ایک احساسِ
جرم۔۔۔!
خانہ پُری
ر۔ ط۔ م
ہمارے گھر سے دفتر اور دفتر سے گھر روانگی کے وقت ہر لمحہ یہی دھیان رہتا ہے کہ ہم کہیں کچھ بھول نہ جائیں۔۔۔ صبح دفتر جاتے ہوئے سارے دن کے کاموں کے حوالے سے سوچ بچار بھی ایک لازمی امر ہے۔۔۔۔ سو اُس روز یہ سلسلہ بھی رہا۔۔۔
جاتے ہوئے فروری کی یہ صبح بھی ایک معمول کی سحر تھی، ابھی ’کورونا‘ کی وبا ہمارے نگر سے کچھ دنوں کے فاصلے پر تھی۔۔۔ اس لیے زندگی رواں تھی، ہم بھی حسب معمول گھر سے دفتر کے لیے نکلے۔۔۔ راستے میں اسکول جاتے ہوئے بچے۔۔۔ اپنا سامان جھاڑتے ہوئے دکان دار۔۔۔ مختلف موسمی پھلوں کی ریڑھیاں سجاتے محنت کش۔۔۔ صفائی کرنے والے خاکروب۔۔۔ گھروں میں کام کرنے آنے والی ماسیاں۔۔۔ پینے کا پانی لے جانے والے بچے، بزرگ اور خواتین۔۔۔ ایک ’چائے خانے‘ کے باہر بھاپ اڑاتا ہوا پراٹھوں کا بڑا سارا توا۔۔۔ یہ سب معمول کے مناظر تھے۔۔۔ ان ہی میں سے گزرتے گزرتے چند منٹوں میں مرکزی سڑک کا وہ کنارا آجاتا ہے۔۔۔ جہاں سے ہم ’بس‘ میں سوار ہوتے ہیں۔۔۔ لیکن آج اسٹاپ پر پہنچتے ہی ہم کیا منظر دیکھتے ہیں کہ سڑک کی دیوار کے ساتھ ایک شخص گرا ہوا ہے۔۔۔
آپ یوں اگر کسی کو سر راہ دیکھیں، تو ضرور چونکیں گے، ہم بھی ٹھٹکے۔۔۔ وہ کوئی ادھیڑ عمر کا شخص تھا۔۔۔ جس کے لباس اور حلیے سے اُجلا پن بہت دور جا چکا تھا۔۔۔ لیکن اس کے زمین پر پڑنے کا غیر ارادی انداز واضح طور پر یہ بتا رہا تھا کہ وہ یقینی طور پر لیٹا نہیں، بلکہ کسی وجہ سے گرا ہے۔۔۔ مجھے سخت حیرت ہوئی کہ اسٹاپ پر سات سے اٹھ مسافر پہلے سے موجود تھے، لیکن اس شخص کی موجودگی سے گویا بالکل ہی بے خبر۔۔۔! اب یہ منظر ہمیں اور بھی عجیب لگا۔۔۔ ہمیں اس زمین پر گرے ہوئے انسان سے زیادہ وہاں موجود لوگوں کا احساس اور شعور پست لگا۔ کہاں تو ہم یہ کہتے ہیں کہ ہمارے شہر میں یہ رواج ہے کہ کوئی بھی مشکل میں ہو، مدد کے لیے دوڑے اتے ہیں، لیکن یہاں آج ایک خاموش پڑا ہوا اللہ کا بندہ کچھ اور ہی داستان کہہ رہا تھا۔۔۔
میں بہ یک وقت دو صدموں میں تھا، ایک اس بندے کے ساتھ کسی اَن ہونی پر اور دوسرا لوگوں کی حد درجہ بے پروائی پر۔۔۔ ’میں کیا کروں؟‘ ابھی یہ سوچ ہی رہا تھا کہ میری بس آن پہنچی۔۔۔ اور کنڈیکٹر کی روایتی جلد بازی نے میری سوچ کو جھٹکا دیا اور میں کوئی فیصلہ نہ کر سکا اور بس میں چڑھ گیا۔۔۔!
