۔‘‘ کیشئر نے میز کی دراز سے پیسے نکالتے ہوئے جواب دیا۔
’’نہیں جناب! آج تو مہینے کی 20 تاریخ ہے، مجھے رقم اگلے ماہ کی 2 تاریخ کو درکار ہوگی۔‘‘ کاشف نے گھبرا تے ہوئے کہا۔
’’بھئی! اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ تمہیں پیسے آج ملتے ہیں یا پھر12 روز بعد، تم یہ لو اپنی اگلے ماہ کی پوری تنخواہ اور گھر جاکر رکھ دو، اور اگلے ماہ کی 2 تاریخ کو استعمال کرلینا۔‘‘ کیشیئر نے تنخواہ کاشف کی جانب بڑھاتے ہوئے جواب دیا۔
’’نہیں۔۔۔نہیں۔۔۔ میں یہ رقم ابھی نہیں لے سکتا، مجھ سے 2 تاریخ تک یہ پیسے سنبھالے نہیں جائیں گے۔‘‘ کاشف نے کیشیئر کے پکڑائے ہوئے پیسے واپس ایسے میز پر پھینکے جیسے اُن میں نوکیلے کانٹے لگے ہوں۔
’’کیا تم صرف 25000 ہزار روپے کی رقم 12 یوم تک اپنے گھر میں سنبھال کر نہیں رکھ سکتے، آخر پیسے تو تمہارے ہی ہیں۔‘‘ کیشیئر نے حیرانی سے کہا۔
’’جناب! بالکل بھی نہیں رکھ سکتا۔۔۔کسی صورت میں بھی نہیں۔۔۔یہ مجھ سے خرچ ہوگئے تو پھر میں 2 تاریخ کو کیا کروں گا۔۔۔میں یہ پیسے آپ سے 2 تاریخ کو ہی لوں گا۔۔۔ نہ ایک دن پہلے نہ ایک دن بعد۔‘‘ یہ کہہ کر کاشف پریشانی کے عالم میں اتنی عجلت میں دفتر سے باہر نکلا، جیسے اُسے خوف ہو کہ اگر وہ ایک لمحہ بھی مزید رُکا تو پیسے اُسے پکڑ لیں گے، جب کہ کیشیئر ہکا بکا کھڑا یہ سوچنے لگا، میز پر بکھرے ہوئے پیسوں کے ساتھ کہیں سنپولیے تو لپٹے ہوئے نہیں ہیں، جو کاشف اُن سے خوف زدہ ہوکر بھاگ گیا ہے۔
آپ مانیں یا نہ مانیں لیکن سچ یہی ہے کہ دنیا میں بعض افراد ایسے بھی پائے جاتے ہیں جنہیں مال و دولت کی آمد خوشی سے زیادہ خوف میں مبتلا کردیتی ہے۔ واضح رہے کہ ’’پیسے کا خوف‘‘ سائنسی اصطلاح میں ’’پلوٹو فوبیا‘‘(Plutophobia) کہلاتا ہے۔ قدیم یونانی اساطیری داستانوں میں پلوٹو کو مال و دولت کا دیوتا قرار دیا گیا ہے۔
اس نسبت سے ’’پلوٹو فوبیا ‘‘ کا لفظ وجود میں آیا، جسے ایسے افراد کے لیے بطور خاص نتھی کردیا جاتا ہے، جو ’’پیسے کا خوف‘‘ جیسی مضحکہ خیز نفسیاتی بیماری میں مبتلا ہوں۔ عموماً ’’پیسے کا خوف‘‘ امیر لوگوں کا ڈر ہے لیکن بعض اوقات یہ مرض انتہائی غریب افراد کو بھی اپنا شکار بنالیتا ہے۔ خاص طور پر ایسے غریب افراد جو فضول خرچی کی عادت کا شکار ہوں۔ وہ زیادہ پیسے اپنے پاس نہیں رکھ سکتے، کیوںکہ انہیں اندیشہ ہوتا ہے کہ اپنے پاس موجود پیسے کو گنوا دیں گے اور یوں پیسے خرچ کرنے کا ڈر اُن کے لیے ایک ایسا مستقل آزار یا بیماری کی صورت اختیار کرلیتا ہے، جس میں انہیں زیادہ پیسے کو دیکھ کر بھی خوف آنے لگتا ہے۔
