( قسط نمبر17)
25اکتوبر 1945 کو اقوام متحدہ کا ادارہ تشکیل پا یا تو اس کے 51 بنیادی اراکین تھے جن میں سے کئی اُس وقت تک نو آبادیا تی نظام سے آزاد نہیں ہو ئے تھے لیکن اقوام متحدہ کے چارٹر اور بعدازاں ہیومن رائٹس ڈیکلریشن کے بعد یہ طے پا یا کہ اب نو آبادیا تی نظام کو مرحلہ وار ختم کر دیا جا ئے۔ جو ملک اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اور سیکورٹی کو نسل میں ویٹو پاور رکھنے والے ممالک کی منظوری سے آزاد ہو نگے اِن کی آزادی کو تسلیم کیا جائے گا اور وہ اقوام متحدہ کے رکن بھی بن جا ئیں گے۔
اس طرح عالمی برادری پر ایسے آزاد اور اقوام متحدہ کے رکن ملک کی آزادی کا احترم بھی لازم ہو گا۔ اقوام متحدہ کے 51 بنیادی رکن ملکوں میں یوںتو اور بھی نو آبادیاتی ملک رکن تھے لیکن یہاں رقبے اور آبادی کے اعتبار سے دو اہم خطوں کا ذکر ضروری ہے جن میں ایک برصغیر اور دوسرا چین جس کے علاقے تائیوان، مکاؤ، اور ہانگ کانگ نوآبادیاتی تسلط میں تھے۔
1945 میں اقوام متحدہ کی تشکیل پر بر طانیہ امریکہ ، فرانس نے آج کے تائیوان میں اپنی کٹھ پتلی حکومت کو پورے چین کی حکومت تصور کرتے ہوئے جمہوریہ چین کو اقوام متحدہ کی رکنیت کے ساتھ سیکورٹی کو نسل میں ویٹو پاور دیا تھا جس میں اِ ن چاورں قوتوں کے علاوہ سوویت یونین بھی ویٹو پاور رکھتا تھا۔ برصغیر کو 1945 ہی میں انڈیا کے نام سے اقوام متحدہ کی رکنیت حاصل تھی۔
تقسیم کے بعد بھارت کی وہی رکنیت تسلیم کر لی گئی جب کہ پاکستان کو 1947 میں پانچوں قوتوں نے تسلیم کرتے ہو ئے اقوام متحدہ کی رکنیت دی۔ اُس وقت آج کے عوامی جمہوریہ چین میں ماوزے تنگ کی قیادت میں کروڑوں چینی باشندے چین کی آزادی و خود مختاری کی جنگ لڑے رہے تھے۔ یہ جنگ چینی قوم نے مادر وطن کی آزادی اور سیاسی اور اقتصادی کیمو نسٹ نظریات کی بنیاد پر بے جگری سے لڑی اور آخر یکم اکتوبر 1949 میں چین مین لینڈکی بنیاد پر اپنے وسیع و عریض خطے کے طور پر آزاد ہو گیا۔
چینی قوم ونسل اور تاریخی حقائق کی بنیاد پر چین کا دعویٰ تائیوان ، مکاؤ ،اور ہانگ کانگ پر بھی تھا لیکن پاکستان اور بھارت کے بر عکس اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے بہت سے اراکین جو مغربی اتحاد میں شامل تھے چین کو اقوام متحدہ کی رکنیت دینے پر آمادہ نہیں تھے۔ اسی طرح سیکیورٹی کو نسل میں ویٹو پاور رکھنے والے ملکوں میں سے سوویت یو نین کے علاوہ باقی چاروں مستقل ممبران بھی عوامی جمہوریہ چین کے خلاف تھے۔
1857 کی جنگ آزادی کے بعد بر طانیہ نے مر احلہ وار برصغیر میں جمہوریت کو متعا رف کرایا۔ جمہوری عمل کے آغاز پر ایک انگریز مسٹر ہیوم نے 1885 میں آل انڈیا کانگریس کی بنیاد رکھی تھی۔ اُس وقت ہی سرسید احمد خان نے مسلمانوں کو اس سیاسی جماعت سے دور رہنے کا مشورہ دیا تھا کیونکہ وہ شروع ہی سے ہند وستان میں مسلمانوں کو اقلیت کی بجائے دوسری اکثریت قرار دیتے ہوئے پوری قومی شناخت کے ساتھ مسلمانوں کو آبادی کے تناسب سے ہر شعبہء ِزندگی میں اِن کا حق دلانا چاہتے تھے۔
