(12مئی 2020ء کو اردو کے عظیم اور عہد ساز مزاح گو سید ضمیر جعفری کی 21 ویں برسی تھی جو کورونا وبا کے باعث نہ منائی جا سکی۔ اس مناسبت سے مرحوم کا یہ خاکہ شائع کیا جا رہا ہے۔)
کچھ لوگوں کو ان کی وفات کے بعد بھی یاد کریں تو تبسم زیرِلب کو روکا نہیں جاسکتا ۔ ہمارے اس ’’قول زریں‘‘ کا حضرت ضمیرؔ جعفری پر سو فی صد اطلاق ہوتا ہے۔ جتنی مسرت ان سے مل کر ہوتی تھی اتنی ہی اب ان کے تصور سے ہوتی ہے، کیوں کہ وہ تو مجسّم ہنسی، سرا پا قہقہہ اور سرتاپا محبت تھے۔
یقین ہی نہیں آتا کہ وہ ہم میں موجود نہیں۔ ان کا بھاری بھر کم جثّہ، پاٹ دار آواز، کاٹ دار جملے، بسیار گوئی، مجلس سازی، چمکتا ہوا گلابی چہرہ، دمکتے ہوئے گال، ’’توسیع پذیر‘‘ پیشانی، سر پر مائل بہ تخفیف بال، لمبی ستواں ناک، اُس پر موٹے شیشوں اور ان سے زیادہ موٹی کمانیوں کا چشمہ، آنکھوں میں ذہانت اور شرارت آمیز شوخی، کلین شیو، دراز قد، کشادہ بازو، باہر نکلتا ہوا سینہ اور اس سے بھی آگے بڑھتا ہوا شکم ِ مبارک، غرض وضع قطع کے کس کس پہلو کا ذکر کیا جائے۔ بہتر ہوگا کہ دوستوں کی جانب سے ’’پیر و مرشد‘‘ کا خطاب پانے والے کے سراپے کا تھوڑا بہت حال خود ان کی زبانی بھی سن لیا جائے۔ فرماتے تھے ؎
یہ بڑھاپا تو مجھ کو خدا نے دیا
ہے مٹاپا مگر میرا خودساختہ
۔۔۔
مونچھیں کہاں گئیں ہماری
پوچھیں گے یہ اسمبلی سے
۔۔۔۔
پیر صاحب! آپ کو کچھ زیب تو دیتی نہیں
من کی باتیں تن پہ اس دو تین من چربی کے ساتھ
دبلا پتلا (آج کی اصطلاح میں ’’اسمارٹ‘‘) فرد اُن کے معیار ِنجابت پر پورا نہیں اتر تا تھا ۔ کہتے ہیں ؎
پتلی گردن، پتلے ابرو، پتلے لب، پتلی کمر
جتنا بیمار آدمی ، اتنا طرح دار آدمی
سیدضمیر جعفری ایک مقناطیسی شخصیت کے مالک تھے۔ جو اُن سے ایک بار مل لیتا تھا، دوبارہ ملاقات کا متمنی رہتا۔ پہلی ملاقات میں سامنے والے کو ایسا تاثر دیتے جیسے برسوں کی شناسائی ہو۔ گفتگو، رویے اور اپنائیت کے بل پر ہر کسی کا دل موہ لیتے تھے۔ مزاج میں تکلف، تصنع اور تفاخر نام کو نہ تھا۔ باتوں میں شیرینی اور شگفتگی کُوٹ کُوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ بھاری بھر کم جسامت اور سرتاپا علمیت کے باوجود طبیعت میں غضب کا انکسار تھا۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ ان کی طرف کھنچتے تھے۔
کرشن چندر نے ’’چھٹی حِس‘‘ میں لکھا تھا ’’ہر آدمی اپنی شخصیت سے ایک خاص قسم کی ذَرّاتی قوت مترشح کرتا رہتا ہے۔ یہ قوت یا تو اس قدر دل کش ہوتی ہے کہ ہر فرد ہزار برائیاں دیکھتا ہوا بھی خودبخود اس کی طرف کھنچتا ہوا چلا جاتا ہے یا اس قدر تنافرانگیز ہوتی ہے کہ ہر فرد اس کی حسین ترین تجسیم کے باوجود اس سے نفرت کرنے لگتا ہے۔ اور یہ سب کچھ پہلے لمحے میں ہوتا ہے جب ایک شخصیت دوسری شخصیت سے ٹکراتی ہے۔ یہ ذراتی لہریں بھی عجیب و غریب ہیں اور شاید اسی سبب سے آئین اسٹائن نے کہا تھا کہ ہم لوگ ایتھر کی لہروں سے زیادہ کچھ نہیں ہیں۔ ‘‘ میرے ساتھ 1997ء میں ان سے پہلی ملاقات کے موقع پر یہی کچھ ہوا تھا۔