دوسری طرف امیر یا دولت مند افراد کے لیے اس مرض کی نوعیت ذرا سی مختلف ہوتی ہے۔ یعنی جیسے ’’پیسے کا خوف‘‘ کے آزار کا شکار غریب شخص اچانک بہت زیادہ پیسے دیکھ کر ڈر جاتا ہے تو وہیں امیر افراد کے ہاتھ سے روپیہ، پیسا نکلنا شروع ہوجائے تو وہ شدید خوف زدہ اور افسردہ ہوجاتے ہیں۔ بعض اوقات تو دولت مند افراد کے لیے ’’پیسے کا خوف‘‘ جان لیوا بھی ثابت ہوسکتا ہے۔ یعنی اگر امیر افراد ایک بار ’’پیسے کے خوف ‘‘ جیسے موذی نفسیاتی مرض کا شکار ہوجائیں تو ان کے لیے پیسے کمانے اور اسے جمع کرکے رکھنے کی عادتِ بد، اِن کی اچانک موت کا سبب بھی بن سکتی ہے۔
’’پلوٹوفوبیا ‘‘ بیماری کے موضوع پر ہونے والی بے شمار سائنسی تحقیقات کے نتائج سے معلوم ہوتا ہے کہ ’’پیسے کے خوف میں مبتلا دولت مند افراد پیسے کے نقصان کی جھوٹی خبر یا افواہ سن کر ہی اُس پر یقین کرلیتے اور تصدیق کی زحمت کیے بغیر اپنے دل و دماغ میں اتنی فکریں پال لیتے ہیں کہ اُس صدمے سے اُنہیں برین ہیمرج یا دل کا دورہ پڑ جاتا ہے اور وہ دولت کا ضیاع ہوجانے کے خوف کا شکار ہوکر اپنی ہنستی بستی زندگی کو ہی ضائع کردیتے ہیں۔
٭رنگ برنگے غباروں کا خوف
بچوں کی سالگرہ پر کیک اور موم بتیوں کے بعد جو تیسری شئے لازم و ملزوم سمجھی جاتی ہے وہ رنگ برنگے غبارے ہوتے ہیں۔ یہ ہی بات سوچ کر عمران بھی جب اپنی صاحبزادی، نورالعین حنا کی تیسری سال گرہ کا سازو سامان لیے گھر میں داخل ہوا تو وہ مکمل طور پر غباروں میں چھپا ہوا تھا۔
’’اتنے سارے غبارے خرید کر لانے کی کیا ضرورت تھی، زیادہ ہی تھا تو دو، چار غبارے لے آتے‘‘ بیگم نے اُسے دیکھتے ہوئے حیرانگی سے کہا ۔
’’بھئی، اتنے سارے غباروں کے بیچ جب ہماری بیٹی اپنی سال گرہ کا کیک کاٹے گی تو اُسے کتنی خوشی ہوگی ، بس یہی دیکھنے کے لیے میں نے آج غبارے والے سے تمام غبارے خرید لیے ہیں۔‘‘ بیگم کو اپنی فضول خرچی کی وضاحت دیتے ہوئے، عمران تیزی کے ساتھ کمرے میں داخل ہوا جہاں اُس کی بیٹی نورالعین حنا اپنے کھلونوں کے ساتھ کھیلنے میں مصروف تھی۔
عمران نے غبارے اپنی بیٹی کی جانب جوں ہی بڑھائے اُس نے زور زور سے رونا اور چیخنا چلانا شروع کردیا۔ عمران نے بچی کو بہلانے کے لیے جیسے ہی غبارے اُس کے مزید قریب کیے تو وہ مزید شدت کے ساتھ رونے لگی۔ عجیب مخمصے کی کیفیت میں عمران نے جیسے ہی غباروں کو اپنی بیٹی کی نظروں سے دُور کیا، وہ خاموش ہوگئی۔ بالآخر عمران پر منکشف ہوا کہ بچی کے ڈرنے اور رونے کا سبب کچھ اور نہیں اُس کے ہاتھ میں موجود غبارے ہیں۔