1901 کی مردم شماری کے مطابق ہندوستان کی کل آبادی 23 کروڑ 85 لاکھ تھی جو اُس وقت دنیا کی کل آبادی کا 20% تھی اور اُس وقت مشترکہ صوبہ بنگال کی آبادی 7 کروڑ 85 لاکھ تھی جو پورے ہند وستان کی آبادی کا تقریباً 34% بنتی تھی۔ وائسرائے لارڈ کرزن نے 1905 میںوسیع رقبے اور بڑی آبادی کے انتظام کو بہتر کرنے کے لیے بنگال کو دو صوبوں میں تقسیم کر دیا۔ مغربی بنگال جو ،اب بھی کولکتہ شہر کے ساتھ بھارت کے پاس ہے اور مشرقی بنگال جو 1947 سے1971 تک مشرقی پاکستان تھا اور اس کے بعد اب بنگلادیش ہے۔
اس تقسیم سے مشرقی بنگال کی مسلم اکثریتی آبادی کو فائدہ تھا، جس پر کانگریس نے شدید احتجاج کیا جس نے پہلی بار مسلمانوں کو اپنے مذہبی ،سماجی اقتصادی سیاسی تحفظ کے لیے سوچنے پر مجبور کیا اور ردعمل کے نتیجے میں بنگال میں 1906 میں آل انڈیا مسلم لیگ قائم ہو ئی۔ 1911 تک کانگریس کا احتجاج ا نتہا کو پہنچ گیا اور ساتھ ہی جنگ ِ عظیم اوّل کے آثار واضح ہونے لگے تو انگریز سرکار نے مصلحت سے کام لیتے ہو ئے تنسیخ تقسیم بنگال کا اعلان کر دیا۔
پہلی جنگِ عظیم کے دوران 1916 میں قائد اعظم محمد علی جناح کی کوشش سے لکھنو میں کانگریس اور مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس ہو ئے اور اں دونوں جماعتوں کے درمیان ہندوستان کی مشترکہ آزادی کے لیے میثاق لکھنو طے پا گیا۔ قائد اعظم نے متحدہ ہندستان کی آزادی کے حوا لے سے سمجھایا کہ ہندوستان میں بر طانیہ جیسی جمہوریت ضروری ہے مگر جہاں تک تعلق آئین کا ہے جو کسی بھی ملک کی جمہوریت کی بنیاد ہو تی ہے وہ آئین اُس ملک کی سماجی ثقافتی، تہذیبی ،مذہبی،سیاسی اور اقتصادی ضرورتوں کی صحیح عکاسی کرتا ہو تو جمہوریت مستحکم رہتی ہے۔
ہند ستان میں د نیا کی کل آبادی کا بیس فیصد آباد ہے اور اس آبادی میں سے 30% مسلمان ہیں اس لیے مسلمان یہ چاہتے ہیں کہ ہندستان میں اُ ن کی سماجی ثقافتی تہذیبی مذہبی شناخت قائم رہے اور زندگی کے ہر شعبے میں مسلم آبادی کے تناسب سے اُ ن کو اُن کا حصہ دیا جائے، اس بنیاد پر جداگانہ طریقہ انتخاب سمیت باقی نکات کانگریس نے تسلیم کر لیے۔ یہ حقیقت ہے کہ اگر کانگریس اپنے اِس عہد پر قائم رہتی تو آبادی اور وسائل کے اعتبار سے دنیا کا امیر ترین ملک ہندستان تقسیم نہ ہوتا۔ کانگریس نے 1928 میں بغیر کسی مشورے کے یک طرفہ طور پر نہرو رپورٹ جاری کر کے میثاق لکھنو کو مسترد کر دیا۔
1929 میں قائد اعظم نے اپنے چودہ نکات میں ایک بار پھر کوشش کی مگر کانگریس نے ہندو اکثریت کو ہی ہند ستان کے معاملات طے کر نے اور جمہوریت اور ہندوستان کے آئیندہ آئین کی بنیاد قرار دیا۔ جب 1935 کا قانون آیا تو اس میں انگریز نے جداگانہ انتخاب کے طریقے سمیت قائد اعظم کے کچھ نکات کو آئینی طور پر تسلیم کر لیامگر 1937 کے صوبائی سطح کے انتخابات میں کانگریس کی زبردست کامیابی اور مسلم لیگ کی ناکامی نے کانگریس کو غلط فہمی میں مبتلا کردیا کہ ہندوستان کے مسلمان برطانوی طرز کی جمہوریت کے لیے اپنی مذہبی،ثقافتی اورتہذیبی شناخت سے دستبردار ہو سکتے ہیں اور پھر جب کانگریس نے 1937 میں اقتدار میں آنے کے بعد ایسے اقدمات کئے جس سے ہند وستان میں مسلمانوں کی شناخت اور مفادات متاثر ہوئے تو برصغیر کے مسلمانوں نے کانگریس کو مسترد کر دیا۔