کراچی جمخانے میں کوئی ادبی تقریب تھی اور جعفری صاحب حاضرین میں براجمان تھے۔ ان کے اطراف کی دونوں کرسیاں خالی تھیں اس لیے میں اپنا نام بتاکر علیک سلیک کرنے کے بعد ان کے بائیں جانب بیٹھ گیا۔ میرا نام سن کر وہ لمحہ بھر کے لیے چونکے اور پھر مجھ سے پوچھا’’آپ وہی ایس ایم معین قریشی تو نہیں جو ہمارے ’’پنچ‘‘ میں لکھ رہے ہیں؟‘‘ میں نے اقرار کیا کہ حضور ع میں وہی ہوں ’’معینِ‘‘ مبتلا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو۔ (’’پنچ‘‘ پاکستان میں مزاح کا انتہائی معیاری جریدہ تھا جس کے اجرا کنندگان میں شفیق الرحمٰن، کرنل محمد خان، شیخ نذیر اور جعفری صاحب پیش پیش تھے۔) جعفری صاحب یہ جان کر بے حد خوش ہوئے۔ میرے لیے بھی یہ ملاقات ایک اعزاز سے کم نہ تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ مجھ ناچیز کی تحریریں ’’پنچ‘‘ کے علاوہ بھی دیگر ادبی جرائد میں پڑھتے رہے ہیں۔ اب مجھ پر دل ہی دل میں اس شعر کا پڑھنا لازم ہوگیا تھا کہ ؎
اے ذوقؔ کسی ہمدمِ دیرینہ کا ملنا
بہتر ہے ملاقاتِ مسیحا و خضر سے
میں نے موقع سے فائدہ اٹھا تے ہوئے ان سے عرض کیا ’’سر، میرے اردو کے مزاحیہ مضامین کا پہلا مجموعہ ’’ہر شاخ پہ…‘‘ کے عنوان سے عنقریب شائع ہونے والا ہے۔ اس کے مسودے پر ڈاکٹر وزیرآغا، مشتاق یوسفی، محمد خالد اختر، مشفق خواجہ، ڈاکٹر ابوالخیر کشفی، ارشاد احمد خان، عطا الحق قاسمی اور دیگر متعدد مشاہیر اپنی رائے دے چکے ہیں ۔ میری خواہش اور گزارش ہے کہ چند سطور آپ بھی لکھ دیں تو کتاب کی توقیر دو چند ہوجائے گی۔ وہ تو گویا تیار ہی بیٹھے تھے۔ مجھے مشورہ دیا کہ میں کتاب کے کم از کم دس منتخب مضامین کی نقول انھیں فراہم کردوں۔ اس زمانے میں ان کے صاحب زادے میجر جنرل احتشام ضمیر کراچی کے جنرل آفیسر کمانڈنگ (جی او سی) تھے اور جعفری صاحب ان کے ساتھ ملیر کینٹ میں رہائش پذیر تھے۔ میں نے پتا لے کر دس مضامین کی فوٹوکاپیاں انھیں ڈاک کے ذریعے بھیج دیں۔
ایک ہفتے بعد ہی، دیگر حضرات کے مختصر مضامین کے برعکس، جعفری صاحب کی ایک تفصیلی تحریر موصول ہوئی جس میں انھوں نے اس خاکسار کو ’’مزاح کا چشمۂ کوہستانِ نمک‘‘ قراردیا۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ میں نے مزاح نگاری کا آغاز مجید لاہوری کے ’’نمکدان‘‘سے کیا تھا۔ اس حوالے سے انھوں نے لکھا ’’نمکدان ‘‘ کے نئے لکھنے والوں میں معین قریشی کے تیور ایک انوکھی ذہنی بشاشت کے حامل تھے۔ ان کی تحریر بیک وقت عوامی ترسیل اور ثقافتی ترتیل رکھتی تھی۔۔۔‘‘ یہ گراں قدر نثر پارہ ’’ہر شاخ پہ۔۔۔‘‘ میں شامل ہوا لیکن اُس کے بعد سے یہ میری مزاح کی ہر کتاب میں بطور ’’تعارف‘‘ تبرکاً شائع کیا جاتا ہے۔