جی ہاں! جیسے اکثر بچے غبارے دیکھ کر خوشی سے جھومنے لگتے ہیں، وہیں ہماری دنیا میں بعض بچے ایسے بھی پائے جاتے ہیں، جنہیں غباروں سے ڈر لگتا ہے اور اُن کے بہت قریب اگر غبارہ لے کر جایا جائے تو وہ خوب زدہ ہوکر اِدھر اُدھر بھاگنے لگتے ہیں۔ حیران کن بات یہ ہے کہ غبارے سے ڈرنے والے بچوں میں سے کچھ ایسے بھی ضرور ہوتے ہیں جو پانی کے بلبلے، گیند، فٹبال اور دیگر گول اشیاء کو دیکھ کر بھی خوف زدہ ہوجاتے ہیں۔ ماہرین اس حیرت انگیز نفسیاتی بیماری کو طبی اصطلاح میں ’’گلوبو فوبیا‘‘(Globophobia) کہتے ہیں ۔ عموماً یہ بیماری 3 سے 8 سال کی عمر تک کے بچوں میں پائی جاتی ہے اور اچھی بات یہ ہے کہ لڑکپن کا دور شروع ہوتے ہی یعنی 9 یا 10 برس کی عمر میں زیادہ تر بچے اپنے اس عجیب و غریب خوف پر ازخود ہی قابو پالینے میں کام یاب ہوجاتے ہیں۔
دوسری طرف اس عجیب و غریب آزار کا شکار چند ایک بچے، جوان ہونے کے بعد بھی غبارے کے خوف سے نجات حاصل نہیں کرپاتے اور انہیں اپنی اس کم زوری پر قابو پانے کے لیے نفسیاتی معالج سے باقاعدہ علاج کروانا چاہیے۔
آخر بعض بچے غبارے سے کیوں خوف زدہ ہوتے ہیں؟ یہ سوال طویل مدت تک ماہرین نفسیات کے نزدیک بھی ایک پہیلی بنا رہا تھا لیکن اس نفسیاتی خوف کا شکار سیکڑوں بچوں کی کہانیاں سننے کے بعد اس سوال کا جواب تلاش کرلیا گیا۔ طبی ماہرین کے مطابق جب بچوں سے غبارے سے ڈرنے کی وجہ پوچھی گئی تو کم وبیش سب کا جس ایک جملہ پر اتفاق نظر آیا تھا کہ وہ کچھ اس طرح تھا کہ ’’وہ غبارے سے کمرے میں کھیل رہے تھے کہ اچانک انہیں لگا کہ غبارہ حرکت کرتے ہوئے اُن کا پیچھا کر رہا ہے یا کوئی ایسی پراسرار شئے غبارہ کے اندر موجود ہے جو اسے ادھر سے اُدھر دھکیل رہی ہے۔ اَب جیسے ہی غبارہ اُن کے سامنے آتا ہے تو انہیں لگتا ہے کہ وہ اُن کے ساتھ چپک جائے گا۔‘‘
واضح رہے کہ غبارے کے خوف میں مبتلا بچوں کے والدین کو نفسیاتی ماہرین نصیحت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’ایسے بچوں کے قریب غبارے لے جانے سے حتی الامکان گریز ہی کیاجانا چاہیے اور وقتاً فوقتاً ایسے کھلونے کھیلنے کے لیے بچوں کو دیے جائیں جو اپنی ظاہر ساخت میں گول ہوں لیکن غبارے نہ ہوں۔‘‘ دراصل بعض والدین سمجھابجھا کر اور باربار غبارے بچے کے پاس لاکر اُس کے دل و دماغ سے غبارے کا خوف نکالنے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن اس کے نتائج عموماً والدین کی توقع کے برعکس نکلتے ہیں اور بچہ بے خوف ہونے بجائے مزید غبارے کے ڈر کا شکار ہوجاتا ہے۔
