کسی بھی معاشرے کی ترقی کا دارومدار قانون کی بالادستی اور حاکمیت پر ہوتا ہے ، صرف اُسی معاشرے میں مالی ، معاشی اور کاروباری سرگرمیاں پروان چڑھتی ہیں۔
جہاں عوام کو ہر قسم کا تحفظ حاصل ہوتا ہے ، ہر ملک میں قوانین ایسے بنائے جاتے ہیں کہ جہاں ادنیٰ اور کمزور ترین فرد کو تحفظ کا احساس ہو ، خواتین ، بچے اور کمزور افراد بھی اپنے آپ کو محفوظ خیال کریں ، طا قتور ، غاصب ، ظالم ، استحصالی اور مجرمانہ ذہنیت کے حامل افراد کسی پر ظلم نہ کر سکیں ، لوگ اپنی جان و مال ، عزت وآبرو اور املاک کو محفوظ خیال کریں ۔ معاشرے کو پُر سکون اور پُرامن بنانے کیلئے قانون نافذ کروانے والے لاتعداد ادارے قائم کئے جاتے ہیں۔
جن کی تنخواہیں عوام کے ٹیکس سے ادا کی جاتی ہیں، یہ ادارے عوام کیلئے ’’سیکیورٹی گارڈ‘‘ کی ذمہ داری سرانجام دیتے ہیں جن کی تنخواہ عوام ہی ادا کرتی ہے ، مگر پاکستان میں حقیقتاً ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔ ’’ لاقانونیت ‘‘ میں اس قدر اضافہ ہو چکا ہے کہ ہر طرف ایک ہی گونج سنائی دیتی ہے کہ ’’قانون ہے کہاں؟ قانون ہے کہاں ؟ قوانین تو موجود ہیں مگر ان پر عملدرآمد نہیں ہے‘‘ اس کی اصل وجہ سر کاری اہلکاروں کی کرپشن، غفلت، تبادلوںکی لٹکتی تلوار اور نااہلی ہے، اگر دیکھا جائے تو چند لاکھ افراد کے لالچ اور بے حِسی کی سزا 22 کروڑ عوام کو مِل رہی ہے۔ لاقانونیت کے چند واقعات پیش ِنظر ہیں جبکہ ایسے بے شمار واقعات ملک کے ہر گوشے ہر چپے میں بِکھرے ہوئے ہیں ۔
؎سپریم کورٹ نے کراچی میں قائم نسلہ ٹاور کو مسمار کرنے کا حکم دیا ہے ، کہ اس ٹاور کو تعمیر کرتے ہوئے سرکاری زمین کا بھی ایک چوتھائی حصہ شامل کر لیا گیا تھا ، اس ٹاور میں درجنوں کے حساب سے فلیٹس تعمیر ہو چکے ہیں ۔ یہ فلیٹس خریدنے والوں نے مکمل ادائیگی کی ہے ، یقیناً کسی بھی بلڈنگ کا کچھ حصہ نہیں گرایا جا سکتا ساری بلڈنگ ہی مسمار کرنی پڑے گی ، سوال یہ پیدا ہوتا ہے، کہ جس وقت یہ بلڈنگ تعمیر ہو رہی تھی اس وقت متعلقہ محکموں کو خصوصاً کے ڈی اے کو یہ سب کچھ نظر کیوں نہیں آیا ؟ اس بلڈنگ کی تعمیر میں چند دن یا چند مہینے نہیں لگے۔
سالوں میں یہ بلڈ نگ مکمل ہوئی ، مگر متعلقہ اداروں کے ملازمین نے ذاتی مفاد حاصل کر کے سب کچھ نظر انداز کر دیا ۔ بلڈنگ کے مالکان کو بھی رقم مل گئی ، کرپٹ اہلکاروں کو بھی رشوت مل گئی مگر فلیٹس مالکان کی زندگی بھر کی کمائی لٹ گئی ، متاثرہ افراد کی داد رسی کیسے ہوگی وقت ہی بتائے گا ؟ اگر متاثرین کو رقم مل بھی گئی اس وقت پاکستانی روپیہ بہت گِر چکا ہے اور جائیداد کی قیمت میں بہت اضافہ ہو چکا ہے ، چیف جسٹس نے ایک اور عمارت کو مسمار کرنے کا حکم دیا ہے۔ ابھی تو وہ صرف کراچی رجسٹری میں بیٹھ کر کراچی کے معاملات کو زیادہ اہمیت دے رہے ہیں ، پورے ملک کے چپے چپے میں متعلقہ افسران اور اہلکاروں کی مِلی بھگت سے ایسے واقعات ہوتے ہیں ۔