مجھے 17فروری1998ء کی وہ شام بھی نہیں بھولتی جب میرے گھر (صدیق ہاؤس، کراچی) میں اہل علم و ادب کی ایک کہکشاں جمع تھی۔ ان میں یوں تو جمیل الدین عالی (مع بیگم عالی)، مشتاق یوسفی (مع بیگم یوسفی)، اظہر حسن صدیقی (مع بیگم صدیقی) راغبؔ مراد آبادی، قمر علی عباسی (مع بیگم نیلوفر عباسی)، نسیم درانی، حفیظ با حلیم، ضیا الحق قاسمی، ڈاکٹر ہارون صدیقی شاہدؔ جیسی نابغہ روز گار ہستیاں شامل تھیں لیکن جانِ محفل سید ضمیر جعفری ہی تھے۔ جیسا کہ ڈاکٹر جمیل جالبی نے ان کے لیے لکھا تھا ’’جہاں ضمیر جعفری ہوں وہاں رونق محفل کو چار چاند لگ جاتے ہیں۔‘‘ کھانے سے پہلے تقریباً ایک گھنٹہ اور کھانے کے بعد دو گھنٹے تک عالم یہ تھا کہ ع وہ کہیں اور سنا کرے کوئی۔ عالی جی اور یوسفی صاحب بڑی چالاکی سے تھوڑے تھوڑے وقفے سے کوئی شوشہ چھوڑ دیتے اور جعفری صاحب قہقہہ آور واقعات کا ایک نیا دفتر کھول دیتے تھے۔ گفتگو کے ساتھ ساتھ فرمائش کا دور بھی چلتا رہا۔ اس رات انھوں نے اپنی مشہور زمانہ نظم ’’پید اکرو‘‘ سناکر ہنسایا بھی اور اہل دانش کے ذہنوں کو گھمایا بھی۔ یہ چند اشعار اب تک یاد ہیں ؎
شوق سے لختِ جگر، نُورِ نظر پیدا کرو
ظالمو! تھوڑی سی گندم بھی مگر پیدا کرو
شیخ، ناصح، محتسب، ملاّ کہو کس کی سنیں؟
یارو، کوئی ا یک مردِمعتبر پیدا کرو
حضرت اقبالؔ کا شاہیں توہم سے اُڑ چکا
اب کوئی اپنا مقامی جانور پیدا کرو
جعفری صاحب شاعر تو تھے ہی،’’لغت نویس‘‘ بھی غضب کے تھے۔ ایسے ایسے الفاظ کلام میں لاتے کہ بڑے بڑے ماہرین لسانیات ان کے معانی اور مفاہیم کی گرد کو بھی نہیں پہنچ سکتے تھے۔ میری درخواست پر انھوں نے اپنی نظم ’’ضمیریات‘‘ سنانی شروع کی؎
مایوس و مضمحل ہیں یتیم و یسیر ہیں
وہ بھی مری طرح ہی ترقی پذیر ہیں
جن کا کلام خام، وہی برسرِکلام
نادسترس جو ہاتھ، وہی دستگیر ہیں
جب اس شعر پر پہنچے ؎
ان کے سخن سے کُھل نہ سکا آج تک کہ وہ
ریح الحریر ہیں کہ مسیح المصیر ہیں
تو عالی جی نے ٹوکا ’’پیر و مرشد، (اٹکتے اٹکتے) یہ ریح الحریر اور مسیح المصیر کیا معنی رکھتے ہیں ؟‘‘ جعفری صاحب نے نہایت بھولپن سے جواب دیا ’’کچھ بھی نہیں‘‘ اور محفل زعفران زار بن گئی۔
سید ضمیر جعفری پہلی جنوری 1916ء کو پنجاب کے ضلع جہلم کے ایک گاؤں چک عبدالخالق میں پیدا ہوئے۔ تاہم یونین کونسل، پرائمری اسکول اور میٹرک کی اسناد کی رُو سے آپ تین مرتبہ پیدا ہوئے اس لیے کہ تینوں جگہ مختلف تاریخِ پیدائش درج ہے۔ ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں کے اسکول سے اور ثانوی، گورنمنٹ ہائی اسکول جہلم سے حاصل کی۔ میٹرک کے امتحان میں اپنے پکے مسلمان ہونے کا ثبوت اس طرح دیا…کہ حساب میں فیل ہوگئے۔ بہرحال، ’’سپلی‘‘ سے گزر کر انٹر پاس کیا اور اسلامیہ کالج لاہور سے بی اے کرلیا۔