٭رسی کا خوف
ہمارے قارئین نے ’’رسی کا سانپ بنالینا‘‘ والا محاورہ تو یقینا سُناہی ہوگا۔ ہمارے ہاں یہ محاورہ اُس وقت بولا جاتا ہے جب کوئی شخص کسی بے ضرر اور معمولی سی شئے کو اپنے لیے انتہائی ضرر اور نقصان کا باعث سمجھ لے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ جو بات ہمارے لیے صرف ایک محاورہ ہے، وہی واقعہ دنیا کے کچھ افراد کے نزدیک عین حقیقت کا درجہ رکھتا ہے۔
یوں جان لیجیے کہ دنیا میں بے شمار افراد ایسے بھی بستے ہیں جو رسی کو اپنی دانست میں حقیقی معنوں میں سانپ کی مانند ہی سمجھتے ہیں اور اگر اِن افراد کے سامنے کبھی رسی یا اس قبیل کی کوئی شئے مثلاً تار وغیرہ آجائے تو وہ شدید خوف زدہ ہوجاتے ہیں۔ حتٰی کے یہ لوگ رسی، تار کی آواز اور سائے سے بھی ڈرتے ہیں۔ ماہرین نفسیات اس خوف کو ’’لاینونو فوفیا ‘‘(Linonophobia) کا نام دیتے ہیں ۔ جس کا اُردو زبان میں ترجمہ تار کا خوف یا رسی کے خوف کے عنوان سے بھی کیا جاسکتا ہے۔
ویسے تو دنیا کے ہر ملک میں ہی ’’رسی کے خوف‘‘ میں مبتلا افراد پائے جاتے ہیں لیکن اس نفسیاتی مرض کا شکار زیادہ تر افراد کا تعلق مغربی ممالک سے ہی جُڑتا ہے۔ آخر ایسا کیوں ہے؟ فی الحال اس بابت تو ماہرین مکمل طور پر خاموش ہیں۔ لیکن ایک بات ضرور پوری طرح تحقیق سے ثابت ہوچکی ہے کہ ’’رسی کے خوف‘‘ کا شکار افراد کی خانگی اور اجتماعی زندگی شدید متاثر ہو کر رہ جاتی ہے، کیوںکہ یہ لوگ اپنے جوتے کے تسمے باندھتے ہوئے ڈرتے ہیں، کھڑکی اور دروازے پر لگے پردوں کی ڈوریاں کھینچنے سے گھبراتے ہیں، ٹیلی فون یا بجلی کی تاروں کے قریب نہیں جاتے۔
حد تو یہ ہے کہ اس خوف میں مبتلا خواتین سلائی کڑھائی جیسے گھریلو اُمور، جن میں اونی یا سوتی دھاگہ کا استعمال ہوتا ہے، انہیں انجام دینے سے بھی ڈرتی ہیں ۔ چوںکہ رسی جیسی اشیاء کی ہماری دنیا میں ہر جگہ بہتات ہے۔ اس لیے ’’رسی کے خوف‘‘ کے نفسیاتی مرض میں مبتلا افراد خود کو مکمل طور پر اپنے کمرے یا گھر تک محدود کرلیتے ہیں۔
بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ اَب تک اس سوال کا کوئی تسلی بخش تحقیقی جواب تلاش نہیں کیا جاسکا کہ آخر ’’رسی کا خوف ‘‘ بعض افراد کے ذہن و دماغ میں کیوں پیدا ہوجاتا ہے؟ حالاںکہ اس موضوع پر ہونے والی چند ایک تحقیقات میں اس جانب ضرور اشارہ کیا گیا ہے چند افراد میں یہ عجیب و غریب نفسیاتی مرض مورثی بھی ہوتا ہے۔ مگر ایسے مریض کے خاندان میں یہ خوف کیسے، کیوںکر اور کہاں سے آیا ہوگا؟ اس بابت ماہرین نفسیات یہ کہہ کر پھر ایک بڑی سی چپ سادھ لیتے ہیں کہ ’’اس ضمن میں مشاہدات و تجربات جاری ہیں جلد ’رسی کے خوف‘ کا سبب بننے والے محرکات اور وجوہات کا سراغ لگالیا جائے گا۔‘‘
٭نمبرز کا خوف
علم ریاضی کے باواآدم (Father of Mathamatics) کہلانے والے معروف حساب داں ’’فیثا غورث‘‘ کا علم ریاضی سے محبت اور عشق کا یہ عالم تھا کہ انہوں نے اپنی درس گاہ کے مرکزی دروازے کی پیشانی پر ایک اعلان واضح اور جلی حروف میں لکھواکر آویزاں کررکھا تھا، جس میں درج تھا کہ ’’جو شخص ریاضی سے عدم واقفیت رکھتا ہو، وہ اس درس گاہ میں داخل نہیں ہوسکتا۔‘‘
اعدادوشمار اور ریاضی سے ایسا عشق و محبت کرنے والے لوگ تو شاید آپ کو آج کے زمانے میں ڈھونڈنے سے بھی نہ ملیں۔ بہرحال علم ریاضی میں دل چسپی اور مہارت رکھنے والے افراد کی دورِجدید میں ماضی کے مقابلے میں خاطر خواہ تعداد پائی جاتی ہے، کیوںکہ سائنس، کمپیوٹر سائنس، انجینئرنگ، آرٹیفیشل انٹیلی جنس، بگ ڈیٹا اور ڈیٹا سائنسز جیسے علوم کا بنیادی ماخذ ہی اعداد وشمار اور علم ریاضی ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ ہم سب علم ریاضی کے عہد میں جی رہے تو غلط نہ ہوگا۔
لیکن کتنی حیرانی کی بات ہے کہ علم ریاضی کے بل بوتے پر نت نئے ایجادات و اختراعات کرنے والا انسان آج بھی اُسی طرح اعدادوشمار کے خوف میں مبتلا ہے، جیسے وہ ماضی میں کبھی اعداد کی پراسراریت سے ڈرتا تھا۔ خاص عدد یا مخصوص نمبر کا خوف ہماری انفرادی زندگی میں نہیں بلکہ اجتماعی زندگی میں بھی جا بجا ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔ نمبرز کا خوف انسانوں کو لاحق ہونے والی ایک ایسی غیرمعمولی بیماری ہے ، جس کا شکار ہونے سے شاید ہی کوئی انسان بچ پایا ہو۔
نمبرز کا خوف طبی اصطلاح میں ’’آرتھموفوبیا‘‘(Arithmophobia) کہلاتا ہے۔ دنیا میں سب سے زیادہ افراد جس نمبر کے خوف میں مبتلا رہتے ہیں ، وہ 13 نمبر ہے۔ بظاہر اہل مغرب ترقی کے بامِ عروج پر جا پہنچے ہیں اس کے باوجود مغربی اقوام آج تک 13 نمبر کے خوف سے نجات نہ حاصل کرسکیں۔
