یہ جولائی 2008ء کی ایک صبح تھی۔۔۔ ایک فون آیا اور آواز سنائی دی ’احفاظ الرحمن بول رہا ہوں۔۔۔!‘
ارے، احفاظ صاحب۔۔۔! ہم نیم جاگے، نیم سوئے اچانک مؤدب ہوگئے۔۔۔ وہ ہمارے لکھے گئے ایک خط کے جواب میں ہم سے مخاطب تھے۔۔۔ اُن دنوں ہم ایک مسئلے کی جانب بہت توجہ مرکوز کیے ہوئے تھے، انہوں نے بہت مشفقانہ انداز میں تفصیل سے ہم سے بات کی اور اپنا جواب ہم تک پہنچایا۔۔۔
پھر اگلے برس ہم ’ایم اے‘ میں آئے تو ایک شام آوارگی کرتے ہوئے آرٹس کونسل میں افتخار عارف کی کلیات ’کتاب دل ودنیا‘ کی تقریب رونمائی میں شریک ہونے پہنچے۔۔۔ ابھی تقریب شروع ہونے میں کچھ وقت تھا، ہمارے استاد نما سینئر ساتھی رانا محمد آصف ہم سے آملے اور ہمیں مہمانوں کے کمرے میں لے گئے جہاں افتخار عارف کے قریب ہی احفاظ صاحب بھی جلوہ افروز تھے، ہم نے ان سے عرض کیا کہ آپ ہمیں پہچانیے، ہم ملے تو پہلی بار ہیں، البتہ غائبانہ طور پر کچھ سلسلہ رہا ہے۔ یہ سن کر انہوں نے فوراً ہمارا نام لے دیا۔۔۔!
انہی دنوں ہمارے ’ایکسپریس‘ میں ’مراسلوں‘ کی اشاعت کے ساتھ مضامین بھی جگہ پانے لگے تھے۔۔۔ ایک دن بالواسطہ خبر ہوئی کہ وہ ہماری تحریریں سراہتے ہیں۔۔۔ پھر یوں ہوا ہم بے روزگاری کے کچھ دن کاٹنے کے بعد ایک مقامی روزنامے سے جُڑ گئے۔۔۔ یہ 2012ء کی بات ہے، ایک سہ پہر احفاظ صاحب کا فون آیا۔۔۔ پوچھا کہ آج کل کہاں ہوتے ہیں، کیا کر رہے ہیں وغیرہ، صبح آکے مل لیجیے۔ یہ ہمارے ’ایکسپریس‘ بلاوے کا موقع تھا۔۔۔ انہوں نے میگزین انچارج محمد عثمان جامعی کے ساتھ ہمارا ’انٹرویو‘ لیا اور پھر چند دن بعد ہم احفاظ الرحمن صاحب کی ٹیم کا حصہ بن گئے۔۔۔
یہ جتنا بڑا اعزاز تھا اتنا ہی دشوار بھی تھا۔۔۔ انہوں نے صحافتی مسابقت کے لیے تیار کرنے کو ہمیں مشقت اور تربیت کی بھٹی میں جھونک دیا۔۔۔ ہمیں یہ کہنے میں کوئی عار نہیں ہے کہ انہوں نے ہمارے کیریر کے اوائل میں ہمیں خوب دوڑایا، بلند تحریری معیار تک پہنچانے کے لیے انہوں نے خوب مشقت کرائی۔۔۔ تحریر میں کوئی بھی بات کس طرح شروع کی جاتی ہے۔۔۔؟ علت ومعلول اور فلسفیانہ فکر کیا ہوتی ہے۔۔۔؟ منطقی استدلال کیوں کر ہوتا ہے۔۔۔؟ مطالعہ کتنا ضروری ہے۔۔۔؟ اخبار کے لیے نئے موضوعات کیا ہونے چاہئیں۔۔۔؟ اور اخبار کے لیے جان دار اور مضبوط متن کس طرح تشکیل دیا جا سکتا ہے۔۔۔؟ وغیرہ
کسی کی مجال نہیں تھی کہ کسی ہلکے موضوع پر کچھ لکھ دے یا کوئی پرانے موضوع پر مکھی پر مکھی مارنے کی کوشش کرے۔۔۔ کسی بھی موضوع پر لکھنے کے لیے وہ بار بار اُس جگہ پر جا کر کام کرنے پر زور دیتے، کہ جاکر دیکھیے اور پھر لکھیے۔ معمول کے کام کے ساتھ ساتھ آئے روز وہ خبرگیری کرتے کہ آپ کیا کر رہے ہیں؟ اور پھر کوئی نیا موضوع تفویض کر دیتے، ترجمے کے لیے کچھ دے دیتے۔۔۔ کوئی بڑا واقعہ ہوتا تو اس کے لیے خصوصی صفحے کا حکم جاری کرتے اور پھر باقاعدہ موضوعات کی تقسیم ہوتی کہ کس موضوع پر کون لکھے گا۔
