اپنی شاعری کے حوالے سے نظر:
شاعری میں لٹریچر بحیثیت لٹریچر کے کبھی میرا مطمع نظر نہیں رہا کہ فن کی باریکیوں کی طرف توجہ کرنے کے لئے وقت نہیں۔ مقصود صرف یہ ہے کہ خیالات میں انقلاب پیدا ہو اور بس اس بات کو مد نظر رکھ کر جن خیالات کو مفید سمجھتا ہوں ان کو ظاہر کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ کیا عجب کہ آئندہ نسلیں مجھے شاعر تصور نہ کریں۔ اس واسطے کہ آرٹ (فن) غایت درجہ کی جانکاری چاہتا ہے اور یہ بات موجودہ حالات میں میرے لئے ممکن نہیں۔(مکتوب اقبال بنام سید سلیمان ندوی)
بیداری امت :
آپ کا حسن زن میری نسبت بہت بڑھ گیا ہے حقیقت میں‘ میں نے جو کچھ لکھا ہے اس کی نسبت دنیائے شاعری سے کچھ بھی نہیں اور نہ کبھی میں نے (Seriously) اس طرف توجہ کی ہے۔ بہر حال آپ کی عنایت کا شکر گزار ہوں۔ باقی رہا یہ امر کو موجودہ بیداری کا سہرا میرے سر پر ہے یا ہونا چاہئے۔ اس کے متعلق کیا عرض کروں مقصود تو بیداری سے تھا۔ اگر بیداری ہندوستان کی تاریخ میں میرا نام تک بھی نہ آئے تو مجھے قطعاً اس کا ملال نہیں لیکن آپ کے اس ریمارک سے بہت تعجب ہوا کیونکہ میرا خیال تھا کہ اس بات کا شاید کسی کو احساس نہیں۔
مولوی ابوالکلام صاحب آزاد کے تذکرہ کا دیباچہ لکھنے والے بزرگ نے جن الفاظ میں محمد علی‘ شوکت علی اور میری طرف اشارہ کیا ہے ان سے میرے اس خیال کو اور تقویت ہو گئی ہے لیکن اگر کسی کو بھی اس کا احساس نہ ہو تو مجھے اس کا رنج نہیں کیونکہ اس معاملے میں خدا کے فضل و کرم سے بالکل بے غرض ہوں۔(مکتوب اقبال بنام عشرت رحمانی )
سوشلزم اور روحانیت اقبال کی نظر میں:
سوشلزم کے معترف ہر جگہ روحانیات کے، مذہب کے مخالف ہیں اور اسے افیون تصور کرتے ہیں۔ لفظ افیون اس ضمن میں سب سے پہلے کارل مارکس نے استعمال کیا تھا۔ میںمسلمان ہوں اور انشاء اللہ مسلمان مروں گا۔ میرے نزدیک تاریخ انسان کی مادی تعبیرسراسر غلط ہے۔ روحانیت کا میں قائل ہوں۔ مگر روحانیت کے قرآنی مفہوم کا جس کی تشریح میں نے ان تحریروں میں جابجا کی ہے اور سب سے بڑھ کر اس فارسی مثنوی میں جو آپ کو عنقریب ملے گی۔ جو روحانیت میرے نزدیک مغضب ہے یعنی افیونی خواص رکھتی ہے اس کی تردید میں نے جا بجا کی ہے۔ باقی رہا سوشلزم‘ سو اسلام خود ایک قسم کا سوشلزم ہے جس سے مسلمان سوسائٹی نے آج تک بہت کم فائدہ اُٹھایا ہے۔(مکتوب اقبال بنام خواجہ غلام السیدین)
مسلمان محمدیت کا وارث ہے:
پھر ’’ مسلم‘‘ جو حامل ہے محمدیت کا اور وارث ہے موسویت و ابراہیمیت کا کیونکر کسی ’’شے‘‘ میں جذب ہو سکتا ہے؟ البتہ اس زمان و مکان کی مقید دنیا کے مرکز میں ایک ریگستان ہے جو مسلم کو جذب کر سکتا ہے اور اس کی قوت جاذبہ بھی ذاتی اور فطری نہیں بلکہ مستعار ہے، ایک کف پا سے جس نے اس ریگستان کے چمکتے ہوئے ذروں کو کبھی پامال کیا تھا۔(اقبال بنام مولانا گرامی )
شاہین کی تشبیہ محض شاعرانہ تشبیہ نہیں:
شاہین کی تشبیہ محض شاعرانہ تشبیہہ نہیں۔ اس جانور میں اسلامی فقہ کی تمام خصوصیات پائی جاتی ہیں۔ (1) ۔ خود دار اور غیرت مند ہے کہ اور کے ہاتھ کا مارا ہوا شکار نہیں کھاتا۔ (2) ۔ بے تعلق ہے کہ آشیانہ نہیں بناتا۔ (3)۔ بلند پرواز ۔(4) ۔ خلوت پسند ہے۔(5) ۔ تیز نگاہ ہے۔ (مکتوب اقبال‘ بنام ظفر علی صدیقی )
مسلم لیگ کو عوام کی حالت زار پر توجہ دینی ہو گی:
مسلم لیگ کو آخر کار یہ فیصلہ کرنا ہے کہ کیا مسلم لیگ‘ مسلمانوں کے امیر طبقے کی نماندگی کرے گی یا پھر برصغیر کے غریب مسلمانوں کی آواز بنے گی جبکہ اب تک مسلم لیگ میں نہ ان کی نمائندگی ہے اور عوام نے اس میں کوئی خاص دلچسپی بھی نہیں لی ہے۔ میرا ذاتی خیال ہے کہ کوئی بھی سیاسی تنظیم جو ایک عام آدمی کی حالت بہتر کرنے کاوعدہ نہیں کرتی ہے اسے عوامی امداد اور رعایت حاصل نہیں ہوتی ہے۔(مکتوب اقبال بنام محمد علی جناح )
زندہ زبان کیا ہوتی ہے؟
زندہ زبان انسانی خیالات کے انقلاب کے ساتھ بدلتی رہتی ہے اور جب اس میں انقلاب کی صلاحیت نہیں رہتی تو مردہ ہو جاتی ہے۔ ہاں تراکیب کے وضع کرنے میں مذاق سلیم کو ہاتھ سے نہ دینا چاہئے۔(مکتوب اقبال ‘ بنام سردار عبدالرب خاں نشتر )
سوال یہ ہے کہ مسلمانوں کی غربت کے مسئلے کو کیسے حل کیا جائے؟
سوال یہ ہے کہ مسلمانوں کی غربت کے مسئلے کو کیسے حل کیا جا ئے۔ مسلم لیگ کے پورے مستقبل کا انحصار اسی سوال کے مثبت جواب پر ہے۔ اگر مسلم لیگ کوئی ایسا وعدہ نہیں کرتی تو مجھے یقین ہے کہ برصغیر کے مسلمان پہلے کی طرح مسلم لیگ سے لا تعلق رہیں گے۔ مقام مسرت یہ ہے کہ اسلامی قوانین کے نفاذ کے باعث ‘ اس مسئلے کا حل اور جدید خیالات کی روشنی میں اس کے فروغ کے اسباب متوقع ہیں۔ طویل اور سنجیدہ مطالعے کے بعد ‘ میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ اگر اسلامی قوانین کو صحیح طریقے پر سمجھا اور ان پر عمل بھی کیا جائے تو پھر ہر شخص کی بنیادی ضرورتیں قانونی طور پر پوری ہو جاتی ہیں۔(مکتوب اقبال‘ بنام محمد علی جناح )
مثنوی رومی سے گرمئی شوق پیدا ہو جائے تو اور کیا چاہئے:
آپ اسلام اور اس کے حقائق کے لذت آشنا ہیں۔ مثنوی رومی کے پڑھنے سے اگر قلب میں گرمئی شوق پیدا ہو جائے تو اور کیا چاہئے۔ شوق خود مُرشد ہے۔ میں ایک مدت سے مطالعہ کتب ترک کر چکا ہوں۔ اگر کبھی کچھ پڑھتا ہوں تو صرف قرآن یا مثنوی رومی۔ افسوس ہے ہم اچھے زمانے میں پیدا نہ ہوئے:
کیا غضب ہے کہ اس زمانے میں
ایک بھی صاحب سُرور نہیں
بہر حال قرآن اور مثنوی کا مطالعہ جاری رکھیے۔ مجھ سے بھی کبھی کبھی ملتے رہیے اس واسطے نہیں کہ میں آپ کو کچھ سکھا سکتا ہوں بلکہ اس واسطے کہ ایک ہی قسم کا شوق رکھنے والوں کی صحبت بعض دفعہ ایسے نتائج پیدا کر جاتی ہے جو کسی کے خواب و خیال میں بھی نہیں ہوتے۔ یہ بات زندگی کے پوشیدہ اسرار میں سے ہے جن کو جاننے والے مسلمانان ہند کی بدنصیبی سے اب اس ملک میں پید ا نہیں ہوتے۔(مکتوب اقبال بنام حکیم محمد حسین عرشی )
قرآن سے عشق:
’چراخ سحر ہوں بجھا چاہتا ہوں‘ ۔ تمنا ہے کہ مرنے سے پہلے قرآن کریم سے متعلق اپنے افکار قلم بند کر جاوَں جو تھوڑی سی ہمت و طاقت ابھی مجھ میں باقی ہے اسے اسی خدمت کے لئے وقف کر دینا چاہتا ہوں تاکہ(قیامت کے دن) آپ کے جد امجد (حضور نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) کی زیارت مجھے اس اطمینان خاطر کے ساتھ میسر ہو کہ اس عظیم الشان دین کی جو حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ہم تک پہنچایا کوئی خدمت بجا لا سکا۔(مکتوب اقبال بنام سرراس مسعود)
اقبال کی انکساری:
کیا میں نے آپ کو کچھ سکھایا یا پڑھایا؟ آپ کو آموزش کی احتیاج ہی کب تھی۔ مجھے یاد ہے میں نے افلاطون سے آپ کو روشناس کرایا۔ مگر بات وہیں ختم ہو گئی۔ ہم نے اس کو اتنا کم پڑھا کہ میں آپ کی آموزش کے اعزاز کے اقرار کا واقعی دعویٰ نہیں کر سکتا۔(مکتوب اقبال‘ بنام عطیہ فیضی )
’’پس چہ باید کرداے اقوام شرق‘‘ کیسے لکھی گئی:
3 اپریل کی رات تین بجے کے قریب (میں اُس شب بھوپال میں تھا۔) میں نے سر سید کو خواب میں دیکھا۔ پوچھتے ہیں تم کب سے بیمار ہو۔ میں نے عرض کیا دو سال سے اوپر مدت گزر گئی۔ فرمایا حضور رسالتماب صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کرو میری آنکھ اسی وقت کھل گئی اور اس عرضد اشت کے چند شعر جو اب طویل ہو گئی ہے میری زبان پر جاری ہو گئے۔ انشاء اللہ ایک مثنوی فارسی ۔’’پس چہ باید کرداے اقوام شرق‘‘ نام کے ساتھ یہ عرضداشت شائع ہو گی۔14 اپریل کی صبح سے میری آواز میں کچھ تبدیلی شروع ہوئی۔ اب پہلے کی نسبت آواز صاف تر ہے اور اس میں وہ رنگ عود کر رہا ہے جو انسانی آواز کا خاصہ ہے۔ گو اس ترقی کی رفتار بہت سست ہے۔ جسم میں بھی عام کمزوری ہے ۔ زیادہ کیا عرض کروں۔(مکتوب اقبال‘ بنام پروفیسر الیاس برنی)
The post فکر اقبال خطوط کے آئینے میں appeared first on ایکسپریس اردو.