کسی بھی جنگ، تصادم یا کسی قدرتی آفت کے نتیجے میں جب لوگوں کو ہجرت کرنا پڑے، تو بہت سے المیے وقوع پذیر ہوتے ہیں۔
ایک جگہ سے دوسری جگہ ہجرت کا عارضی اور مستقل سلسلہ دنیا میں کسی نہ کسی وجہ سے ہمیشہ سے جاری ہے۔ گذشتہ کچھ عرصے سے شام میں حکومت اور باغیوں کے تصادم کے نتیجے میں ایک طرف بہت بڑے پیمانے پر جانی و مالی نقصان ہوا تو دوسری طرف اَن گنت لوگوں کو اپنے گھر بار بھی چھوڑنے پڑے۔ ان بے گھر ہونے والے لوگوں نے زیادہ تر شام کے ہم سایہ ممالک میں پناہ لی ہے اس میں سرفہرست اردن میں قائم ’’زعتری کیمپ‘‘ ہے۔ اقوام متحدہ کے اعدادوشمار کے مطابق یہاں اب تک ایک لاکھ ڈھائی ہزار افراد کا اندراج کیا جا چکا ہے۔ ان پناہ گزینوں میں خواتین کا تناسب 53 فی صد، جب کہ مردوں کا تناسب 47 فی صد ہے۔
اپنے ملک سے جان ومال اور عزتوں کے تحفظ کے لیے یہاں آنے والی خواتین کو یہاں بھی شدید مشکل صورت حال کا سامنا ہے۔ اردن اور شام کے درمیان ثقافتی اختلاف اور قوانین کا فرق ان کیمپوں میں خواتین کے استحصال کی وجہ بن رہا ہے۔ شام کے روایت پسند معاشرے میں نسبتاً کم عمر لڑکیوں کی شادی عام ہے، لیکن اردن میں 18 سال سے کم عمر میں ہونے والی کسی بھی شادی کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہوتی۔ یہی وجہ ہے کہ جرائم پیشہ عناصر نے اس معاملے کو مظلوم شامی خواتین کے استحصال کے لیے استعمال کرنا شروع کر دیا ہے۔ شامی لڑکیوں کو پہلے تو شادی کے جال پھنسایا جاتاہے۔ اس کے بعد انہیں بارز اور نائٹ کلبوں کا حصہ بننے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ ساتھ ہی انہیں دیگر جگہوں پر فروخت کرنے جیسے واقعات بھی سامنے آ رہے ہیں۔ کیمپ میں موجود امدادی کارکنان خواتین کو درپیش ان خطرات کے حوالے سے تشویش میں مبتلا ہیں۔
بہت سی خواتین ایسی ہیں جنہیں شادی کے محض چند ماہ بعد ہی طلاق دے دی گئی۔ خواتین کو استعمال کرنے کے لیے جبری شادیوں کی شکایات بھی سامنے آرہی ہیں۔ ایسی ہی ایک شامی خاتون عشتر کا خط بھی گذشتہ دنوں منظر عام پر آیا، جس میں انہوں نے بتایا کہ یہاں ان سے زبردستی شادی کے کاغذات پر دستخط کراکے انہیں بازار کی زینت بنا لیا گیا ہے۔ انہوں نے بے بسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ نہیں جانتیں کہ اب وہ کس طرح ان لوگوں کے چنگل سے آزاد ہو سکتی ہیں۔
کیمپوں میں موجود شامی خواتین کے اس مسئلے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ پریشان شامی خاندان یہ سمجھتے ہیں کہ خدا جانے انہیں کب تک یہاں بسیرا کرنا پڑے۔ اگر وہ یہاں اپنی بچیوں کی شادی کردیتے ہیں، تو ایک فرض سے بھی سبک دوش ہوجائیں گے، ساتھ ہی انہیں یہاں جہیز کے مطالبات کا سامنا بھی نہیں ہوگا، لیکن وہ یہ نہیں جانتے کہ 18سال سے کم عمر کی شادیاں اردن میں غیر قانونی ہیں۔ محض سادے کاغذ پر دست خط سے قائم ہونے والے ازدواجی تعلق کو یہاں کا قانون تسلیم نہیں کرتا۔ ایسی خواتین کے شوہر اگر خدانخواستہ بعد میں انہیں چھوڑ جائیں، تو اپنے حقوق کے لیے ان کے پاس قانونی چارہ جوئی کے لیے کوئی بنیاد ہی نہیں رہتی۔
شام سے یہاں آنے والی ایک شامی خاتون تمیرہ اپنے شوہر اور 16 سالہ بیٹی کے ساتھ یہاں مقیم ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ وہ اپنی بیٹی کی شادی کے لیے فکرمند ہیں۔ یہاں بہت سے لوگ شام سے تعلق رکھنے والی صرف دراز قد، خوب رو اور صاف رنگ کی حامل لڑکیوں کے ہی رشتے مانگتے نظر آتے ہیں۔ انہیں لگتا ہے کہ یہاں شامی پناہ گزینوں کی بے چارگی اور مجبوری سے فائدہ اٹھایا جا رہا ہے۔