احفاظ صاحب کی ڈانٹ کا خوف ہمیں مجبور کرتا کہ ہم سرخیوں سے لے کر ایک ایک لفظ پر کئی بار سوچتے، جملے میں کہیں جھول نہ ہو، الفاظ کی تکرار نہ ہو، بات مبہم نہ ہو وغیرہ۔ انہیں صفحے کا ’پروف‘ دکھانا اپنے اندر ایک بہت بڑا امتحان رکھتا تھا۔۔۔ ہم خوب اچھی طرح پڑھ کر ہی ان کی میز پر ’پروف‘ رکھتے، اس کے باوجود بھی کوئی نہ کوئی گنجائش باقی رہ جاتی، جو وہ اپنے قلم سے دور کردیا کرتے، ساتھ سرزنش بھی ہوتی، کبھی کم اور کبھی زیادہ۔
دراصل ہم اپنے ’شعبۂ میگزین‘ میں سب سے جونیئر تھے، اب جیسے بعض گھروں میں چھوٹے ایک کونے میں دبکے چُپکے ہو کر بیٹھے رہتے ہیں، اکثر ہم بھی اپنے دفتر میں ایسے ہی رہتے۔۔۔ پھر دھیرے دھیرے وہ وقت بھی آیا کہ جب انہوں نے ہمارے کام کی تعریف کرنا شروع کردی۔۔۔ آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ جب ایک بلند معیار ’باس‘ جس کی توقعات پر آپ کوشش کے باوجود پورا نہ اتر پا رہے ہوں اور اب وہ آپ کے کام پر ’تھمبز اَپ‘ کرتا ہے یا کبھی کمر تھپتھپا دیتا ہے، تو واقعی کتنی زیادہ مسرت کا احساس ہوتا ہے کہ واقعی آج ہم نے کوئی کارنامہ انجام دے دیا ہے۔
پھر کبھی وہ ہم سے بھی بے تکلف ہو جاتے تو ’آنکھ مار کے کہتے، میاں چھوڑو یہ کام وام تو ہوتا رہے گا، ذرا یہ دیکھو، فلاں نے کیا لکھا ہے۔۔۔!‘ اور پھر بات سے بات کا ایک سلسلہ چلتا چلا جاتا۔۔۔ پرانے قصے، نئی باتیں، تجربات ومشاہدات، تاریخی انکشافات، آج کے المیے اور مستقبل کے اندیشے، سب ہی کچھ موضوع بن جاتا۔۔۔ آپ چاہے ان کی رائے سے اتفاق نہ بھی کریں، لیکن کسی بھی معاملے پر ہمارے لیے یہ بہت ضروری ہوتا تھا کہ دیکھیں احفاظ صاحب کیا کہہ رہے ہیں۔
کہاں وہ وقت تھا، ان کے سامنے کلام کرتے ہوئے ہماری زبان دس بار جملے سیدھے کرتی تھی، اور اب کہاں وہ ہمیں اپنے ساتھ بٹھاتے اور ہنستے بولتے۔ کبھی ہم اُن سے کوئی اجازت لینے جاتے، تو وہ الٹا پوچھ لیتے کہ آپ کا اس معاملے میں کیا خیال ہے؟ جیسے مارچ 2017ء میں ہمارے سنیئر ساتھی اقبال خورشید جب ’دنیا‘ اخبار گئے، تو انٹرویو کا ذمہ ہمارے سپرد ہوا۔۔۔ احفاظ صاحب اخباری مواد کے معاملے میں اتنے سخت تھے کہ انٹرویو کے لیے بھی نئی سے نئی شخصیات ڈھنڈواتے۔۔۔ نئی سے مراد ایسی شخصیت جس کا انٹرویو کہیں نہیں ہوا ہو، اب جب انٹرویو کرنے کی زمام ہمارے ہاتھ میں آئی، تو ہم نے مجوزہ شخصیات کی فہرست ان کے سامنے منظوری کے لیے پیش کردی۔