سپریم کورٹ نے حکم دیا کہ کراچی کے نالوں کے آ س پاس سے تمام تجاوزات ختم کی جائیں کیو نکہ بارشوں کی صورت نکاسی آب کی صورتحال انتہائی مخدوش ہو جاتی ہے اور کراچی کی بیشتر شاہراہوں پر پانی بھر جاتا ہے ، مگر جب یہ تجاوزات قا ئم کی جا رہی تھیں تو متعلقہ اداروں کی نظروں سے اوجھل کیسے رہیں ؟
اسی طرح جب کراچی کی لوکل ٹرین کی بحالی کی کوشش کی گئی تو پتہ چلا کہ ریلوے لائن کے اوپر اور آس پاس تجاوزات قائم ہو چکی ہیں ، یہ تجاوزات ختم کرنے کا حکم بھی سپریم کورٹ کو ہی دینا پڑا ، حیرت کی بات ہے کہ پٹڑی کے آ س پاس کی تجاوزات بھی کسی کو نظر نہیں آئیں ؟
جس وقت کراچی کے پارکس اور رفاہی اداروں کیلئے مختص پلاٹوں پر قبضے کئے جا رہے تھے تو اس وقت بھی کسی متعلقہ ادارے یا قانون نافذ کروانے والے اداروں کی نظر ان پر نہیں پڑی ، قبضوں کے بعد بھی لاکھوں افراد ان پارکس اور رفاہی اداروں کے پلاٹس کو حسرت کی نظر سے دیکھتے تھے ۔ جس وقت کراچی میں مختلف سیاسی جماعتوں کے کارکنوں کی طرف سے لا قانونیت کے واقعات میں اضافہ ہو رہا تھا تو اس وقت بھی متعلقہ اداروں نے اپنی آ نکھیں مکمل طور پر بند رکھی ہوئی تھیں ، رینجر ز کے آنے سے پہلے تو ایسا دکھائی دیتا تھا کہ عروس البلاد شہر کراچی میں کوئی قانون ہی نہیں ہے ، اس وقت پورے کراچی میں ایک شہری بھی محفوظ یا آ زاد نہیں تھا ۔
پچھلے دنوں یہ رپورٹ شائع ہوئی کہ لاہور میں مختلف افراد نے تقریباً 2 ہزار کنال سے زائد سرکاری زمینوں پر قبضہ کر رکھا ہے، بے شمار پرائیویٹ ہاوسنگ سوسائیٹز والوں نے بھی سرکاری زمینوں پر قبضہ کر
رکھا ہے ، اس رپورٹ میں قبضہ شدہ سرکاری زمینوں کی مکمل تفصیل بھی موجود ہے ، پٹواری سے لے کر کمشنر تک کو اس بات کا علم ہوتا ہے مگر سب کو صرف اپنے ’’حصے‘‘ سے غرض ہوتی ہے، اب جبکہ یہ رپورٹ ’’پبلک ‘‘ بھی ہو چکی ہے مگر ابھی تک نہ زمین واپس لی گئی ہے اور نہ ہی متعلقہ افراد کے خلاف کاروائی کی گئی ہے ۔
عین شاہ عالم چوک میں خالد عرف بھٹی پہلوان کا آزاد پاکستان کے نام سے ٹرک اڈہ قائم ہے ، اس پہلوان نے شیر بھی پالے ہوئے ہیں، آج سے تقریباً پچیس سال پہلے لاہور میو نسپل کارپوریشن نے لیز کی مدت پوری ہونے پر اڈے کی زمین کا بیشتر حصہ اپنے قبضے میں لے لیا اور وہاں بھاری رقم لگا کر درجنوں کے حساب سے دکانیں تعمیر کروا دیں کہ اندرون شہر مارکٹیوں کا رش کم کیا جائے سکے ، مگر پہلوان جی نے ان بنی بنائی دکانوں پر بھی قبضہ کر لیا ، اس راستے سے ہزاروں لوگ روز انہ گزرتے ہیں اور قانون کی بے بسی کا اندازہ لگاتے ہیں ، اس اڈے کے آ گے وہ تاریخی مسجد بھی موجود ہے’’ جو ایمان کی حرارت والوں ‘‘ نے شب بھر میں بنا دی تھی ۔
