تاریخ کے اوراق میں درج ہے کہ ایک بار امیرالمومنین حضرت عمرفاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ صحرائے عرب کے کسی دورافتادہ علاقے سے گزر رہے تھے کہ آپ کی نظر صحرا میں سفر کرتے ہوئے ایک عجیب و غریب مسافر پر پڑی، جس کی نہ شکل و شباہت عربوں جیسی تھی اور نہ چال ڈھال قرب و جوار کے علاقوں میں آباد افراد جیسی۔ آپ ؓ نے اُس اجنبی شخص کا راستہ روک کر پوچھا ’’اے مسافر! تم کون ہو اور کہاں جارہے ہو؟‘‘
اجنبی مسافر نے امیرالمومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی دست بوسی کرتے ہوئے انتہائی احترام سے عرض کیا کہ ’’اے امیرالمومنین! میں معروف آسمانی وبا ہیضہ ہوں، اور اللہ تعالیٰ کے حکم سے یمین کی بستی کی جانب عازمِ سفر ہوں، جہاں مجھے تقدیری الہیٰ کے عین مطابق70 لوگوں کو ہیضے کی بیماری میں مبتلاء کرنا ہے، جن میں سے 30 افراد ہیضے کے وبائی مرض سے لقمہ اجل بن جائیں گے اور باقی افراد صحت یاب ہوجائیں گے۔‘‘ آپ ؓ نے وبائی مرض ہیضہ کی گفتگو سُن کر اُسے یمین کی سمت جانے اجازت مرحمت فرمادی۔
ابھی بمشکل ایک ہفتہ ہی گزرا تھا کہ حضرت عمر رضی تعالیٰ عنہ کو یمین سے خبر موصول ہوئی کہ یمین میں 100 سے زائد افراد وبائی مرض ہیضے کا شکار ہوکر جاں بحق ہوگئے ہیں۔
آپ ؓ کو خبر سن کر افسوس بھی ہوا اور ہیضے کی غلط بیانی پر شدید حیرت بھی۔ آپ ؓ نے ہیضے سے اُس کی دروغ گوئی پر جواب طلبی کرنے کے لیے اُسی راستے پر اُس کا انتظار کرنا شروع کردیا، جس راستے پر آپ ؓ کی ہیضے نامی مرض سے مجسم صورت میں ملاقات ہوئی تھی۔ ابھی آپ ؓ کو انتظار فرماتے تھوڑی دیر ہی گزری تھی کہ سامنے سے وہی عجیب و غریب شخص جس نے اپنا تعارف وبائی مرض ہیضہ بتایا تھا، خراماں خراماں، آتا دکھائی دیا۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اُس سے اپنے پاس بلایا اور سوال کیا کہ ’’تم نے مجھ سے جھوٹ کیوں بولا، اور یمین میں 30 افراد کے بجائے 100 سے زائد افراد کی ہیضہ کے مرض سے جان کیوں لے لی۔‘‘ اُس شخص نے جواب دیا کہ ’’اے امیر المومنین! میں نے آپؓ سے جو کہا تھا بالکل سچ کہا تھا، اور میں نے یمین کی بسی میں فقط 30 افراد کی ہی ہیضہ سے جان لی تھی، باقی لوگ تو ہیضہ کی بیماری سے نہیں بلکہ اِس مرض کے خوف سے ہی مرگئے۔‘‘
گذشتہ چند ماہ سے ہمارے ہاں بھی ایک مہلک وبائی مرض کورونا وائرس کی شکل میں نازل ہوچکا ہے، جو اَب تک ہزاروں قیمتی جانوں کو نگل چکا ہے مگر دوسری جانب لاکھوں افراد ایسے بھی ہیں جو اِس وبائی مرض کا شکار ہونے کے بعد مکمل طور پر صحت یاب ہوچکے ہیں۔
بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ کورونا وائرس سے ہلاک ہونے والے افراد کی خبر تو عالمی ذرائع ابلاغ میں شہ سرخیوں میں مسلسل جگہ بنارہی ہے لیکن کووڈ 19 بیماری سے شفایاب ہونے والے خوش قسمت مریضوں کا تذکرہ کسی نیوز بلیٹن میں نہیں کیا جارہا، جس کی وجہ سے کورونا وائرس سے زیادہ، اِس مرض کا خوف لوگوں میں ہیجان پیدا کرنے کا سبب بن رہا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں بے شمار ایسے معصوم افراد بھی ہیں جن کی موت کا ذمہ دار کورنا وائرس ہرگز نہیں لیکن اِس کے باجود اُن کی اموات کو کورونا وائرس کے کھاتے میں ڈال دیا گیا۔ کورونا وائرس کے نام پر جاں بحق ہونے والے ایسے ہی چند بدقسمت افراد کی سرگذشت پیش ِ خدمت ہے۔
٭غلط تشخیص سے ہونے والی موت:کورونا وائرس سے نبرد آزما ہونے کی سب سے زیادہ اہمیت کورونا وائرس کے ٹیسٹ یا تشخیص کے لیے اختیار کیے گئے طریقۂ کار کی ہے، کیوںکہ کورونا وائرس کے ٹیسٹ ہی سے یہ معلوم ہوسکتا ہے کہ آیا کسی شخص میں کورونا وائرس سے لاحق ہونے والی موذی بیماری کووڈ 19 موجود ہے یا نہیں۔ عام طور پر کورونا وائرس کے تشخیصی ٹیسٹ دو اقسام کے ہوتے ہیں: پہلی قسم کی تشخیصی جانچ کو ’’سواب ٹیسٹ‘‘ کہا جاتا ہے، جس میں ناک یا گلے میں موجود رطوبت کا نمونہ لیا جاتاہے ۔ جسے ’’پولیمر چین ری ایکشن‘‘ یا ’’پی سی آر‘‘ ٹیسٹ کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
پی سی آر ٹیسٹ میں کسی بھی فرد سے ملنے والے رطوبت کے نمونے کا کوروناوائرس کی ’’جنیاتی ترتیب ‘‘ کے ساتھ موازنہ کیا جاتا ہے۔ اگر متاثرہ شخص سے حاصل ہونے والے رطوبت کا نمونہ کورونا وائرس کی جینیاتی ترتیب سے ملتا جلتا ہو تو، اسے پازیٹیو یا مثبت قرار دے دیا جاتا ہے۔ لیکن اگر مذکورہ نمونے کی جینیاتی ترتیب چین کے شہر ووہان سے سامنے آنے والے کورونا وائرس کی ترتیب سے نہیں ملتی تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کے کیے گئے ٹیسٹ کا نتیجہ نیگیٹیو یا منفی ہے۔
کورونا وائرس کا دوسری قسم کا تشخیصی ٹیسٹ ’’اینٹی باڈی ٹیسٹ‘‘ کہلاتا ہے۔ اِس ٹیسٹ کے ذریعے یہ معلوم کیا جاسکتا ہے کہ آیا یہ شخص پہلے ہی سے کورونا وائرس کا شکار ہوکر ٹھیک تو نہیں ہوچکا ہے۔ اِس تشخیصی ٹیسٹ میں ایک آلے پر خون کے ایک قطرے سے قوتِ مدافعت کا معائنہ کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں زیادہ تر ٹیسٹ اولالذکر تشخیصی طریقۂ کار کے تحت یعنی پی سی آر ٹیسٹ کیے جارہے ہیں۔
عام خیال یہ ہے کہ اسپتالوں میں زیراستعمال طبی آلات یا کٹس سے کیے جانے والے تشخیصی ٹیسٹ بہت قابلِ اعتماد ہوتے ہیں جب کہ پی سی آر ٹیسٹ میں خاص طور پر غلطی کی گنجائش بہت کم ہوتی ہے۔ تاہم اِس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اِن ٹیسٹوں کے لیے اختیار کیے گئے طریقۂ کار کے نتائج کبھی غلط نہیں آسکتے۔ امریکا کے معروف طبی تحقیقاتی ادارے سینٹرز فار ڈیزیزکنٹرول اینڈ پری وینشن ’’سی ڈی سی‘‘ کے ڈائریکٹر رابرٹ ریڈ فیلڈ نے گذشتہ دنوں کھلے عام میڈیا کے سامنے اعتراف کیا تھا کہ امریکا میں کورونا وائرس کی وجہ سے ہونے والی بے شمار اموات غلط تشخیص کی وجہ سے بھی ہوئی ہیں۔ کچھ ایسا ہی معاملہ پاکستان میں بھی پیش آچکا ہے۔