یوں ان حالات کے نتیجے میں 1947 میں برصغیر تقسیم ہو گیا۔ مشرقی (اب بنگلادیش) اور مغربی پا کستان کے درمیان تقریباً 2000 کلو میٹر کا خشکی کا فاصلہ بھارت کا علاقہ تھا۔ پاکستان نہ صرف نظریہ پاکستان کے لحاظ سے دنیا کا ایک نیا اور سیاسی اعتبار سے منفرد ملک تھا بلکہ اسی دوقومی نظریے کے تحت اپنے جغرافیائی نقشے کے لحاظ سے بھی دنیا میں منفرد تھا۔ 1951میںملک پہلی مردم شماری ہوئی جس کے مطابق اُس وقت پا کستان کی کل آبادی7 کروڑ 50 لاکھ تھی جس میں سے مشرقی پاکستان کی آبادی 4 کروڑ 20 لاکھ اور مغربی پا کستان کی آبادی 3 کروڑ 37 لاکھ تھی۔
مغربی پاکستان میں ہند و سکھ اقلیت کا تناسب تقریباً2% اور مشرقی پاکستان میں یہ تناسب22% تھا۔ بھارت میں پنڈت جو اہر لال نہرو نے بھارتی نیشنل ازم کی بنیاد پر جمہوری سیکولر سیاسی نظام کی بنیاد رکھی تھی۔ یہ حقیقت ہے کہ بھارت اور پا کستان دونوں کے استحکا م کے لیے اِن کے نظریات بنیادی طور پر نہایت ضروری تھے۔ بھارت آزادی کے بعد 1951 کی مردم شماری کی بنیادپر84.1% ہند و 9.8% مسلم آبادی کے ساتھ دنیا میں ہندو اکثریت آبادی کا سب سے بڑا اور واحد ملک تھا، مگر ساتھ ہی وہ دنیا کا ایک ایسا ملک بھی ہے جہاں دنیا کی سب سے بڑی مسلم آبادی رہتی ہے۔
2011 کی مردم شماری میں بھارت میں مسلم آ بادی کا تناسب 14.23 فیصد ہو گیا ہے اور بھارت کی اس بنیاد پر کوشش رہی ہے کہ اُسے اُوآئی سی کی رکنیت مل جا ئے اسی طرح 1947 سے لیکر 1971 تک پا کستان بھارت کے بعد دنیا کا وہ ملک تھا جہاں سب سے زیادہ بڑی اقلیت ہندو آبادی کی تھی جس میں سے تقریباً88 لاکھ ہندو بنگالی، بنگلادیش میں آباد تھے جب کہ مغربی پاکستان میں ہندوں کی کل تعداد 1951 میں تقریباً چھ لاکھ تھی۔
بد قسمتی سے نہ تو پاکستان اپنے دوقومی نظریہ پر اسلا م کے اعلیٰ اصولوں کے مطابق دیانتداری عدل و انصاف جمہوریت کی بنیاد پر عملدر آمد کر سکا اور نہ ہی بھارت سیکولر ازم پر قائم رہا۔ آزاد ی کے فوری بعد 30 جون 1948 کو ،آر ایس ایس ، راشٹریہ سوئم سیوک سنگ کے ایک انتہا پسند ہندو نتھو رام گوڈسے نے گاندھی جی کو قتل کر دیا اوراس کے دو ماہ گیارہ د ن بعد قائد اعظم کا بھی انتقال ہو گیا۔ بھارتی وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو نے قومی اور بین الا قوامی سطح پر کمال ہو شیاری سے سیاسی پینترے بدلے اور بھارت کی بنیاد پر اپنے سیکولرازم اور عالمی سطح پر غیر جانبداری کا کامیاب پر وپگنڈہ کیا تو دوسری جانب زبان، خارجہ پالیسی، سیٹو اور سینٹو معاہدوں میں پاکستان کی شرکت پر مشرقی اور مغربی پاکستان کے درمیان ختلافات پیدا ہوئے۔
1954 میں مشرقی پاکستان کے صوبائی انتخابات میں یو نائٹڈ فر نٹ،،جتو فرنٹ ،،نے مسلم لیگ کو شکست دی اس سیاسی اتحاد کی قیادت مولانا بھاشانی ، حسین شہید سہروردی اور اے کے فضل نے کی تھی مگر وزیراعلیٰ فضل الحق کی صوبائی حکومت کو گور نر جنرل غلام محمد نے چند مہینوں میں ختم کر کے گورنر راج نافذ کردیا۔
