’’ بورس جانسن کا انتقال ہوگیا‘‘ یہ پانچ لفظی خبر مورخہ07 اپریل کو ٹویٹر کے ایک اکاؤنٹ کے ذریعے دنیا بھر میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔ برطانوی وزیراعظم بورس جانسن جو کرونا وائرس کا شکار ہونے کی وجہ سے اُن دنوں ہسپتال کے آئی سی یومیں زیر علاج تھے۔
ان کی وفات کی یہ جھوٹی خبر ٹویٹر پر بنائے گئے بی بی سی کے ایک جعلی اکاؤنٹ کے توسط سے پھیلائی گئی۔ یہ جعلی اکاوئنٹ @BBCbreaki کے ٹویٹر ہینڈل کے نام سے تھا۔جبکہ بی بی سی کا اصل ٹویٹر اکاؤنٹ @BBCBreaking کے ہینڈل سے ہے۔ یہ ٹویٹ ٹویٹر سے ہٹائے جانے سے قبل سینکڑوں بار ری ٹویٹ ہوئی۔ کیونکہ اس میں بی بی سی کے ٹویٹر ہینڈل سے ملتا جلتا ہینڈل استعمال کیا گیا۔
اور پوری دنیا میں انجان لوگ اس دھوکے میں آگئے۔ یوں یہ دروغ گوئی دنیا بھر میں کرونا کا خوف اور دوچند کرنے کا باعث بنی۔ آج دنیا بھر میں آزادی صحافت کا عالمی دن منا یا جا رہا ہے۔ تو سوشل میڈیا اپنی تمام تر حشر سامانیوں کے ساتھ صحافت کی ایک نئی جہت کی صورت میں اپنے مثبت اور منفی اثرات لیے ہمیں اپنی گرفت میںلے چکا ہے۔
آن لائن پلیٹ فارمز فیس بک ، ٹویٹر وغیرہ اور ویب 2.0 ایپلیکیشنز جیسے گوگل اور بلاگز نے خبروں کے کاروبار اور رپورٹنگ کے عمل کو بدل کر رکھ دیا ہے کیونکہ اب صحافت کے دائرہ کار میں داخلہ بہت آسان ہوگیا ہے کوئی بھی پی سی یا اسمارٹ فون کا حامل فرد خود رپورٹر، ایڈیٹر، ڈیزائنر، ڈسٹری بیوٹر ، پبلشر یا براڈ کاسٹراور پروڈیوسر سب کچھ ہوسکتا ہے۔ وہ کسی بھی وقت کہیں بھی کوئی بھی مواد تحریر، تصویر، آواز اور ویڈیو کی صورت میں بلاگ ، ٹویٹ، یوٹیوب یا فیس بک کرسکتا ہے۔
سوشل میڈیا جس وجہ سے صحافت کے لئے غیر معمولی طور پرموثر جانا جا رہا ہے یہ اُس کی وہ طاقت ہے جو اُس نے نیوز بریکنگ کی صورت میں اپنے آپ کو منواکر حاصل کی ہے۔ سٹیزن جرنلزم اور موبائل جرنلزم کی اصطلاحات نے معاشروں میں اپنی جگہ بنا لی ہے۔
لوگ روایتی ابلاغ عام کے ذرائع اخبارات، ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے مندرجات میں اپنی محدود ترین شمولیت کی وجہ سے بڑی تیزی سے ایسے پلیٹ فارمز کی جانب متوجہ ہو رہے ہیں جہاں وہ اپنی مرضی کے مندرجات پڑھ ،دیکھ اور سُن سکیںاُن پر تبصرہ کرسیکں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اپنے نقطہ نظر کا کھل کر آزادانہ اظہار کرسکیں۔اس کے علاوہ وہ خود مندرجات تخلیق کرسکیں۔ یعنی لوگ اب معلومات اور اطلاعات کے صارف اور پروڈیوسر دونوں بن چکے ہیں۔
وہ اس لیے کہ آج ہم ایک انفارمیشن سوسائٹی کا حصہ ہیں جہاں اکثر افراد دو زندگیاں گزار رہے ہیں ایک حقیقی اور دوسری ورچوئل (انفارمیشن سسٹم میں سرائیت شدہ) اس لئے آکسفورڈ انٹرنیٹ انسٹی ٹیوٹ کے ولیم ڈٹن نے سوشل میڈیا کو ریاست کا پانچواں ستون قراردے دیا ہے۔وہ کہتے ہیں کہ’’ ہم ایسی طاقتور آوازوں اور نیٹ ورکس کو ابھرتے دیکھ رہے ہیں جو روایتی میڈیا کے برعکس آزادانہ طور پر کام کرسکیںگے‘‘۔
اُن کا یہ بیان سوشل میڈیا کے پہلے سے موجود پلیٹ فارمز کے ساتھ ساتھ ابھرتے مختلف نئے پلیٹ فارمزکے تیزی سے فروغ، وسعت اور استعمال کے تناظر میں حقیقی لگنا شروع ہو گیا ہے۔ یعنی آزادی اظہار ہی وہ بنیادی نقطہ ہے جو لوگوں کو سوشل میڈیا کی جانب متوجہ کرنے اور اس کے بھرپور استعمال کا باعث بنا۔اور اس وقت صورتحال یہ ہے کہ دنیا بھر میں سوشل میڈیا کے فعال صارفین کی تعداد 3.80 ارب تک پہنچ چکی ہے۔
سوشل میڈیا بنیادی طور پر انٹرنیٹ اور موبائل فون کے ایسے ٹولز پر مشتمل پلیٹ فارمز ہیں جو معلومات اور اطلاعات کی ایک دوسرے کو منتقلی اور تبادلہ خیال کی سہولت فراہم کرتے ہیں۔ یہ ٹیکنالوجی کا ایسا پلیٹ فارم ہے جس میں تحریر، تصویر، آواز اور فلم کے ذریعے دوطرفہ ابلاغ ممکن اور سب سے بڑھ کر کسی بھی مواد کی تخلیق اور تبادلہ کی سہولت کا حصول ہے۔سوشل میڈیا ٹولز صارفین کو ہم خیال افراد کے ساتھ ورچوئل نیٹ ورک بنانے کے قابل بناتے ہیں۔
اس کی سب سے زیادہ مشہور مثال فیس بک اور لنکڈ ان ہیں۔اس کے علاوہ بلاگز جو ایک انفرادی صارف بناتا اور اس کی دیکھ بھال کرتا ہے ۔ جس میں متن، تصاویر ، ویڈیوز اور دیگر ویب سائٹوں کے لنکس شامل ہوسکتے ہیں۔ بلاگز کی نمایاں خصوصیت اس کی باہمی تبادلہ خیال کی سہولت ہے جس میں قارئین کو اپنی رائے دینے کی سہولت میسر ہوتی ہے اور یوںتمام تبصروںکو دیکھا اور پڑھا جاسکتا ہے۔مائیکرو بلاگز 140 حرف یا اس سے کم حرف کی مخصوص پابندی والے بلاگز ہوتے ہیں۔
ٹویٹر ایک مائیکرو بلاگنگ سائٹ ہے جو اپنے صارفین کو ’ٹویٹس‘ بھیجنے اور پڑھنے کی خدمات فراہم کرتا ہے۔اسی طرح وی لاگز(ولوگس) اور ویڈیو شئیرنگ سائیٹس جو بنیادی طور پر اپنے مندرجات کے طور پر ویڈیو کا استعمال کرتی ہیں اور ان کی معاونت کے لیے متن کا سہارا لیتی ہیں۔ یو ٹیوب دنیا کی سب سے بڑی ویڈیو شیئرنگ سائٹ ہے۔ جو براہ راست ویڈیو کاسٹنگ اور ویڈیو شیئرنگ کی سروسز فراہم کرتی ہے۔
جہاں صارفین نا صرف ویڈیوزدیکھ سکتے بلکہ اپ لوڈ بھی کرسکتے ہیں اور شیئر بھی اور ان پر تحریری تبصرے بھی کرسکتے ہیں۔ وکیزیہ ایک باہمی تعاون کی ویب سائٹ ہے جو متعدد صارفین کو مخصوص یا باہم مربوط مضامین پر صفحات بنانے اور اپ ڈیٹ کرنے کی اجازت دیتی ہے۔ اس کے کسی ایک صفحے کو ‘وکی پیج’ کہا جاتا ہے اورکسی خاص عنوان کے بارے میںپورے مواد کو ’وکی‘ کہا جاتا ہے۔
اس میں متعدد صفحات ہائپر لنکس کے ذریعے منسلک ہوتے ہیں۔ ’سوشل بک مارکینگ‘ یہ خدمت کسی کو انٹرنیٹ پر موجود مختلف ویب سائیٹس اور دیگر وسائل کے لنکس محفوظ کرنے ، منظم کرنے اور اکٹھا کرنے کی سہولت فراہم کرتی ہے۔ ’سوشل نیوز ان‘ خدمات سے کسی کو مختلف خبروں کی اشاعت اورمضامین سے باہر کے لنکس پوسٹ کرنے کی اجازت مل جاتی ہے۔اس میں باہمی تبادلہ خیال کے لئے آئٹمز پر ووٹنگ اور ان پر تبصروں کا سہارا لیا جاتا ہے۔
