یہ انسان پچھلے 4 سو برس سے کراہ رہا ہے کہ وہ سانس نہیں لے پارہا، یہ فریاد پہلی بار اس نے 20 اگست 1619 میں کی تھی جب وہ پہلی بار غلام بنا کر ” سفید شیر” نامی جہاز جیمس ٹاؤن، ورجینیا کی بندر گاہ پر لنگر انداز ہوا تھا۔ وہ اس وقت پہلی بار غلام کی حیثیت سے منڈی میں دو ڈالر میں بکا تھا۔ اس نے اگلے ڈھائی سو سال 1865 تک بحیثیتِ غلام کپاس، چاول، تمباکو اور نیل کی پیداوار سے گورے مالکان کی دولت میں آج کے حساب سے کھربوں ڈالرز کا اضافہ کیا۔
سماجی گٹھن اور سیاسی فضا اس وقت بھی اسے سانس لینے نہیں دیتی تھی جب صدر ابراہیم لنکن نے 6 دسمبر 1865 کو اس کی ڈھائی سو سال کی غلامی کو غیرقانونی قرار دینے کے لیے 13ویں آئینی ترمیم کی لیکن یہ آئینی وینٹیلیٹر بھی سانس کو بحال کرنے میں ناکام رہا، ڈیموکریٹس نے غلامی کے خاتمہ کی آئینی ترمیم کی مخالفت کیوں کی، اس جرم پر لبرل جمہوریت کے دل دادہ عناصر سے سوال پھر کبھی سہی!
وہ مسلسل کہہ رہا ہے اُسے چار صدیوں سے سانس نہیں لینے دیا جارہا۔ اس پر کوڑے برسے ہیں، زبردستی نام تبدیل کیے گئے، مذہب بدلا گیا، جسم کو داغ کر غلامی کی مہر ثبت کی گئی لیکن ان صدیوں کے دوران ایک لمحہ بھی اس نے اپنی روح اور ذہن کو غلام نہیں ہونے دیا۔ گرامچی نے کہا تھا کہ اگر ذہن شکست تسلیم نہ کرے تو جسم کی شکست کوئی معنی نہیں رکھتی۔
اس کی گردن کو کبھی ہاتھوں سے اور کبھی گورے ہاتھوں کو آلودہ ہونے سے بچانے کے لیے گھٹنوں سے دبایا گیا۔ وہ ہر بار مارا جاتا ہے اور ہر بار پھر سے جی اْٹھتا ہے۔ وہ دوبارہ سانس لینے کی جستجو کرتا ہے کیوں کہ اسے زندگی سے پیار ہے، اسے اپنے اردگرد بسنے والے انسانوں، اپنی چمکتی، گہری رنگت والی جلد اور اپنے ماضی سے پیار ہے۔ اسی لیے تو جب لینگسٹن ہوگس نے اپنی ایک خوب صورت نظم میں کہا تھا کہ ” بلیک اِز بیوٹی فل”، تو پھر یہ مصرعہ اس شخص کا نعرہ بن گیا۔ اس نے چالیس کی دہائی میں اپنے سانس لینے کے حق کی جستجو میں آزادی کی تحریک شروع کی جو سول رائٹس موومنٹ کہلائی۔
اس نے بس میں بیٹھنے، اسکول جانے، پارک میں ٹہلنے، کینٹین میں کھانا کھانے اور ووٹ جیسے حق کے لیے طویل سفر طے کیا، اس نے اپنے سانس لینے کے حق کی خاطر ریولیشنری ایکشن موومنٹ، ڈیکونز فار ڈیفنس، بلیک پینتھر پارٹی، بلیک مسلم موومنٹ، نیشن آف اسلام، دی بلیک لائیوز موومنٹ جیسی ان گنت تحریکوں کو اظہار کا ذریعہ بنایا ہے۔ اس نے لٹّل روک نائین 1957، فریڈم رائیڈر 1961، مارچ آن واشنگٹن 1963، اینٹی ویت نام وار تحریک 1968 جسے معرکوں کو جنم دیا۔ وہ کبھی ہیرئیٹ ٹبمن بن کر نمودار ہوا تو کبھی اے فلیپ روڈلف بنا۔ وہ کبھی بییارڈ کی شکل میں آ نکلا، کبھی روزا پارک بن گیا تو کبھی کامریڈ ہیری ہائیووڈ.۔