صوبہ سندھ کے دوسرے بڑے شہر حیدرآباد میں جس شخص کی ہلاکت کو حیدرآباد میںکورونا وائرس کی وجہ سے ہونے والی پہلی ہلاکت قرار دیا گیا تھا، اُس کے بارے میں اَب جاکر معلوم ہوا ہے کہ مذکورہ شخص تو کورونا وائرس سے کبھی متاثر ہی نہیں ہوا تھا۔ حیدرآباد کے علاقے حسین آباد کے رہائشی اس 54 سالہ شخص کوتیز بخار، کھانسی اور سانس لینے میں تکلیف محسوس ہونے پر لیاقت یونیورسٹی اسپتال (ایل یو ایچ) کے ایمرجینسی وارڈ میں معائنے کے لیے لے جایا گیا تو اُس شخص کو انتہائی نگہداشت یونٹ یعنی آئی سی یو میں منتقل کردیا گیا، جہاں کورونا وائرس کی تشخیص کے لیے نمونے حاصل کیے گئے۔
واضح رہے کہ یہ شخص پہلے ہی سے متعدد امراض کا شکار تھا، جب کہ اِسے ماضی میں فالج بھی ہوچکا تھا اور یہ مریض گذشتہ ایک سال سے حیدرآباد کے ایک نجی اسپتال میں دماغی امراض کے ڈاکٹر کے پاس زیرعلاج بھی رہا تھا۔ حیران کُن با ت یہ ہے کہ لیاقت یونیورسٹی کی لیبارٹری میں مذکورہ مریض کے نمونوں کا جائزہ لینے کے بعد تشخیص کی گئی کہ یہ شخص کورونا وائرس سے متاثر ہے جس کے بعد اسے فوری طور پر آئیسولیشن وارڈ منتقل کردیا گیا۔
آئیسولیشن وارڈ میں منتقل کیے جانے کے دو دن بعد مریض کا 3 اپریل کو انتقال ہوگیا، لیکن انتقال سے قبل اس شخص کا ایک اور نمونہ ایک مشہور نجی لیبارٹری میں ٹیسٹ کے لیے بھجوادیا گیا تھا، جس کی اگلے روز موصول ہونے والی رپورٹ منفی آئی۔ ایک مریض کی 2 مختلف رپورٹس آنے کے بعد جس کا نمونہ دونوں مرتبہ ایک ہی ٹیکنیشن نے حاصل کیا تھا، اِس سے نشان دہی ہوتی ہے کہ کورونا وائرس کے لیے ٹیسٹ کے نمونے میں اکھٹے کرنے میں کتنی زیادہ بے احتیاطی اور غفلت کا مظاہرہ کیا جارہا ہے۔ دوسری طرف غلطی سے کورونا وائرس کا شکار بتائے گئے مریض کی تدفین میں اُس کے اہل خانہ کو بھی شرکت کرنے سے روک دیا گیا۔ یہ کتنی بڑی ناانصافی ہے کہ متوفی کورونا وائرس سے متاثر نہیں تھا اِس کے باوجود اُس کے اہلِ خانہ کو احترام کے ساتھ تدفین کرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔
٭ٹائپنگ کی غلطی سے۔۔۔۔!:ایک نقطے نے ہمیں محرم سے مجرم کردیا۔۔۔۔ہم دُعا لکھتے رہے اور وہ دغا پڑھتے رہے۔ شاعر نے اِس شعر میں سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ کس طرح کتابت کی ایک غلطی نے شاعر کو اپنے محبوب کے آگے رسوا کردیا تھا۔ مگر اسرائیل کی وزارت صحت نے تو ٹائپنگ کی غلطی سے ہزاروں صحت مند افراد کو کورونا وائرس کا مریض بنادیا۔