شاعری کا آغاز ساتویں جماعت ہی سے کردیا تھا۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد کوچۂ صحافت میں قدم رکھا اور مولانا چراغ حسن حسرت کے اخبار ’’شیرازہ‘‘ میں بطور مدیر معاون کام شرو ع کیا۔ کچھ عرصے بعد دہلی چلے گئے اور کلرکی اختیار کی۔ یہ پیشہ راس نہ آیا تو فوج میں کمیشن حاصل کیا اور جنگِ عظیم دوم کے دوران سنگاپور میں خدمات انجام دیں۔ وہ فوج کے شعبۂ تعلقاتِ عامہ میں تھے۔ اس شعبے سے مجید ملک، فیض احمد فیض، چراغ حسن حسرت، ن م راشد، حفیظ جالندھری اور صدیق سالک جیسے نامی گرامی اہل قلم وابستہ رہے ہیں۔
1949ء میں کپتانی سے استعفا دے کر خاکی وردی اتار دی اور ایک بار پھر صحافت میں آئے لیکن ناکام رہ کر واپس وردی میں آگئے۔ دوسری مرتبہ بحیثیت میجر ریٹائر ہوئے اور مختلف سویلین اداروں میں کام کرتے رہے جن میں کیپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) بھی شامل ہے۔ ان کا شمار اسلام آباد کی پہلی اینٹ رکھنے والوں میں کیا جاتا ہے۔ ایک مرتبہ سیاست کا شوق چَرایا اور الیکشن میں حصہ لیا لیکن روایت ہے کہ انتخابی مہم پورے خلوص سے مخالف امید وار کی چلاتے رہے۔ چنانچہ وہی نتیجہ حاصل کیا جو حکیم محمد سعید شہید نے اپنی ایسی ہی کوششِ رائگاں سے حاصل کیا تھا__ ان کا ’’پسندیدہ‘‘ امیدوار جیت گیا۔
جعفری صاحب شاعر بھی تھے، ادیب بھی، مترجم بھی، کالم نویس بھی اور ناول نگار بھی۔ اس قدر کثیرالتصنیف اور سریع التصنیف تھے کہ بقول شخصے ’’ناشتے میں دیباچہ پسند کرتے تھے، لنچ کالم سے کرتے، چائے غزل سے اور ڈنر صدارتی خطبے سے تکمیل پاتا۔‘‘ بھلکڑ اتنے زبردست تھے کہ کبھی کسی تقریب کے لیے تقریر لکھی اور اسے اتنا سنبھال کر رکھ دیا کہ وقت پر دستیاب نہ ہوئی۔ لہٰذا تلاش میں وقت ضائع کرنے کے بجائے ہاتھ کے ہاتھ دوسری لکھ لیتے تھے۔ اُن کے ادبی سرمائے میں شاعری کے چوبیس مجموعے اور نثر کی پچیس کتابیں شامل ہیں جن میں پانچ (1943ء تا 1997ء کے دوران لکھی گئیں) روزنامچوں کے انتخاب پر مبنی ہیں۔ روزنامچوں میں بھی اُن کی شگفتہ نگاری عروج پر تھی، مثلاً 26 ستمبر 1971ء کی ڈائری میں ایک عرس کی روداد کے آخر میں لکھتے ہیں ـ” نذیر بادشاہ نے بتایا کہ خرچ کے بعد تیس ہزار روپے نقد، پندرہ زندہ بکرے اور سوا سو اذانیں دیتے ہوئے مرغ منافع میں ہاتھ آئے۔ ” تاہم ان کی شناخت ایک مزاح گو کی حیثیت سے ہے۔ ’’مافی الضمیر‘‘، ’’ضمیرِ ظرافت‘‘، ’’سرگوشیاں، ’’ولایتی زعفران‘‘ اور ” مسدّسِ بدحالی ” وغیرہ ان کی مزاحیہ شاعری کے مقبول مجموعے ہیں۔ نثری سرمائے میں خاکے (’’کتابی چہرے‘‘) اور ڈائری کے علاوہ ’’خسرنامہ‘‘ کے عنوان سے ایک ناولٹ شامل ہیں۔ ان کا مزاح سادگی، شائستگی، برجستگی اور شگفتگی کا مرقع ہے۔ ہنسی کی خاطر کبھی معیار کا سودا نہیں کیا۔ معاشرے میں پائی جانے والی ناآسودگی، ناانصافی، ناہمواری، منافقت، مخاصمت، محاسدت، بغض، کینہ، ریا اور دیگر لاتعداد معائب و مصائب پر انھوں نے بھرپور وار کیے لیکن اس طرح کہ جس فرد /طبقے کو نشانہ بنایا وہ پکار اٹھا ؎
لگتی ہیں گالیاں بھی ترے منہ سے کیا بھلی
قربان تیرے پھر مجھے کہہ لے اُسی طرح
(مومنؔ)
حاضر جوابی، بذلہ سنجی اور نکتہ فہمی کے اوصاف جعفری صاحب پر ختم تھے۔ ایک محفل میں وہ، جنرل ضیاالحق اور حفیظ جالندھری یکجا تھے۔ جعفری صاحب کی لفظی پھلجھڑیاں سن کر حفیظ صاحب نے اپنے مخصوص بے تکلفانہ انداز میں کہا ’’اوئے جعفری، جب تُو فوج میں میرا ماتحت تھا، اس وقت تو نِرا بوڑم تھا۔ آج بڑے مزے کی باتیں کررہا ہے!‘‘ جعفری صاحب نے ترکی بہ ترکی جواب دیا ’’سر، یہ سب آپ سے دوری کا فیض ہے۔‘‘ ابوالاثر صاحب اپنا سامنہ لے کر رہ گئے۔ سید ضمیر جعفری کے نزدیک ’’مزاح کی تعریف یوں کی جاسکتی ہے کہ جو چیز آپ کی طبیعت، آپ کی روح اور آپ کے ذوق میں ایک احساسِ لطافت، احساسِ مسرت اور احساس ِ شگفتگی پیدا کردے، وہ صحیح ظرافت ہے۔ پھر اس ظرافت میں ایک ادبی پہلو اور ایک ذہنی سطح کو برقرار رکھنا ضروری ہے۔ اس سے ایک سلجھا ہوا اور نکھرا ہوا احساس پروان چڑھتا ہے اور یہی احساس زندگی پر دوررس اثر ڈالتا ہے۔‘‘ ہندوستان کے ایک معروف مزاح گو (مرحوم جی ایم احمد خوامخواؔہ) نے بھی یہی کچھ کہا تھا ؎
ظرافت میں فصاحت اور شرافت بھی ضروری ہے
گدھوں پر زین کس دینے سے وہ گھوڑے نہیں ہوتے
مزاح کا سرچشمہ اندوہ ہے۔ لیکن مزا ح نگار جذبات الم کی ترجمانی بھی ہلکے پھلکے انداز میں کرتا ہے۔ قاری، مزاح نگار کے غم تک پہنچے یا نہ پہنچے لیکن لکھنے والے کا فرض ہے کہ اس کے فن پارے کا پہلا ردعمل ذہنی آسودگی ہو۔ اس مقصد کا حصول کتنا مشکل ہے یہ کوئی جعفری صاحب سے پوچھے۔ فرمایا ؎
میرا چہرہ دیکھنے والوں کو کیا معلوم ہے
کتنے آنسو پی گیا ہوں مسکرانے کے لیے
علامہ اقبالؔ سے قوم کے اظہارِعقیدت پر یہ تیکھا طنز ہماری گردنیں جھکا دینے کے لیے کافی ہے ؎
کبھی اک سال میں ہم مجلسِ اقبالؔ کرتے ہیں
پھر اس کے بعد جو کرتے ہیں وہ قوّال کرتے ہیں
ایشیا اور امریکا کے معاشی اور معاشرتی حالات کا اس سے زیادہ طنز آمیز اور فکرانگیز تقابل شاید ممکن نہ ہو ۔ کہتے ہیں ؎
پوچھتے ہو ایشیا اور امریکا کا فرق
جو ہمارے گھر میں ہے، اُن کے عجائب گھر میں ہے
جعفری صاحب نے انگریزی کی چند مزاح پاروں کے ترجمے بھی کیے۔ بطور نمونہ، انگریز شاعر اور طنز نگار John Drydenنے اپنی بیوی کی قہقہہ آور لوح مزار لکھی:
Here lies my wife; here let her lie!