پا کستان اور بھارت کے درمیان کشمیر کا تنازع پہلے دن سے موجود تھا۔ پہلی پاک بھارت جنگ 1948 میں کشمیر پر ہی ہوئی تھی اور جنگ بندی اور مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے نہرو خود اقوام متحدہ کی سیکورٹی کو نسل گئے اور اس کی قرار دادوں کو تسلیم کیا جس میں کشمیر کا حل استصواب رائے کی بنیاد پر ہونا طے پایا تھا۔ 1965 کی پا ک بھارت جنگ بھی بنیادی طور پر کشمیر کے مسئلے پر ہی ہو ئی تھی جس میں بھارت کی شکست کے بعد بھارت اور کچھ عالمی قوتوں نے یہ حکمت عملی اپنا ئی کہ مشرقی پا کستان میں حالات بگاڑے جائیں۔ بد قسمتی سے ہمارے ہاں اِن حالات کو اُس وقت کے عالمی تناظر میں نہیں سمجھا گیا۔
جنرل ایوب خان کے رخصت ہو نے کے بعد صدر جنرل یحٰی خان نے مارشل لا نا فذ کر کے 1970 میں اپنے ایل ایف او کے تحت انتخابات کروائے جس میں ایک شرط یہ تھی کہ قومی اسمبلی کے پہلے اجلاس کے بعد تین مہینے کے اندر اندر ملک کا نیا آئین بنا نا ہو گا۔ بصورت دیگر اسمبلی تحلیل کردی جائے گی۔ انتخابات سے قبل صدر کو بتایا گیا تھا کہ قومی اسمبلی کی 300 نشستوں میں سے بائیں بازو کی جماعتیں زیادہ سے زیادہ 37 نشستیں حاصل کر سکیں گی لیکن نتائج ان اندازوں کے بالکل بر عکس رہے۔
الیکشن میں مشرقی پاکستان کی 162 نشستوں کے لیے 876 کا غذات نامزدگی جمع کر ائے گئے اور مغربی پا کستان سے قومی اسمبلی 138 نشستوں کے لیے 1070 امیدواروں نے کاغذات نامزدگی جمع کرائے پیپلز پارٹی نے 120 امیدوار مغربی پاکستان سے کھڑے کئے جن میں سے 103 صرف پنجاب سے کھڑے کئے تھے جماعت اسلامی نے مشرقی اور مغربی پاکستان دونوں151 امیدوار مسلم لیگ کنونشنل نے 124 مسلم لیگ کو نسل نے119 مسلم قیوم نے 133 کھڑے کئے تھے مولا نا بھاشانی انتخابات سے قبل شیخ مجیب کی عوامی لیگ کے حق میں اپنی پارٹی سمیت دستبردار ہو گئے۔
انتخابات کے نتائج تمام پیش گوئیوں سے مختلف تھے مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب الرحمن کی عوامی لیگ نے 162 نشستوں میں سے 160 نشستیں حاصل کیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی نے مغربی پا کستان کی 138 نشستوں میں سے قومی اسمبلی کی 81 نشستیں حاصل کیں۔ جبکہ جماعت اسلامی نے 4، کونسل مسلم لیگ2، مسلم لیگ قیوم 9، جمعیت علما اسلام جمعیت علما پاکستان اور کنونشنل مسلم لیگ سا ت سات نشستیں، عوامی نیشنل پارٹی 6 اور پاکستان ڈیموکریٹک پارٹی ایک نشست حاصل کر سکی اور 16 آزاد امیدوار کامیاب ہوئے۔
اب مسئلہ قومی اسمبلی کے اجلاس کا تھا اور شیخ مجیب الرحمن یہ واضح طور پر کہہ چکے تھے کہ وہ اپنے چھ نکات پر مبنی آئین بنائیں گے۔ پیپلز پارٹی کے ذوالفقار علی بھٹو کا موقف تھا کہ عوامی لیگ اپنے چھ نکات میں سے امور خارجہ ، کرنسی ، اور دفاع کے امور کو پوری طرح وفاق کے سپرد کرئے اور یہ کہ آئین چونکہ پورے ملک کے لیے اور طویل مدت کے لیے ہے، اگر آج عوامی لیگ کامیاب ہو ئی ہے کل کو ئی اور جماعت کامیاب ہو گی، پھر ملک کے دوسرے حصے یعنی مغربی پاکستان کی بڑی جماعت پیپلز پارٹی ہے اس لیے آئین سازی کے عمل میں اُس کی یہ بات تسلیم کی جائے یا پھر ایل ایف او کی آئین سازی سے متعلق شرائط ختم کی جائیں۔
