اللہ تعالیٰ رحیم و کریم ہیں۔ رب اللعالمین نے اپنے بندوں کو ان گنت نعمتوں سے نوازا۔ روزہ بھی ایک ایسی عظیم الشان نعمت ہے جو انسان کو بے حساب جسمانی و روحانی فوائد بہم پہنچاتی ہے۔
جدید سائنس رفتہ رفتہ روزے کے طبی فائدے دریافت کر رہی ہے جسے اللہ تعالیٰ نے چودہ سو سال قبل ہی مسلمانوں پر فرض کر دیا تھا۔ یہ دین اسلام کی حقانیت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔پیغمبر ؐخدا ہونے کے باعث وحی آنے سے قبل بھی نبی رحمت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ہر ہفتے پیر اور جمعرات کو روزہ رکھنے کا اہتمام فرماتے۔ اس کے علاوہ قمری مہینے کی 13تا 15 تاریخ کو بھی روزہ رکھتے۔ دور جدید میں کھانے پینے سے اس قسم کی دوری ’’روزہ ِوقفہ‘‘(Intermittent fasting) کہلاتی ہے۔
2ہجری کو رمضان المبارک کے مہینے میں روزے فرض ہو ئے۔ یوں رسول اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے حکم ِخداوندی سے سال میں زیادہ روزے اختیار فرمائے اور مسلمان بھی اسی سنت پر عمل کرنے لگے۔دور حاضر میں روزہ رکھنے کا عمل باقاعدہ ایک سائنس کی شکل اختیار کر چکا۔ دنیا بھر کے تحقیقی اداروں میں ماہرین خصوصاً یہ جاننے کی کوشش کر رہے ہیں کہ روزہ کیمیائی‘ خلویاتی اور خرد بینی سطح پر انسانی جسم میں کس قسم کے اثرات مرتب کرتا ہے۔
پچھلے چار ماہ سے دنیا بھر میں کوویڈ 19 وبا کا چرچا ہے۔ یہ وبا خاص طور پہ ان انسانوں کو متاثر نہیں کرسکی جن کاجسمانی مدافعتی نظام (immune system)مضبوط تھا چاہے وہ ایک سو سالہ ضعیف ہی ہوں۔ یوں یہ سچائی آشکار ہوئی کہ اگر انسان کا مدافعتی نظام طاقتور ہو‘ تو وہ کوویڈ19 جیسی خطرناک وبا کو بھی شکست دے سکتا ہے۔ حالیہ تحقیق سے انکشاف ہواہے کہ روزہ مدافعتی نظام کو مضبوط بنانے میں اہم کردار ادا کرتاہے۔
مدافعتی نظام پہ مثبت اثرات
پروفیسر والٹر لونگو ( Valter Longo)امریکا کی یونیورسٹی آف کیلی فورنیا میں ضیعفیات ( Gerontology) اور حیاتیاتی سائنسز کے محقق ہیں۔ پچھلے سال انہوں نے اپنی ٹیم کے ساتھ ایک انوکھا تجربہ کیا۔ وہ اس تجربے سے دیکھنا چاہتے تھے کہ انسان چند دن بھوکا پیاسا رہے تو اس کے مدافعتی نظام پر کسی قسم کے مثبت یا منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔ چنانچہ انہوںنے بیمار اور تندرست ‘ دونوں قسم کے مرد و زن کو تین چار دن روزانہ پندرہ گھنٹے تک بھوکا رکھا۔ اسی دوران ان کے اجسام میں مدافعتی نظام میں جنم لینے والی معمولی سی تبدیلیوں کا بھی جائزہ لیا گیا۔ اس تجربے سے تین اہم انکشاف سامنے آئے۔
پہلا انکشاف یہ ہوا کہ جب بھوکے جسم کو غذا نہ ملے تو وہ اپنے میں ذخیرہ شدہ گلوکوز اور چربی(چکنائی) جلا کر توانائی حاصل کرتا ہے۔ اسی دوران وہ اپنا بوجھ کم کرنے کی بھی سعی کر لیتا ہے جیسے کسی آفت کا نشانہ بننے پر ہوائی جہاز سے زائد وزن گرا دیا جاتا ہے۔ ہمارا جسم بھی غذا نہ ملنے پر مدافعتی نظام کے خصوصاً ایسے ’’سفید خونی خیلے‘‘ (White blood cells)مار ڈالتا ہے جو خراب ہو چکے ہوں۔ یوں انسانی مدافعتی نظام اپنے ناکارہ سفید خونی خلیوں سے چھٹکارا پا لیتا ہے۔