Now she is at rest, and so am I.
جعفری صاحب نے اس کا یہ برجستہ اور پر لطف ترجمہ کیا:
میری بیوی قبر میں لیٹی ہے جس ہنگام سے
وہ بھی ہے آرام سے اور میں بھی ہوں آرام سے
جعفری صاحب کو سنجیدہ گوئی میں بھی کمال حاصل تھا۔ ان کی نظموں اور غزلوں کے مجموعے ’’کھلیان‘‘ اور ’’قریۂ جاں‘‘ اس حقیقت کا منہ بولتا ثبوت فراہم کرتے ہیں۔ اخلاق کا یہ شعر ملاحظہ ہو ؎
کبھی اے کاش ہم سے کوئی ایسا کام ہو جائے
کہ جینا واقعی اک حسن، اک انعام ہو جائے
یہ قابل غور نکتہ بھی دیکھیے ؎
یہ دور، دورِ پُر آشوب ہی سہی لیکن
زمانہ پہلے بھی کب کس کو سازگا ر ہوا
یا پھر یہ تلخ حقیقت ؎
حدیں صرف باہر سے کب ٹوٹتی ہیں
غنیم اپنے قصبے کے اندر بھی ہوگا
اگرچہ جعفری صاحب فوجی تھے لیکن ہمیشہ امن کے گیت گاتے رہے ؎
برملا نقصان ہر اک رنگ میں
فتح کب کس کو ہوئی ہے جنگ میں
۔۔۔۔
ضمانت امنِ عالم کی نہتے لوگ ہوتے ہیں
وہاں جنگیں نہیں ہوتیں جہاں لشکر نہیں ہوتے
سید ضمیر ؔجعفری (مرحوم ) کو اُن کی ادبی خدمات کے اعتراف میں متعدّد اعزازات سے نوازا گیا ۔ 1936ء میں اُنہوں نے ” ہمایوں گولڈ میڈل ” بدست سر عبدالقادر وصول کیا ۔ حکومتِ پاکستان نے انہیں 1967ء میں تمغۂ قائداعظم اور 1985ء میں صدارتی تمغہ برائے حسنِ کار کردگی عطا کیے۔ اُن کی ایک خوبی یہ تھی کے اپنے ہم عصر حتّیٰ کہ جونیئر اہلِ قلم کی ستائش اور ہمت افزائی میں بخل سے کام نہ لیتے تھے۔ نام ور مزاح گو نذیر احمد شیخ اُن کے لنگوٹیے تھے۔ 17 مارچ 1971ء کو اُن کے انتقال پر جعفری صاحب نے اپنی ڈائری میں لکھا ” ہمارے عہد میں اردو کا بہت بڑا بلکہ سب سے بڑا شاعر چلا گیا۔1999 “ء کے آغاز میں سید ضمیر جعفری صاحب شدید طور پر علیل ہوگئے۔ انھیں علاج کے لیے لندن بھی لے جایا گیا لیکن افاقہ نہیں ہوا۔ یہاں تک کہ 12مئی 1999ء کو وہ اس دارِفانی سے کُوچ کر گئے۔ وہ تراسی سال حیات رہے۔ انھوں نے لگ بھگ 60سال گلستانِ ظرافت کی آبیاری کی اور ’’باباے ظرافت‘‘ کہلائے۔ وہ نہ خود کبھی افسردہ ہوئے نہ اوروں کو افسردہ دیکھنا چاہتے تھے۔ اپنی ہنس مکھ طبیعت کے بارے میں خود کہا ؎
وقت سے کہہ دو کہ آخر تک ضمیرِ جعفری
جب بھی دیکھا جائے گا چونچال دیکھا جائے گا