یوں اقتدار کی منتقلی میں تاخیر ہو تی گئی۔ اسی زمانے میں چین کے سرحدی تنازعا ت سویت یونین سے بڑھ گئے تھے اور جھڑپیں بھی ہو ئیں تھیں جب کہ 1962 میں چین بھارت جنگ ہوئی تھی۔ جولائی1971 میں جب مشرقی پاکستان میں بھارت عوامی لیگ اور اس کے عسکری ونگ مکتی باہنی کے ذریعے پُرتشدد کا روئیاں شروع کرا چکا تھا تو پاکستان نے امریکہ اور چین تعلقات کے قیام میں اہم کر دار ادا کر تے ہو ئے امریکی سیکرٹری ہنری کسنجر کا خٖفیہ دورہ چین، پاکستان سے کر وایا جو خفیہ نہ رہ سکا اور سوویت یونین کو ہنری کسنجر کے چین کے دورے کی خبر ہو گئی۔
سوویت یونین کو یہ خوف لا حق ہوا کہ امریکی اور چینی سوویت یونین کے خلاف متحد ہو رہے ہیں یوں سویت یونین نے بھارت کے ساتھ فوراً دفاعی معاہد ہ کر لیا جس میں یہ کہا گیا کہ بھارت یا سوویت یونین میں سے اگر کسی ایک ملک پر کو ئی تیسر املک حملہ کر ئے گا تو یہ دونوں ملکوں پر حملہ تصور کیا جا ئے گا۔ اس کے بعد حالات مزید بگڑتے گئے اور پھر مشرقی پا کستان میں مکتی باہنی کے خلاف فوجی ایکشن ہوا جس کے نتیجے میں بڑی تعداد میں مشرقی پاکستانی بھارتی ایما پر بھارت چلے گئے۔ بھارت نے ان لوگوں کو مہا جرین بتاتے ہو ئے مشرقی اور مغربی پا کستان دونوں حصوں پر بھر پور فوجی قوت سے حملہ کر دیا۔
یہ جنگ 16 دسمبر1971 کو پاکستان کی فوج کے مشرقی پاکستان میں ہتھیار ڈالنے پر ختم ہو گئے۔ 20 دسمبرکو مغربی پاکستان میں اقتدار ذوالفقار علی بھٹو کے حوالے کر دیا گیا۔ یہاں سقوطِ ڈھاکہ کے اعتبار سے بہت سی باتیں ہو ئیں حمود الرحمن کمیشن کے کچھ حصے بھی سامنے آئے یہ حقیقت ہے مشرقی پاکستان کو بنگلادیش بنانے میں جہاں 1948 سے لیکر 1971 تک پاکستان کے حکمرانوں کی غلطیاں تھیں بلکہ اِن میں شامل بعض افراد اس عالمی سازش میں بھی ملوث تھے وہاں الیکشن 1970 میں کاغذاتِ نامزدگیوں سے لے کر نتائج تک بہت سی باتیں شکوک پیدا کرتی ہیں، امریکہ، بر طانیہ، فرانس کا پاکستان کے موقف کا ساتھ نہ دینا ،عوامی لیگ کا پوری طرح مشرقی پاکستان سے جیتنا اور پاکستان پیپلز پارٹی کا مشرقی پا کستان سے کو ئی ایک امیدوار کھڑا نہ کرنے سے امریکہ میں یہ تاثر پیدا ہوا کہ مغربی پا کستان کو ساتھ مشرقی پاکستان سے کوئی مفاد نہیں۔ لہذٰا اُس نے مشرقی پاکستان کے بنگلادیش بننے کے خلاف کو ئی عملی اقدام نہیں کیا۔
جبکہ اس کے مقابلے میں سوویت یونین نے بھارت کے ساتھ دفاعی معاہد ہ کر لیا اور بھارت اپنی نام نہاد غیرجانبدارانہ پوزیشن کو چھوڑ کر اس معاہدے میں شامل ہوا۔ پھر 16 دسمبر1971 میں پاکستان کی شکست کے فوراً بعد اسی معاہدے میں بنگلادیش کو بھی شامل کر لیا گیا۔ جولائی 1970 میں پا کستان سے ہنری کسنجر کے دورے کے بعد امریکی صدر نکسن نے چین کا دورہ کیا تھا اور پھر کامیاب مذاکرات کے بعد جمہوریہ چین یعنی تائیوان کی جگہ چین کو اقوام متحدہ کی سیکورٹی کو نسل میں ویٹو پاور مل گیا تھا اس کی وجہ سے پاکستان اس پوزیشن میںآگیا تھا کہ جب تک پاکستان چین کو کہتا اُس وقت تک چین بنگلادیش کی اقوام متحدہ میں رکنیت کی مخالفت کرتا رہتا۔
