اقبال کی دانشِ نورانی کے متعدد زاویے ہیں۔ کہیں یہ اخلاقی و نظریاتی بنیادیں رکھتی ہے تو کہیں اس کے دامن میں انسان کی ذہنی و نفسیاتی گرہوں کی عقدہ کشائی کرتے ہوئے شعر پارے دکھائی دیتے ہیں۔ یہ حکمت آمیز کلام فلسفیانہ و مفکرانہ رنگ بھی رکھتا ہے اور اس کی شعری و فنی کرشمہ کاریوں سے بھی انکار نہیں۔
یہ حقیقت ہے کہ حیاتِ انسانی پر علامہ کی گہری نظر تھی اور اس کی واضح تر نمود ان کے عشق و خرد، فقر و استغنا اور خودی و بے خودی پر مبنی تصورات کی صورت میں ہوئی۔ اس کی مربوط ترین شکل ان کا تصورِ انسانِ کامل ہے اور اقبال نے ان سب کی آمیزش سے ایک ایسے نظامِ فکر کی تشکیل کی جس کا انسانی زندگی سے بالعموم اور حیاتِ مُسلم سے بالخصوص گہرا ربط ضبط ہے۔
انھیں فلسفیانہ و حکیمانہ تصورات کا فیضانِ خاص حکمت ودانش پر مبنی اُن رمزوں کی صورت میں ظاہر ہوا جہاں علامہ عمومی طور پر انسانی زندگی پر نظر ڈالتے ہیں اوراس کے نتیجے میں حیرت انگیز طور پر بے شمار حکمت آموز نکات پیش کرتے چلے جاتے ہیں۔ ان کے کلام میں جابجا متعدد ایسے بصیرت افروز افکار موجود ہیں جہاں وہ اس قبیل کے حقائق سے باخبر کراتے ہیں کہ آئینِ قدرت اور اُسلوبِ فطرت یہی ہے کہ فرد راہِ عمل میں گام زن رہے، تبھی وہ محبوب ِ فطرت ٹھہرتا ہے۔
ایک سچا اور کھرا انسان خاشاک کے تودے کو کوہِ دماوند نہیں کہہ سکتا، بے تگ و دو کسی کو کمال میسر نہیں آتا، اسی لیے مہ نو ہر ایک مقام سے آگے گزر جاتا ہے۔ کائنات کے ذرّے ذرّے میں ذوقِ آشکارائی کار فرما ہے، چناں چہ زمانے میں ایسے فرد کا نگیں جھوٹا ہے جو خودی کو پہچاننے اور پرکھنے سے قاصر ہو۔ خارِ صحرا بھی اسی راز کی عقدہ کشائی کرتے ہیں کہ زندگی میں برہنہ پائی کا گلہ بے سُود ہے اور فرد کی شان اسی صورت میں قائم و دائم رہتی ہے جب وہ چمن میں وفورِ گل دیکھ کر قناعت شعار نہ ہو بل کہ اپنا دامن دراز تر کرتا چلا جائے کیوں کہ سختی منزل کو سامانِ سفر بنانا ضروری ہے۔اقبال کے اشعار دیکھیے :
نگاہ وہ نہیں جو سُرخ و زرد پہچانے
نگاہ وہ ہے کہ محتاجِ مہر و ماہ نہیں
یہی آئینِ قدرت ہے، یہی اسلوبِ فطرت ہے
جو ہے راہِ عمل میں گام زن، محبوب فطرت ہے
مشکل ہے کہ اک بندۂ حق بین و حق اندیش
خاشاک کے تودے کو کہے کوہِ دِماوند
ہر اک مقام سے آگے نکل گیا مہِ نو
کمال کس کو میسّر ہوا ہے بے تگ و دو
یہ کائنات چھپاتی نہیں ضمیر اپنا
کہ ذرّے ذرّے میں ہے ذوقِ آشکارائی
زمانے میں جھوٹا ہے اس کا نگیں
جو اپنی خودی کو پرکھتا نہیں
فطرت افراد سے اِغماض بھی کرلیتی ہے
کبھی کرتی نہیں ملّت کے گناہوں کو معاف
انسان اور انسانی زندگی پر گہری نظر کے باعث اقبال ہر کہیں ایک نباض ماہر نفسیات دکھائی دیتے ہیں اور اکثر مقاماتِ زیست پر ان کے پیش کردہ شعر پارے فرد کی تحلیل نفسی کا فریضہ انجام دیتے ہیں۔ کلام اقبال نفسیاتی ژرف بینی کی ایک نادر مثال ہے جو ایک طرف مسلم ملت کی اصلاح و فلاح کے لیے باریک تر رمزیں لیے ہوئے ہے تو دوسری جانب عمومی طور پر بھی فرد کی ذہنی و نفسی کیفیات کی عقدہ کشائی کرتا ہے۔