جعفری صاحب کی زندگی میں اور ان کے انتقال کے بعد ان کے معاصرین نے اپنے اپنے رنگ میں انھیں خراج تحسین پیش کیا۔ ’’شہنشا ہ ظرافت‘‘ دلا ور فگار نے ان کی شاعری پر ایک تفصیلی مضمون لکھا جو ماہنامہ ’’نیرنگِ خیال ‘‘ (راولپنڈی) کی جنوری 2009ء کی اشاعت میں شامل ہوا۔ اس مضمون کا اختتام ان توصیفی الفاظ پر ہوتا ہے،’’ہمیں دعویٰ ہے کہ ضمیر صاحب اپنے فن میں منتخب اور منفرد ہیں۔ انہیں دنیا یاد رکھے گی۔ اس کی ضمانت ان کے یہ (محولہ) اشعار ہیں۔‘‘ چند ایک دیگر نامور شعرا کے تاثرات درجِ ذیل ہیں:
نذیر احمد شیخ
ان کی رنگ آرائیوں سے محفلیں رنگین ہیں
قہقہوں کا دائمی بھونچال ہیں میجر ضمیر
ضیاالحق قاسمی
وہ ہیں بابائے ظرافت ہم ہیں ان کے بالکے
ہم ہیں پچپن سال کے اور وہ پچھتر سال کے
راغب ؔمراد آبادی
دانائے رموزِ شاعری ہیں موصوف
ممدوحِ ضیائے قاسمی ہیں موصوف
بابائے ظرافت بھی لقب آپ کا ہے
سید ہیں، ضمیر جعفری ہیں موصوف
سرفراز شاہد
روشنی کا اور مسرت کا سفیر
جس کا تھا رنگِ ظرافت بے نظیر
کر گیا سُونی ادب کی محفلیں
’’جانِ محفل تھا خد ا بخشے ضمیرؔ‘‘
انور شعور
خوشیاں بکھیر تے رہے وہ عمر بھر
کہتے ہیں دل فگار گئے حضرتِ ضمیر
پروفیسر عنایت علی خاں
بزمِ اہلِ سخن کے ضمیر آپ تھے ، کون اب معتبر کرے گا ہمیں
آپ کی یاد کے ساتھ مدت تلک ، بے ضمیر ی کا صدمہ رہے گا ہمیں
سعید آغا
منفرد تھے آپ بھی اکبرؔالہٰ آبادی کے بعد
اس حوالے سے مقلد آپ کے کہلائے ہم
فرحت ندیم ہمایوں
لو چل دیے ضمیر ؔ بھی دامن کو جھاڑ کے
اردو مشاعروں کے وہ میلے نہیں رہے
وہ ہم کو چھوڑ کر ہیں رواں آپ کی طرف
حضرتِ فگار ؔ آپ اکیلے نہیں رہے
محمد ممتاز راشد
اس کا تھا ہر کسی سے محبت کا سلسلہ
ہر شخص اس کے حسنِ سخن کا اسیر تھا
وہ آئینہ تھا اس میں ہما رے ہی عکس تھے
سید ضمیر جعفری سب کا ضمیر تھا
خالد اطہر
شاعر بھی تھا ادیب بھی اور سولجر بھی تھا
وہ تھا ضمیرؔ جعفری جو باخبر بھی تھا
میں اس خاکے کا اختتام جعفری صاحب کے اس شعر پر کرتا ہوں ؎
جانِ محفل تھا خدا بخشے ضمیرؔ
اب تو اک مدّت سے شوہر ہوگیا
دوسرے مصرِع میں تحریف کر کے ’’شوہر ‘‘ کی جگہ ’’اُوپر‘‘ پڑھیں تو بات واضح ہوجائے گی۔n
The post جانِ محفل تھا خدا بخشے ضمیرؔ appeared first on ایکسپریس اردو.