انسان کو زندگی کی ضرورتیں پوری کرنے کے لئے حیات کے دشت میں آبلہ پائی کرنا ہی پڑتی ہے۔
یہ آبلہ پائی بہت کم افراد کو کسی نخلستان تک لے جاتی ہے جبکہ انسانوں کی اکثریت اسی دشت میں تھک ہار کر اپنی زندگی تمام کر دیتی ہے۔ افسوس کی بات ہے کہ نخلستان میں پہنچنے والوں میں سے چیدہ چیدہ ہی اپنی آبلہ پائی کو یاد کر کے دوسروں کی مدد کے بارے میں سوچتے ہیں۔ اس سفر میں ایسوں کو داد دینا پڑتی ہے جو ہر طرف سے بے دست و پا ہوتے ہوئے بھی حوصلہ نہیں ہارتے اور آگے بڑھتے چلے جاتے ہیں ۔ ان کے لئے ہر نیا دن حسب معمول مشقت سے بھرپور ہوتا ہے ، تاہم ان کی زندگی مشین کی سی ہوتی ہے جو جب تک خراب نہ ہو چلے ہی جاتی ہے، شاید شاعر نے ایسے افراد کے لئے ہی کہا ہے
صبح ہوتی ہے شام ہوتی ہے
عمر یونہی تمام ہوتی ہے
سڑک کنارے کھڑے کمزور جسم کے 68 سالہ عزیز احمد کی ساری عمر بھی زندگی کے دشت کی آبلہ پائی میں گزری ہے۔ سائیکل پر گوشت رکھنے کے لئے لکڑی کا ڈبہ لگائے ، گوشت سے بھرے چند لفافے لکڑی کے ڈنڈے پر سجائے، آتے جاتے کو سلام کرتے، چہرے پر دکانداروں کی سی خوش اخلاقی کی مسکراہٹ لئے، بس یہی ہے عزیر احمد کی کاروباری متاع ، جسے وہ جب چاہے سمیٹ کر گھر کو لوٹ سکتا ہے۔ اس نے بتایا کہ وہ بیماری اور بڑھاپے کے باوجود گزشتہ بیس سال سے صدقہ دینے والوں کے لئے گوشت بیچ کر گھر کے اخراجات چلانے میں اپنا حصہ ڈال رہا ہے ، حصہ ڈالنا اس لئے کہا ہے کیونکہ اس کے تین بیٹے بھی کام کرتے ہیں ۔ جب پوچھا کہ تین بیٹوں کے ہوتے ہوئے وہ کام کرنے پر مجبو ر کیو ں ہے تو اس کے چہرے پر افسردگی کی تہہ دبیز ہو گئی اور وہ دور کہیں دیکھتے ہوئے کہنے لگا، ’’میرے تین بیٹے اور تین بیٹیاں ہیں ، بڑا اور منجھلا بیٹا زری کا کام ٹھیکے پر کرتے ہیں ، اب کہنے کو تو یہ بہت ہی اچھا کام ہے کیونکہ یہ ہنر میں آتا ہے ، مگر دونوں مل کر بھی پندرہ سولہ ہزار سے زیادہ نہیں کما پاتے اور پھر وہ دونوں شادی شدہ ہیں انھوں نے اپنے خاندان کے اخراجات بھی پورے کرنا ہوتے ہیں ، چھوٹا بیٹا درزی کا کام سیکھ رہا ہے وہ بھی تھوڑے بہت پیسے کما لیتا ہے ، اسی طرح میں بھی روزانہ دو اڑھائی سو روپے کما لیتا ہوں ، گویا ہم سب مل کر پچیس ، چھبیس ہزا ر روپے سے زیادہ نہیں کما پاتے ، مکان ہمارا کرائے کا ہے ، دوکمروں کے مکان کے نو ہزار روپے ماہانہ دیتے ہیں۔
بجلی ، پانی اور گیس کے بل اس کے علاوہ ہیں ، اوپر سے میں بھی بیمار رہتا ہوں اور میری بیوی بھی جوڑوں کے درد کی مریض ہے، دوا دارو پر بھی اخراجات آ جاتے ہیں ۔ اب ایسے میں مہنگائی کے اس دور میں ہمارے لئے دو وقت کی روٹی حاصل کرنا مشکل ہو گیا ہے، ساری عمر خواہش ہی رہی کہ کوئی ایسا مکان ہو جسے میں اپنا کہہ سکوں، جب سے پیدا ہوا ہوں کرائے کے مکانوں میں دھکے کھا رہا ہوں، میرے والد بھی مکان نہ بنا سکے اور اب میں اور میرے بچے بھی کرائے کے مکان میں رہ رہے ہیں ، سب سے زیادہ تو کرائے کی فکر ہوتی ہے کہ کہیں سر سے چھت بھی نہ چھن جائے، چاہے کرائے کی ہے مگر رہنے کو چھت تو چاہئے ناں، جب کرایہ پورا ہو جاتا ہے تو پھر گھر کے راشن کے بارے میں سوچتے ہیں ، وہ تو اللہ کا شکر ہے کہ ہم سب مل کر گزارہ کر رہے ہیں، ایک ہی چولہے سے کھاتے ہیں ، اگر خدا نخواستہ الگ الگ ہوں تو ہمارے لئے دو وقت کی روٹی کھانا بھی مشکل ہو جائے۔‘‘