وہ میلکم ایکس، مارٹن کنگ لوتھر جونئیر جیسے بڑے نام اور کام کی صورت نمودار ہوا، شہید کر دیا گیا، وہ ہزاروں بے نام مجاہدوں کی شکل میں آیا اور سانس لینے کی پاداش میں مار دیا گیا۔ مارٹن لوتھر جونیئر نے کہا تھا ’’میرا ایک خواب ہے…‘‘ اسے سانس لینے کے خواب دیکھنے پر مار دیا گیا۔ ہم 4 اپریل 1978 کے دن کی یاد میں افسردہ ہو جاتے ہیں، لیکن اس شخص نے تو ایک دہائی پہلے 4 اپریل کے ہی روز لوتھر جونیئر کے روپ خون میں لتھڑی اپنی ہی لاش اْٹھائی تھی۔
اس کے ستواں جسم میں رقص کرتے خون کی حرارت سے کاٹن فیلڈز، تمباکو، چاول اور نیل کے کھیتوں اور فارمز سے دولت کشید کرنے والوں نے اسے پہلی اور دوسری عالمی جنگ میں تو دھکیلا ہی لیکن جب 1968 میں ویت نام جنگ کی بھٹی میں اسے جھونکا گیا تو اس نے محمد علی کلے کی شکل میں جنگ کے خلاف علم بغاوت بلند کیا تو پابند سلاسل ہوا۔
سانس لینے کے حق کی پاداش میں سفید فام پولیس افسران نے کبھی اسے “جمی لی جیکسن” کے روپ میں قتل کیا تو کبھی “روڈنی کنگ” کی شکل میں۔ قتل کی ان وارداتوں کے، دن، تاریخ اور سال مختلف تھے مگر واقعہ یہ ہے کہ مارا صرف ایک ہی بات پر گیا کہ سانس لینے کا حق کیوں مانگتا ہے۔
اس شخص کے درد کی گہرائی اور تاریخ میں پیوست الم ناک سانحہ اس کے سوا شاید ہی کوئی جان سکا، جدید دور کی تاریخ میں اس سے زیادہ اذیت سے کوئی نہیں گزرا۔ رافیل ایلیسن کے ناول، “ایلینیشن”، “دی بلیو” ، “ان ویسیبل مین” اس شخص کے دکھوں کا تحریری اظہار ہیں۔ اس شخص کا نوحہ آٹھ قسطوں پر مشتمل دستاویزی فلم ” روٹس” اور کے دوسرے حصہ ” روٹس – سیکنڈ جنریشن” میں فلم بند ہو کر تاریخی کے مجرموں کے خلاف مقدمہ درج کر چکا ہے۔ نسلِ انسانی کی سب سے بدترین تذلیل کے مقدمے کا فیصلہ اور سزا کس اعلان ہونا تو دُور کی بات، ابھی تو مقدمہ کہ پہلی شنوائی بھی نہیں ہوپائی۔
اس شخص کی صدیوں پر محیط دکھ بھری آپ بیتی پڑھ کر کسی بھی مظلوم کو خود پر ہونے والے ظلم پر صبر نہیں آتا بل کہ مسلسل لڑتے رہنے کا حوصلہ ملتا ہے۔ کوئی ہے اس جیسا جو چار سو برس سے مسلسل اپنے زندہ وجود اور اپنے رنگ کی حرمت کو ثابت کرنے کے لیے لڑ رہا ہو؟ اس جیسا اس کے علاوہ شاید ہی کوئی ہو!
جنرل کولن پاؤل امریکا کا پہلا افریقن امریکن سکریٹری آف اسٹیٹ بنے یا پھر پہلا دفاع کا سکریٹری، کنڈالیزا رائس پہلی افریقن امریکن خاتون کسی بڑے منصب پر فائز ہو یا پھر بارک اوباما 2008 میں صدر منتخب ہو کر وائٹ ہاؤس پہنچے، معتوب نسل کے شخص کے سانس لینے کے حق کو تسلیم کرانے میں ناکام ہی رہے ہیں۔
آج سے چار سو سال پہلے 20 اگست 1619 کو ورجینیا کے شہر جیمس ٹاؤن کی منڈی میں جس بے نام شخص کی قیمت دو ڈالر لگی تھی، اب اس ساحلی شہر سے تیرہ سو میل دور مینیو پولس شہر میں چار سو سال بعد 25 مئی 2020 کو جارج فلڈ کے روپ میں سانسوں کی بھیک مانگتے شخص کی جان کی قیمت 20 ڈالرز مقرر ہوئی۔ یعنی ہر سال 5 سینٹ کی شرح سے اضافہ!