شاید یہی وجہ ہے کہ مغربی ممالک میں بیشتر مقامات پر 13نمبر کی گلی نہیں ملتی۔ بارہ نمبر کے بعد گھر کا نمبر یا تو 12Aہو گا یا پھر 14نمبر کا گھر آ جاتا ہے۔ اکثر ہوٹلوں میں 13نمبر کا کمرہ غائب ہوتا ہے۔ بڑی بڑی پُرتعیش ہوٹلوں میں 13 نمبر کا کمرہ اور منزل نہیں ہوتی۔ حد تو یہ ہے کہ ہر ماہ 13 تاریخ سے مغربی لوگ ایسے ڈرتے ہیں، جیسے کوئی سانحہ یا حادثہ رونما ہونے والا ہو اور اگر 13 تاریخ کو جمعہ کا دن آجائے تو اُن کا خوف دو نہیں بلکہ سہ گنا ہوجاتا ہے۔ اکثر افراد تو اُس دن اپنے کمرے سے ہی باہر نہیں نکلتے۔
عیسائی مذہب سے تعلق رکھنے والا اکثریتی طبقہ سمجھتا ہے کہ حضرت عیسٰی علیہ السلام کا وہ آخری مشہور کھانا جسےLast Supper بھی کہا جاتا ہے، اُس تاریخ کو کھانے کی میز پر یسوع مسیح سمیت کل 13 افراد موجود تھے اور اسی دعوت کے اختتام پر سپاہیوں نے سیدنا عیسٰی علیہ السلام کو گرفتار کرلیا تھا۔ اسی واقعے کی نسبت آج بھی بعض عیسائی گھرانوں میں کھانے کی میز پر 13 ویں کرسی نہیں رکھی جاتی۔ نیز بعض افراد 666 نمبر سے بھی سخت خوف زدہ ہوجاتے ہیں۔ مثال کے طور پر سابق امریکی صدر رونالڈو ریگن نے اپنے رہائشی مقام بی۔ ایئر، لاس اینجلس میں اپنے گھر کی گلی کی تعداد کو 666 سے تبدیل کرکے 668 سے بدل دیا تھا۔
دوسری جانب چین، ویت نام اور جاپان جیسے لادین معاشروں میں بھی 4 نمبر کو موت کا عدد سمجھا جاتا ہے۔ یاد رہے کہ چینی، جاپانی زبان میں 4 کے عدد کو ’’سے ئی‘‘ بولا جاتا ہے، جب کہ چینی زبان میں مغرب اور موت کے لیے زیر، زبر یا پیش کے تھوڑے بہت فرق کے ساتھ ’’سئے ئی‘‘ کا لفظ ہی استعمال کیا جاتا ہے۔ اس لیے چینی اقوام کی اکثریت 4 نمبر کو اپنے لیے موت ہی سمجھتے ہیں اور یوں وہ کوشش کرتے ہیں کہ اُن کا سامنا 4 نمبر سے نہ ہوسکے، جب کہ چین میں اکثر فلک بوس رہائشی و تجارتی عمارتوں میں چوتھی منزل نہیں ملے گی۔
علاوہ ازیں ہر فلور پر 4 نمبر کا فلیٹ بھی دکھائی نہیں دے گا۔ حد تو یہ ہے کہ چینی معاشرے میں 14،24، 34 یا ہر ایسا عدد جس کے ساتھ 4 نمبر کا لاحقہ لگا ہو خال خال ہی دیکھنے اور سننے کو ملتا ہے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ معروف کیمرہ ساز کمپنی ’’کینن‘‘ (Canon) اپنی مصنوعات کی سیریل نمبرز میں 4 کا عدد شامل کرنے سے حتی المقدور احتراز برتتی ہے۔ نیز ’’سام سنگ ‘‘(Samsung) فون کمپنی بھی اپنے اسمارٹ فون کے ماڈلز میں کبھی 4 نمبر کا ہندسہ استعمال نہیں کرتی۔
پاکستانی صحافی ومصنف جبار مرزا، اُردو زبان کے معروف شاعر، ادیب، صحافی، کالم نگار محقق اور اُستاد خاطر غزنوی کے متعلق ایک مضمون میں لکھتے ہیں کہ ’’خاطر غزنوی کی ولادت تو 31اکتوبر 1925کو ہوئی تھی مگر بلدیہ پشاور میں ان کے نام کا اندراج 5نومبر 1925 کو ہوا تھا۔ وہ ہر مہینے کی 16تاریخ کو خوف زدہ رہا کرتے تھے۔ ایک ان جانا اندیشہ اور ڈر سارا دن انہیں اپنے حصار میں لیے رہتا تھا۔