اس کی مشہورمثالوں میں Digg, Reddit اورPropeller ہے۔میڈیا شئیرنگ یہ خدمات کسی کو فوٹو یا ویڈیو اپ لوڈ کرنے اور ان کا اشتراک کرنے کی اجازت دیتی ہیں۔ اس میں باہمی تبادلہ خیال کسی صارف کی جانب سے اپ لوڈ کی گئی فوٹو یا ویڈیو پر تبصرے کی صورت میں ہوتا ہے یوٹیوب اور فلکر اس کی واضح مثالیں ہیں۔
سوشل میڈیا کوانٹرنیٹ کی طاقت نے دوام اور سمارٹ موبائل فون کی سہولت نے متحرک کررکھا ہے۔ کیونکہ اس وقت دنیا کی 59 فیصد آبادی انٹر نیٹ کا استعمال کر رہی ہے تو 3.5 ارب انسان سمارٹ موبائل فونز کے صارف ہیں۔ گلوبل ڈیجیٹل اُروویو 2020 کے مطابق دنیا میں ہر روز اوسطً6 گھنٹے43 منٹ انٹرنیٹ استعمال کیا جاتا ہے جس میں3 گھنٹے22 منٹ موبائل کے ذریعے استعمال ہوتا ہے۔ جبکہ انٹرنیٹ صارفین اوسطً 2 گھنٹے 24 منٹ روزانہ سوشل میڈیا پر صرف کرتے ہیں۔ پاکستان بھی دنیا کے اُن ممالک میں شامل ہے۔
جہاں سوشل میڈیا بڑی تیزی سے اپنی جگہ بنا رہا ہے۔ گلوبل ڈیجیٹل اُروویو 2020 کے کے مطابق جنوری2019 تا جنوری2020 کے دوران انٹرنیٹ استعمال کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ کے حوالے سے پاکستان چوتھے نمبر پر ہے۔ جبکہ فیصد اضافہ کے حوالے سے وطنِ عزیز دنیا میں 12 ویں نمبر پر ہے (لیکن اس کے ساتھ ساتھ ایک تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ پاکستان ابھی بھی انٹرنیٹ سے محروم آبادی کی تعداد کے حوالے سے دنیا کا تیسرا محروم ترین ملک ہے)۔
اسی طرح سوشل میڈیا صارفین کی تعداد میں اضافہ کے حوالے سے پاکستان دنیا بھر میں 17 ویں نمبر پر ہے۔اس وقت ملک کی 37 ملین آبادی یعنی 17 فیصد سوشل میڈیا کی فعال صارف ہے۔جبکہ 35فیصد آبادی یعنی 76.38 ملین نفوس انٹرنیٹ استعمال کرتے ہیںاور ملک میں انٹرنیٹ استعمال کرنے والی آبادی کا 48.4 فیصد سوشل میڈیا کا فعال صارف ہے۔ یعنی ملک میں ہر دوسرا انٹرنیٹ صارف سوشل میڈیا کا فعال استعمال کنندہ ہے۔
اورملک میں سوشل میڈیا کے فعال صارفین کا 99 فیصد موبائل فون کے ذریعے سوشل میڈیا استعمال کرتا ہے۔ جبکہ سال2018-19 دوران ملک میں انٹرنیٹ ٹریفک کا75.9 فیصد موبائل فون کے ذریعے استعمال شدہ انٹرنیٹ کی بدولت تھا۔ نیوزو (Newzoo)گلوبل موبائل مارکیٹ رپورٹ2019 کے مطابق پاکستان دنیا بھر میں 19 ویں نمبر کاحامل ایسا ملک ہے جہاں سمارٹ فونزاستعمال کنندگان کی تعداد زیادہ ہے اور ملک میں سمارٹ موبائل فون صارفین کی تعداد 32.5 ملین ہے ۔
لیکن سمارٹ فون کی حامل آبادی کی فیصد کے حوالے سے دنیا کے50 ممالک (جن کے اعداوشمار دستیاب ہیں) میں سے پاکستان 49 ویں نمبر پر ہے اور ملک کی صرف 15.9 فیصد آبادی سمارٹ موبائل فون کی مالک ہے۔ملک میں سوشل میڈیااستعمال کرنے کی بنیادی ضروریات انٹرنیٹ، موبائل فون اور کمپیوٹر کے اعدادوشمار کا ایک اور پہلو پاکستان ڈیموگرافک اینڈ ہیلتھ سروے 2017-18 کے ان اعدادوشمار سے بھی اجاگر ہوتا ہے جس کہ مطابق ملک کے97.5 فیصد گھروں میں موبائل فون موجود ہے۔ شہروں میں یہ شرح 93.9 فیصد اور دیہہ میں91.6 فیصد ہے۔
اسی طرح ملک کے 26.4 فیصد گھروں میں کمپیوٹر موجود ہے۔ دیہہ کے 8.1 اور شہروں کے15.1 فیصد گھر اس سہولت کے حامل ہیں۔ انٹرنیٹ کے حوالے سے صورتحال یہ ہے کہ ملک کے22.9 فیصد گھروں میں انٹرنیٹ کنکشن موجود ہے ۔ دیہہ کے4.9 اور شہروں کے11.8 فیصد گھر انٹرنیٹ کنکشن کی وجہ سے دنیا سے جڑے ہوئے ہیں۔
پاکستان اگرچہ ابھی بھی انٹرنیٹ تک رسائی، سمارٹ موبائل فونزکے استعمال ، کمپیوٹرزکی ملکیت اور انٹرنیٹ کی قیمتوں کے حوالے سے اپنے ہم عصر دنیا کے دیگر ممالک کے مقابلے میں کافی محرومیوں کا شکار ہے ۔ لیکن ہر نیا سورج ان محرومیوں کو کم کرنے کی نوید لیکر طلوع ہو رہا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ایک سال کے دوران ملک میں انٹرنیٹ صارفین کی تعداد میں17 فیصد، موبائل فون کنکشن کی تعداد میں6.2 فیصد اور سوشل میڈیا کے فعال صارفین کی تعداد میں 7 فیصد اضافہ ہوا جو ہماری آبادی میں 2 فیصد اضافہ سے کہیں زائد ہے۔ یہ تمام پیش رفت اُس منظر نامہ کی واضح عکاسی کر رہی ہے جو اس وقت ملک میں سوشل میڈیا کے استعمال کے حوالے سے موجود ہے۔
یہ تمام تر پیش رفت اپنی جگہ لیکن حکومت اب ملک میں سوشل میڈیا کو ریگولیٹ کرنے کے حوالے سے سنجیدہ ہے۔ اس حوالے سے پاکستان کی وفاقی کابینہ نے28 جنوری 2020 کو سوشل میڈیا کے حوالے سے ’’ سٹیزن پرٹیکشن رولز(اگینسٹ آن لائن ہارم)2020 ‘‘کے نام سے نئے ضوابط کی منظوری دی ہے۔ اس حوالے سے حکومت نے ان ضوابط کے جائزہ کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی ہے ۔
جو متعلقہ سول سوسائٹی اور ٹیکنالوجی کمپنیز کے ساتھ شخصی آزادیوں کو متاثر کیے بغیر آن لائن مندرجات کو ریگولیٹ کرنے کے لیے مشاورت کررہی ہے۔یہاں یہ سوال اہم ہے کہ جب ہم آزادی رائے اور آزادی اظہار کی بات کرتے ہیں تو کیا ہمیں پھر اس طرح کے رولز کی ضرورت ہے؟ اور اگر ہے تو کیوں؟اس کے علاوہ شخصی آزادیوں کو متاثر کیے بغیر آن لائن مندرجات کو کیسے ریگولیٹ کیا جاسکتا ہے؟۔
ان سوالات کے جواب میں اوکاڑہ یونیورسٹی کے شعبہ ابلاغیات کی ڈاکٹر ثوبیہ عابد کہتی ہیں۔ ’’آزادی اظہار رائے انسانی حقوق کی فراہمی کی بنیاد ہے۔ جس کی ضمانت آئین کا آرٹیکل انیس دیتا ہے۔ یہ اہم ہے کہ سوشل میڈیا کے آنے سے پہلے قاری یا صارف کسی میڈیا کے مواد پر فوری ردعمل نہیں دے سکتا تھا۔ جسے فیڈ بیک کہتے ہیں۔ سوشل میڈیا اپنے ہر صارف کو مساوی مواقعے فراہم کرتا ہے کہ وہ اپنی پوسٹ پر یا پھر کمنٹس باکس میں جا کر ہر بات پر فوری ردعمل دے سکے۔
استاد ہونے کے ناطے مجھے لگتا ہے کہ یہ ہماری اجتماعی ذمہ داری ہے کہ ہم معاشرے کو سمجھانے کی کوشش کریں کہ آزادی کا حق ہمیشہ ایک خاص ذمہ داری کا احساس بھی ساتھ لے کر آتا ہے جس میں سماج ،روایت، ثقافت، مذہب اور معاشرے کے بنائے کچھ بنیادی ضابطے ہر کسی کو ہر صورت اپنانے پڑتے ہیں۔ سوشل میڈیا ویب سائٹس نے اپنے ضابطے بنائے ہوئے ہیں جن پر عمل پیرا ہوتے ہوئے وہ کسی بھی مواد کو شائع کرنے سے روک سکتے ہیں۔کاپی رائٹس اور غیر اخلاقی مواد کے علاوہ شدت پسندی یا دہشت گردی کے حوالے سے کسی بھی پوسٹ کو ہٹا دیا جاتا ہے۔