پروفیسر والٹر لونگو نے تحقیق سے دریافت کیا کہ جب روزہ رکھنے والا پندرہ گھنٹے بعد پھر کھانے پینے لگے تو ہمارا جسم نئے سفید خونی خلیے بنانے لگتا ہے اور انسان زیادہ بہتر انداز میں بیماریوں کا مقابلہ کرنے کے قابل ہو جاتا ہے۔
سفید خونی خلیے کیسے پیدا ہوئے؟
سوال یہ ہے کہ ہمارا جسم کیونکر نئے سفید خونی خلیے بنانے لگتا ہے؟ تحقیق سے پتا چلا کہ جب ہم روزے رکھیں تو ہمارے جسم میں ایک پروٹینی خامرے ’’پی کے اے‘‘ (protein kinase A) کی مقدار کم ہو جاتی ہے۔ یہ خامرہ (انزائم) ہمارے جسم میں گلائکوجن (جمع شدہ گلوکوز)، گلوکوزاور چکنائی ریگولیٹ کرنے میں اپنا کردار ادا کرتا ہے ۔مگر یہی خامرہ جسم میں ’’بنیادی‘‘ (Stem) خلیوں کو کام کرنے سے روک دیتا ہے۔ یہ اہم نکتہ ہے کیونکہ ہر زندہ جسم میں بنیادی خلیے ہی نئے خلیے بناتے ہیں۔
جب روزہ رکھنے سے پی کے اے خامرے کی مقدار کم ہو جائے تو وہ بنیادی خلیوں کو کنٹرول نہیں کر پاتا۔ یوں انہیں اپنا کام کرنے کی آزادی مل جاتی ہے یعنی وہ نئے خلیے بنانے لگتے ہیں۔ چونکہ اس وقت جسم میں سفید خونی خلیوں کی کمی ہوتی ہے لہٰذا وہ سب سے پہلے یہی خلیے بناتے ہیں تاکہ مدافعتی نظام پہلے کی طرح مضبوط وموثر ہو جائے۔
تیسرا انکشاف یہ ہوا کہ مسلسل روزے رکھنے سے زیرتجربہ مرد وزن کے اجسام میں ایک ہارمون’’ آئی جی ایف 1- ‘‘(Insulin-like growth factor-1) کی مقدار کم ہو گئی۔ یہ انسانی بدن کا ایک اہم ہارمون ہے۔ گروتھ ہارمون (Growth hormone) کے ساتھ مل کر پرورش پاتے بچے میں بلوغت پیدا کرتا ہے۔ اِسے ہمارا جگر بناتا ہے۔ اگر بچپن میں خدانخواستہ آئی جی ایف 1- کی مقدار کم رہ جائے تو بچہ بلوغت حاصل نہیں کر پاتا اورچھوٹا رہ جاتا ہے۔ لیکن ہارمون کی مقدار حد سے بڑھ جائے تو نشوونما پاتے بچے کا قد اور جسمانی اعضا بہت بڑے ہو جاتے ہیں۔
بلوغت کے بعد مگر آئی جی ایف 1- کی جسم میں مقدار کم ہی رہنی چاہیے۔ وجہ یہ کہ سائنس دانوں نے دریافت کیا ہے، یہ ہارمون بڑھنے سے انسانی جسم سرطانی وغیرسرطانی رسولیوں کا نشانہ بنتا ہے اور اعضا کی شکست وریخت سے انسان پر قبل ازوقت بڑھاپا آنے لگتا ہے۔جسم میں آئی جی ایف 1- کی مقدار اس وقت بڑھتی ہے جب انسان گوشت زیادہ استعمال کرنے لگے۔ ایسے کھانے زیادہ کھائے جن میں کاربوہائڈریٹس زیادہ ہوں۔ نیز ڈیری مصنوعات (دودھ، دہی) کا زیادہ استعمال بھی اس ہارمون کی سطح بڑھا دیتا ہے۔ لیکن پروفیسر والٹر کی تحقیق سے تیسرا انکشاف یہ ہوا کہ روزے رکھنے سے جسم میں اس ہارمون مقدار کی سطح گھٹ جاتی ہے۔
یومیاوی آہنگ کے اسرار
غرض امریکی پروفیسر والٹر لونگو کی تحقیق نے روزے کے کم از کم دو ایسے اہم فوائد طشت ازبام کر دیئے جو پہلے پوشیدہ تھے۔ پچھلے سال ہی روزے پر ایک اور تحقیق نیا زبردست انکشاف منظرعام پر لے آئی۔ بیلور کالج آف میڈیسن (Baylor College of Medicine)امریکا میں طب کی مشہور یونیورسٹی ہے۔ اس کا شمار دنیا کی بہترین طبی یونیورسٹیوں میں ہوتاہے۔ پچھلے سال وہاں ایک ٹیم نے یہ زبردست تجربہ کیا کہ رمضان المبارک میں تیس روزے رکھ کر انسان کے ’’یومیاوی آہنگ‘‘ (Circadian rhythm)پر کس قسم کے اثرات پڑتے ہیں۔یومیاوی آہنگ انسان سمیت تمام جانداروں کے جسم میں پایا جانے والا ایک اہم قدرتی اندرونی نظام ہے۔