’میں نے بھی اپنا نام وہاں بے حس بنے کھڑے رہنے والے افراد میں لکھوا لیا۔۔۔!‘
بس کے پائیدان پر ہی ہمارے اندر سے کسی نے گویا ہمیں ایک ’چَپت‘ لگائی۔ باطن میں ہر لمحہ جاری رہنے والی ضمیر کی عدالت میں اچانک ایک شور برپا ہوگیا۔۔۔
ہم پر عائد فرد جرم پڑھ کر سنائی جانے لگی۔۔۔ اوروں کی طرح ہمیں بھی قول وفعل میں تضاد رکھنے والا بتایا جانے لگا۔۔۔ ہمارے وجود میں ’احساس‘ کی کمی کا اعلان ہونے لگا۔۔۔ ہمارے پاس اپنے دفاع کے لیے کچھ نہ تھا، سو سر جھکائے اس ’کٹہرے‘ میں مجرم بنے سب سنتے رہے۔۔۔
ہمارے اسٹاپ کے ’سامنے ہی تو ایک فلاحی ادارے کی ایمبولینسیں کھڑی ہوئی ہوتی ہیں، دوسروں کو تو چھوڑو، تم بھی تو جا سکتے تھے، کیا تھا دفتر کے دس منٹ ہی دیر ہوتی، کیا یہ 10 منٹ کسی کی مدد کرنے سے بڑھ کر ہیں، کیا پتا یہ لمحے اس کی زندگی بچانے کے لیے ہوں۔۔۔ تم نے ہمیشہ کی طرح دیر کر دی، تم نے ایک موقع اور گنوا دیا۔۔۔۔ تم بے حس سماج کا نوحہ کہتے ہو، لیکن تمہیں نہیں لگتا کہ تم خود بھی تو ’بے حس‘ ہو۔۔۔!‘
ہم نے ضمیر کی عدالت کے سارے الزامات قبول کر لیے۔۔۔ ’اب کیا ہو سکتا ہے؟‘ بس یہ سوچتے سوچتے دفتر پہنچ گئے اور پہنچتے کے ساتھ ہی پہلا فون فلاحی ادارے کی ایمبولینس کو کیا اور بتایا کہ ہم نے ایک شخص کو دیکھا ہے، آپ اسے فوری طور پر طبی امداد کے لیے کسی اسپتال لے جائیے۔۔۔
فون کر دیا، لیکن صبح کی غفلت دل پر باقی سارا دن کچوکے لگاتی رہی، خدا جانے اُس پر کیا بیتی؟ فلاحی ادارے کی ایمبولینس شاید اسے لے بھی گئی ہو، لیکن وہ سارا دن ہماری نگاہوں کے سامنے پڑا رہا۔۔۔ اور ہم اس منظر سے نگاہیں چرانے کی ناکام کوشش میں مصروف رہے۔
۔۔۔
صد لفظی کتھا
وبا
رضوان طاہر مبین
شہر میں ایک موذی وبا کے سبب گھروں سے نکلنے پر پابندی لگ گئی۔
سب چار دیواری تک محدود ہوئے، تو دھیرے دھیرے وبا قابو میں آنے لگی۔
مگر ایک دن ’چھامو بھائی‘ میں یہ مرض سامنے آگیا۔۔۔!