دراصل 16دسمبر 1962 کو خاطر غزنوی کے والد فوت ہوئے تھے، جب کہ 16فروری 1966کو اُن کی والدہ صاحبہ کی وفات ہوئی اور بیوی 16جون 1990کو ہمیشہ کے لیے راہی ملک عدم ہو گئی تھی۔ جس کی وجہ سے ہر ماہ کی 16تاریخ کو خاطر غزنوی کسی نئے سانحہ ہوجانے کے خوف میں مبتلا ہوجاتے تھے۔‘‘
٭پھولوں کا خوف
’’جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ اگلے ہفتے شہر میں پھولوں کی نمائش ہورہی، میری خواہش ہے کہ ہماری کمپنی بھی اس میں نمائش میں اپنی مصنوعات کو متعارف کروانے کے لیے خصوصی اسٹال لگائے، اس بارے میں آپ سب کی کیا رائے ہے۔‘‘ ملک کی ایک بڑی ملٹی نیشنل کمپنی کے منیجنگ ڈائریکٹر نے میٹنگ روم میں موجود اپنے ملازمین کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔
’’جناب! یہ بہت اچھا خیال ہے، یقیناً اس اقدام سے کمپنی کی مصنوعات کی خوب تشہیر ہوگی۔‘‘ فیصل نے جیسے ہی جملہ ادا کیا، تمام شرکاء بھی اثبات میں سر ہلانے لگے۔
تو پھر ٹھیک ہے فیصل چوںکہ سیلز ٹیم کے آپ انچارج بھی ہیں، اس لیے آپ ہی پھولوں کی نمائش میں کمپنی کے اسٹال کی دیکھ بھال کی تمام تر ذمے داری نبھائیں گے۔‘‘ منیجنگ ڈائریکٹر نے فیصل کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
’’جناب! معذرت خواہ ہوں کہ میں کسی بھی صورت پھولوں کی نمائش میں کمپنی کا اسٹال لگانے کی ذمہ داری قبول نہیں کرسکتا‘‘ فیصل نے کھڑے ہوکر انتہائی لجاجت سے انکار کیا۔
’’آخرکیوں! کوئی مسئلہ یا وجہ ہے تو بتاؤ، تاکہ ہم اُسے حل کرسکیں۔‘‘ منیجنگ ڈائریکٹر نے سوال کیا۔
’’جناب! وجہ میں یہاں نہیں بتاسکتا، لیکن میں پھولوں کی نمائش میں اسٹال کی ذمے داری نہیں نبھا سکتا، اگر آپ نے زیادہ اصرار کیا تو میں نوکری سے استعفا دے کر چلا جاؤں گا۔‘‘ فیصل نے وضاحت دیتے ہوئے کہا۔
’’آپ سب جا سکتے ہیں، آج کی میٹنگ اختتام پذیر ہوئی، مگر فیصل آپ ابھی یہیں رُکیں، مجھے آپ سے کچھ بات کرنی ہے۔‘‘ منیجنگ ڈائریکٹر نے جیسے ہی سب کو جانے کا کہا، فیصل کے علاوہ سب ملازم فیصل کو عجیب نظروں سے گھورتے ہوئے میٹنگ روم سے باہر چلے گئے۔ منیجنگ ڈائریکٹر اپنی نشست سے اُٹھ کر فیصل کے پاس آیا اور اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا،’’تم چاہو تو پھولوں کی نمائش میں اسٹال کی دیکھ بھال قبول نہ کرنے کی وجہ بتا سکتے ہو۔ یقین مانو! وجہ جو بھی ہو، نہ تو میں بُرا مانو گا اور نہ ہماری بات اس کمرے سے باہر جائے گی۔‘‘