اسی اڈے سے معمولی فا صلے پر ’’ بِلا پہلوان ‘‘ کا بھی اڈہ ہے ، جو کہ رشتے میں بھٹی پہلوان کا بہنوئی تھا ، بِلا پہلوان اپنے ہی ایک باغی کارندے حنیفا کے ہاتھوں قتل ہو گیا ۔ اس کے قتل کے بعد اس کا بیٹا ٹیپو ٹرکاں والا ’’اڈے کی چوکی ‘‘ پر بیٹھا، پھر ایک دن وہ بھی لاہور ائیرپوٹ کی حدود میں قتل ہو گیا ۔ اب اس کا بیٹا بلاج ٹرکاں والا ، باپ دادا کی چوکی پر بیٹھا ہے، بلاج بھٹی پہلوان کا داماد بھی ہے ، پورے پنجاب کو ان کی لاقانونیت کا علم ہے مگر ان کے سامنے کوئی پَرمارنے کی جرات بھی نہیں کر سکتا ۔ بعض پولیس افسر ان ان کے اڈے پر حاضری دینا عین ’’سعادت‘‘ سمجھتے ہیں ۔
ایک زمانہ ایسا بھی گزرا ہے کہ لاہور کو مختلف بدمعاشوں نے تقسیم کر رکھا تھا ، اچھا شوکر والا ، جگا گجر ، ریاض گجر ، شا ھیا پہلوان ، اسلم تا نگیاں والا اور لا تعداد بدمعاش تھے ۔ یہ تمام بد معاش ہرقسم کے جرائم میں ملوث تھے مگر ان کے خلاف نیم دلانہ قسم کی کارروائی ہوتی تھی ۔ ریاض گجر ، اُس کے بھائیوں اور شاگردوں کی بدمعاشی کا دور طویل عرصہ پر محیط تھا ، مگر ریاض گجر اپنی طبعی موت ہی مرا ، اُسے یہ موت ’’بھگندر پھوڑے‘‘ کی وجہ سے آئی ، حالا نکہ اس بدمعاش کو عدالت نے سزائے موت بھی سنائی تھی مگر بعد میں وہ بّری ہو گیا کہ ایسے بدمعاشوں کے خلاف کوئی گواہ ثابت قدم نہیں رہ سکتا ۔
ریاض گجر کے خلاف صرف ایک نوجوان نے ثابت قدمی کا مظاہرہ کیا اور ریاض گجر کے بھائی سمیت اس کے کئی ساتھیوں کو قتل کر دیا۔ گوالمنڈی کے رہائشی اس نوجوان کا نام صغیر احمد عرف گوگا تھا ۔ ریاض گجر کے اونچے ہاتھوں کا اندازہ اس بات سے لگا یا جا سکتا ہے کہ اس کے حکم پر اس کے ساتھیوں نے صغیر احمد عرف گوگا کو اس وقت قتل کیا ، جب اس ہائی فائی مجرم کو پولیس والے ہتھکڑیاں لگا کر پیدل ہی پیر مکی سے داتا دربار کی جانب لے کر جا رہے تھے ۔ گوگا کے جنازے پر پورے اہل محلہ کا کہنا تھا کہ ریاض گجر کے ہاتھ قانون سے بھی زیادہ مضبوط ہیں ۔
موجودہ دور میں منشا ء بم اور گوگی بٹ بھی عوام کی جائیدادوں اور سرکاری املاک پر قبضے کے حوالے سے ناموری حاصل کئے ہوئے ہیں مگر ان کے خلاف اب سب سے ’’بڑی کارروائی ‘‘ یہ ہوئی ہے کہ یہ ہر ہفتے تھانے حاضری لگوایا کریں ، منشاء بم نے لوگوں کی املاک کے ساتھ سر کاری املاک پر بھی قبضہ کر رکھا تھا ، پی آ ئی اے روڈ لاہور سے گزرنے والے ہزاروں افراد حکومت کی جانب سےمسمار کی جانے والی عمارتوں کو دیکھتے ہوئے قانون کی بے بسی کا تماشا دیکھتے ہیں ۔