اگر سوشل میڈیا کمپنی والے کسی مواد کے بارے میں فیصلے کا حق رکھتے ہیں تو پھر ریاست کو بھی یہ حق ہونا چاہیے کہ وہ اپنی معاشرتی و نظریاتی ضرورتوں کے تحت اظہار رائے کے ضابطے لاگو کرائے۔ میرے خیال سے ریاست کو اس بارے میں قانون سازی کرنی چاہئے۔
اگر درست قوانین لاگو ہوں گے تو لوگوں کے اظہار رائے کا تحفظ بھی کریں گے اور منفی رحجانات کی روک تھام بھی ہو گی۔ یہ بات بھی اہم ہے کہ یہ رولز برابری کی سطح پر لاگو ہونے چاہئیں۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کارروبار کے مواقع بھی فراہم کرتے ہیں اس کے لیے بھی قانون سازی ہونی چاہیے تاکہ برابری کی بنیاد پر ہر صارف کے مفادات کا تحفظ ہو۔ ان قوانین کو ٹیکنالوجی میں تیز رفتار ترقی سے ہم آہنگ رکھنے کی بھی ضرورت ہے۔ خاص طور پر سا ئبر سیکیورٹی اور اکانومی کے حوالے سے، کیونکہ کرونا وبا کی وجہ سے آن لائن صارفین کی تعداد اور ڈیٹا کے استعمال میں بے حد اضافہ ہو گیا ہے‘‘۔
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ہمارے ہاں آزادانہ اظہار خیال کو پہلے ہی رکاوٹوںکا سامنا ہے۔ جب شہری خود پر سنسر شپ عائد کریں گے تو آن لائن مباحثوں میں شرکت کرنا چھوڑ دیں گے۔ جس کے نتیجے میں حکومت اور قانونی امور میں مفید اور نتیجہ خیز گفتگو کا امکان کم ہوجائے گا۔ جس کی ہماری جیسی جمہوریت متحمل نہیں ہوسکتی۔ ان ضوابط کے معاشرے پر کیا مثبت اور کیا منفی اثرات ہوسکتے ہیں۔
اس حوالے سے انسٹی ٹیوٹ آف کمیونیکشن اسٹڈیز جامعہ پنجاب کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر محمد راشد خان کہتے ہیں۔’’ سٹیزن پروٹیکشن رولز دراصل شہریوں کو آن لائن نقصان پہنچانے سے تحفظ فراہم کرنے اور الیکٹرانک کرائمز سے محفوظ رہنے کا قانون ہے ۔ سیٹیزن پروٹیکشن رولز 2020 کا اجرا ضروری تھا کیونکہ ابھی تک ہمارے ملک میں سوشل میڈیا کے حوالے سے کوئی قابل ذکر قانون سازی نہیں ہوئی ۔
سوشل میڈیا جہاں تفریح اور معلومات فراہم کر رہا ہے، وہیں اس کے ذریعے سے پروپیگنڈہ ، جھوٹ اور ڈس انفارمیشن بھی پھیلائی جا رہی ہے جس سے ملکی سالمیت کو خطرہ ہو سکتا ہے۔ اسی طرح ہماری سماجی اور اخلاقی مذہب اقدار کے حوالے سے عدم برداشت کی وجہ سے تصادم کا اندیشہ بڑھ رہا ہے ۔میڈیا نے کنفلیکٹ کو ہمیشہ ہی ہوا دی ہے یہاں تک کہ اسے جنگی ہتھیار کے طور پر بھی بھر پور استعمال کیا گیا اور اب انفارمیشن ٹیکنالوجی میںتھری جی، فورجی اور فائیو جی کے آنے سے آئندہ دنوں میں افراد اور قوموں کے درمیان تصادم اور فساد میں سوشل میڈیا کا کردار نمایاں طور پر سامنے آئے گا۔ لہذا اس قانون کے ذریعے نیشنل کوآرڈینیٹر کا قیام ایک خوش آئند اقدام ہے، مثبت پہلو یہ ہے کہ اس میں اسٹیک ہولڈرز کی معاونت کو بھی یقینی بنایا گیا ہے ۔
غیر قانونی آن لائن کنٹنٹ کو 24 گھنٹے کے اندر بلاک اور ایمرجنسی کی صورت میں 6 گھنٹے میں بلاک کر دیا جائے گا۔سوشل میڈیا کمپنی سے ڈیٹا یا انفارمیشن کا حصول اور فوقیت نیشنل کوآرڈینیٹر کو ہو گی نہ کہ سوشل میڈیا کمپنی کو ۔اسی طرح سے پاکستان کی نیشنل سیکیورٹی ، دہشت گردی ، انتہا پسندی اور تشدد پر ابھارنے والی لائیو سٹریمنگ کی روک تھام ممکن ہوگی۔ یہ اندیشہ بہرحال موجود ہے کہ ان قوانین کی آڑ میں سیاسی کارکنوں اور تنظیموں کو انتقام کا نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔ آزادی اظہار پر قدغن سے جمہوریت کی نفی ہوتی ہے ۔ افراد کی تعمیری اور تخلیقی صلاحیتوں پر پابندیوں سے معاشرہ اپنا اجتماعی شعور کھو دیتا ہے اور لوگوں میں بے چینی ، گھٹن ، عدم برداشت اور منفی رجحانات بڑھ جاتے ہیں۔
ان قواعد و ضوابط کو فعال اور کارآمد بنانے کیلئے سیاسی اور معاشی وابستگیوں سے بالاتر ہو کر اس کے عملدرآمد کو یقینی بنانا ہو گا۔اس قانون کو اس کی روح کے مطابق قابل عمل بنانے کیلئے نیشنل کوآرڈینیٹر کے لئے سیاسی اور گروہی وابستگیوں سے بالا تر ہو کر لائق اور پروفیشنل ماہرین کو چُنا جائے۔ نیشنل کوآرڈینیٹر کے قیام اور اس کی معاونت کرنے والی کمیٹی میں عہدیداروں کی تقرری کا طریقہ کار بھی وضع کیا جانا چاہیے اور اسے ان رولز کا حصہ بنانا چاہیے۔ غیر قانونی آن لائن کنٹنٹ کو بلاک کرنے اور سوشل میڈیا کمپنیوں کو جرمانہ کرنے کے سلسلے میں حق و انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے کے سلسلے میں واضح میکانزم وضع کرنا چاہیے ‘‘۔
انسانی حقوق کے عالمی منشور کے آرٹیکل19 کے مطابق’’ ہر کسی کو آزادی اظہار کا حق حاصل ہے۔دنیا بھر میں لوگوں کی جانب سے تبدیلی ، انصاف ، مساوات ، طاقتوروں کے احتساب اور انسانی حقوق کے احترام کی حمایت میں تحاریک سامنے آئی ہیں۔
یعنی انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا لوگوں میں یکجہتی کا احساس پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ جہاں یہ معاشرتی اصلاح اور آگاہی کا مؤثر ذریعہ ثابت ہو رہا ہے، وہیں یہ غلط معلومات پھیلانے، دہشت گردی کی حوصلہ افزائی کرنے، مذہبی لسانی اور فرقہ وارانہ اختلافات کو ہوا دینے،آن لائن ہراساں کرنے، لوگوں کی ساکھ متاثر کرنے،بلیک میلنگ ، نفرت انگیز تقاریر و موادکی تشہیراورذاتی ڈیٹا چوری کرنے کے عمل کا بھی حصہ ہیں۔ اظہار رائے کی آزادی قطعی نہیں ہوتی، اس کے ساتھ خصوصی فرائض اور ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔ شہری اور سیاسی حقوق پر بین الاقوامی معاہدہ 1966 کے آرٹیکل19 (3) مندرجہ ذیل بنیادوں پرآزادی اظہار پر پابندیاں عائد کرتا ہے۔(الف )دوسروں کی ساکھ کے حقوق کے لئے(ب) قومی سلامتی ، یا عوامی نظم ، یا عوامی صحت یا اخلاقیات کے تحفظ کے لئے۔آزادی اظہار کے ساتھ منسلک فرائض اور ذمہ داریاں کیا سوشل میڈیا پر بھی لاگو ہوتی ہیں؟ اور ان ذمہ داریوں کا تعین اور اطلاق عوامی سطح پر کیسے ہوسکتا ہے؟۔