بیٹیاں اللہ کی رحمت ہوتی ہیں مگر ہمارے معاشرے میں جہیز اور دیگر معاشرتی رسومات کی وجہ سے غریب آدمی کے لئے بیٹیاں رحمت کی بجائے زحمت محسوس ہوتی ہیں اور بیٹی کے پیدا ہوتے ہی غریب والدین کو سب سے بڑی فکر اسے بیاہنے کی لاحق ہو جاتی ہے ، جب عزیز احمد سے بیٹیوں کے بارے میں پوچھا تو اس نے آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے اللہ کا شکر ادا کیا کہ وہ انھیں بیاہنے کے فرض سے سبکدوش ہو چکا ہے، اس کا کہنا ہے کہ یہ اس پر بڑی بھاری ذمہ داری تھی ، غربت کی وجہ سے وہ اس فرض کو نبھانے کے قابل نہ تھا مگر کچھ دردمند دوست اور رشتہ دار اس کا آسرا بنے اور وہ سادگی سے اپنی بیٹیوں کو بیاہنے کے قابل ہوا ۔ وہ اس بات پر باربار اللہ کا شکر ادا کر رہا تھا جیسے کوئی بہت بڑا بوجھ اس کے کندھوں سے اتارا گیا ہو۔
عزیز احمد گزشتہ بیس سال سے صدقہ دینے والے افراد کے لئے گوشت فروخت کر رہا ہے، جب پوچھا کہ اس سے قبل وہ کیا کرتا تھا تو کہنے لگا کہ سب سے پہلے اس نے پیسہ اخبار بلڈنگ کے قریب جوتیاں بنانے کے کارخانے میں کام کیا جو اب ختم ہو چکا ہے، وہاں کافی سال کام کیا مگر کچھ زیادہ آمدن نہ ہو سکی ، انھوں نے اسے کبھی مکمل کاریگر بننے ہی نہ دیا ، پھر وہاں سلوشن کی بو سے وہ بیمار رہنے لگا تب ڈاکٹروں نے اسے وہ کام چھوڑنے کا کہا ، اس نے وہ کام چھوڑا اور ایک قصاب کی دکان پر ڈیڑھ سو روپے دیہاڑی پر کام کرنے لگا ، کیونکہ اس کے اتنے وسائل نہ تھے کہ اپنا کوئی کام کر سکے اس لئے پانچ چھ سال تک قصاب کے پاس گوشت کی صفائی اور لانے لے جانے کا کام کرتا رہا ، پھر اسے السر ہو گیا جب بیماری کافی بڑھ گئی تو ہسپتال میں داخل ہونا پڑا جہاں ڈاکٹروں نے بتایا کہ بیماری اتنی بڑھ چکی ہے کہ معدہ نکالنا پڑے گا اور پھر ساری عمر یونہی گزارنا پڑے گی ۔ یہ کہہ کر عزیز نے اپنے پیٹ سے قمیص اٹھایا تو آپریشن کے پرانے نشانات اور سکڑا ہوا پیٹ اس کی بیماری کی کہانی سنا رہا تھا ، وہ کوئی سخت چیز نہیں کھا سکتا۔ آپریشن کے بعد قصائی کے پاس کام کرنا مشکل ہو گیا کیونکہ وہاں پر کام زور والا تھا جبکہ وہ اب وزن نہیں اٹھا سکتا تھا ، لہٰذا اسے مجبوراً وہ کام چھوڑنا پڑا ، اب اس کے لئے مسئلہ تھا کہ ایسا کونسا کام کرے جس میں زیادہ وزن نہ اٹھانا پڑے تو یہی کام اسے اپنے قابل نظر آیا کیونکہ قصاب کے پاس کام کرتے ہوئے گوشت کاٹنے کا کافی تجربہ ہو چکا تھا اور پھر اس شعبے میں واقفیت بھی بن چکی تھی اور اسے گوشت حاصل کرنے میں بھی آسانی تھی اس لئے اس نے صدقہ دینے والوں کے لئے گوشت فروخت کرنے کا کام شروع کر دیا ۔