1973 میں عرب اسرائیل جنگ ہو ئی اس جنگ میں ماضی کے مقابلے میں سوویت یونین نے مصر شام وغیرہ کی1967 کے مقابلے میںقدرے بہتر انداز میں مدد کی۔ روسی سام میزائل مصر نے استعمال کئے اور جنگ میں اگرچہ اسرائیل کو شکست تو نہیں ہو ئی لیکن فتح بھی نصیب نہیں,ہوئی۔
اس جنگ کے بعد پاکستان میں او آئی سی ملکوں کا سربراہی اجلاس منعقد ہوا۔ جس سے عالمی سطح پر ملکی وقار میں بھی اضافہ ہوا۔ اسی وجہ سے جب تیل پیدا کر نے والے عرب ملکوں میں تقریباً 30 لاکھ پاکستانی ملازمتوں کے لیے گئے اور وہاں سے اپنے گھروں کو پیسے بھیجنے لگے تو پاکستان کے پاس زرِ مبادلہ کا ایک مستقل پا ئدار اور بڑا ذریعہ آگیا اور ملک مالی اقتصادی طور پر بھی آزاد و خو د مختار ہو گیا۔ پاکستان نے شملہ معاہدے میں شکست کے باوجود نہ صرف جنگی قیدیوں کی رہائی اور مغربی پاکستان کا پانچ ہزار مربع میل کا علاقہ خالی کروایا بلکہ مسئلہ کشمیر کو بھی حل طلب مسئلے کے طور پر زندہ رکھا اور اِن تمام معاملات کے بعد 1974 میں بنگلادیش کو اقوام متحدہ کا رکن بننے دیا گیا۔
بھارتی وزیر اعظم نے 16 دسمبر1971 کو یہ کہا تھا کہ اُنہوں نے دو قومی نظریے کو بحیرہ عرب میں ڈبو دیا، لیکن دو قومی نظریہ نہ صرف پاکستان میں بلکہ بھارت میں آج بھی مو جود ہے۔ نریندر مودی سرکاری کی پالیسیوں سے یہ بالکل واضح ہو گیا ہے اور اس کا اعتراف اب خود کانگریس کر رہی ہے۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ بھارت نے ہمیشہ ہر نظریے فلسفے کی اپنے طور پر ہی تشریح کی ہے بھارت کا سیکولر ازم اب دنیا کے سامنے ہے۔
1905 میں جب تقسیم بنگال ہو ئی تھی تو کانگریس نے بنگالی نیشنل ازم کی بنیاد پر بنگال کی تقسیم کی مخالفت کی تھی پھر جب انگر یز نے بنگال بہار اور آسام کو ایک یونٹ، مرکزی ہند وستان کو دوسرا یونٹ اور پنجاب ، کے پی کے ، سندھ اور بلو چستان کو تیسرا یو نٹ بنا نے کا منصوبہ پیش کیا تھا تو اُس کی مخالفت کی گئی تھی۔ 1941 کی مردم شماری میں بنگال کی آبادی 60306525 تھی جس میں 54% کے تناسب سے مسلمانوں کی تعداد33005434 تھی اور اس بنیاد پر یکم اپریل 1937 سے29 مارچ1943 تک شیر بنگال فضل حق مشترکہ بنگال کے وزیر اعظم رہے۔
اِن کے بعد 1943 سے 1945 خواجہ ناظم الدین وزیر اعظم رہے اور پھر 1945 سے14 اگست1947 تک حسین شہید سہر وردی مشترکہ بنگال کے وزیر اعظم رہے۔ وہ بنگال کی تقسیم نہیں چاہتے تھے مگر کانگریس کو اب بنگالی نیشنل ازم نظر نہیں آیا اور نہ صرف بنگال کی تقسیم پر زور دیا بلکہ ریڈ کلف ایوارڈ میں کلکتہ شہر کے دفاع کے لیے سو کلو میٹر سے زیادہ علاقہ بھی لیا۔ اگر واقعی اندرا گاند ھی نے دو قومی نظریہ سمندر میں پھینک دیا تھا تو اپنے مغربی بنگال کو بنگلادیش میں ضم کر کے بنگالی نیشنل ازم کی بنیاد پر دو بارہ ایک بنگال بنادیتے اور اگر اس میں بھارت کی سالمیت کا مسئلہ تھا تو تقسیم ہند سے قبل کی طرح یہاں مسلمان وزیراعظم کی بنیاد پر اسے بھارت کا ہی صوبہ قرار دے دیتیں، لیکن یہ دو قومی نظریہ تھا، اور ہے جس کی وجہ سے وہ ایسا نہیں کرسکیں۔