اس سلسلے میں بلوچستان یونیورسٹی کے شعبہ ابلاغیات کے ڈاکٹر ببرک نیاز کہتے ہیں۔’’سماجی ذمہ داری کو دو پہلوؤں سے دیکھا جانا چاہیئے۔ میڈیا چاہے کوئی بھی ہو روایتی یا سوشل ۔ ایک تو اِن کے مندرجات میں ایسے موضوعات کوتسلسل کے ساتھ شامل کیا جائے جو انسانی ترقی کی ضروریات کو پورا کریں اور ساتھ ہی عوامی مفادات کے تحفظ کے لیے چوکیدار کا کردار بھی ادا کریں۔
اسے پبلک سروس براڈ کاسٹنگ کے تناظر میں دیکھا جانا چاہیئے۔ دوسرا پہلو ان مندرجات کو کیسے پیش کیا جائے یعنی انکی ٹریٹمنٹ کیسے کی جائے؟ ابلاغیات کی زبان میں اسے ہم Primingاور Framingکہتے ہیں۔ ان دو پہلوؤں کو جب ہم سوشل میڈیا کے تناظر میں دیکھتے ہیں تو ہمیں عام صارف کی جانب سے ایسے موضوعات کی بھرمار نظر آتی ہے جو کسی نا کسی صورت انسانی ترقی کے موضوعات کا احاطہ کرتے نظر آتے ہیں۔
یہ شاید اس وجہ سے ہیں کہ مین اسٹریم میڈیا پر یہ موضوعات بہت کم جگہ پاتے ہیں۔کیونکہ نیوز میڈیا زیادہ تر حصہ سیاست اور سیاستدانوں کے گرد گھومتا ہے، یا وہ موضوعات جس سے میڈیا کے مفادات جڑے ہوں وہ اُن میں جگہ پاتے ہیں۔تفریحی میڈیا پر جو مندرجات پیش کیے جاتے ہیں وہ زیادہ تر محبت، رقابت، حسد، نفرت اور بدلہ کے موضوعات کا احاطہ کرتے نظر آتے ہیں۔اس لیے سوشل میڈیا ایک ایسے پلیٹ فارم کی صورت میں اپنے صارفین کو اُن تمام موضوعات پر بات کرنے کی سہولت فراہم کرتا ہے جو اُن کی زندگی کو متاثر کرتے ہیں۔
اس کے علاوہ سوشل میڈیا کے معاشرے میں چوکیدار کے کردارکی ہی بدولت اب مین اسٹریم میڈیا کوبھی بہت سے ایسے موضوعات کو اپنے مندرجات میں جگہ دینی پڑتی ہے جو اگر سوشل میڈیا پر ایک عوامی آواز یا تحریک کی صورت میں سامنے نہ آتے تومین اسٹریم میڈیا شاید ان پر توجہ نہ دیتا۔ سوشل میڈیا کے اسی کردار کی بدولت عدلیہ جہاں سو وموٹو نوٹس لیتی ہے وہیں حکومت بھی ایکشن لیتی ہے۔ یہاں تک تو سوشل میڈیا کی سماجی ذمہ داری قابل تحسین ہے۔ لیکن جو سب سے اہم ایشو ہے وہ یہ کہ سوشل میڈیا پر دی جانے والی چیزوں کو کیسے پیش کیا جائے ؟ کیونکہ سوشل میڈیاپر اپ لوڈ ہونے والے مندرجات کی بڑی تعداد غیر تربیت یافتہ، نیم خواندہ افراد کی جانب سے کی جاتی ہے لہذا اس میں اُن کی ذاتی پسند ، نا پسند واضح محسوس ہوتی ہے۔ وہ اپنی مرضی سے چیزوں کو سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کرتے ہیں۔
اور بعض اوقات جذبات میں تہذیب،شائستگی اور اخلاقیات کی تمام حدود پھلانگ لیتے ہیں۔چیز کو تصدیق کیے بغیر آگے فارورڈ کیا جاتا ہے، یوں یہ سلسلہ لا متناہی ہوجاتا ہے۔ بعض اوقات آزادی اظہار کے نام پر اُن موضوعات کو بھی زیر بحث لایا جاتا ہے جو تعمیر نہیں بلکہ تخریب کا باعث بنتے ہیں۔ جب سیاسی یا مذہبی جماعتوں کی سوشل میڈیا ٹیمیں معلومات یا اطلاعات ایک عام صارف کے اکاؤنٹ کی صورت میں اپ لوڈ کرتی ہیں تو ان کا عمل بھی جذبات کی رو میں بہہ جانے والے عام صارف جیسا ہی ہوتا ہے لیکن شاید وہ درحقیقت اُن سے زیادہ خطرناک اور ہر طرح کے احساس ذمہ داری سے عاری ہوتا ہے۔
کیونکہ تعلیم یافتہ اورپیشہ وارانہ اہلیت کے حامل ان سوشل میڈیا ٹیمز کی کئی پوسٹیں ملک دشمن قوتیں جلتی پر تیل چھڑکنے کے لیے استعمال کر تی ہیں۔ لہذا سوشل میڈیا پر کیا دیا جائے اور اس کی ٹریٹمنٹ کیسے ہویہ سوشل میڈیا کی سماجی ذمہ داری کے پہلو سے جڑی ہوئی باتیں ہیں۔ اس لیے میری رائے میں جیسے مین اسٹریم میڈیا پر حکومت کی جانب سے چیک اینڈ بیلنس کا ایک میکنیزم موجود ہے ویسا ہی سوشل میڈیا پر بھی لازماً ہونا چاہیئے۔
لہذا لازم ہے کہ حکومت سوشل میڈیا پلیٹ فارمز یا ایپس کے ساتھ معاہدہ کر ے کہ جس کے تحت نئے اور پرانے صارفین کے اکاؤنٹ جاری رہنے یا نئے اکاؤنٹ کو بنانے کے لیے بائیو میٹرک تصدیق شدہ ملکی موبائل نمبر ضروری ہو۔ ایک نمبر پر ایک ہی اکاؤنٹ بنانے کی اجازت ہو ۔ لوگوں کو سوشل میڈیا کے مثبت استعمال کی تعلیم کے حوالے سے خصوصی آگاہی مہمیں چلائی جائیں۔ طالب علموں کے تعلیمی نصاب میں سوشل میڈیا کا کوڈ آف کنڈکٹ شامل کیا جائے‘‘۔ـ
سوشل میڈیا ٹیکنالوجیز کو جنگ کی موجودہ چار جہتوں یعنی زمینی ، سمندری ، ہوا اور خلا کے بعد پانچویں جہت کے طور پر شمار جا رہا ہے۔ جنگ کی اس پانچویں جہت کی کوئی جغرافیائی حدود نہیں۔ یہ انسانی زندگی کے تمام پہلووں حتیٰ کہ نیشنل سیکورٹی تک محیط ہے۔ قومی سلامتی کے تناظر میں سوشل میڈیا پرآزادی اظہار کی حدود کے حوالے سے کیا کسی ضابطہ اخلاق کے تعین کی ضرورت ہے؟ اس حوالے سے نیشنل سیکورٹی کو سبوتاژ کرنے میں سوشل میڈیا کے کردار پر تحقیق کرنے والے نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی کے پی ایچ ڈی اسکالر زاہد محمودزاہد کہتے ہیں۔
’’ آج کی دنیا میں جب سیکورٹی کا دائرہ کار روایتی فوجی نوعیت سے نکل کر سیاسی ، معاشرتی، معاشی، ماحولیاتی اور سائبر کی دنیا تک پھیل چکا ہے۔ معاشرتی و معاشی استحکام سب سے مقدم ہے کیونکہ کسی ریاست کی معاشی و معاشرتی وحدت کو منتشر کرکے اس کے جنگ لڑنے کی صلاحیت کو ختم کیا جاسکتا ہے۔ یہ مقصد غلط معلومات پھیلا کر حاصل کیا جاتا ہے۔ عوامی مسائل کو ہوا دیکر سیکورٹی کے مسائل پیدا کیے جا سکتے ہیں۔
اس کو فیفتھ جنریشن وار کہتے ہیں، جو مخصوص طبقوں، نسلی گروہوں کے احساس محرومی کو مشتعل کرکے ، تاریخی حقائق کو مسخ کرکے قومی بیانیہ کو چیلنج کرتی دکھائی دیتی ہے۔ اس کی خاص بات یہ ہے کہ یہ ناپختہ ذہنوں میں بہت تیزی سے سرائیت کرتی ہے۔ پچھلے30 سالوں میں ٹیکنالوجی ، جمہوریتوں اور عالمگیریت کی موجودگی میں ابلاغ عامہ کے نئے ذرائع سامنے آئے ہیں جو براہ راست فرد کے کنٹرول میں چلے گئے اور ریاست کی روایتی اجارہ داری ختم ہوگئی۔