یہ عارضہ تو ایک دوسرے کو چھونے سے لگتا ہے، اِن کے گھر میں کسی کو یہ بیماری نہیں۔
تحقیقات کی گئیں۔۔۔
پتا چلا یہ مرض پڑوس کے محلے سے منتقل ہوا۔
لیکن وہ تو گھر سے باہر ہی نہیں نکلے۔۔۔
دراصل ’چھامو بھائی‘ کبوتر بازی کے شوقین ہیں۔۔۔
اور بیماری پڑوسی محلے کے ایک ’کبوتر باز‘ سے اُن میں آئی۔
۔۔۔
مولانا آزاد نے کہا ’پاکستان کا استحکام ضروری ہے!‘
مولوی محمد سعید
پنجاب یونیورسٹی نے ان دنوں جرمن اور فرانسیسی پڑھانے کے لیے شام کی کلاسیں شروع کی ہوئی تھیں۔ میں نے اور میرے رفیق کار محمد اجمل نے جرمن کلاس میں داخلہ لے لیا۔ ڈاکٹر بی اے قریشی جو اسلامیہ کالج لاہور کے پرنسپل رہ چکے تھے، ہمارے استاد تھے۔ ڈاکٹر صاحب جو غازی آباد کے رہنے والے تھے خاصا عرصہ برلن میں گزار چکے تھے۔ ایک مرتبہ کئی روز بعد کلاس میں آئے۔ واپسی پر ہم نے سبب پوچھا۔ تو کہنے لگے ’’دلّی چلا گیا تھا۔‘‘ دلّی ان دنوں آنا جانا روز کا معمول تھا۔ لوگ احتیاطاً صرف اتنا دیکھ لیتے کہ امن و امان کی صورت کیا ہے؟ کیوں کہ وہاں سے اچھی خبریں نہیں آ رہی تھیں۔ اس لیے ہم نے پوچھا ’’دلّی میں قیام کہاں رہا۔۔۔؟‘‘ کہنے لگے ’’مولانا آزاد کے ہاں۔۔۔‘‘ یہ سن کر اشتیاق بڑھا، تو میں نے پوچھا: ’’مولانا کا خیال پاکستان کے بارے میں کیا ہے؟‘‘ کہنے لگے:
’’میرے روبرو ایک صاحب لاہور سے وارد ہوئے تھے۔ مولانا نے ان سے پوچھا ’کہیے لاہور ان دنوں کیسا ہے۔۔۔؟‘ تو وہ صاحب کہنے لگے، بڑی ناگفتہ بہ حالت ہے، ہمیں تو پاکستان چلتا دکھائی نہیں دیتا۔۔۔‘ ان کے اتنا کہنے پر مولانا کا مزاج برہم ہو گیا اور وہ جوش میں آکے کہنے لگے ’جائیے واپس، لاہور اور پاکستان کو چلائیے۔ اب اگر پاکستان مٹ گیا، تو ایشیا سے مسلمان کا نام مٹ جائے گا۔‘‘
یہ گفتگو ہمارے لیے تعجب کا باعث تھی، اس لیے کہ ہم مولانا کو اور ہی رنگ میں دیکھنے کے عادی تھے۔ کئی برس گزرے ایک محفل میں، میں نے اس واقعہ کو دُہرایا۔ وہاں اتفاق سے ہمارے دفتر کے فورمین محمد عثمان بھی بیٹھے ہوئے تھے۔ عثمان ہمارے ساتھ ’ڈان‘ (دلّی) میں کام کر چکے تھے۔ ان کی ہمدردیاں جمعیت علمائے ہند کے ساتھ تھیں۔ اس لیے وہ پاکستان بن جانے کے بعد بھی کچھ عرصہ دلّی میں ٹھیرے رہے۔ پہلی عید الفطر کے روز وہ آصف علی کے مکان پر قوم پرست، مسلمان راہ نماؤں سے عید ملنے گئے۔ مولانا بھی وہاں موجود تھے۔ پاکستان کا ذکر آیا تو کہنے لگے کہ ’’مسلمانانِ عالم کی فلاح اسی میں ہے کہ پاکستان مستحکم ہو اور پھلے پھولے۔‘‘
(خود نوشت ’آہنگ بازگشت‘ سے لیا گیا)
۔۔۔
روشنی کی آخری لو بھی پہاڑوں کے پار اتر چکی تھی