یہ نظام ہمارے سونے اور جاگنے کے اوقات منظم کرتا ہے۔ طے کرتا ہے کہ ہارمونوں کا اخراج کب ہو گا۔ نئے خلیے کس وقت بنیں گے۔ یہ پودوںمیں بھی ملتا ہے۔ اسی کے ذریعے پودوں میں معین وقت پر پھول کھلتے اور پھر مرجھا جاتے ہیں۔ سورج کی روشنی اور درجہ حرارت اس نظام پر اثر انداز ہوتے ہیں جو چوبیس گھنٹے میں اپنا چکر پورا کرتا ہے۔
اس کے بعد یومیاوی آہنگ کے نئے چکر کا آغاز ہوتا ہے۔اگر کوئی انسان رات کو طویل عرصہ جاگنے لگے تو اس میں یومیاوی آہنگ کا قدرتی نظام خراب ہو جاتا ہے۔ نیند کی کمی سے پھر وہ بے چینی اور انتشار کا شکار رہتا ہے۔ زیادہ جاگنے کی وجہ سے وہ کھانا بھی زیادہ کھاتا ہے۔ یہ چلن اسے موٹاپے اور ذیابیطس میں گرفتار کرا سکتا ہے۔ بعض ادویہ بھی اس قدرتی نظام میں خلل ڈالتی ہیں۔ یومیاوی آہنگ اگر قدرتی طریقے سے کام کرتا رہے تو یہ انسان کی تندرستی کا ضامن بنا رہتا ہے۔
یومیاوی آہنگ کو انسانی جسم میں بیس ہزار اعصابی خلیوں (نیورونز) پر مشتمل ایک چھوٹا سا علاقہ کنٹرول کرتا ہے۔ اس کو عرف عام میں ’’ماسٹر گھڑی‘‘ کہتے ہیں۔ یہ علاقہ ہمارے دماغ میں ’’ہایپو تھلامس‘‘ (Hypothalamus) علاقے میں واقع ہے۔ سائنسی اصطلاح میں ’’سپراچیاسمیٹک نیوکلیس‘‘(suprachiasmatic nucleus ) کہلاتا ہے۔اس ماسٹر گھڑی کے علاوہ انسانی جسم کے اہم اعضا اور اندرونی نظام کی اپنی اپنی ذیلی گھڑیاں بھی ہیں۔ مثلاً دل‘ جگر اور گر دے کے اعضا اور مدافعتی ‘ ہاضمہ‘ استحالہ(Metabolism)‘ اینڈوسیرین(Endocrine ) اور تخلیق(Reproductive) کے نظام ۔ ان سبھی اہم اعضا اور جسمانی نظاموں کی ذیلی گھڑیاں ماسٹر گھڑی سے تال میل رکھتی ہیں تاکہ انسانی بدن میں یومیاوی آہنگ کا نظام بخوبی کام کرتا رہے۔
جدید طبی سائنس نے تحقیق سے دریافت کیا ہے کہ اگر انسان کے مدافعتی اوراستحالہ نظاموں کی ذیلی گھڑیاں خراب ہو جائیں تو وہ مختلف بیماریوں میں مبتلا ہو سکتا ہے جن میں سب سے خطرناک کینسر ہے۔ اس آفت سے بچنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ ماسٹر گھڑی کو ری سیٹ کر دیا جائے۔ یہ ایک نہایت کٹھن مرحلہ ہے کیونکہ یومیاوی آہنگ یا ماسٹر گھڑی کو ازسر نو چلانے کی خاطر ڈاکٹروں کی زیر نگرانی رہتے ہوئے انسان کو روزمرہ معمول میں کئی اقدامات کرنا پڑتے ہیں۔ عموماً یہ اقدامات صحیح طرح انجام نہیں پاتے اور یوں ماسٹر گھڑی سیٹ کرنے کی سعی بیکار جاتی ہے۔
پچھلے سال بیلور کالج آف میڈیسن کے محققوں نے بذریعہ تحقیق و تجربات یہ حیرت انگیز بات دریافت کی کہ جب انسان (رمضان المبارک کے مانند) متواتر تیس دن روزے رکھے تو اس عمل سے لاحقی گھڑیاں ماسٹر گھڑی کی گرفت سے آزاد ہو جاتی ہیں۔ گویا 30 روزوں کا عمل انہیں ماسٹر گھڑی کے کنٹرول سے آزاد کروا کر ری سیٹ کر دیتا ہے۔ یوں ان محققوں نے یومیاوی آہنگ کی ری سیٹنگ کا ایک نیا طریقہ دریافت کر لیا جو رمضان المبارک کی بہت بڑی برکت اور انسانوں کے لیے انعام ہے۔
بیلور کالج آف میڈیسن میں روزوں کے دوران یومیاوی آہنگ پر ہوتی تبدیلیاں کا جائزہ لینے والی ٹیم کی سربراہ ایک ترک نژاد مسلمان ڈاکٹر ‘ آسیہ مند یکوغلو تھیں ۔ جبکہ اس دس رکنی ٹیم میں ایک اور مسلمان ‘ دوہندو‘ دوچینی بدھی اور چار امریکی عیسائی محقق شامل تھے۔
تحقیق کے انکشافات
محققوں نے اپنی تیس روزہ تحقیق میں درج ذیل انکشافات کیے:
٭…تیس روز تک روزے رکھنے کے باعث ہمارے خون میں پائے جانے والے پروٹینی سالمات(protein molecules)اور خلیوں کو طاقت ملی اور ان میں کینسر برداشت کرنے کی صلاحیت بڑھ گئی۔
٭…گلوکوز اور چکنائی (lipid) کے پروٹینی خلیے بھی اپنے کام بہتر طور پر انجام دینے لگے۔ ان کی مدد سے ہماری غذا توانائی میں بدلتی ہے۔ یہ توانائی پھر ہمارا جسم استعمال کر کے روزمرہ سرگرمیاں انجام دیتا ہے۔
٭…تیس روزوں کے متواتر پروگرام نے انسانی جسم میں انسولین ہارمون کا نظام بھی بہتر کر دیا۔ اس نظام کی مختلف خرابیاں دور ہو گئیں ۔یوں انسانی صحت کو قیمتی فوائد حاصل ہوئے۔
٭…یومیاوی آہنگ بہتر انداز میں کام کرنے لگا اور اس سے منسلک منفی امور دور ہو گئے۔
٭…جن خلیوں کے ڈی این اے کو کسی قسم کا نقصان پہنچ چکا تھا، روزے رکھنے سے ان کی بھی مرمت ہو گئی۔
٭…بھوک پیاس سے آراستہ تیس روزہ پروگرام نے انسانی خلیوں کے ایک اہم حصے ’’ سائٹو سکیلٹن‘‘(Cytoskeleton) کو بھی تقویت پہنچائی ۔ یہ حصہ خلیوں کی ساخت وہئیت تشکیل دینے میں بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔
٭…روزے نے ہماری مدافعتی نظام پر بھی مثبت اثرات مرتب کیے اور اسے پہلے سے زیادہ مضبوط بنادیا۔
٭…انسان کے دماغ میں موجود ’’نظام ادراک‘‘ (cognition) کو بھی تیس دن کے روزہ پروگرام سے فائدہ ہوا۔ ہمارے سوچنے سمجھنے ‘ نئی باتیں سیکھنے ‘ یاد رکھنے‘ مسائل حل اور فیصلے کرنے کی صلاحیتیں اسی نظام ادراک سے وابستہ ہیں۔
روزہ روح کے لیے غذا
ان تمام فوائد سے محققوں نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ رمضان المبارک میں مسلسل تیس روزے رکھنے سے انسان کو کینسر‘ موٹاپے‘ ذیابیطس‘ استحالہ طبی خلل‘ سوزش‘ الزائمر مرض اور دیگر اعصابی و نفسیاتی بیماریوں سے بچنے میں بھرپور مدد ملتی ہے۔محققین نے یہ نکتہ بھی نمایاں کیا کہ روزے رکھتے ہوئے تمام زیر تجربہ چودہ مردو زن نے کسی قسم کی ڈائٹنگ نہیں کی اور معمول کے مطابق اشیائے خورونوش استعمال کیں۔ اس دوران ان کا وزن بھی کم نہیں ہوا۔
اس تحقیق کا ایک نمایاں انکشاف ہے کہ روزہ انسان کو کنیسر جیسی خطرناک بیماری سے بھی محفوظ رکھتا ہے۔یہ واضح ہے کہ اگر ایک ماہ تک افطاری میں حد سے زیادہ روغنی اشیا، گوشت، تیل والے کھانے اور مسالے دار غذائیں کھائی جائیں تو پھر روزوں سے مطلوبہ طبی فوائد حاصل نہیں ہوسکتے۔ یہ ضروری ہے کہ سحر و افطار میں زیادہ تر صحت بخش خوراک کھائی جائے۔ تیس روز تک روزانہ چودہ گھنٹے بھوکا پیاسا رہنا اور پھر غذائیت بھرے کھانے لینے کا بہترین امتزاج ہی روزوں کو جسمانی ہی نہیں روحانی طور پر بھی بے انتہا مفید بنا ڈالتا ہے۔
ایک قول ہے: ’’جسم کا روزہ روح کے لیے غذا ہے۔‘‘ یہی وجہ ہے، روزے کے پروگرام پر بالکل صحیح عمل درآمد کرنے والا مسلمان تیس دن بعد خود کو روحانی طور پر بھی ہلکا پھلکا، خوشگوار مزاج کا حامل اور مثبت سوچ رکھنے والا پاتا ہے۔ تیس روزوں کی عنایات پوری طرح سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ آپ پہلے یہ جانیے، ہمارے جسم میں غذا کیونکر ہضم ہوتی ہے۔
ہاضمے کا پیچیدہ نظام