میں اسے ڈیموکرائٹائزیشن آف میڈیا کہتا ہوں۔ سوشل میڈیا نے لوگوں کو ایک طرف تو احتجاج اور انقلاب برپا کرنے کے قابل بنایا ہے تو دوسری طرف دہشت گردوں کو بھرتی کرنے کے طریقوں سے لیکر نظریاتی، لسانی، معاشی اور معاشرتی حملے کرنے اور پُر تشدد ترغیبات کو پھیلانے کی صلاحیت بھی دی ہے۔ انہی صلاحیتوں کی وجہ سے اسے آج دنیا میں جہاں پسندیدگی کی نظر سے دیکھا جاتا ہے وہیں یہ ریاستوں کے لیے چیلنج بن چکا ہے۔ دنیا کی تمام جمہوریتیں اس حوالے سے قانون سازی کر رہی ہیں۔
اس سلسلے میں جرمنی میں NetzDG law 2018 بنایا گیا ہے۔ یورپی یونین خاص طور پر دہشت گردانہ ویڈیوز کے حوالے سے قانون سازی پر غور کر رہی ہے ۔اگر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز ایک گھنٹے کے اندر انتہا پسندانہ مواد کو حذف نہیں کرتے ہیں تو انہیں جرمانے کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ آسٹریلیا نے Sharing of Abhorrent Violent Material Act 2019 پاس کیا ہے۔ روس میںحال ہی میں ایک قانون نافذ ہواہے جس نے ریگولیٹرز کو یہ اختیار دیا تھا کہ وہ “کسی ہنگامی صورتحال میں” دنیا بھر کے ویب سے رابطے بند کردیں ۔ 2015 میں روس کے ڈیٹا قوانین کے تحت سوشل میڈیا کمپنیوں کو روسیوں کے بارے میں کوئی بھی ڈیٹا ملک کے اندر سرورز پر جمع کرنے کا پابند کیا گیا ہے۔
اس ضابطہ پر عملدرآمد کے بارے میں موثر طریقہ کار واضع نہ کرنے پر لنکڈ ان کو بلاک کردیا گیا جبکہ فیس بک اور ٹویٹر پر جرمانہ عائد کیا گیا۔ چین میں ٹویٹر ، گوگل اور واٹس ایپ جیسی سائٹیں مسدود ہیں۔ ان کے متبادل کے طور پر چین اپنی تیار کردہ ویبو ، بیدو اور وی چیٹ نامی سوشل میڈیا کی سروسز فراہم کر رہا ہے۔ جب بھی ریاستیں اور حکومتیں سوشل میڈیا کے حوالے سے کسی ضابطہ اخلاق کو وضع کرنے کی طرف کوئی قدم بڑھاتی ہیں تو عمومی طور پر سول سوسائٹی کی طرف سے اوربہت سارے اسکالرز کی طرف سے یہ Argument پیش کیا جاتا ہے کہ یہ فرد واحد کی آزادیوں کو سلب کرنے کی طرف ایک قدم ہے۔
لیکن ہمیں اس حقیقت سے بھی آنکھیں نہیں چرانی چاہیئں کہ فرد کی سلامتی تو سب سے بڑھ کر انسانی حق ہے، جس پر سمجھوتا نہیں کیا جاسکتا ۔ ریاست سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ شہریوں اور مجموعی قومی سلامتی کے چیلنجز کا مقابل کرے۔ ریاست کو ایک موثر ضابطہ اخلاق لانا چاہیے۔ عام صارف کی تربیت بھی ضروری ہے کہ کہیں بیانیوں کی اس جنگ میں وہ غیر دانستہ طور پر دشمن کا کام تو آسان نہیں کر رہاہے‘‘۔
٭ سید محمد ذکی، کوئٹہ
سوشل میڈیا معلومات اور خیالات کا ایک طوفان ہے جو ہر کسی کو بہائے لئے جارہا ہے۔ جتنے اسکے مثبت پہلو ہیں اتنے ہی منفی پہلو بھی ہیں۔ آزادی کے ساتھ ذمہ داری کا جو تصور صحافت پر لاگو ہے سوشل میڈیا اس تصور پہ عمل کرتا دکھائی نہیں دیتا جس نے اسے دو دھاری تلوار بنا دیا ہے۔
اس کا بے احتیاطی سے استعمال معاشرے کیلئے مہلک ہے۔ گویا یہ کسی بچہ کے ہاتھ میں ایک کھلونا بم کی طرح ہے جو اسکی خوبصورتی سے مبہوت ہو کر اس سے کھیلتا ہے مگر اسکی تباہ کاری سے بے خبر ہوتا ہے۔ پرنٹ میڈیا میں ایڈیٹر کو ایک کلیدی حیثیت حاصل ہوا کرتی تھی جو ایک فلٹر کا کام کرتا تھا۔ خبریں اور معلومات اس فلٹر میں چھن چھن کر قارئین تک پہنچا کرتی تھیں۔ اسی بنیاد پر ایڈیٹر کی ردی کی ٹوکری کو ایک خاص مقام حاصل تھا جو خبر میں موجود سارا زہر ساری نفرت اپنے اندر سمو لیا کرتی تھی۔
مگر سوشل میڈیا کے وسیع و عریض میدان میں دور دور ایسا کوئی ایڈیٹر ہے نہ اسکی ردی کی ٹوکری لہذا معلومات اور خبروں کا فلٹر ہونا ممکن نہیں۔ بعض ریاستوں نے اگرچہ اس حوالہ سے کچھ سائبر قوانین وضع کئے ہیں مگر وہ نہ تو موثر ہیں اور نہ ہی کافی۔ فیس بک، ٹوئٹر، انسٹاگرام، واٹس اپ وغیرہ معاشرہ پر محض اثر انداز نہیں ہوتے بلکہ اب معاشرے کو ” ہانٹ” کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
کوئی ایک ٹوئٹ ایک بلاگ یا ایک تحریر پلک جھپکتے میں ملک میں جاری بحث کا رخ موڑ دینے پر قادر ہیں۔ یہ ایسا میڈیم ہے جس کے نہ کوئی قواعدہیں نہ ضوابط، گویا آپ ایک لمبی شفاف سڑک پر اپنے خیالات کی گاڑی دوڑانے میں آزاد ہیں اور سوائے سیلف کنٹرول کے کوئی ایسا سپیڈ بریکر نہیں جو آپکو روک سکے آپکی رفتار کم کرسکے اور یہی تیز رفتاری حادثات کا باعث ہے۔ ہمارے جیسے معاشرے میں جو پہلے ہی نسلی علاقائی اور فرقہ ورانہ بنیادوں پر تقسیم در تقسیم کا شکار ہے سوشل میڈیا کی صورت بسنت کے تہوار کی سی ہے جہاں اپنے اپنے کوٹھوں پر چڑھ کر ہم اپنے اپنے خیالات کی رنگ برنگی پتنگیں اڑا رہے ہیں اور ایک دوسرے سے پیچ لڑا رہے ہیں۔
ایک جانب جہاں ایک دوسرے کا پیچ کاٹنے پر ڈھول تاشے بج رہے ہیں مٹھائیاں بٹ رہی ہیں وہیں اس ڈور سے معصوموں کے گلے بھی کٹ رہے ہیں اور ماتم بھی جاری ہے۔ اور یہ نامعلوم ہے کہ ہمارے خیال کی ڈور نے کتنے گلے کاٹ ڈالے۔ سوشل میڈیا کے استعمال میں نہایت احتیاط کی ضرورت ہے اور اسکا واحد راستہ سیلف کنٹرول ہے۔
٭ محبوب سرور، کراچی
باقی دنیا کی طرح پاکستان میں بھی سوشل میڈیا کا استعمال دونوں طرح ہو رہا ہے۔البتہ تعمیری استعمال کی شرح زیادہ ہے۔ چونکہ دنیا گلوبل ویلیج بن چکی ہے، لہذا کسی بھی منفی یا غلط سوچ کو پسند کرنے کا رجحان بھی کم ہوا ہے۔اور اس کا براہ راست فائدہ تعمیری یا مثبت استعمال کو ہوا ہے۔ہمارے یہاں کیاپوری دنیا میںسوشل میڈیا آزاد ہے۔کیونکہ یہ کسی ادارے کسی آرگنائزیشن کے ماتحت نہیں۔ لیکن اس کے لیے ضابطہ اخلاق ہونا چاہیئے۔ اگرچہ ملک میں سماجی، اخلاقی اور ذاتی حوالوں سے Cyber Act موجود ہیں اور اس پر عملدرآمد بھی ہورہا ہے لیکن اسے مزید سخت کرنے کی ضرورت ہے۔
سوشل میڈیا صارفین کیا کہتے ہیں؟
٭ جویریہ مقبول، اسلام آباد
ملک میں سوشل میڈیا کا کردار زیادہ تر تعمیری ہے۔ لوگ معلومات کا تبادلہ کرتے ہیںاور جو لوگ اخبارات پڑھنے اور ٹیلی ویژن دیکھنے کے لیے وقت نہیںنکال سکتے وہ سوشل میڈیا کی مدد سے دنیا میں رونما ہونے والے واقعات کے بارے میں جان سکتے ہیںاور ساتھ ہی ساتھ اپنی رائے کا اظہار بھی کر سکتے ہیں۔ لیکن ہمارے یہاں یہ کچھ زیادہ ہی آزاد ہے۔بچے بچے کی اس تک رسائی ہے اور ہر طرح کی بات کا اظہار کرنے کے لیے مواقع موجود ہیں۔