اندرا گاندھی کو مشرقی پاکستان کو بنگلادیش بنانے سے سیاسی فائد ہ تو ہو ا، کیونکہ اندرا گاندھی نے پاکستان شکست دی تھی اس لیے اس کی مقبولیت میں اضافہ ہوا اور کانگریس نے آئندہ کے لیے اپنا ووت بنک مضبوط کر لیا۔ مگر اس کا مستقل نقصان مستقبل میں پورے خطے اور خصوصاً بھارت کو کہیں زیادہ ہوا، وہ اس لیے کہ مشرقی پاکستان کو الگ کر کے بنگلادیش کے نام سے آزاد و خود مختار ملک بنانے کی مثال قائم کردی گئی اور یہ مثال جنوبی ایشیا کے خطے میں قائم کی گئی ہے جہاں ہر ملک میں کئی نسلیں ، قومیں قومیتیں ،کئی کئی لسانی گروپ ،مذاہب فرقے اورقبائل صدیوں سے ایک دوسرے کے ساتھ ساتھ آباد ہیں۔
اندرا گاندھی نے ایک منفی مثال قائم کردی۔ پھر خالصتان تحریک جس میں سکھ پنجاب کو آزاد اور خود مختار بنانا چاہتے تھے اس کو جب اندار گاندھی نے جبراً ختم کرنے کی کو شش کرتے ہوئے امرتسر کے گولڈن ٹمپل پر فوجی آپریشن کیا تو اس کے نتیجے میں سکھ محافظوں نے ہی اندرا گاندھی کو قتل کر دیا۔ اسی طرح تامل مسئلے پر اُن کے بیٹے راجیو گاندھی بھی جان سے گئے اور اس کے بعد سے ناگا لینڈ پنجاب اور دیگر علاقوں میں بھارت سے علیحدگی کی تحریکیں زور پکڑ گئیں کیونکہ اب اَن کے سامنے بنگلادیش کی مثال بھی ہے۔
پاکستان کی یکجہتی کے لیے اگر مرکزی نقطہ دینِ اسلام ہے تو بھارت کی سالمیت کے لیے اُتنا ہی ضروری اُس کا سیکولر ازم ہے جس سے اب بھارت مکمل انحراف کر رہا ہے۔ یوں بھارت کا معاشرتی سماجی تنوع اب معاشرتی سماجی تضادات میں تبدیل ہوکر شدت اختیار کرتا ہوا تصادم تک جا پہنچا ہے۔
1971 میں پاک بھارت جنگ کے بعد بنگلادیش کے آئین کو سیکولر بنا یا گیا تھا مگر اُس وقت یہ برائے نام سیکولر تھا پھر جب شیخ مجیب الرحمن قتل کر دئے گئے تو اس کے بعد ضیاالرحمن اور خالدہ ضیا کے دور میں بھی سیکولر ازم بنگلادیش کی پہچان نہیں تھا مگر وزیراعظم حسینہ واجد نے بھارت سے قُرب حاصل کرنے کے لیے ہندومت کی سرپرستی بھی کی اور ساتھ سکولرازم کی ڈھال کو استعمال کیا۔
انہوں نے بھارت کی خوشنودی کے لیے بنگلادیش کی فوج کے سائز کو ڈیرھ لاکھ سے بھی کم کر کے اگر چہ بظاہر اور وقتی طور پر معاشی ترقی کی مگر حال ہی میں برما جیسے ملک نے لاکھوں برمی روہنگیا مسلمانوں کو بنگلہ دش میں دھکیل دیا اور بنگلادیش 1971 کی طرح اِن مہاجرین کی بنیاد پر کو ئی قدم نہیں اٹھا سکا اور منت سماجت کرتا رہا۔ اب حال ہی میں جب بھارت نے نیا سٹیزن شپ قانون متعارف کرایا تو بھی لاکھوں مسلمان بنگالیوں کو بنگلادیش دھکیلا گیا اور مستقبل میں کئی گنا زیادہ تعداد میں مسلمان بنگالی بنگلادیش میں دھکیلے جائیں گے۔