ہمارا جسم روزمرہ کام انجام دینے کی خاطر تین ذرائع… کاربوہائیڈریٹ(اناج،پھل،ڈیری) چکنائی(حیوانی چربی،پکانے کا تیل،ڈیری) اور پروٹین (گوشت،دالیں) سے توانائی حاصل کرتا ہے۔ کاربوہائیڈریٹ سے حاصل شدہ ’’گلوکوز‘‘ (یا شکر)ہمارے جسم کا اہم ایندھن ہے۔ لاکھوں برس کے ارتقا سے انسانی جسم چکنائی اور پروٹین سے بھی گلوکوز بنانے کا طریقہ دریافت کرچکا۔ دراصل گلوکوز ہی سے ہمارا دماغ اپنے کام انجام دیتا ہے جو انسانی جسم میں بادشاہ یا کنٹرول سینٹر کی حیثیت رکھتا ہے۔
چکنائی اور پروٹین ہمارے جسم میں دیگر افعال صحیح طرح انجام دینے میں بھی مدد کرتے ہیں۔ چکنائی خلیوں کی نشوونما میں حصہ لیتی ہے۔ چربی میں ڈھل کر ہمارے اندرونی اعضاء کی حفاظت کرتی ہے۔ چربی کے باعث سردیوں میں بھی ہمارا جسم گرم رہتا ہے۔
چکنائی ہمارے بدن میں بعض وٹامن اور معدنیات بہ آسانی جذب ہونے میں مدد دیتی ہے۔ نیز اہم ہارمون پیدا کرنے میں اپنا کردار ادا کرتی ہے۔ اسی طرح قدرت نے پروٹین پر بھی مختلف ذمے داریاں عائد کررکھی ہیں۔ ہمارا جسم اس کی مدد سے خراب بافتوں (ٹشوز) کی مرمت کرتا ہے۔ پروٹین کے ذریعے ہی خامرے ، ہارمون اور دیگر جسمانی کیمیائی مادے بنتے ہیں۔ نیز پروٹین ہی ہماری ہڈیوں، عضلات، کارٹیج، جلد اورخون کا اہم حصہ بھی ہے۔
گلوکوز کا مخزن
کاربوہائیڈریٹس کی تین اقسام ہیں: شکری، نشاستے دار (Starch) اور فائبر۔ ان تینوں اقسام کو پیدا کرنے والی غذاؤں کو آنتوں میں پیسنے سے جو توانائی حاصل ہو، وہ ہمارے خلیوں کے خصوصی سالمات میں محفوظ ہوتی ہے۔ انہیں’’ اے ٹی پی‘‘ (Adenosine triphosphate) کہا جاتا ہے۔ ہم جب ہاتھ ہلائیں، پلک جھپکائیں یا تیزی سے دوڑیں تو معمولی سی حرکت کے لیے بھی توانائی یہی اے ٹی پی سالمات فراہم کرتے ہیں۔انسان تین سو کھرب (30 ٹریلین) خلیوں کا مجموعہ ہے۔ انہی خلیوں کا آپس میں تال میل ہمیں زندہ رکھتا، سوچ بچار کراتا اور مختلف کام انجام دیتا ہے۔ حیرت انگیز بات یہ کہ ان تین سو کھرب خلیوں میں سے ہر ایک خلیہ اپنی جگہ ایک مکمل وجود ہے۔ہر خلیہ مختلف حصے رکھتا ہے جن کی مدد سے وہ زندہ رہتا ہے۔
انسان کا بجلی گھر
خلیے میں ’’مائٹوکونڈریون‘‘ (Mitochondrion) کا حصّہ توانائی بناتا ہے۔ گویا یہ ہمارے جسم کا بجلی گھر ہے۔ خلیہ اسی میں گلوکوز اور آکسیجن کی مدد سے اے ٹی پی سالمے بناتا ہے۔ یہ عمل سائنسی اصطلاح میں ’’خلویاتی عمل تفنس‘‘ (Cullular Respiration) کہلاتا ہے۔ اس عمل سے پانی اور کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس جنم لیتی ہے جسے ہمارے پھیپھڑے جسم سے نکال باہر کرتے ہیں۔ آپ کو یہ جان کر حیرانی ہوگی کہ ہر انسان روزانہ اپنے جسم جتنے وزنی اے ٹی پی سالمات بناتا ہے۔
تبھی وہ روزمرہ کام بخوبی انجام دینے کے قابل ہوتا ہے۔ہمارا جسم گلوکوز کو بطور گلائکوجن جگر اور دیگر اعضا میں ذخیرہ رکھتا ہے تاکہ وقت ضرورت وہ کام آئے۔ اسی طرح چکنائی بھی ذخیرہ کی جاتی ہے۔اگر انسان زیادہ پروٹین کھا لے تو وہ بھی چکنائی کی صورت ہمارے بدن میں ذخیرہ ہو جاتی ہے۔ جب انسان روزہ رکھے تو سب سے پہلے جسم گلائکوجن سے گلوکوز حاصل کرتا ہے تاکہ روزمرہ کام جاری رہیں۔ گلائکوجن استعمال کرنے کی وجہ یہ ہے کہ کچھ نہ کھانے پینے سے جسم کو مزیدگلوکوز نہیں ملتا۔ لہٰذا وہ اپنے ذخیرے سے کام چلاتا ہے۔