اندرون شہر کے ایک رہائشی نے روتے ہوئے بتایا کہ ایک تاجر راہنما نے زبردستی اس کی املاک پر قبضہ کر کے معمولی سی رقم دے کر کا غذوں پر دستخط کروا لئے اور اس کی کہیں بھی شنوائی نہیں ہوئی ۔ اس نے بتایا کہ اندرون شہر کے بیشتر رہائشیوں سے ’’ تاجر راہنماؤں اور بدمعاشوں‘‘ نے ان کی املاک بذ ریعہ طاقت اونے پونے خرید کر اُن پر پلازے بنا دئیے ہیں اور انھیں کوئی پوچھنے والا نہیں ، قانون کہیں نظر ہی نہیں آتا ۔ کھوکھر برادری کے کئی طا قتور افراد نے سرکاری اور غیر سرکاری سینکڑوں کنال زمین پر قبضہ کر رکھا ہے مگر ان کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے موجودہ حکومت بھی بے بس نظر آتی ہے ، قانون صرف غریب اور کمزور کے لئے ہے ؟
ایل ڈی اے کی ناک کے نیچے ایف بلاک جوہر ٹاؤن لال پلازہ کے عقب میں موجودہ پارک کو لاواث چھوڑ دیا گیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آ دھے سے زائد حصے پر لوگوں نے قبضہ کر رکھا ہے، ایک ریسٹورانٹ نے پارک کا کافی حصہ اپنے تصرف میں لے رکھا ہے ۔ اس پارک کے گِرد لگے لوہے کے جنگلے نشیئوں اور لوگوں نے اکھاڑکر بیچ کھائے ہیں ، نہ ایل ڈی اے نے اس کا نوٹس لیا ہے اور نہ ہی پی ایچ اے نے ، اس قسم کے لا قانو نیت کے مناظر پورے ملک میں نظر آ تے ہیں اور لوگوں کے ذ ہنوں میں ایک ہی سوال ابھرتا ہے کہ ’’ قانون ہے کہاں‘‘ ؟
ملک کے ہر چھوٹے بڑے بازار میں ریڑھی اور ٹھیلے والوں نے اپنے کاروبار سجا رکھے ہیں ۔ دکاندار وں نے اپنی دکان کے آ گے والا سرکاری حصہ کرائے پر چڑھا رکھا ہے ، ریڑھیوں ، ٹھیلوں اور خوانچوں کی بہتات کی وجہ سے راہگیروں کا گزرنا محال ہے ، ان ریڑھیوں ، ٹھیلوں اور خوانچہ والوں کی دیدہ دلیری کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ بے شمار شاہراہ عام اب ’’ ریڑھیوں والا بازار ‘‘ کے طور پر معروف ہو چکی ہیں ، ان شاہراہوں پر نجی کاروبارہو رہے ہیں ، ان مناظر کو پرنٹ میڈیا اور الیکٹرونک میڈیا کے علاوہ سو شل میڈیا بھی عوام اور ارباب اختیار کے سامنے پیش کرتا رہا ہے، مگر لگتا ہے کہ ارباب اختیار نے اپنی آ نکھیں اور کان بند رکھنے کی کوئی قسم کھائی ہوئی ہے ، ڈھکا چُھپا جرم ہو تو اس کا شائد کوئی جواز پیش کیا جا سکتا ہے ، اس طرح کے کھلے جرم کا نہ کوئی جواز بنتا ہے نہ بہانہ ۔۔۔۔۔ لاقانونیت کے یہ مناظر ایک ناسور بن چکے ہیں ۔
ایک سروے کے مطابق تقریباً 65 فیصد سیاسی افراد پراپرٹی کے کاروبار میں’’ ملوث ‘‘ ہیں ۔ یہ سیاسی افراد حکومت میں ہوں یا اپوزیشن میں ، ان پر ہاتھ ڈالنا مشکل ہی ہے ، پورا ملک ان سیاسی افراد کے تمام کارناموں سے آ گاہ ہے مگر قا نون اور عوام مکمل بے بس ہیں ۔
پورے ملک میں مُضر صحت خوراک اور مصنوعی دودھ فروخت ہو رہا ہے مگر ان افراد کو کوئی پوچھنے والا ہی نہیں ہے ، پانی مِلا بیمار جانوروں کا گوشت سر عام فروخت ہو رہا ہے ، گلاسڑا پھل اور مُضر
صحت سبزیاں علی اعلان فروخت ہو رہی ہیں مگر لگتا ہے کہ ان چیزوں کی روک تھام کرنے والے محکمے ختم کر دئیے گئے ہیں یا انھیں قانوناً جائز قرار دیدیا گیا ہے ۔