’’جناب ! مجھے پھولوں سے ڈر لگتا ہے۔۔۔ اور پھولوں کی نمائش میں ہر جانب پھول ہی پھول ہوں گے۔۔۔ برائے مہربانی میری مشکل کو سمجھیں اور اس راز کو دوسروں سے راز ہی رکھیے گا۔‘‘ فیصل کا جواب سُن کر منیجنگ ڈائریکٹر حیرانی کے عالم میں بڑبڑاتے ہوئے قریب رکھی کرسی پر دراز ہوگیا کہ ’’کیا کوئی پھولوں سے بھی خوف زدہ ہوسکتا ہے۔‘‘
عام طور پر ہم سب لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ دنیا میں کون ایسا بدذوق شخص ہوگا جسے پھول اچھے نہ لگتے ہوں۔ لیکن سچ یہ ہی ہے دنیا میں ایسی لوگوں کی بھی کمی نہیں ہے ، جنہیں پھول اچھے لگنا تو ایک طرف، اگر اِن کے سامنے بھی اچانک کبھی پھول آجائیں تو یہ ڈر کے مارے بدک جاتے ہیں۔ ماہرین نفسیات ’’پھولوں کا خوف‘‘ کو ’’انتھوفوبیا‘‘ (Anthophobia)قرار دیتے ہیں ۔ حیران کن بات یہ ہے کہ اِس نفسیاتی خوف کا شکار بعض افراد ہر قسم کے پھولوں سے ڈرتے ہیں، جب کہ کچھ لوگ فقط مخصوص ایک یا دو قسم کے پھولوں سے خوف کھاتے ہیں۔ نیز چند گنے چنے افراد ایسے بھی ہوتے ہیں جو دو، چار پھولوں یا گل دستے سے تو نہیں گھبراتے لیکن جب انہیں کسی ایسی تقریب میں جانے کا اتفاق ہوجائے جہاں ہر طرف پھول ہی پھول ہوں تو وہ سخت خوف زدہ ہوجاتے ہیں۔
دوسری طرف ’’پھولوں کے خوف‘‘ کا شکار ایسے افراد بھی کثرت سے پائے جاتے ہیں، جو پھولوں سے براہ راست تو کسی قسم کا خوف محسوس نہیں کرتے لیکن بعض اوہام یا خدشات کی بنا پر پھولوں کے قریب جانے سے گریز کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر الرجی کے مرض میں مبتلا افراد پھول کو اس لیے نہیں چھوتے کہ کہیں وہ نزلہ، زکام جیسی کسی بیماری کا شکار نہ ہوجائیں۔ نیز نفاست پسند لوگ جنہیں صاف ستھرے رہنے کا خبط ہو وہ مٹی کی آلودگی کی وجہ سے پھولوں کو پسند نہیں کرتے، جب کہ کیڑے مکوڑوں سے ڈرنے والے لوگ بھی اس خیال سے پھولوں سے تھوڑا فاصلے پر رہتے ہیں کہ کہیں اُن میں کوئی کیڑا موجود نہ ہو جو پھول چھونے یا سونگھنے سے اُنہیں نقصان نہ پہنچا دے۔ بقول ملک زادہ منظور احمد
نہ خوفِ برق نہ خوفِ شرر لگے ہے مجھے
خود اپنے باغ کے پھولوں سے ڈر لگے ہے مجھے
The post کیسے کیسے خوف؛ کوئی پیسوں سے خائف کوئی پھولوں سے ذکر کچھ عجیب و غریب ڈر کے عارضوں کا appeared first on ایکسپریس اردو.