انہوں نے ایک اصول وضع کیا ہوا تھا کہ اپنے ادارے (ایکسپریس) سے وابستہ شخصیات کا انٹرویو نہیں ہوگا۔۔۔ شاید انہیں لگتا ہوگا کہ قارئین پر یہ تاثر جائے گا کہ ہم اپنے ادارے کی ’واہ واہ‘ کرا رہے ہیں۔ ہم نے یہ معاملہ چھیڑا اور کہا کہ اگر کوئی شخصیت ’قابلِ انٹرویو‘ ہے، تو پھر محض اپنے ادارے سے وابستہ ہونے کی بنا پر اسے چھوڑ دینا کچھ مناسب بات نہیں لگتی، انہیں یہ بات سمجھ میں آئی اور انہوں نے ہمیں اجازت دے دی، پھر ہم نے ممتاز ادیبہ اور کالم نگار زاہدہ حنا کا انٹرویو کیا، جو اخبار کی زینت بنا۔
اسی طرح جب انہوں نے اپنی صحافتی جدوجہد پر مبنی کتاب ’سب سے بڑی جنگ‘ شایع کی، تو ہمیں اپنے پاس بلاکر پوچھا کہ بتائیں اور کس کس اہم شخصیت کو یہ کتاب جانا رہ گئی ہے، ہم بتاتے گئے اور وہ لکھ کر دستخط کرتے گئے۔۔۔ ایک دو نام ایسے بھی آئے، جن کے نظریات یا کردار وغیرہ کی وجہ سے وہ انہیں پسند نہیں کرتے تھے، لیکن انہوں نے ہلکی سی مسکراہٹ کے بعد ان کے نام بھی اپنی کتاب عطا کر دی۔۔۔ پھر جب ہم ان شخصیت کے پاس یہ کتاب لے کر گئے، تو وہ بھی حیران تھے کہ احفاظ صاحب نے کتاب بھیجی ہے!
احفاظ الرحمن سراپا تحریک تھے۔۔۔ جب کبھی وہ کسی طاقت وَر سے ٹکرانے کے لیے اٹھ جاتے، تو ایسا محسوس ہوتا کہ اب انہیں اللہ ہی روکے تو روکے، ورنہ کسی بندے کے بس کی بات نہیں کہ انہیں ٹھیرا سکے! اُن کی زندگی کا سب سے بڑا المیہ یہ تھا کہ جوانی میں انہوں نے جن خوابوں کی خاطر خون تھوکا، آج کے زمانے میں اس کا پھل نہیں مل سکا، بلکہ سویرا یا روشنی تو کیا ہوتی الٹا اس تحریک اور جدوجہد میں بری طرح رخنہ پڑ گیا۔۔۔ وہ بہت سے صحافیوں کے منفی کردار اور صحافتی آزادی، حکومتی جبر، مختلف سماجی مسائل پر سخت برہم رہتے۔۔۔ اور ایسے معاملات پر اظہار خیال کرتے ہوئے اکثر ان کا پارا چڑھ جاتا۔۔۔ انہیں اپنے ضمیر بیچ دینے والے اور اصولوں کا سودا کر دینے والوں نے بہت اذیت دی۔۔۔
2015ء کے اوائل میں گلے کے سرطان کے باعث وہ لکھ کر بات کرنے لگے اور پھر ایک آلے کی مدد سے گفتگو کرنے کے قابل ہوئے۔۔۔ 2018ء کے آخر تک وہ ’ایکسپریس‘ کے ’میگزین مدیر‘ کے منصب پر فائز رہے، پھر علالت کے باعث صحافتی ذمہ داریوں کو خیرباد کہہ دیا۔۔۔ اب ہماری یہ خواہش تھی کہ ’ایکسپریس‘ کے لیے ان سے ایک انٹرویو کرلیا جائے۔۔۔ اخبارات اور مختلف صحافتی امور سے لے کر ان کی زندگی سے متعلق کتنے سوالات ہمارے ذہن میں تھے۔۔۔ لیکن مصروفیات اور زندگی کے مسائل میں یوں ہی دن گزرتے چلے گئے اور پھر ’کورونا‘ کی وبا نے سارے معمولات کو ہی تلپٹ کر دیا۔۔۔ اور 11 اور 12 اپریل 2020ء کو ہماری یہ خواہش ایک دائمی حسرت میں تبدیل ہوگئی اور انہوں نے اس دنیا کو اس کے حال پر چھوڑ دیا۔۔۔
The post ’احفاظ الرحمن بول رہا ہوں۔۔۔!‘ appeared first on ایکسپریس اردو.