بے شمار اشتہاری ملزم ایسے ہیں جو کئی قتل کر چکے ہیں مگر اشتہاری ملزمان نہ صرف آزاد انہ گھومتے ہیں بلکہ بعض پولیس افسر ان کے پاس باقاعدہ حاضری دیتے ہیں ، آ ج سے تقریباً بیس پچیس برس قبل شفیق آباد کا ایک بدمعاش ’’اچھا پہلوان‘ ‘ یکے بعد دیگرے پانچ قتل کر کے بھی گواہوں کے منحرف ہونے کی وجہ سے رِہا ہو جاتا تھا مگر کئی کیسوں میں وہ اشتہاری بھی تھا مگر اشتہاری ہونے کے باوجود وہ گوالمنڈی کے علاقے میں آ زادانہ گھومتا پھرتا تھا ، کئی دفعہ وہ پولیس اہلکاروں کے ساتھ بھی گھومتا پھرتا پایا گیا ، آخر کار ایک دن لین دین کے جھگڑے میں وہ ارشد بٹ نامی آ دمی کے ہاتھوں قتل ہو گیا۔
ایک دفعہ تھانہ گوالمنڈی کے ایک ایس ایچ او نے برملا کہا تھا کہ ’’ میرے علاقے میں اشتہاریوں کی اس قدر بہتات ہے کہ اتنی تو تھانے میں نفری نہیں ہوتی ‘‘ پھر کہنے لگے کہ اشتہاری تو پورے ملک میں دندناتے پھرتے ہیں کِس کِس کو پکڑیں ، جان کا خطرہ تو ہر ایک کو ہوتا ہے ، یہ اشتہاری تو اپنی جان سے ہاتھ دھوئے بیٹھے ہوتے ہیں انھیں پتہ ہوتا ہے کہ ایک دن انھوں نے مرنا ہی ہے ، اگر کوئی کمزور قسم کا اشتہاری ہو ، مثلاً بوگس چیک وغیرہ کا اشتہاری تو انھیں ہم پکڑ لیتے ہیں ، خونخوار قسم کے اشتہاریوںپر ہاتھ ڈالنے سے گریز ہی کرتے ہیں ۔‘‘
اگر یہ بات سچ ہے تو اس کا نوٹس لینے کی ضرورت ہے ، ایک مربوط حکمت عملی کے ذریعے خونخوار اشتہاریوں کے خلاف کریک ڈاؤن کیا جائے ۔ یہ اشتہاری اپنے مخالفوں کو موقع ملتے ہی قتل کر دیتے ہیں ،
حال ہی میں اشتہاریوں نے دیرینہ دشمنی کی بناء پر ایک نوجوان کو قتل کر دیا جبکہ اس سے پہلے وہ اس کے بھائی اور چچا کو بھی قتل کر چکے تھے ، اس قسم کے واقعات تواتر سے رونما ہو رہے ہیں ۔
بعض سیاسی پریشر گروپس اپنے مطالبات منوانے کیلئے لا قانونیت اور طاقت کا سہارا لیتے ہیں جس کی وجہ سے ملک کا ایک حصہ مفلوج اور عوام پریشان ہوتے ہیں۔ لیکن حکومت کہیں نظر نہیں آتی۔
’’ انصاف کا نظام کیسے مضبوط ہو گا ؟‘‘
یہ بات طے شدہ ہے کہ حکومتی اہلکاروں اور سیاسی افراد کی پشت پناہی کے بغیر لا قانونیت نہیں ہو سکتی۔ کرپٹ عناصر مہنگے وکیل کرتے ہیں ’عدالتوں میں گواہ پیش نہیں ہونے دیئے جاتے ، گواہان کو تحفظ حاصل نہیں‘ قبضہ گروپوں کی پشت پناہی پر محکمہ ریونیو، پولیس اور سیاسی عناصر ہوتے ہیں ، بدمعاشوں ، منشیات فروشوں اور جرائم پیشہ افراد کی پشت پناہی محکمہ پولیس کرتا ہے ، اس کا حل یہی ہے کہ جرائم پیشہ عناصر کی پشت پناہی کرنے والے عناصر کو نوکری سے نکال کر انھیں سخت سزائیں دی جائیں وگرنہ لاقانونیت بڑھتی جائے گی پہلے ہی شریف لوگ عدم تحفظ کا شکار ہیں ، آنے والا وقت اور بھی گھمبیر ہو جائے گا !!!
The post بڑھتی ہوئی لاقانونیت، خوفزدہ اور بے بس معاشرہ appeared first on ایکسپریس اردو.