کیسا پُرآشوب زمانہ ہے۔ المیوں کی ریل پیل۔ حادثات کی فراوانی۔ گریے کو بھی وقت میسر نہیں۔ اِس بے ہنگم شور میں، حصول خبر کی بے انت جنگ میں، کبھی کبھار کوئی ایسا سانحہ خاموشی سے گزر جاتا ہے، ناتا جس کا پورے عہد سے ہوتا ہے۔ پوری ایک نسل اُس سے جُڑی ہوتی ہے، مگر نفسانفسی اور لاتعلقی ایسی ہے کہ توجہ اُدھر نہیں جاتی۔ کسی کو خبر نہیں ہوتی۔ اور یہ صورت حال سانحے سے بڑا سانحہ ہے!
احمد مرزا جمیل کا انتقال ایسا ہی پُرسوز واقعہ ہے۔ زمین کھا گئی آسماں کیسے کیسے۔ اردو زبان کا ایک محسن، ایک عظیم موجد خاموشی سے رخصت ہوگیا۔ کسی کو خبر نہیں ہوئی۔ کہیں تذکرہ نہیں ہوا۔ خود صحافی ہوں۔ خبروں کی دنیا مسکن ہے۔ اور اپنی کوتاہی اور غفلت کا اعتراف کرتا ہوں۔ یہ افسوس ناک خبر تب پہنچی، جب یہ خبر نہیں رہی تھی۔ بہت سا وقت بیت چکا تھا۔ سنا، تو یقین نہیں آیا۔ پھر شرمندگی سے سر جھک گیا۔ خوابوں کی صورت گری کرنے والا جاچکا تھا، اور ہم بے خبر رہے۔
اِس لمحے ذہن کے پردے پر یادوں کا عکس ہے۔
جمیل صاحب کا تذکرہ تو سن رکھا تھا، مگر پہلی ملاقات گذشتہ برس دسمبر میں ہوئی، جب ایک انٹرویو کی درخواست لیے اُن کے پاس پہنچا۔ اُنھوں نے شفقت فرمائی۔ ڈھائی گھنٹے مکالمہ جاری رہا۔ اُن کی زندگی کے اُن گوشوں تک رسائی حاصل کی، جن سے ہماری نسل یک سر لاعلم تھی۔ ہم تو بس اتنا جانتے تھے کہ اُنھوں نے خط نستعلیق کو، جسے اردو کا چہرہ قرار دیا جاسکتا ہے، برقیاتی دنیا سے ہم آہنگ کیا۔ کاتبوں اور وقت کے محتاج اِس خط کو مشین پر منتقل کرکے اِس کی دائمی حفاظت کا انتظام کر دیا۔ مگر یہ کارنا مہ اُنھوں نے انجام کیسے دیا؟ کتنی دشوار گزار گھاٹیاں عبور کیں؟ اِس کا ہمیں علم نہیں تھا۔
سچ تو یہ ہے کہ ہم میں سے بہتوں کو اندازہ ہی نہیں کہ ’’نوری نستعلیق‘‘ سے پہلے کی دنیا کیسی تھی۔ جب میدان صحافت میں قدم رکھا، یہ خط کُلی طور پر برقیاتی دنیا سے ہم آہنگ ہوگیا تھا۔ اِس کی کمپیوٹر پر موجودی ہمارے لیے ایسی ہی تھی، جیسے فضا میں تیرتی آکسیجن۔ کاتبوں کا زمانہ تو دیکھا ہی نہیں۔ کہنے والے کہتے ہیں، اُن دنوں اخبارات اور جراید کی اشاعت کاتبوں کی رہن منت ہوا کرتی تھی۔ کتابت شدہ مواد میں ترمیم ایک اذیت ناک عمل تھا۔ کاتب کو حاکم جانیے۔ دوسری جانب پوری دنیا میں برقیاتی کتابت رواج پاچکی تھی، مگر اردو داں طبقہ جس خط کا دل دادہ تھا، وہ مشین سے ہم آہنگ ہونے سے انکاری تھا۔ کاغذ اور قلم کا محتاج۔ مشین پر فقط خط نسخ تھا، جو خاصی جگہ گھیرتا۔ لاگت بڑھتا۔ پڑھت میں بھی دشوار۔ ٹیکنالوجی سے دوری کے باعث خط نستعلیق پر معدومیت کا خطرہ منڈلانے لگا۔ پھر منظر میں احمد مرزا جمیل کی آمد ہوئی، اور سب بدل گیا۔ خط نستعلیق کو پر لگے۔ برقیاتی کتابت کا آغاز ہوا۔ آگے کی کہانی تاریخ کا حصہ ہے!