جب گلائکوجن کا ذخیرہ ختم ہوجائے تو چکنائی کی باری آتی ہے۔ یہ تینوں ایندھنوں میں سب سے بہترین ایندھن ہے۔ یہ فی گرام کاربوہائیڈریٹ اور پروٹین سے دگنی سے بھی زیادہ توانائی فراہم کرتا ہے۔ اسی لیے روزے کے عالم میں موٹے آدمی کے جسم میں چکنائی ہی بنیادی ذریعہ توانائی بن جاتا ہے۔ہمارا جسم ایک کیمیائی عمل’’گلوکونیوجینسیس‘‘ (Gluconeogenesis) کے ذریعے چکنائی سے گلوکوز بناتا ہے۔
جب چربی کا ذخیرہ اختتام کو پہنچے تو ہمارا بدن پھر پروٹین کے ذخیرے کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔ اب عمل گلوکونیوجینسیس کے ذریعے ہی پروٹین کو پہلے امائنو تیزابوں میں ڈھال کر پھر ان سے گلوکوز بنایا جاتا ہے۔ یوں اب بھی دماغ کو اپنا مرغوب و پسندیدہ ایندھن ملتا رہتا ہے۔ لیکن جب پروٹین کا ذخیرہ بھی ختم ہوجائے تو گلوکوز نہ ملنے سے دماغ چکرانے لگتا ہے۔ بدن میں بھی کمزوری بڑھ جاتی ہے۔ ایسی حالت میں مزید کچھ عرصہ غذا نہ ملے، تو انسان اللہ کو پیارا ہوجاتا ہے۔
انسولین ہارمون کی کاریگری
درج بالا حقائق سے عیاں ہے کہ انسانی جسم میں ہاضمے کا نظام توانائی پیدا کرتا ہے۔ یہ نظام ہاضمہ ہمارے دماغ کا ایک حصہ ’’ایچ پی اے محور‘‘ (HPA axis ) کنٹرول کرتا ہے۔ ایچ ٹی پی اے محور ماغ کے تین اعضا، ہایپوتھلامس، صنوبری غدہ (pineal gland ) اور برگردہ غدود (adrenal glands) پر مشتمل ہے۔یہ دماغ کا نہایت اہم حصہ ہے کہ ہمارے بدن میں مدافعتی ، ہاضمے، ہارمونوں کے نظاموں، موڈ ،جذبات،جنسی خواہش ، رویّے اور توانائی ذخیرہ کرنے و استعمال کو بھی کنٹرول کرتا ہے۔ اسی لیے درج بالا تمام نظام و افعال ایک دوسرے سے قریبی تعلق رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے، جب ہمارا موڈ خراب ہو، ہم پریشانی یا دباؤ میں مبتلا ہوں، تو ہمارا کچھ کھانے کو جی چاہتا ہے اور ہم بے سوچے سمجھے غذا کی طرف لپکتے ہیں۔
جب ہمارے خلیوں کے اے ٹی پی سالمات میں توانائی کم ہوجائے، تو یہ خبر ایچ ٹی پی اے محور تک پہنچتی ہے۔ وہ پھر ایک ہارمون، گرلین(Ghrelin) چھوڑ کر ہم میں بھوک پیدا کرتا ہے۔ مقصد یہ ہے کہ ہم کھانا کھانے لگیں۔ جب پیٹ بھرجائے تو پھر ایک ہارمون، لیپٹن (Leptin)چھوڑتا ہے۔ یہ ہارمون ہمیں بتاتا ہے کہ میاں، کافی کھانا کھاچکے، اب ہاتھ روک دو۔جب ہمارے جسم میں غذا پہنچنے لگے، تو ایچ پی ٹی اے محور کے حکم ہی سے ہمارا لبلبہ ایک ہارمون، انسولین خارج کرتا ہے۔ یہ گلوکوز کو خلیوں میں داخل کرنے کی کلید ہے یعنی وہ اسی کی مدد سے خلیوں میں داخل ہوتا ہے۔ وہاں پھر گلوکوز اے ٹی پی سالمات میں توانائی کی صورت ذخیرہ ہوجاتا ہے۔
اگر انسولین خدانخواستہ نہ ہو، تو بہت کم گلوکوز خلیوں میں داخل ہو پاتا ہے۔ چکنائی اور پروٹین بھی اسی ہارمون کی مدد سے ہمارے جسم میں ذخیرہ ہوتے ہیں۔ یہی انسولین مگر انسان کو ایک خطرناک بیماری، ذیابیطس قسم 2 میں بھی مبتلا کرتا ہے۔ اگرچہ اسے جنم دینے میں انسان کا اپنا قصور ہے۔ جب آدمی خاطر خواہ جسمانی سرگرمی انجام نہ دے اور بیٹھا رہے تو اس کے اے ٹی پی سالمات میں بھی توانائی موجود رہتی ہے۔ مگر دماغ کے خلیوں کو تو مسلسل گلوکوز درکار ہوتی ہے کیونکہ وہ متواتر کام کرتے رہتے ہیں۔ لہٰذا آخر انسان کو بھوک لگ جاتی ہے اور وہ پھر کھانا کھاتا ہے۔