لہذا اس کے استعمال کے حوالے سے ضابطہ اخلاق ہونا چاہیئے۔ مگر اس بارے میں وثوق سے نہیں کہا جاسکتا کہ ضابطہ اخلاق پر عملدرآمد ہوسکے گا کہ نہیں۔کچھ گھروں کی حد تک تو شاید حد بندی ہو۔مگر ملکی سطح پر شاید ممکن نہ ہوسکے۔اس سلسلے میں یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ سوشل میڈیا کے استعمال کے حوالے سے حدودو قیود کا تعین کرے اور معاشرے میںغلط معلومات اور خبروں کو پھیلنے سے روکے اس حوالے سے تربیتی پروگرامزشروع ہونے چاہیے۔
٭ ارشد حسین جگنو ، گلگت
سوشل میڈیا نے کسی حد تک عوام کو سہولت فراہم کی ہے لیکن معلومات کی بے جا ٹریفکنگ نے سچ اور جھوٹ کی تمیز کرنے میں مشکلات کھڑی کردی ہیں اگر ہم پاکستان میں سوشل میڈیا کے تعمیری یا غیر تعمیری استعمال کی بات کریں تو افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ شہری صحافت نے نہ صرف صحافتی معیار اور ضابطہ اخلاق کو نقصان پہنچایا ہے بلکہ اخلاقی طور پر اس حد تک گر چکے ہیں کہ چند کمنٹس اور لائیک کیلئے شریف النفس انسان کی کردار کشی سے بھی گریز نہیں کرتے۔
یہاں تک کہ فیک آئی ڈیز اور پیجز بنا کر ایک دوسروں کی عزت اچھالنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑتے اور اس دوڑ میں سیاسی و مذہبی جماعتیں سرفہرست ہیں۔ اظہارِ رائے کی آزادی کا مفہوم تو یہ ہے کہ ہر انسان کو کھل کر اپنا نکتہ نظر بیان کرنے، سوال کرنے، اختلاف اور تنقیدکرنے کی اجازت ہے لیکن اس کا ہرگز یہ مقصد نہیں ہے اظہار رائے کی آزادی کی آڑ میں ہم کسی کی ذات، مسلک ،مذہب یا قوم پر بے جا انگلی اٹھا کر ان کی ساکھ کو نقصان پہنچائیں اس تناظر میں اگر ہم پاکستان میں سوشل میڈیا کے صارفین اور آزادی کی بات کریں تو ہر بندہ اظہار رائے کی آزادی سے دو قدم آگے بڑھ کر سوشل میڈیا کا استعمال کر رہا ہے۔
بدقسمتی یہ کہ ہم نے سوشل میڈیا کو ملک میں اجازت تو دی ہے مگر سوشل میڈیا کی تعلیم و تربیت پرکوئی توجہ نہیں دی ہے جس کی وجہ سے نوجوان نسل سوشل میڈیا کو صحیح استعمال ہی نہیں کر پا رہی ہے۔ اس لئے حکومتی ذمہ داری بنتی ہے کہ سوشل میڈیا کے قوانین کے حوالے سے جو ابہام پائے جاتے ہیں ان کو جلد از جلد دور کر ے۔
٭ غنی الرحمان، گاؤں کاٹن دوش خیل،تحصیل تیمر گرہ، ضلع دیر پائین، خیبر پختونخواہ
سوشل میڈیا کا کنٹرول چونکہ ہر خاص و عام کے ہاتھ میں ہے۔اس لیے اس کا استعمال ہر طرح سے ہے۔ یعنی تعمیری اور غیر تعمیری دونوں صورتوں میں ہے۔کرونا وبا اور اس کی موجود صورتحال سے آگاہی سوشل میڈیا کے تعمیری استعمال کی مثال ہے۔ میرے خیال میں ہمارے ہاں سوشل میڈیا کا غیر تعمیری استعمال زیادہ ہو رہا ہے۔ بد قسمتی سے گزشتہ آٹھ دس سال سے پاکستان کی سیاست میں سوشل میڈیا کا منفی استعمال تمام حدود و قیود پار کر چکا ہے۔
سیاسی جماعتوں کی سوشل میڈیا کارندے کھلم کھلا ایک دوسرے کے خلاف گالم گلوچ، طعنہ زنی، من گھڑت باتوں،مخالفین کے عیوب کا پرچاراور ذاتیات پر ہمہ وقت حملوں میں مصروف نظر آتے ہیں۔ سوشل میڈیا کو جھوٹی خبروں، افواہوں، قیاس آرائیوں، سنسنی پھیلانے اور دھوکہ دہی کے لئے بھی استعمال کیا جا رہا ہے۔اس کے علاوہ لسانی نفرت، قوم پرستی، فرقہ پرستی،مذہبی منافرت پھیلانے اور غیر اخلاقی مواد پھیلانے کے لیے بھی استعمال کیا جا رہا ہے۔ ماہرین کی نظر میں سوشل میڈیا فطری طور پرآزاد ہے۔ سوشل میڈیا کو مکمل طور پر ریگو لیٹ کرنے کے ذرائع موجود نہیں جس طرح سے ایک اخبار ،ریڈیو اور ٹی وی چینل میں ہوتا ہے اس لیے اس کا منفی اثر ظاہر ہو رہا ہے۔
ایک مکتبہ فکر سوشل میڈیا کے لئے ضابطہ اخلاق بنانے کا سرے سے ہی مخالف ہے۔ ان کی رائے میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سوشل صارفین خود ہی میڈیا کے مفید اور کارآمد استعمال کی طرف مائل ہو جائیں گے۔ دوسرا مکتبہ فکرسخت اور منظم ضابطہ اخلاق پر مکمل عملدرآمد کا حامی ہے۔
جبکہ تیسرا مکتبہ فکر وہ ہے جو سوشل میڈیا کے حوالے سے معتدل اور کارآمد قسم کے ضابطوںاور قوانین لوگو کرنے کا حامی ہے ۔ جو انتہائی غور و خوص اور معاشرے میںموجود اس حوالے سے تمام اسٹیک ہولڈرز کے باہمی مشاورت سے جمہوری انداز میں بنایا گیا ہو۔ جس کا مقصد صرف سوشل میڈیا پر غیر ضروری پابندیوں کا اطلاق نہ ہوبلکہ اس کا انتہائی منفی اور تخریبی استعمال کو روکنا مقصود ہو اور یہی بہتر طریقہ کار ہے۔ حکومت سوشل میڈیا کے استعمال کے حوالے سے سہولیات کو مزید بہتر بنائے اور اُنھیں فروغ دے اس کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیاکے منفی اور تخریبی استعمال کو ہر ممکن حد تک روکنے کو یقینی بنائے۔
٭ محمد فاروق بھٹی، لاہور
پاکستان میں سوشل میڈیا کا جتنا بھی تعمیری استعمال ہے وہ سب غیرارادی ہے۔ سوشل میڈیا استعمال کرنے والوں کی اکثریت کا تعلق مڈل، لوئر مڈل کلاس اور کم تعلیم یافتہ طبقے سے ہے۔ یہ طبقہ یو ٹیوب پر دلچسپ وڈیوز اور غیر ضروری وڈیوز دیکھتا ہے اور بہت کم giving end پر آتا ہے۔ یو ٹیوب سے پیسہ کمانے کے شوقین غیر ضروری موضوعات پر انتہائی دلچسپ وڈیوز بنا کر پوسٹ کرتے ہیں۔ چوری کی وڈیوز بھی پوسٹ کرنے کا کافی ٹرینڈ ہے۔
موناٹائزیشن کے لالچ میں یو ٹیوبر ٹھرکی قسم کا مواد بھی بھرتے رہتے ہیں۔ فیس بک اور انسٹا گرام وغیرہ پر جعلی اکاؤنٹس کی بھر مار ہے اور یہاں بھی کچھ اگر تعمیری ہو رہا ہے تو ہے وہ بھی غیر ارادی۔ فرقہ واریت جیسے نازک موضوعات میں عام لوگ بڑے منصوبہ سازوں کی آگ کا ایندھن بنتے ہیں۔ عام لوگ عام طور پر کسی پوسٹ سے مشتعل ہو کر اپنا ردِعمل دیتے ہیں اور سوشل میڈیا کو خاص مقاصد کے لئے استعمال کرنے والوں کی خوراک بنتے ہیں۔