آج جب ہم خیالات کو ضبط تحریر میں لانے کے ارادہ سے ’’کی بورڈ‘‘ کے سامنے بیٹھتے ہیں، الفاظ خط نستعلیق میں، کمپیوٹر اسکرین پر ظاہر ہونے لگتے ہیں، تو ہمارا دل احساس تشکر سے بھر جاتا ہے۔ ہم جمیل صاحب کے ممنون ہیں، جنھوں نے اِس خط کو ٹیکنالوجی سے ہم آہنگ کر دیا، ورنہ شاید اردو بے چہرہ ہوجاتی۔
جمیل صاحب مغل گھرانے سے تھے۔ 21 فروری 1921 کو محلہ حویلی اعظم خان، دہلی میں پیدا ہوئے۔ تایا، محمد احمد اپنے وقت کے جانے مانے خطاط۔ والد، نور احمد نے فن خوش نویسی سیکھا، آرٹ کو اپنا پیشہ بنایا۔ ایک پریس بھی لگایا۔ کاروبار ٹھپ ہوا، تو بمبئی اٹھ آئے۔ یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ جمیل صاحب کو آرٹ میں دل چسپی وراثت میں ملی۔ بڑے بھائی، منظور احمد بھی باکمال آرٹسٹ تھے، اْنھوں نے قائداعظم کے کئی یادگار پورٹریٹ بنائے۔
شعور کی آنکھ بمبئی میں کھولی۔ بچپن میں خاصے کھلندڑرے ہوا کرتے تھے۔ اسکول کی کرکٹ ٹیم کے کپتان رہے۔ زکریا مسجد اسکول سے ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد سینٹ جوزف ہائی اسکول کا رخ کیا۔ پھر بمبئی کے مشہور زمانہ، جے جے اسکول آف آرٹ میں داخلہ لے لیا۔ 45ء تک وہاں رہے۔ زمانۂ طالب علمی میں مصوری کے کئی مقابلوں میں فاتح ٹھہرے۔ پھر بہ طور ڈیزائنر فلم نگری سے جڑ گئے۔ ایک صاحب، باسودیو پرساد سہنا نے فلم ’’ایران کی ایک رات‘‘ پروڈیوس کرنے کا ارادہ باندھا، تو اُنھیں ساتھ کر لیا۔ فلم کا سیٹ، کاسٹیومز اور پوسٹر ڈیزائن کرنے کی ذمے داری جمیل صاحب ہی کے کاندھوں پر تھی۔ چند اور فلموں کے لیے بھی یہ کام کیا۔ پھر کولکتا میں سہنا صاحب کے ساتھ فلم پبلی سٹی اسٹوڈیو ’’مووی آرٹس‘‘ کھول لیا۔ فروری 50ء میں جمیل صاحب، بگڑتے حالات سے دل برداشتہ ہو کر پاکستان چلے آئے۔ یہ اسٹوڈیو اب بھی کولکتا میں موجود ہے۔
کراچی میں بھی امکانات منتظر تھے۔ ایک ایڈورٹائزنگ کمپنی سے بہ طور آرٹ ڈائریکٹر منسلک ہوگئے۔ اْن ہی دنوں قائداعظم کا وہ شہرہ آفاق اسکیچ بنایا، جو گذشتہ چھے عشروں سے ری پرنٹ ہورہا ہے۔ اُس اسکیچ کو معروف آرٹ کریٹک، مارجری حسین نے شاہ کار قرار دیا تھا۔
کچھ عرصے بعد ایلیٹ پبلشرز کے پرچے تلے اپنی کمپنی شروع کی۔ جلد ہی اُس ادارے نے پرنٹنگ کی دنیا میں نمایاں مقام حاصل کر لیا۔ 90 کی دہائی کے اوائل میں خود کو ان جھمیلوں سے الگ کرکے بچوں کو ذمے داری سونپ دی۔اب بات ہوجائے اُس کارنامے کی، جس نے اردو کو قوت پرواز عطا کی:
یہ ستر کی دہائی کے اواخر کا ذکر ہے۔ پرنٹنگ انڈسٹری کی معروف شخصیت، سید مطلوب الحسن اْن کے دیرینہ دوست تھے۔ دونوں کے درمیان خط نستعلیق کو ’’میکانائز‘‘ کرنے کا مسئلہ زیربحث رہتا۔ کچھ تجربات بھی کیے، مگر بات نہیں بنی۔ بڑی سوچ بچار کے بعد فیصلہ کیا کہ حروف کے ٹکڑے کرنے کے بجائے الفاظ کے ٹکڑے کیے جائیں۔ یونٹ بنا دیے جائیں۔ یعنی ’’پر‘‘ لکھنے کے لیے ’’پ‘‘ اور ’’ر‘‘ کو الگ نہ کیا جائے، بلکہ ’’پر‘‘ ہی کا یونٹ بنایا جائے، جو ہر جگہ کام آئے۔ مثلاً ’’فر‘‘ ایک یونٹ ہے۔ اس کے آغاز میں ’’کا‘‘ لگا دیا جائے، تو ’’کافر‘‘ ہوجائے گا۔ آخر میں ’’حت‘‘ لگا دیں، تو ’’فرحت‘‘ ہوجائے گا۔‘‘ کلیہ تو سمجھ گئے، مگر عملی تجربہ سہل نہیں تھا۔
79ء میں سنگاپور میںہونے والی پرنٹنگ انڈسٹری کی ایک نمایش میں اُنھوں نے برطانوی کمپنی، مونوٹائپ کارپوریشن کے اسٹال پر رش لگا دیکھا۔ پتا چلا کہ چینی زبان کمپوز ہورہی ہے۔ میز پر ’’کی بورڈ‘‘ رکھا ہے، چھے سات سو بٹن ہیں۔ اسکرین پر لفظ ابھر رہے ہیں، جو جُڑ کر ایک شکل اختیار کر لیتے۔ وہ ایک قیمتی لمحہ تھا۔ خود سے کہا؛ جب چینیوں نے اپنی زبان کے 80 ہزار کریکٹرز قابو کرلیے، تو ہم یہ کیوں نہیں کرسکتے۔
مونوٹائپ والوں سے بات کی۔ اُنھیں متذبذب پایا، تو کہہ دیا: اگر تجربہ ناکام گیا، تو مالی نقصان وہ اکیلے برداشت کریں گے۔ اب کام شروع ہوا۔ اردو کے ایک موقر روزنامے کا لاہور سے اجرا ہونے کو تھا۔ جب اخبار کے مالک کو اطلاع ملی کہ خط نستعلیق کمپیوٹر پر منتقل کیا جارہا ہے، تو اُنھوں نے جمیل صاحب سے رابطہ کیا۔ لاہور کے پرچے کو اِس منصوبے کی تکمیل تک موخر کر دیا۔ ساتھ ہی کام میں معاونت کے لیے ایک کاتب اُن کی طرف روانہ کردیا۔
پہلے نمونے کی تیاری میں چھے ماہ لگے، جسے 80ء میں لندن میں ہونے والی نمایش پیش کیا گیا۔ اوروں نے تو سراہا، مگر پاکستانی تشکیک کا شکار نظر آئے۔ بہت سوں نے اس دعوے کو ڈھکوسلا قرار دے دیا، مگر جمیل صاحب نے پروا نہیں کی۔ اپنے نمونے مقتدرہ قومی زبان کے چیئرمین، اشتیاق حسین قریشی کے سامنے پیش کیے۔ انھوں نے صدر پاکستان سے بات کی۔ حکومت کی جانب سے تعاون کی یقین دہانی کے بعد ایک پریس کانفرنس منعقد کی۔ خط نستعلیق کی برقیاتی کتابت میں کام یابی کا اعلان کردیا گیا۔ یہ خبر جنگل میں آگ کی طرح پھیل گئی۔ اس دل کش خط کی برقیاتی صورت گری کی امید بڑھنے لگی، مگر ان امیدوں کے ساتھ جمیل صاحب کی مشکلات میں بھی اضافہ ہونے لگا۔ برطانوی ماہرین کا خیال تھا کہ کتابت سے طباعت تک کا سفر کئی برس میں طے ہوگا۔ جمیل صاحب نے منصوبے کو چھے ماہ میں مکمل کرنے کا بیڑا اٹھایا۔ خیال یہی تھا کہ بیس کاتب اکٹھے کرکے تختیاں لکھوا لیں گے، مگر بعد میں سوچا؛ بیس کاتب، بیس مختلف اساتذہ کے شاگرد ہوں گے۔ ہر ایک اپنے طرز پر تختی لکھے گا۔ تحریر میں ہم آہنگی نہیں ہوگی۔ کسی ایک کاتب نے اتنے کم وقت میں منصوبے کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے کی ہامی نہیں بھری۔ امکانات معدوم ہونے لگے۔ اندیشوں نے گھیر لیا۔ ایسے میں سید مطلوب الحسن نے مشورہ دیا کہ جمیل صاحب یہ کام خود کریں۔ متذبذب تھے، مگر اﷲ کا نام لے کر کام شروع کردیا۔ چھے مہینے میں اٹھارہ ہزار تختیاں لکھ لیں۔ اُن اٹھارہ ہزار تختیوں سے تین لاکھ سے زاید الفاظ بن سکتے تھے۔