غذا جسم میں پہنچتے ہی قدرتاً ایچ پی ٹی اے محور انسولین خارج کرنے کا حکم دیتا ہے تاکہ کھانے سے پیدا شدہ گلوکوز کو ٹھکانے لگایا جاسکے۔ اب دماغ کے اے ٹی ہی سالمات کو تو گلوکوز مل جاتی ہے لیکن دیگر اکثر اعضائے جسم کے اے ٹی پی سالمات تو بدستور توانائی رکھتے ہیں کیونکہ انسان بہت کم حرکت کررہا ہے۔لہذا انھیں گلوکوز کی ضرورت نہیں ہوتی۔ ایسی صورت حال میں زائد گلوکوز گلائکوجن کی شکل میں ہمارے جگر اور عضلات میں ذخیرہ ہوجاتا ہے۔
انسانی جسم مگر خاص حد تک ہی گلائکوجن کا ذخیرہ رکھ سکتا ہے۔ اس لیے انسان مسلسل کھاتا رہے مگر جسمانی سرگرمیاں کم انجام دے توگلائکوجن کا ذخیرہ بھی پورا ہو چکتا ہے۔اس کے بعد گلوکوز چکنائی میں ڈھل کر جسم میں ذخیرہ ہونے لگتا ہے۔ یہی عمل موٹاپے کا آغاز ہے۔ یہ حالت انسانی جسم کے کئی اہم اعضا مثلاً دل اور گردوں کو نقصان پہنچاتی ہے۔ اس حالت میں بعض اوقات خلیے انسولین کو صحیح طرح جذب نہیں کرپاتے۔ یوں ’’انسولین مزاحمت‘‘ (Insulin resistance)جنم لیتی ہے۔ کبھی کبھی لبلبہ اتنی زیادہ انسولین بناتا ہے کہ آخرکار وہ خراب ہوکر یہ ہارمون بنانا بند کردیتا ہے۔ تب یہ حالت ’’ذیابیطس قسم 1‘‘ کہلاتی ہے۔ یہ حالت پیدائشی طور پر بھی جنم لیتی ہے۔ تب ٹیکے سے انسولین لینا پڑتی ہے تاکہ خلیوں کے اے ٹی پی سالمات گلوکوز جذب کرسکیں اور انسان کو روزمرہ کام کرنے کے لیے توانائی ملتی رہے۔
روزوں کی عظیم نعمت
انسانی جسم میں غذا کے ہضم ہونے اور اس سے توانائی بننے کا پورا نظام جان لینے کے بعد آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ رمضان المبارک میں تیس دن روزے رکھنے سے انسان کو کس قسم کے طبی فوائد ملتے ہیں۔ خاص طور پر فربہ مردوزن کو پہنچنے والا پہلا زبردست فائدہ یہی ہے کہ جسم چربی جلانے لگتا ہے۔ یوں وزن میں کمی آتی اور موٹاپا دور ہوتا ہے۔ذیابیطس قسم 2 کے مریضوں کو فائدہ ملتا ہے کہ روزانہ طویل عرصہ غذا نہ لینے سے ان کے بدن میں گلوکوز اور انسولین ، دونوں کی مقدار گھٹ جاتی ہے۔ یوں اگر مریض ہمت کرکے تیس روزے رکھ لے، تو بعید نہیں کہ اللہ تعالیٰ کی یہ نعمت اسے ذیابیطس سے چھٹکارا دلوا دے۔
روزے سے بہ حیثیت مجموعی جسم کے تمام نظاموں اور اعضا کو بھی یہ فائدہ پہنچتا ہے کہ انہیں دن بھر کام نہیںکرنا پڑتا کہ انسان خالی پیٹ ہوتا ہے۔ چناں چہ انہیں آرام کا زیادہ وقت ملتا ہے اور وہ سکون سے رہتے ہیں۔ ایک ماہ کا آرام تھکن دور کرکے انہیں پھر تازہ دم کردیتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ذیابیطس، امراض قلب اور دیگر دیرینہ بیماریوں کے مریض جب روزے رکھنے لگیں، تو تقریباً دو ہفتوں تک بھوک، بے چینی اور انتشار محسوس کرتے ہیں۔ مگر پھر یہ اثرات کم ہونے لگتے ہیں۔ وجہ یہ کہ تب تک ہمارا دماغ اور تمام جسمانی نظام و اعضا ساڑھے چودہ گھنٹے بھوکے پیاسے رہنے کے نئے چلن سے ہم آہنگ ہوجاتے ہیں۔
پروفیسر والٹر لونگر رمضان المبارک کی افادیت کے بہت قائل ہیں۔ انہوں نے تحقیق سے دریافت کیا ہے کہ جو انسان ہفتے میں دو دن کم کھائے، تو یہ عمل اس کی عمر بڑھا دیتا ہے۔ یہی سنت نبویؐ ہے جس پر ہر مسلمان کو عمل پیرا ہونا چاہیے تاکہ وہ صحت کی دولت پاسکے۔