اقبال کے ایسے فکر انگیز ابیات فرد کی داخلی دنیا کو مزین اور مرتب کرتے ہیں اور ایسے بہت سے استفسارات کا جواب فراہم کرتے ہیں جو اکثر اوقات فرد کی ذہنی اور قلبی دنیا میں ہیجان برپاکیے رہتے ہیں۔ اقبال فرد کی ایسی نفسیاتی گرہوں کو کھولتے اور حکمت کی باتیں دل میں اتارتے چلے جاتے ہیں، چند شعر دیکھیے:
یہ آبجو کی روانی، یہ ہمکناریِ خاک
مری نگاہ میں ناخوب ہے یہ نظّارہ
اُدھر نہ دیکھ، اِدھر دیکھ اے جوانِ عزیز
بلند زورِ دُروں سے ہوا ہے فواّرہ
٭٭
جو دونیِ فطرت سے نہیں لائقِ پرواز
اُس مرغکِ بیچارہ کا انجام ہے اُفتاد
٭٭
زندگی کی اوج گاہوں سے اتر آتے ہیں ہم
صحبتِ مادر میں طفلِ سادہ رہ جاتے ہیں ہم
٭٭
کبھی چھوڑی ہوئی منزل بھی یاد آتی ہے راہی کو
کھٹک سی ہے جو سینے میں، غمِ منزل نہ بن جائے
٭٭
ہر حال میں دلِ میرا بے قید ہے خرّم
کیا چھینے گا غنچے سے کوئی ذوقِ شکر خند
بعض اوقات نفسیات انسانی سے متعلق اقبال کے پیش کردہ یہ خرد افروز پہلو فرد کی سماجی و معاشرتی سطح پر بھی رہ نمائی کرنے لگتے ہیں۔ کہنا چاہیے کہ علّامہ کا کلام اجتماعی معاشرتی نظام کے تناظرمیں بھی فرد کی تحلیل نفسی کرنے پر قدرت رکھتا ہے۔ ان کے ہاں متعدد ایسے شعر پارے ملتے ہیں جو معاشرے کی مجموعی فضا کے تناظر میں فرد میں بلند حوصلگی اور عالی ظرفی کے جذبات انگیخت کرتے ہیں۔
بالخصوص ہمارا سماجی ڈھانچہ جھوٹ ، تضاد اور منافقت کی دلدل میں جس بُری طرح دھنس چکا ہے، کلامِ اقبال ایسے ابتر معاشرتی نظام سے وابستہ فرد کو مثبت اور منفی سماجی اقدار کی تفریق سے نہ صرف آشنا کراتے ہیں بل کہ نہایت عمدگی سے اسے مثبت طرز حیات کو اپنانے کی ترغیب و تشویق دلاتے ہیں:
خدا وندا! یہ تیرے سادہ دل بندے کدھر جائیں
کہ درویشی بھی عیاری ہے، سلطانی بھی عیاری
٭٭
کہے یہ راہ نما سے کہ چھوڑ دے مجھ کو
یہ بات راہروِ نکتہ داں سے دُور نہیں
٭٭
ہجوم کیوں ہے زیادہ شراب خانے میں
فقط یہ بات کہ پیرِ مغاں ہے مردِ خلیق
٭٭
مریدِ سادہ تو رو رو کے ہو گیا تائب
خدا کرے کہ ملے شیخ کو بھی یہ توفیق
٭٭
یوں بھی دستورِ گلستاں کو بدل سکتے ہیں
کہ نشیمن ہو عنادل پہ گراں مثلِ قفس
٭٭
ممکن ہے کہ تو جس کو سمجھتا ہے بہاراں
اوروں کی نگاہوں میں وہ موسم ہو خزاں کا
٭٭
حفاظت پھول کی ممکن نہیں ہے
اگر کانٹے میں ہو خوئے حریری
اقبال نفسیاتِ محبت سے بھی بخوبی آگاہ ہیں اور اس جذبے کی حقانیت کے پیش نظر اسے فرد کی فلاح کے لیے محترم و مقدم جانتے ہیں۔ وہ اکثر اوقات اس امر سے آشنا کراتے ہیں کہ جذبہ محبت کائنات میں جاری و ساری ہے اور محبت ہی سے کار خانہ ٔ قدرت کے تمام تر رنگ قائم و دائم ہیں۔ محبت فاتح عالم ہے۔ یہ وہ مے ہے جسے نازک آبگینوں میں رکھاجاتا ہے، قرینۂ ادب اس کا پہلا قرینہ ہے اوریہ جذبہ آدمی کے ریشے ریشے میں یوں سماجاتا ہے جیسے شاخِ گل میں بادِ سحر گاہی کا نم سرایت کر جاتا ہے۔ یہی وہ جذبۂ بلند ہے جو اقبال کے تصورِ عشق کی اساس ہے اور اسی سے زندگی میں تطہیر و تقدیس پیدا ہوتی ہے۔ نفسیات محبت کی رمزوں پر مبنی اقبال کے چند حکمت آمیز ابیات دیکھیے:
جفا جو عشق میں ہوتی ہے وہ جفا ہی نہیں
ستم نہ ہو تو محبت میں کچھ مزا ہی نہیں
٭٭
ہوئی نہ عام جہاں میں کبھی حکومتِ عشق
سبب یہ ہے کہ محبت زمانہ ساز نہیں
٭٭
محبت کے لیے دل ڈھونڈ کوئی ٹوٹنے والا
یہ وہ مے ہے جسے رکھتے ہیں نازک آبگینوں میں
٭٭
خموش اے دل بھری محفل میں چلّانا نہیں اچھا
ادب پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں
٭٭
آدمی کے ریشے ریشے میں سما جاتا ہے عشق
شاخِ گل میں جس طرح بادِ سحر گاہی کا نم
اقبال کے متعدد شعر پارے دانش آموز سماجی حقیقت نگاری کے آئینہ دار ہیں اور اپنے ہمراہ بے شمار اخلاقی ضابطے لیے ہوئے ہیں۔ ایسے ابیات بسا اوقات طعن آمیز رنگ میں مرقوم ہیں اور ان میں اقبال کے طنزیہ اسلوب کی کاٹ بخوبی محسوس کی جا سکتی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ سماجی دانش کی ذیل میں علامہ نے فرد کی اخلاقیات کو ہرا عتبار سے مقدم سمجھا ہے ۔ وہ اس امر کے قائل ہیں کہ چمن میں تربیت ِ غنچہ قطعاًنہیں ہوسکتی جب تک قطرۂ شبنم، شریک نسیم نہ ہو۔ بے شک زمانے کی ہوا ہر چیز کو خام رکھتی ہے لیکن فرد کو چاہیے کہ وہ اخلاقی پختگی کے لیے کد و کاوش ضرورکرتا رہے۔اقبال فرد کی تربیت و تہذیب کے لیے بے شمار ایسے نکات پیش کرگئے ہیں جو حکمت کے اسرار لیے ہوئے ہیں۔
اقبال کی شاعری وصل کے اسباب پیدا کرتی ہے اور ان کے نزدیک ان کے فنِ شعر کا منشور یہی ہے کہ ان کی تحریر سے کسی کا دل نہ دکھے۔ چند دانش آموز اخلاقی ابیات دیکھیے جہاں اقبال بڑی عمدگی سے فرد کی رہ نمائی کرگئے ہیں:
وصل کے اسباب پیدا ہوں تری تحریر سے
دیکھ! کوئی دل نہ دکھ جائے تری تقریر سے
٭٭
رہے نہ روح میں پاکیزگی تو ہے ناپید
ضمیرِ پاک و خیالِ بلند و ذوقِ لطیف
٭٭
حیا نہیں ہے زمانے کی آنکھ میں باقی
خدا کرے کہ جوانی تری رہے بے داغ
٭٭
چمن میں تربیتِ غنچہ ہو نہیں سکتی
نہیں ہے قطرۂ شبنم اگر شریکِ نسیم
٭٭
ہو فکر اگر خام تو آزادیِ افکار
انسان کو حیوان بنانے کا طریقہ
٭٭
کیا ہے تجھ کو کتابوں نے کور ذوق اتنا
صبا سے بھی نہ ملا تجھ کو بوئے گل کا سراغ
یہاں کلامِ اقبال کے تنبیہی رنگ کا ذکر ناگزیر ہے جسے علامہ نے فرد کی اصلاح کے لیے جابجا اپنایا ہے اور جو حیاتِ انسانی میں تبدیلی اور ترقی کے لیے جزوِ لازم بھی ہے۔ انسان فطری طورپر تنبیہ وملامت کے نتیجے میں سدھرنے کے امکانات رکھتا ہے۔ علّامہ اس فطری امر سے باخبر ہیں اور ایسے فکر انگیز ابیات پیش کرگئے ہیں جو بہت حد تک زجر و توبیخ سے عبارت ہیں لیکن اس کے نتیجے میں حیاتِ انسانی کی اصلاح ممکن ہے۔
اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ کلامِ اقبال لہجوں کے تنوعات کے باعث اپنے اصلاحی اور نصیحت آموز پیرایے میں یکسانیت سے بچ جاتا ہے۔ چناں چہ ان کے ہاں کہیں ایسا مقام مطلق دکھائی نہیں دیتا کہ ان کے ناصحانہ اشعار قاری پر گراں گزریں۔ اقبال فرد کی ذہنی دنیاؤں کی تفہیم و تعبیر کی صلاحیت رکھتے ہیںاور بڑی ذہانت سے حیاتِ انسانی کو ایک نئی اور پرکشش دنیائے دانش میں داخل کردیتے ہیں۔
حیاتِ انسانی سے متعلق اقبال کے یہ دانش آموز شعر پارے نفسیاتی و سماجی پہلوؤں کے ساتھ ساتھ خالص فلسفیانہ و مفکرانہ رنگ سے ہم آہنگ ہیں۔اس سلسلے میں ان کا پیش کردہ مخصوص نظام فکر و فلسفہ سرِ فہرست ہے لیکن اس سے ہٹ کر بھی دیکھیں تو ان کے ہاں عمومی دانش کی متعدد جھلکیاں ملتی ہیں۔ وہ گل کی پتی میں رازِ ہست و بود دیکھنے کے قائل ہیں اورظاہر ہے کہ یہ فرد کے اشرف المخلوقات ہونے کی قوی دلیل ہے۔
حیاتِ انسانی سے متعلق اقبال کی دانش نورانی کے یہ نکات دو گونہ لذت رکھتے ہیں۔ ایک توموضوعاتی حوالے سے ان کا اظہار خالص علمی و فلسفیانہ رنگ و آہنگ میں ہوا ہے دوسرے یہ دانش آموز رمزیں دل کش پیرایہ بیان کی حامل ہیں۔ ذیل کے اشعار میں پُر کشش اسلوب میں مرقوم اقبال کے حکمت آموز فلسفے کی جھلکیاں دیکھی جاسکتی ہیں جہاں علامہ خدا، فرد اور کائنات کی مثلث کو پیش نظر رکھتے ہوئے نوبہ نو خیالات پیش کرگئے ہیں:
زندگی وہ ہے کہ جو ہو نہ شناسائے اجل
کیا وہ جینا ہے کہ ہو جس میں تقاضائے اجل
٭٭
موت ہر شاہ و گدا کے خواب کی تعبیر ہے
اس ستم گر کا ستم انصاف کی تصویر ہے
٭٭
ہے نگینِ دہر کی زینت ہمیشہ نامِ نو
مادرِ گیتی رہی آبستنِ اقوامِ نو
٭٭
طائرِ دل کے لیے غم شہپرِ پرواز ہے
راز ہے انساں کا دل، غم انکشافِ راز ہے
حیاتِ انسانی کو دانشِ نورانی سے ہم کنار کراتے ہوئے علامہ اکثراوقات بلند آہنگی کے استمداد سے معنی آفرینی کرگئے ہیں۔ بلند آہنگی اقبال کا کلیدی آہنگ ہے جو اپنی نہج کے اعتبار سے اقبال کے تمام تر تصورات کی بنیاد بھی ہے اور ان کے لیے قوت و حرکت کا باعث بھی__کلامِ اقبال میں مخاطبت کا پہلو کمال درجے کے شکوہ اور طظنے کا حامل ہے اور علامہ نے بڑی مہارت سے بلند آہنگی کے وصف کو تلقینِ عمل کے لیے مستعار لیا ہے۔
اقبال فطری طور پر بھی خطابت کا ذوق رکھتے تھے ، چناں چہ حیاتِ انسانی کی اصلاح کے لیے ان کے کلام میں جابجا تخاطب کی ضمیروں سے فرد کودانش آموز نکات کی جانب متوجہ کیاگیا ہے۔ اقبال کا اعتماد نفس، بلند گویائی اور تحرک و حرارت مخاطبین میں اوصافِ جلیلہ پیدا کرنے پر قادر ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ کلامِ اقبال میں دانشِ نورانی پر مبنی بے شمار نکات ملتے ہیںجو فرد کی اصلاح وفلاح کے جذبے کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے مرقوم ہوئے۔ یہ نہ صرف شاعر کے اخلاص اور نیک نیتی پر دلالت کرتے ہیں بل کہ خالص حکیمانہ زاویے سے دیکھیں تو ان میں فرد کی نفسیات کو مد نظر رکھتے ہوئے حیاتِ انسانی کے متعدد پہلوؤں کے حوالے سے رہ نمائی کا فریضہ انجام دیا گیا ہے۔
The post کلام اقبال اور حیات انسانی کی اصلاح appeared first on ایکسپریس اردو.