اس چار سو سالہ شرم ناک بے حرمتی کے خلاف سانسوں کی بھیک مانگتے “جارج فلڈ” کی لاش چیخ اُٹھی ہے۔ یہ چار کروڑ ستر لاکھ نفوس کا روپ دھار چکا ہے۔ یہ جوالا مکھی کا لاوا بن کر سڑکوں پر اُمڈ آیا ہے۔ یہ غصہ، تکلیف اور بے بسی امریکا کی سڑکوں پر تاریخ کے مجرموں کا تعاقب کرتے سرمایہ کی کمیں گاہ وائٹ ہاؤس تک جا پہنچا ہے۔ اس کی گردن پر گھٹنا رکھنے والے قاتل پولیس آفیسر ’’ڈیرک شاوین‘‘ کا سیاسی گرو ڈونلڈ ٹرمپ وائٹ ہاؤس کے بنکر میں جا چھپنے کی مشق کر گزرا۔
خوف زدہ ڈونلڈ ٹرمپ سانس لینے کا حق مانگنے والوں کو شرپسند قرار دے کر مختلف شہروں میں کرفیو نافذ کر چکا۔ اس نے ہل چل کو دہشت زدہ کرنے کے لیے دوسری عالمی جنگ کے بعد پہلی مرتبہ نیشنل گارڈز کی تعیناتی کے احکامات جاری کیے ہیں۔ شاید فوج بھی بلا لی جائے۔ وہ کہہ رہا تھا کہ ’’اگر مظاہرین نے حفاظتی باڑ پار کی تو ان کا استقبال شیطانی طبیعت کے کتے اور انتہائی مہلک ہتھیار کریں گے۔‘‘ ہاں یہی اس کے مزاج سے مطابقت رکھتے ہیں، لیکن سڑکوں پر امڈتا غصہ ہے کہ تھمنے کو ہی نہیں آرہا۔ ہاں اس میں بایاں بازو اور نراجیت پسند گروپس اظہارِ یک جہتی کے لیے شامل ہورہے ہیں کیوں کہ وہ چالیس دہائیوں کے جرائم کے خلاف دائر ہوتے مقدمہ کے حقیقی اور مستند گواہ ہیں۔
یہ صدیوں سے پنپتا غصہ ہے جو امریکی شہروں، ریاستوں سے نکل کر دیگر برِاعظموں میں بھی سرمایہ کے عالمی عفریت اور اس کی فسطائی سیاسی علامتوں کے خلاف صف آراء ہو رہا ہے۔ یہ کیفیت سماجی و سیاسی ماحول کو کئی معنوں میں یکسر تبدیل کردے گی۔ نسل پرستی اور نفرت کی صدیوں گہری جڑیں کم زور پڑیں گی۔ صدیوں سے سانس کی نالی پر رکھے ہاتھوں اور گھٹنوں کی گرفت ڈھیلی پڑ کر ہی رہے گی۔
مئی کے آخری ہفتے میں سفید فام پولیس آفیسر ایک سیاہ فام شخص جارج فلویڈ کو چار سو سال بعد بھی سانس لینے کی اجازت نہیں دیتا اور زندگی کا چراغ بجھا دیتا ہے، جب کہ مئی کے اسی ہفتے میں ایک پرائیویٹ راکٹ ’’اسپیس ایکس 9 ‘‘ دو افراد کو لے کر خلا کی سیاحت کے لیے روانہ ہوتا ہے، جسے ٹرمپ مریخ کی جانب سفر کی ابتدا قرار دیتا ہے۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ جلد ہی چاند پر رہائش کے انتظامات کیے جائیں گے۔ سماج کی یہ گراوٹ اور تضاد اس کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دے گا اور موجودہ عوامی ابھار اس کی ابتدا ہے۔
فراز کا شعر ہے کہ
بستیاں چاند ستاروں کی بسانے والو!
کرہ ٔ ارض پہ بجھتے چلے جاتے ہیں چراغ
The post یہ انسان سانس لینے کے لیے 4 سو برس سے کراہ رہا ہے appeared first on ایکسپریس اردو.