آپ کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان میں سوشل میڈیا صارفین تعمیری و غیر تعمیری کی بحث سے آزاد ہیں اور صرف لطف و لذت کشید کرنے کو اس میڈیم کو استعمال کرتے ہیں۔ بڑے کینوس پر دیکھنے سے یہ غیر تعمیری استعمال کے کھاتے ہی میں پڑے گا۔ہمارے ہاں سوشل میڈیا آزاد ہی نہیں شْتر ِ بے مہار ہے اور بریک فیل گاڑی کی طرح ڈھلوان سے پھسلے چلا جا رہا ہے۔ سیاسی جماعتوں کے سوشل میڈیا ونگز کی کمپینز کا شکار عام صارف بظاہر خود کو آزاد محسوس کرتا ہے لیکن اسے علم نہیں ہوتا کہ وہ کسی ماہر اسٹریٹجسٹ کی منصوبہ بندی کا ایک عنصر بن گیا ہے۔ یہ آزادی صارف سے زیادہ ان اداروں، منصوبہ سازوں اور سیاسی و سماجی یا کاروباری یونٹس کی آزادی ہے۔
سوشل میڈیا ایپس کے بنانے والے اور ان سے پیسہ کمانے والے ان کو بزنس ایپس کے طور پر سامنے لاتے ہیں۔ فیس بک جیسی مشہور زمانہ ایپ کمیونٹی اسٹینڈرڈز کی خلاف ورزی جیسے خود ساختہ اور بیہودہ الزامات کے تحت کسی بھی صارف کا نہ صرف اکاؤنٹ بند کر دیتی ہے بلکہ لاکھوں ڈالرز کا ڈیٹا بھی ہڑپ کر لیتی ہے۔ چند ایشوز تو ایسے ہیں کہ ان پر فوراً ہی ایکشن لیا جاتا ہے اور صارف کے تمام حقوق سلب کر لئے جاتے ہیں۔
اسرائیل اور انڈیا کے زیرِ اثر ہونے کے باعث آپ کو یہاں برہان وانی کا لفظ لکھنے پر یا حماس کے شیخ احمد یاسین کے ذکر پر بھی اکاؤنٹ سے محروم کیا جا سکتا ہے۔ میرا گیارہ سالہ پرانا ذاتی اکاؤنٹ جس میں بیشمار ذاتی ڈیٹا تصویریں، تحریریں اور قیمتی مواد شامل ہے کو محض کشمیری لاک ڈاؤن کی مخالفت پر بند کیا گیا ہے اور بار بار کے رابطے کے باوجود بحال کیا گیا نہ ہی جواب دیا جا رہا ہے۔
سوشل میڈیا کی آزادی پر بڑے اجارہ دار گروپس غیر اعلانیہ پالیسیوں کی بنیاد پر یکطرفہ خفیہ قدغن لگاتے ہیں جس کا بعض اوقات صارف کو علم تک نہیں ہوتا۔ گزشتہ امریکہ انتخابات میں فیس بک صارفین کا ڈیٹاAnalytica” “Cambridge کو بیچنے کا اعترافِ جرم مارک زکر برگ باقاعدہ طور پر امریکی کانگریس کی خصوصی کمیٹی کے سامنے ہاتھ جوڑ کر کر چکا ہے۔نیویارک سے رکن کانگریس الیگزینڈریا اوکاشیو کوٹز جو کمیٹی کی ہیڈ تھی کے سامنے اداکاری کر کے کچھ محفوظ تو ہوا مگر جن صارفین کا ڈیٹا چوری کرکے آگے بیچا گیا تھا ان کو کوئی compensation نہیں دی گئی۔ فیس بک کا صارف بظاہر آزاد اور عملاً پابندیوں میں جکڑا ہوا ایسا شخص ہے جس کی پرائیویسی کا کوئی احترام کہیں موجود نہیں۔ خصوصاً ہم پاکستانیوں کے لئے کوئی فورم ایسا موجود نہیں جہاں فیس بک کی بدمعاشیوں کے خلاف رجوع کیا جا سکے۔
ضابطہ اخلاق تو ہر میڈیم اور میڈیا کے لئے ہونا چاہیئے اور عموماً ہوتا بھی ہے لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ عموماً ایسے ضابطہ اخلاق بناتے ہوئے صارفین کی رائے اور حقوق کو مدِنظر نہیں رکھا جاتا۔ سوشل میڈیا مالکان ہر سوسائٹی کی سماجی روایات کا احترام کرتے ہیں اور پہلے سے بہتر قواعد و ضوابط کے تحت ہی کام کر رہے ہوتے ہیں۔ معاملہ وہاں آ کر بگڑتا ہے جب نفرتی مواد کو بروقت قابو نہیں کیا جاتا یا کسی ادارے کے paid سوشل میڈیا ورکرز کسی مخالف کے خلاف جھوٹا پراپیگنڈہ شروع کرتے ہیں۔
دروغ گوئی اور افواہ سازی اور افواہ بازی کے خلاف قواعد و ضوابط بننے چاہیئے اور ایسا ضابطہ اخلاق بنانے کی ضرورت ہے جس پر قانون نافذ کرنے والے ادارے اورLaw of Land باآسانی عمل درآمد کر سکے۔حکومت کو عوام کے تحفظ اور معلومات کی صحیح ترین رسائی یقینی بنانے کی کوشش کرنا چاہیئے۔
سوشل میڈیا کے عام صارفین تو پہلے ہی مظلوم ہیں۔ ان کے لئے ذمہ داریوں کا کیسا تعین کرنا ہاں البتہ فرد سے جب بات ادارے تک پہنچے تو اسے سرکار کی اجازت سے مشروط ہونا چاہیئے جیسے سیاسی جماعتیں اور مسلکی فرقہ وارانہ پریشر گروپس حکومتی اجازت کے بغیر اپنا اکاؤنٹ آپریٹ نہ کر سکیں۔ ان کی باقاعدہ اجازت، سالانہ فیس اور لائسنس ہونا چاہیئے۔
سوشل میڈیا کے تعمیری استعمال کی ایک کہانی
٭ روحان کی پیدائش 29 جولائی 2017 کو ہوئی ۔پیدائش کے پانچویں دن سانس میں دشواری کے سبب روحان کو ڈاکٹر کے پاس لے جایا گیا۔ یرقان کی تشخیص کے بعد علاج کے دوران اسکے مختلف ٹیسٹ ہوئے جس سے ظاہر ہوا کہ روحان دل کے عارضہ میں مبتلا ہے جو کہ پاکستان میں اپنی نوعیت کا پہلاکیس ہے۔جس کو میڈیکل زبان میں آریٹک آرٹریشیا کہتے ہیں۔روحان کے والد کا تعلق آئی ٹی اور والدہ کاتعلق ابلاغ عامہ سے ہے۔
والدین نے مرض کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے لیے سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ پر موجود ریسرچ پیپرز کو پڑھا ۔ ملک کے مایاناز کارڈیالوجسٹ سے بھی رابطے میں رہے جس سے واضح ہوا کہ روحان کی پہلی سرجری ’’ناروڈـــ‘‘ ہوگی جو کہ مشکل ترین سرجریز میں سے ایک ہے اور پاکستان کا میڈیکل انفرااسٹرکچر اس نوعیت کی سرجریز کو سنبھال نہیں سکتا ۔روحان کے پاس صرف ایک ماہ کا وقت تھا جس میں اسکا آپریشن ہونا اسکی زندگی کے لیئے ضروری تھا۔
والدین نے دنیا کے مختلف سرجن اور کارڈیولوجسٹ سے سوشل میڈیا کے ذریعے رسائی حاصل کی جن میں ای میل سروس، فیس بک، ٹویٹر اور مختلف ہسپتال کی آن لائن پورٹلز وغیرہ شامل تھے جس سے اندازہ ہوا کہ یہ ایک مہنگی سرجری ہے کیونکہ اس میں رسک فیکٹر زیادہ ہے اور مریض کا آئی سی یو کا دورانیہ طویل ہے۔ایک عام آدمی کے لئے اس کاخرچہ اٹھانا مشکل ہے۔یوںوالدین نے فیس بک پر Help Baby Rohaan کے نام سے ایک پیج بنایا اور یہیں سے اس campaign کا عملی آغاز ہوا ۔ شروعات میں والدین کاسارا زور اس طرف رہاکہ وہ خود کتنا خرچہ اٹھا سکتے ہیں۔
سرجری کے لئے جو مقامات سرفہرست تھے ان میں جرمنی، اٹلی، بوسٹن ،برمنگھم اور انڈیا شامل تھے ۔ اخراجات اور Experties کی وجہ انڈیا کو منتخب کیا گیا(روحان کیلئے اس کنڈیشن میں لمبا سفر بھی خطرناک ثابت ہو سکتا تھا)۔پاسپورٹ کاحصول ،نادرا کا اندراج اور تمام مراحل حل کرتے کرتے 22 دن ہوچکے تھے۔اس دوران انڈیا کے میڈیکل ویزے بند تھے ۔جس کے لئے ٹویٹر پر #helpbabyrohaan کے نام سے ایک اور campaign کا آغاز کیا گیا۔ جس کا مقصد میڈیکل ویزہ کا حصول تھا کچھ جان پہچان والے اور دوستوں کے ساتھ شروع کی گئی اس مہم نے کچھ گھنٹو ں میں ہی trend کی شکل اختیار کرلی۔ جسکے نتیجے میں انڈیا کی وزیر خارجہ شمشا سوراج نے فوری طور پر اپنےtweet کے ذریعے پاکستان میں موجود انڈین ایمبیسی کو ویزہ جاری کرنے کا کہا ساتھ ہی twitter سے ہی دنیا کہ کچھ اخبارات نے بھی اس خبر کو اگلے دن شائع کیا ۔