اپنے والد، نور احمد کے نام پر اُنھوں نے اِس ایجاد کو ’’نوری نستعلیق‘‘ کا نام دیا۔ یکم اکتوبر 81ء کو جب لاہور سے اردو کے اْس موقر روزنامے کا اجرا ہوا، تو وہ نوری نستعلیق ہی میں تھا۔ جمیل صاحب کی محنت اور تخلیقی اپج اردو کتابت اور طباعت کی دنیا میں انقلاب برپا کرچکی تھی۔ کچھ ہی برس گزرے ہوں گے کہ پرسنل کمپیوٹر کی منظر میں آمد ہوئی۔ جمیل صاحب کے مشوروں کی روشنی میں خط نستعلیق کو پرسنل کمپیوٹر سے ہم آہنگ کرنے کے لیے سوفٹ ویئر کی تیاری شروع ہوئی، 91ء میں ’’نوری نستعلیق اِن پیج‘‘ کے نام سے یہ سوفٹ ویئر مارکیٹ میں آگیا۔
اردو زبان و ادب کی کئی قدآور شخصیات نے اِس محسن کو خراج تحسین پیش کیا۔ احمد ندیم قاسمی نے کہا:’’اِس ایجاد نے اردو کی طباعتی دنیا میں انقلاب برپا کرکے نسلوں پر احسان کیا ہے۔‘‘ پروین شاکر نے لکھا: ’’اردو زبان اور اس کی ترقی میں جو کئی نوری سال حائل تھے، نوری نستعلیق نے ان نوری سالوں کو عبور کرلیا۔‘‘ ابو الخیر کشفی کے بہ قول:’’نوری نستعلیق نے ہماری زبان کو مستقبل کی رفتار عطا کردی۔‘‘ ڈاکٹر جمیل جالبی نے اسے ایک تاریخ ساز کارنامہ انجام دیا۔ اسی تاریخ ساز کارنامے کے لیے 82ء میں تمغۂ امتیاز اُن کے حصے میں آیا۔ 99ء میں جامعہ کراچی کی جانب سے ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری عطا ہوئی۔
جمیل صاحب آخری وقت تک متحرک رہے۔ مطالعے کا شوق تھا۔ آرٹ میں دل چسپی تھی۔ حرکت میں برکت کے قائل۔ آگے بڑھنے پر کامل یقین۔ جمود کو تو موت قرار دیتے تھے۔
17 فروری 2014 کو وہ گزر گئے۔ آگے بڑھ گئے، مگر جاتے جاتے اِس معاشرے کی جمود پرستی، رگوں میں دوڑتی الکسی اور بے حسی عیاں کرگئے۔ کیسا المیہ ہے، اتنے بڑے انسان کا انتقال ہوا، اور ہم پر ایک بے زار کن چپ طاری رہی۔ اہل اقتدار سے شکوہ نہیں کہ زبان و ادب اُن کی ترجیحات میں شامل نہیں، مگر اہل ادب کو کیا ہوا۔ کوئی تعزیتی بیان نہیں، دکھ کا اظہار نہیں۔ موت برحق ہے۔ ہر انسان کو جانا ہی ہوتا ہے، مگر جمیل صاحب کے معاملے میں ہم نے جس غفلت کا مظاہرہ کیا، وہ سراسر مجرمانہ ہے۔ 17 نومبر 2013 کو اُن کا تفصیلی، اور شاید آخری انٹرویو ایکسپریس میگزین میں شایع ہوا۔ چند روز بعد ملاقات ہوئی۔ درخواست کی کہ وہ اپنی آپ بیتی لکھیں۔ مسکرائے، کہا۔ ’’اب میرے لیے تو ممکن نہیں۔ مواد سارا بکھرا ہوا ہے۔ سوچتا ہوں، کسی کو سونپ دوں۔‘‘
اُنھیں وقت نہیں ملا۔ خوابوں کی صورت گری کرنے والا، اردو کا محسن ایک روز خاموشی سے گزر گیا۔ اور ذرایع ابلاغ خاموش رہے۔
سچ تو یہ ہے کہ اِس تحریر کا ماخذ کرب اور شرمندگی کے اور کچھ بھی نہیں!!