جہاں تک تعلق دو قومی نظریے کا ہے تو بنگلادیش کے مسلمانوں کے احتجاج کی وجہ سے مودی بنگلادیش اور حسینہ واجد بھارت کا دورہ نہیں کر سکیں۔ جب 1971 میں بنگلادیش بن گیا تو بہرحال اس جنگ سے ایک بار پھر بھارت اور پاکستان دونوں ہی کو نقصان ہوا لیکن اس وقت 1947 کے بعد سے اب تک بھارت ،بنگلادیش اور پاکستان میں تاریخ کی مقبول ترین سیاسی قیادت بر سر اقتدار تھی جو بہرحال خطے میں پا ئدار امن قائم کرنے کی بھر پور عوامی قوت رکھتی تھی۔
اس کا نداز ہ اس سے کیا جا سکتا ہے کہ بھٹو نے بنگلادیش تسلیم کیا اور چین کی سپورٹ سے 1974 تک پہلے بنگلادیش کو اقوام متحدہ کی رکنیت نہیں لینے دی۔ یہ بھی اہم حقیقت ہے کہ شیخ مجیب الرحمن بھٹو اور اندرا گاندھی تینوں ہی غیر طبعی موت مارے گئے۔
یوں اگر ہم ترقی پذیر اور پسماندہ ممالک غور کریں تو ہمارے سامنے یہ حقائق ہیں کہ باوجود اقوام متحدہ کے خوبصورت چارٹر اور ہیومن رائٹس ڈیکلریشن کے جرمنی کو اقوام متحدہ کے قیام کے ساتھ ہی مشرقی اور مغربی جرمنی میں تقسیم کر دیا گیا اور پھر برلن شہر کے درمیان بھی دیوار کھڑی کردی اور پھر انہی بڑی قوتوں کی مر ضی سے دیواربرلن گر گئی اور جرمنی دوبارہ متحد ہو گیا، جنوبی اور شمالی کو ریا کی جنگ اقوام متحدہ کے قیام کے بعد ہی لڑی گئی لاکھوں افراد ہلاک ہو ئے اور بڑی قوتوں نے ہی ایک قوم ایک ملک کو اب تک دو ملکوں میں تقسیم کر رکھا ہے ، ویتنام کو جنوبی اور شمالی دوملکوں میں عیسائی آبادی اور کیمو نسٹ آبادی کی بنیاد پر تقسیم کر کے تقریباً 40 لاکھ افراد ہلاک کر دئیے گئے لیکن چین اور سوویت یونین کی قوت کے ساتھ یہ ملک دو بار متحدہ ہو گیا۔
یمن ایک طویل عرصے تک شمالی اور جنوبی یمن میں تقسیم ہو کر ہمسایہ ریاستوں کے ساتھ اور آپس میں لڑتا رہا اور آج متحد ہوکر بڑی قوتوں کے اشارے پر جنگ میں ملوث ہے اور اس وقت دنیا کا غریب ترین ملک ہے اسی طر ح پہلے سو ڈان کو مصر سے الگ کیا گیا پھر سوڈان کی تقسیم ہوئی، پھر دافور کامسئلہ اور تقسیم، انڈو نیشیا ،ملائیشیا تقسیم پھر انڈو نیشیا سے پا پپوانیو گینیا کی تقسیم یہ سب کبھی قومیتوں مذاہب اور سرد جنگ کے زمانے میں نظریات کی بنیادوں پر تقسیم ہو تے رہے جب کے اس کے مقابلے میں امر یکہ ریاست ہائے متحدہ کی بنیاد پر9834000 مربع کلو میٹر رقبے کا ملک ہے یورپی یو نین 4476000 مربع کلو میٹر رقبے کی بنیاد پر ایک کرنسی ایک شہریت کی بنیاد پر 27 ملکوں پر مشتمل ہے۔
واضح رہے کہ75 سال قبل تک یہی ممالک آپس میں تاریخ کی خو نریز جنگوں الجھے رہے کروڑوں افراد ہلاک ہو ئے برصغیر میں سارک تنظیم 8 دسمبر1985 میں تشکیل پائی مگر بد قسمتی سے بھارت نے اس کو بھی اپنی سیاست کے لیے استعمال کیا ورنہ یہ تنظیم اگر باہمی اتفاق کی بنیاد پر کام کر تی تو مسائل حل ہو سکتے تھے لیکن بھارت کا مسئلہ یہ ہے کہ اُس نے1916 کے میثاق لکھنو کرنے کے بعد بد عہدی اور اس کے بعد متواتر بڑے عرصے سے اپنے معمولی نوعیت کے مفادات حاصل کرتے ہو ئے اپنے تمام ہمسایہ ملکوں کے خلاف سازشیں کیں اور اُن کو نقصان پہنچایا۔ (جاری ہے)
The post بنگلادیش کا قیام اور اقوام متحدہ appeared first on ایکسپریس اردو.