6 ستمبر 2017 کو فلائیٹ کے ذریعے روحان اپنے والدین کے ہمراہ دہلی پہنچا۔ اسی دوران معلوم ہوا کہ اُن کاسامان لاہور ائیرپورٹ پر ہی چھوڑ دیا گیا ہے جس پر والدین نے پی آئی اے کو ٹویٹ کیا ۔
روحان کی اسٹوری پہلے سے ہی trend میں تھی تو پی آئی اے نے بروقت سامان پہنچانے کا بندوبست کیا۔ 8 ستمبر 2017 کو روحان کی کامیاب سرجرری ڈاکٹر راجیش شرما نے کی۔روحان کی حالت نازک ہونے کی وجہ سے اسکا آئی سی یو کا دورنیہ طویل رہا ۔جس کی وجہ سے والدین کے وسائل ختم ہوگئے توفیس بک پیج پر امداد کی اپیل کی اور ساتھ ہی crowd funding شروع کی گئی۔جس کے نتیجے میں بہت سے جاننے والے مدد کے لئے سامنے آئے۔روحان کے ٹھیک ہونے کے بعد فوری طور پر ایک سال کے دورانیہ میں دوسری سرجری کا بتا دیا گیا۔والدین نے فیس بک کے پیج کو استعمال کرتے ہوئے لوگوں سے امداد کی اپیل کی ۔
اردو پوائنٹ جیسے مختلف شوشل میڈیا کے پلیٹ فارم سے روحان کی اسٹوری کو cover کیا گیا۔والدین نے اپنی زندگی اور روحان کے حوالے سے مختلف پیکیجز بنا کر سوشل میڈیا کے مختلفs platform پر Share کئے۔سوشل میڈیا کے ساتھ ساتھ مین اسٹریم میڈیا نے بھی روحان کی اسٹوری کو جگہ دی۔دوسری سرجری کے وقت بھی جب ویزہ کے لئے پاسپورٹ بھیجے گئے تو پچھلی twitter campaign کے توسط سے ویزہ جاری کیا گیا۔ اب دوسری کامیاب سرجری کے بعد روحان کے والدین نے فیس بک پیج استعمال کرتے ہوئے تمام لوگوں کا شکریہ ادا کیا ۔
سوشل میڈیا کے غیر تعمیری استعمال کی دو کہانیاں
٭ خرم بابر لاہور سے ہیں۔ کینسرکے مرض کو شکست دے چکے ہیں۔ سوشل ورکر اور موٹی ویشنل اسپیکر ہیں۔ کینسر کے مریضوں کی دیکھ بھال اور کینسر کے مرض کے علاج اور احتیاط کے بارے میں ایک فلاحی تنظیم کینسر فائٹنگ فرینڈز کے روح رواں ہیں۔ وسیع حلقہ احباب کے مالک ہیں۔ اُن کے ذاتی فیس بک اکاؤنٹ کا لاگ اِن اور پاس ورڈ کسی نے چوری کرنے کے بعد اُن ایک تصویر اس تحریر کے ساتھ اُن ہی کے ذاتی فیس بک اکاؤنٹ پر پو سٹ کردی کہ ’’ خرم بابر اب نہیں رہے‘‘ ۔صبح سویرے خرم کا نمبر بند ملنے سے اُن کے حلقہ احباب میں زیادہ تشویش کی لہر دوڑی اور اکثر دوست اُن کے گھر پہنچے۔ جہاں معلوم ہوا کہ وہ خیریت سے ہیں اور کسی نے یہ خوفناک مذاق کیا ہے۔ خرم اپنے والدین اور بھانجیوں کا واحد سہارا ہیں۔ اُن کی وفات کی اس جھوٹی خبر نے اُن کے گھر والوں کی نفسیات پر بہت گہرے اثرات چھوڑے ہیں۔خصوصاً اُن کی دو چھوٹی بھانجیوں پر جو اپنی والدہ کی وفات کے بعد اپنے ماموں یعنی خرم بابر کے زیر کفالت اورزیر پرورش ہیں۔
٭ ڈاکٹر زاہد یوسف،سنٹر فار میڈیا اینڈ کمیونیکشن اسٹڈیز، یونیورسٹی آف گجرات کے چیئر مین ہیں۔ فیس بک پر اپنا ذاتی اکاؤنٹ رکھتے ہیں۔ سینکڑوں کی تعداد میں اِن کے فیس بک فرینڈز ہیں۔کچھ عرصہ قبل اُن کے نام اور تصویر کے ساتھ فیس بک پر ایک جعلی اکاؤنٹ بنا یا گیا۔
اور اُن کے اسٹوڈنٹس اور دوستوں کو دوبارہ سے فرینڈز ریکویسٹ آنا شروع ہوئیں۔جو جو وہ ریکویسٹ Accept کرتا۔ اُسے فیس بک میسجز پر حال احوال کے بعد یہ کہا جاتا کہ وہ (یعنی ڈاکٹر زاہد ٰوسف)ابھی کسی ایسی جگہ ہیں جہاں بینک نہیں یا اے ٹی ایم نہیں اور انھیں ایمرجنسی میں کچھ رقم کی ضرورت پڑ گئی ہے۔
(جو عموماً ہزاروں میں ہوتی )آپ فلاں نام پر کسی بھی موبائل کمپنی کی کیش ڈلیوری سروسز کے ذریعے یہ رقم بھجوا دیں۔ وہ یونیورسٹی پہنچ کر رقم واپس لوٹا دیں گے۔ یوں اُن کے بے شمار طالب علم اور دوست اس جعل سازی کا شکار بنے اور مالی نقصان اُٹھا بیٹھے۔جب چند دوستوں نے ڈاکٹر صاحب سے دوسری فرینڈ ریکوسٹ کو Accept کرنے سے پہلے پوچھا کہ کیا یہ اُن کی جانب سے بھیجی گئی ہے تو وہ اس سے لاعلم نکلے۔
پاکستان کے سوشل میڈیا کے حوالے سے نئے’’ سٹیزن پرٹیکشن رولز(اگینسٹ آن لائن ہارم)2020 ‘‘کے نمایاں نکات
٭ قومی کورڈینیٹر کے دفتر کا قیام جو مواد کی ریگولائزیشن کا ذمہ دار ہوگا۔
٭ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کواتھارٹی کی جانب سے دستخط شدہ تحریری اور الیکٹرانک ای میل پر کسی بھی ’’ غیر قانونی مواد‘‘کو24 گھنٹے کے اندر اندر ہٹانا ہوگا۔ اور کسی ہنگامی صورت میں 6گھنٹوں کے اندراندر۔
٭ اگر کوئی کمپنی ان شقوں کی پابندی کرنے میں ناکام ہوتی ہے تو کمپنی کے ذریعے چلائے جانے والے تمام پلیٹ فارمز، ایپلیکیشنز اور سروسز کا بلاک کیا جاسکتا ہے۔ یا پھر500 ملین روپے تک کا جرمانہ ہوسکتا ہے۔ سوشل میڈیا کمپنی کو بلاکنگ کی تاریخ کے 2 ہفتوں کے اندر وفاقی حکومت کی طرف سے قائم کردہ کمیٹی کے سامنے ریپریزنٹیشن داخل کرانے کا حق حاصل ہو گا اور کمیٹی ریپریزنٹیشن کو سننے کے بعد
3 ماہ کے اندر فیصلہ جاری کرے گی۔
٭ صارفین کے خلاف کسی انضباطی کاروائی کے لئے تحریری مواد اور دیگر معلومات مطالبہ پر فراہم کی جائیں گی۔
٭ ان رولز کے عمل میں آنے کے 3 ماہ کے اندر سوشل میڈیا فرمیںپاکستان میں ایک مستقل رجسٹرڈ آفس اسلام آباد میں واقع ایک فزیکل ایڈریس کے ساتھ قائم کریں گی ۔اوراُنھیںکورڈینیشن کے لئے پاکستان میں مقیم ایک فوکل پرسن کی تقرری کرنا ہوگی۔ ان رولز کے شائع ہونے کی تاریخ سے 12 ماہ کے اندر ڈیٹا اور آن لائن مواد کو ریکارڈ اور محفوظ کرنے کے لیے پاکستان میں ایک یا زائد ڈیٹا بیس سرور قائم کرنا ہوں گے۔
٭ کمپنیزپاکستان میں دہشت گردی، انتہا پسندی، نفرت انگیز تقاریر اور مواد، ہتک عزت، جعلی خبروں، تشدد اور قومی سلامتی سے متعلق کسی بھی مواد کی لائیو سٹریمنگ کو روکنے کے لیے فعال میکنزم بنائیں۔
The post سوشل میڈیا: آزادی اظہار کی دو دھاری تلوار appeared first on ایکسپریس اردو.