پناہ گزین کیمپ کے محافظ کرنل عیدالقراریٰ کیمپوں میں شامی خواتین سے جبری شادیوں اور ان کی اسمگلنگ اور فروخت کی اطلاعات کو بے بنیاد قرار دیتے ہیں، البتہ عَمان میں International Organisation of Migration کے انسداد انسانی اسمگلنگ کے شعبے سے وابستہ عامرہ محمد کہتی ہیں کہ انہیں شامی پناہ گزینوں کے کیمپ میں خواتین کے سنگین استحصال کی سُن گُن مل رہی ہے۔ اگرچہ جنگ زدہ اور حالات کے ستائے لوگوں کے ساتھ اس طرح کے واقعات کوئی نئی بات نہیں، لیکن وہ اس حوالے سے لوگوں میں شعور اجاگر کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ اس کے لیے انہوں نے امدادی ڈبوں پر آگہی کے پیغامات کنندہ کرائے ہیں۔ شامی خاتون عشتر کے سامنے آنے والے خط کو انہوں نے خواتین کے جنسی استحصال کے حوالے سے ایک ثبوت قرار دیا اور کہا کہ وہ خواتین کی اسمگلنگ کے حوالے سے اردنی حکام کی مدد حاصل کرنے کی کوشش کریں گی۔
شام کے ہم سائے ملک میں قائم پناہ گزین کیمپوں کے علاوہ شام کے اندر بھی بے گھر افراد کی حالت نہایت خراب ہے۔ دارالحکومت دمشق میں امن کے زمانے سے قائم ایک کیمپ اس خانہ جنگی کی لپیٹ میں ہے۔ یرموک کے علاقے میں قائم یہ کیمپ بے گھر فلسطینیوں کا ہے۔ اس کا رقبہ بہ مشکل ایک مربع میل ہے۔ پہلے یرموک ایک گنجان تجارتی اور رہایشی علاقہ شمار کیا جاتا تھا۔ جنگ شروع ہونے سے پہلے اس کی آبادی ڈیڑھ لاکھ نفوس پر مشتمل تھی۔ مقامی باشندوں کے علاوہ اسرائیلی دہشت گردی کے ستائے فلسطینی یہاں کئی پشتوں سے آباد تھے۔ حکومت اور باغیوں کے مابین تصادم شروع ہوا تو بہت سے لوگ یہ علاقہ چھوڑ گئے۔ بہت سے لوگوں نے حکومت اور باغیوں کے گروہوں میں بھی شمولیت اختیار کی۔
اقوام متحدہ کے اعداد وشمار کے مطابق یرموک میں 18 ہزار افراد اب بھی موجود ہیں، جو نہایت دشوار اور خطرناک صورت حال سے دو چار ہیں۔ گذشتہ کئی ماہ سے یہاں غذائی اجناس کی شدید قلت ہے اور ایک کلو چاول کی قیمت 100 ڈالر تک جا پہنچی ہے۔
آج بھوک کے باعث نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ محض ایک پیالی چاول کے عوض خواتین خود کو فروخت کر رہی ہیں۔۔۔ شدید غذائی قلت کے باعث لوگ کتے، بلیوں اور گدھوں کا گوشت کھانے پر مجبور ہیں۔۔۔ یہاں کے مکینوں کا کہنا ہے کہ افلاس کے باعث ان لاغر جانوروں کی بھی حالت ایسی ہے کہ ان میں گوشت بچا ہی نہیں، ہڈیاں ہی ہڈیاں ہیں۔ ’’سیرین آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس‘‘ کے مطابق یرموک میں غذا اور طبی امداد کی قلت کے سبب اب تک 25 خواتین سمیت 78 افراد زندگی کی بازی ہار چکے ہیں۔ ان میں سے 61 اموات فقط گزشتہ تین ماہ کے دوران ہوئیں۔
20 لاکھ افراد کی نقل مکانی
شام میں ہونے والے تصادم کے نتیجے میں اب تک 20 لاکھ افراد نقل مکانی پر مجبور ہو چکے ہیں اور اتنی ہی بڑی تعداد میں ملک کے اندر بے گھر ہیں۔ نقل مکانی کرنے والے زیادہ تر لوگ شام کے ہم سائے ممالک اردن، لبنان، عراق اور ترکی میں پناہ گزین ہوئے ہیں، جب کہ ہزاروں افراد دنیا بھر کے دیگر ممالک میں بھی ہجرت کر چکے ہیں۔
اگست 2012ء میں UNHCR کی رپورٹ کے مطابق شامی پناہ گزین کی تعداد دو لاکھ تھی، جس میں بتدریج اضافہ ہوتا چلا گیا۔ مارچ 2013ء میں UNHCR کی ترجمان سبیلا ویلکیس (Sybilla Wilkes) کے مطابق شامی پناہ گزینوں کی تعداد 12 لاکھ سے بھی تجاوز کر گئی ہے۔ دسمبر 2013ء میں اقوام متحدہ نے شامی پناہ گزینوں اور متاثرین کے لیے ساڑھے چھ ارب امریکی ڈالر امداد کی اپیل کی، جو اقوام متحدہ کی تاریخ میں انسانی بنیادوں پر کی جانے والی اب تک کی سب سے بڑی امداد کی اپیل ہے۔ خانہ جنگی کے باعث شام کے ہزاروں اسکول بھی متاثر ہوئے ہیں، جس کے باعث تقریباً 20 لاکھ بچوں کی تعلیم کا حرج ہو رہا ہے۔