علاوہ ازیں اسرائیل کی وزارتِ صحت کی طرف سے جاری ہونے والی اِس غلط فہرست میں ایک کم زور دل شخص ایسا بھی شامل تھا، جو کورونا وائرس کی فہرست میں اپنا نام پڑھ کر اتنا پریشان ہوا کہ اُسے دل کا دورہ پڑا ور وہ موقع پر ہی انتقال کرگیا، جب کہ دل کے دورہ سے مرنے والے شخص کے لواحقین یہی سمجھتے رہے کہ اُن کے اِس عزیز کا انتقال کورونا وائرس کے باعث ہوا ہے۔ بس انہوں نے کووڈ 19 بیماری سے خود کو بچانے کی خاطر مذکورہ شخص کی آخری رسومات میں شرکت سے معذرت کرلی۔ حالاںکہ مریض کی ٹیسٹ رپورٹ میں صاف صاف لکھا تھا کہ وہ کورونا وائرس سے متاثر نہیں ہے۔
لیکن بدقسمتی ملاحظہ ہو کہ اُس شخص نے لیبارٹری سے ملنے والی رپورٹ پر یقین کرنے بجائے اسرائیل کی وزارت ِ صحت کی طرف سے کورونا وائرس کی ایک غلط فہرست پر بھروسا کرلیا۔ یوں یہ شخص کمپیوٹر پر فہرست مرتب کرنے والے کی ٹائپنگ غلطی کی وجہ سے اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھا۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ غلط فہرست میڈیا کی زینت بننے کے اگلے ہی دن اسرائیل کی وزارتِ صحت کی جانب سے ہزاروں لوگوں کا نام ٹائپنگ کی غلطی سے کورونا وائرس کے مریضوں کی فہرست میں آنے پر معذرت کرلی گئی تھی، مگر اسرائیل کی وزارت ِ صحت کی جانب سے جاری ہونے والی ایک غلط فہرست نے ہزاروں لوگوں کسی قدر ذہنی اذیت اور صدمے میں مبتلا کیا شاید اِس کا اندازہ نہیں لگایا جاسکتا۔
٭کورونا کے خوف سے ہونے والی اموات:جس طرح سے بین الاقوامی ذرائع ابلاغ پر کورونا وائرس کا سنسنی خیز انداز میں ذکر کیا جارہا ہے، وہ اَب عام افراد کے لیے شدید ذہنی کوفت اور اذیت کا باعث بننے لگا ہے۔ بطور ِ خاص الیکٹرانک میڈیا پر کورونا وائرس کی منفی کوریج نے لوگوں کے اعصاب کو بری طرح سے مجروح کرنا شروع کردیا ہے۔ پہلے پہل تو یہی کہا جارہا تھا کہ کورونا وائرس کا خوف گھریلو جھگڑوں میں اضافے کا سبب بن رہا ہے لیکن اَب تو لوگ اِس وبائی مرض کے خوف سے خودکشیاں بھی کرنے لگے ہیں۔ کورونا وائرس کے خوف میں مبتلا ایک شخص نے بھارتی دارالحکومت دہلی کے ایک اسپتال کی ساتویں منزل سے چھلانگ لگا کر اپنی جان دے دی۔
اِس بدقسمت شخص کا نام چرن جیت سنگھ تھا اور اس کی عمر 35 سال بتائی جارہی ہے۔ چرن جیت سنگھ آسٹریلیا کے شہر سڈنی میں رہتا تھا اور چند روز قبل ہی اپنے عزیز و اقارب سے ملنے بھارت آیا تھا۔ دہلی کے ایئرپورٹ پر اترنے کے بعد اس نے سر درد کی شکایت کی تو اُسے کورونا وائرس کا مشتبہ مریض تصور کرتے ہوئے دہلی میں واقع ہسپتال صفدر جنگ بھیج دیا گیا اور اُس کا کورونا وائرس کا ٹیسٹ کرکے نمونہ جانچ کے لیے لیبارٹری بھجوادیا گیا۔ حالاںکہ چرن جیت سنگھ میں سردرد کے علاوہ کورونا وائرس کی کوئی دوسری علامت نہیں پائی جاتی تھی اِس کے باوجود اُس کے ساتھ کورونا وائرس کے مصدقہ مریض جیسا سلوک کیا جارہا تھا۔