اس نے بتایا کہ پہلے پہل وہ سائیکل پر گلیوں میں بھی چکر لگا آیا کرتا تھا مگر بڑھاپے اور بیماری کی وجہ سے یہ مشکل لگنے لگا تو اس نے جناح باغ کے باہر سڑک کنارے کھڑا ہونا شروع کر دیا ، وہاں پر کیونکہ پرندے بہت زیادہ ہوتے ہیں اس لئے لوگ صدقے طور پر گوشت خرید کر انھیں ڈال دیتے تھے۔ پھر کرائے کا گھر تبدیل کیا تو یہاں اسلامیہ پارک میں کھڑا ہونے لگا ۔
صدقے کے گوشت اور اپنے روزانہ کے معمول کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے اس نے کہا ’’صدقہ ہر بلا کو ٹال دیتا ہے اسی لئے لوگ ہمارے پاس گوشت خرید کر صدقہ دیتے ہیں ، یہ ضروری نہیں کہ گوشت ہی کے ذریعے صدقہ دیا جائے، اپنے صدقے میں کوئی بھی چیز دی جا سکتی ہے، جیسے نقد رقم یا کھانے والی کوئی چیز ۔ میں گوشت اس لئے بیچتا ہوں کہ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ گوشت کے ذریعے صدقہ دینا زیادہ بہتر ہے جس کی وجہ سے ہمیں زیادہ گاہک میسر آ جاتے ہیں ۔ میرے پاس صدقے کے لئے گائے کے پھیپھڑوں کا گوشت ہوتا ہے کیونکہ یہ بہت سستا ہے، صرف دس روپے میں یہ لفافہ دیتا ہوں جس میں گوشت کی آٹھ ، دس بوٹیاں ہوتی ہیں ، اسے صدقہ دینے والے کے گرد سات مرتبہ گھما کر کھلی جگہ پر پھینک دیا جاتا ہے جہاں اسے پرندے ، بلیاں یا کیڑے وغیرہ کھا لیتے ہیں اسی لئے اسے چیل گوشت نام دیا گیا ہے کیونکہ اسے عموماً چیل یا کوے کھاتے ہیں ۔ میرا روزانہ کا معمول یہ ہے کہ میں صبح سویرے قصائیوں سے گوشت خریدنے کے بعد اسے چھوٹے، چھوٹے ٹکڑوں میں کاٹتا ہوں اور اسے سائیکل پر لگے ڈبے میں ڈال کر یہاں آجاتا ہوں اور لفافوں میں ڈال کر ڈنڈے سے لٹکا دیتا ہوں تاکہ دور سے آنے والے کو پتہ چل جائے کہ یہاں پر صدقہ دینے کے لئے گوشت میسر ہے۔ تقریباً دوپہر بارہ بجے تک میں فارغ ہو جاتا ہوں ۔
ہمارے پاس آنے والے افراد کی اکثریت یہیں پر اپنا صدقہ اتار دیتی ہے اور کچھ لوگ شاپنگ بیگ میں ڈال کر لے بھی جاتے ہیں ۔ ایسے افراد عموماً اپنے بیوی بچوں کا صدقہ دینے کے لئے گوشت لے کر جاتے ہیں اور گھر جا کر ان کا صدقہ اتارنے کے بعد گوشت چھت پر یا باہر کھلی جگہ پر پھینک دیتے ہیں ۔ جادو ٹونے والے یہ گوشت استعمال نہیں کرتے ، ان کے اپنے ہتھکنڈے ہوتے ہیں وہ اتنا سستا گوشت کیوں لیں گے، کیونکہ انھوں نے کونسا پیسے خود دینا ہوتے ہیں ، پیسے تو بے چارہ وہ بھرتا ہے جو قسمت کا مارا ان کے ہتھے چڑھ چکا ہوتا ہے۔ میرے پاس اچھے لوگ آتے ہیں ، کبھی کسی نے میری غربت یا بڑھاپے کا فائدہ اٹھانے کی کوشش نہیں کی ، میرے صرف دس بیس روپے تو بنتے ہیں پھر بھلا کوئی رکھ کر کیا کرے گا اور پھر صدقہ بغیر قیمت ادا کئے یا کسی سے چھین کر ادا نہیں ہوتا ۔ ‘‘
عزیز احمد کے چہرے سے مشقت ، بیماری اور معاشی محرومیوں کے آثار واضح طور پر محسوس کئے جا سکتے تھے ، کہنے لگا ہم لوگ دن رات محنت کر کے بڑی مشکل سے دو وقت کی روٹی پوری کرتے ہیں ، خوشیوں کے موقع پر بھی ہمیں معاشی فکر نے گھیرا ہوا ہوتا ہے، حکومت ہم جیسے لوگوں کے لئے بھی کچھ کرے ۔ اس کی باتیں سن کر یہ خیال آ رہا تھا کہ عزیز احمد تو صدقے کا گوشت فراہم کر کے سب کی بلائیں ٹالتا ہے مگر اس کے گرد منڈلانے والی معاشی بلائوں کو کون ٹالے گا ۔