پروفیسر لانگو کا کہنا ہے کہ جب انسان دو تین دن حرارے(کیلوریز) کم لے، تو اس کے تمام جسمانی خلیے تعمیر نو سے گزرتے ہیں۔ وہ اپنی خرابیاں دور کرکے پہلے سے زیادہ جوان بن جاتے ہیں۔ اس وقفہ روزہ عمل کو پروفیسر والٹر نے ’’ازسرنو جوانی‘‘( Juventology)کا نام دیا ہے۔طویل تحقیق و تجربات کے بعد پروفیسر والٹر کا کہنا ہے کہ عام دنوں میں روزہ رکھتے ہوئے انسان کوشش کرکے اس دن ایک ہزار سے کم حرارے (کیلوریز) رکھنے والی غذا کھائے۔ نیز اس کی غذا سبزیوں، پھلوں اور دیر ہضم کاربوہائیڈریٹس غذاؤں پر مشتمل ہو۔ مضر صحت چکنائی نہ کھائی جائے اور گوشت بھی کم ہو۔ ایسے غذائی پلان کو پروفیسر ’’پرولون‘‘(Prolon) کہتا ہے۔
آزاد اصلیوں کی آفت
یہ واضح رہے کہ ہمارے جسم میں ہاضمے اور استحالہ کے نظام غذا کو پیستے اور دیگر کیمیائی سرگرمیاں انجام دیتے ہوئے بعض ایسی ضمنی مصنوعات (بائی پروڈکٹس) بھی بناتے ہیں جن کی زیادتی انسانی صحت کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔ ان ضمنی مصنوعات میں ’’آزاد اصیلے‘‘ (Free radicals) بھی شامل ہیں۔
آزاد اصیلے خلیوں میں پائے جانے والے وہ ایٹم ہیں جن میں ایک الیکٹرون موجود نہیں ہوتا۔ چناں وہ دوسرے ایٹموں سے الیکٹرون چرانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس ٹکراؤ سے مگر بعض اوقات خلیے کو نقصان پہنچتا ہے۔ اگر ٹکراؤ شدید ہو اور خلیے کا ڈی این اے متاثر ہوجائے، تو تبھی اس خرابی سے کینسر جنم لیتا ہے۔ یہ خلیہ پھر سرطانی ہوکر دوسرے صحت مند خلیوں کو بھی کینسر میں مبتلا کرنے لگتا ہے۔
ہمارے جسم میں جنم لینے والی کیمیائی سرگرمیوں سے جو آزاد اصیلے جنم لیں، وہ ایک سیکنڈ میں مرجاتے ہیں لیکن ان کی زیادہ تعداد اس تھوڑے سے عرصے میں بھی خلیوں کو دباؤ میں مبتلا کرسکتی ہے۔ اسی دباؤ سے سوزش پیدا ہوتی ہے۔ ہمارے بدن میں خصوصی سالمات، اینٹی آکسیڈینٹ(Antioxidants) آزاد اصیلے مارنے میں کام میں آتے ہیں۔ ہمیں یہ اینٹی آکسیڈینٹ غذاؤں سے ملتے ہیں۔
ماہرین نے تحقیق سے جانا ہے کہ روزہ رکھنے سے انسانی جسم میں آزاد اصیلوں کی پیداوار گھٹ جاتی ہے۔ یہ رمضان المبارک کا ایک اور بڑا فائدہ ہے کیونکہ آزاد اصیلے انسانی جسم میں مختلف عوارض پیدا کرتے ہیں۔ انہی کی وجہ سے انسان رفتہ رفتہ بوڑھا ہونے لگتا ہے۔
آزاد اصیلے غیر فطری طرز زندگی اختیار کرنے سے زیادہ جنم لیتے ہیں۔ مثلاً سگریٹ نوشی کرنا، تیل میں پکی اور بھنی غذائیں زیادہ کھانا، کیڑے مار ادویہ سے بوجھل غذائیں لینا، شراب نوشی اور دیگر کیمیائی مادوںکا استعمال۔ اسی غیر فطری زندگی کے باعث نت نئے جراثیم اور وائرس بھی پیدا ہورہے ہیں جیسے نیا کورونا وائرس (سارس کوو2) جس سے کوویڈ 19 نے جنم لیا۔
رمضان المبارک ہمیں اللہ تعالیٰ کا یہ آفاقی پیغام دیتا ہے کہ کھاؤ پیو مگر اعتدال کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑو، اسی میں سلامتی و صحت ہے۔ خلیفہ ہارون الرشید کا ایک طبیب غیر مسلم تھا۔ اس نے ایک بار کسی مسلمان عالم دین سے شکایتاً کہا کہ قرآن مجید میں طب کے متعلق احکامات موجود نہیں۔وہ عالم دین کہنے لگے ’’جناب! اللہ تعالیٰ نے تو محض آدھی آیت میں آدھے علم طب کو جمع فرما دیا ہے۔‘‘ غیر مسلم طبیب نے حیران ہوکر پوچھا، وہ کون سی آیت؟ تب انہوں نے یہ آیت پڑھی ’’کھاؤ پئیو مگر حد سے نہ بڑھو۔‘‘ (سورہ الاعراف 31)
The post روزے کی معجزاتی سائنس appeared first on ایکسپریس اردو.