چرن جیت سنگھ ہسپتال میں اتنی زیادہ ذہنی اذیت کا شکار ہوا کہ اُس نے تنگ آکر اسپتال کی ساتویں منزل سے چھلانگ لگاکر خودکشی کرلی۔ المیہ ملاحظہ ہو کہ جب اُس کے مرنے کے بعد لیبارٹری سے رپورٹ موصول ہوئی تو اُس میں درج تھا کہ اُسے کورونا وائرس نہیں ہے۔ ایسا ہی ایک واقعہ کراچی کی کشمیر کالونی کے رہائشی سرفراز کے ساتھ بھی پیش آچکا ہے ۔
سرفراز کے ذہن میں بھی مختلف نیوز چینلز پر کورونا وائر س سے متعلق سنسنی خیز خبریں سن کر وہم بیٹھ گیا تھا کہ شاید اُسے بھی کورونا وائرس لاحق ہوگیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق سرفراز دو چھوٹی بچیوں کا باپ تھا جبکہ اِس کے ہاں تیسرے بچے کی ولادت بھی جلد ہی متوقع تھی ۔ سرفراز کو کئی دن سے کھانسی، نزلہ اور زکام کی شکایت محسوس ہورہی تھی۔ اِس نے محلے کے ایک عطائی ڈاکٹر سے اپنا معائنہ کرایا جس نے اُس میں کورونا وائرس ہونے کا اندیشہ ظاہر کرتے ہوئے ڈرا دیا کہ اَب انتظامیہ تمہیں تمہارے خاندان سے جبری طور پر دور کردے گی۔ سرفراز پہلے ہی لاک ڈاؤن کے باعث کئی روز سے بے روزگار بیٹھا تھا، اُوپر سے کورونا وائرس کے مرض کا سن کر اتنا خوف زدہ ہوا کہ اپنے گلے میں پھندا لگا کر خودکشی کرلی۔
٭کورونا کے علاج کے نام پر مرنے والے :کووڈ 19 بیماری کا ابھی تک کوئی علاج یا ویکسین دریافت نہیں ہوسکی ہے لیکن اِس کے باوجود سوشل میڈیا پر کووڈ19 کے علاج کے حوالے سے جعلی معلومات اور افواہیں تواتر کے ساتھ گردش کر رہی ہیں اور بے شمار سادہ لوح لوگ اِن افواہوں پر یقین کرتے ہوئے کورونا وائرس سے بچاؤ کے لیے بتائے گئے مختلف طریقۂ علاج اور گھریلو ٹوٹکے آزما بھی رہے ہیں۔
بلا یہ سوچے سمجھے کہ ڈاکٹر کی ہدایت کے برخلاف کورونا وائرس سے بچنے کے لیے کسی بھی خودساختہ دوا کا استعمال خطرناک بھی ثابت ہوسکتا ہے۔ افریقی ملک کینیا میں ایک مذہبی پیشوا نے اپنے شاگردوں کو، کورونا وائرس سے بچنے کے لیے ڈیٹول پینے کا مشورہ دے ڈالا، جس پر عمل کرتے ہوئے کئی افراد نے ڈیٹول کو دوا سمجھتے ہوئے خوشی خوشی پی لیا، جس کے نتیجے میں 59 افراد جان کی بازی ہار گئے۔ یاد رہے کہ اپنے پیشوا کے کہنے پر کُل 63 افراد نے ڈیٹول پیا تھا، جن میں سے 4 افراد کو بچالیا گیا۔ حیران کن با ت یہ ہے کہ اَب تک کینیا میں کورونا وائرس سے جاں بحق ہونے والے افراد کی تعداد صرف 11 ہے۔
یعنی کینیا میں اتنے لوگ کورونا وائرس سے نہیں مرے ہیں جتنے ڈیٹول کو دوا سمجھ کر پینے سے ایک دن میں ہلاک ہوگئے۔ ایسا ہی ایک واقعہ ہمارے پڑوسی ملک ایران میں پیش آچکا ہے جہاں کورونا وائرس سے بچاؤ کے لیے کم ازکم 450 افراد فیکٹریوں میں کام آنے والا زہریلا کیمیکل پی کر ہلاک ہوچکے ہیں جب کہ ایک ہزار سے زائد تشویش ناک حالت میں مختلف اسپتالوں میں زیرعلاج رہے۔ بظاہر کیمیکل پینے والے متعدد افراد کو مرنے سے بچالیا گیا ہے، تاہم اِن افراد میں کیمیکل کے زہریلے اثرات کی وجہ سے دیگر جسمانی عوارض پیدا ہوگئے ہیں۔
مثلاً بینائی کا ختم ہونا، زبان و گلے کا سٹر جانا، معدے میں زخم ہوجانا وغیرہ شامل ہیں۔ اِس حوالے سے ایران کی وزارتِ صحت کے ترجمان ڈاکٹر حسین حسنین کا کہنا تھا کہ اس وقت ایران کے محکمہ صحت کو نہ صرف کورونا وائرس جیسی عالمی وبا سے نمٹنے کے چیلینج درپیش ہے بلکہ کووڈ 19 بیماری کے علاج کے نام پر زہریلے کیمیکل پینے والے افراد کی زندگیاں بچانے کا اضافی بوجھ اور دباؤ کا بھی سامنا ہے۔
٭کورونا کی آڑ میں قتل؟:گذشتہ ہفتے سے سوشل میڈیا پر ایک مبینہ ویڈیو وائرل ہے، جس میں ایک خاتون نوحہ کنا ں ہے کہ میرا 15 سالہ جوان بیٹا جس کا نام سید احمد حسن تھا، جو کہ جماعت نہم کا ایک ہونہار طالب علم تھا، اُسے ذاتی دشمنی کی بنیاد پر زبردستی گھر سے اغوا کر کے پہلے نشہ دیا گیا آور کوئی شئے کھلائی گئی اور بعدازاں اُسے بڑی بے رحمی کے ساتھ قتل کردیا گیا۔ اِس مبینہ ویڈیو میں خاتون کا اصرار ہے کہ اُس کے بیٹے کو قتل کرنے کے بعد قاتلوں نے الزام سے بچنے کے لیے اُس کے بیٹے کو کورونا وائرس کا مریض قرار دے کر لاوارثوں کی طرح دفنانے کی کوشش بھی کی ہے۔
مبینہ ویڈیو کے مطابق خاتون اور اُس کے بیٹے کا تعلق اسلام آباد سے ہے جب کہ مبینہ طور پر اُس کے بیٹے کا قاتل بھی اِسی شہر کے طاقت ور ترین افراد ہیں، جو اِس معاملے کو رفع دفع کرنے کے لیے پیسہ پانی کی طرح بہارہے ہیں۔ فی الحال اِس مبینہ ویڈیو کے درست یا غلط ہونے کے بارے میں تو اِس لیے کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ سوشل میڈیا افواہوں اور غلط خبروں کی آماج گاہ بن چکا ہے، اِس کے باجود ملک کے ریاستی اداروں سے اپیل کی جاسکتی ہے کہ وہ سوشل میڈیا پر زیرگردش اِس ویڈیو کی اصل حقیقت کو ضرور بے نقاب کریں۔
اگر یہ مبینہ ویڈیو درست ہے تو بے چاری مظلوم ماں کو انصاف کی فراہمی یقینی بنائی جائے لیکن اگر اِس مبینہ ویڈیو کی صحت مشکوک ہے تو اِس کے بنانے والے کو کیفرکردار تک پہنچایا جائے۔ بہرحال کورونا وائرس کی آڑ میں ہونے والے اِس مبینہ قتل کی ویڈیو کی تحقیقات اِس لیے بھی ضرور ی ہے، تاکہ معلوم ہوسکے کہ ٹوئٹر پر ٹاپ ٹرینڈ کرنے والے ہیش ٹیگ #JusticeForAhmedHassan کی اصل حقیقت معلوم کی جاسکے۔
The post جنھیں کورونا نے نہیں مارا، مگر۔۔۔ appeared first on ایکسپریس اردو.