مریم مجید ڈار، آزاد کشمیر
پہاڑوں پر شام بہت انوکھے ڈھنگ میں اترتی ہے۔ چوٹیوں پر سنہری دھوپ چمک رہی ہوتی ہے اور دامن میں گہری سبز چھایا اپنے آنچل پھیلا کر نیم روشنی اور کہیں کہیں سے ظاہر ہونے والی تاریکی کا ایک ایسا امتزاج بناتی ہے، جو دل کو بہ یک وقت امید و یاس کی کیفیت میں مبتلا کر دے۔
چوٹی پر اس روشنی کا گمان ہے، جو آٹھ منٹ قبل غروب ہو چکی اور دامن میں جو سبز اندھیرا ہے وہی حقیقت ہے، مگر دل ہر بار اس حقیقت سے نگاہیں چرا کر روشنی کے فریب میں بھٹکنا چاہتا ہے۔ کسی ایسے کا انتظار کرنا جس کے متعلق ہمیں معلوم ہے کہ وہ کبھی نہیں آئے گا مگر پھر بھی ہر آہٹ پر اسی کا گمان کرنا جانے کیسی خوداذیتی ہے؟ یا پھر حال و حقیقت سے ایک سوچا سمجھا فرار ہے؟
آج شام کچھ ایسے آئی کہ میں پہاڑ کے دامن سے پھوٹتے جھرنے کے یخ پانیوں میں پاوں ڈبوئے رویوں کی اس جلن سے نجات پانے کی کوشش کر رہی تھی، جو میری روح کو ہر لمحہ سوزش زدہ رکھتی ہے۔
پانی میں چھوٹے بڑے بہت سے رنگین پتھر تھے، جو ڈوبتے سورج کی آخری کرنوں سے مزید دل کش اور نمایاں ہو رہے تھے۔ دور بستی کے گھروندوں میں بجلی کے بلب ٹمٹمانے لگے تھے اور کہیں کہیں باورچی خانوں کی چمنیوں سے اٹھتا گہرا سرمئی دھواں زندگی اور اس کے اہتمام کو ظاہر کر رہا تھا۔
ایک مقامی لڑکا جس کے دونوں پیروں میں مختلف رنگوں کے ربڑ کے بوٹ تھے، دو بکریاں اور تین میمنے ہنکاتا ہوا میرے قریب سے گزرا، تو بکری کے گلے میں بندھی گھنٹی کی نغمگی اطراف میں بکھر گئی۔ ننھے میمنے ابھی گھر نہیں جانا چاہتے تھے، لہٰذا وہ لڑکے کی ’’ہش ہش ہررررر‘‘ کی آوازوں کو نظر انداز کر کے من چاہے راستوں پر چوکڑیاں بھرنے لگتے، مگر ان کا رکھوالا انہیں کان سے گھسیٹ کر اس راہ پر لے آتا جو گھر کو جاتی تھی۔۔۔
ہم بھی تو من چاہے راستوں کی کھوج میں ہر نگہبان کو پیچھے چھوڑ کر آزاد جانور کی مانند بھاگنا اور اچھلنا چاہتے پیں، مگر ذمہ داریاں، سماج، رشتے، توقعات ہمیں کان سے کھینچ کر اس راہ پر لے آتے ہیں، جو گھر کو جاتی ہے۔ وہ راہ جو معاشرے تہذیب اور تمدن کی راہ ہے، جہاں ہم آرزوں کے کھونٹے سے بندھے فرائض کا بوجھ ڈھوتے رہتے ہیں۔
میرے سامنے کے پھیلاو میں بستی تھی، آبادی تھی، گھر تھے اور انسان تھے، جہاں روشن کمروں اور آباد باورچی خانوں میں رشتوں کی شیرینی اور تلخی سے بھرے لوگ سیدھی راہ پر چلنے کی طمانیت لیے موجود تھے اور جہاں میں تھی وہاں تنہائی کا سرمئی غبار تھا۔ دل میں جھانکا تو کائنات سے بھی عظیم و عمیق یکتائی تھی اور اس میں راہ بھٹکے میمنے کی مانند میرا تنہا وجود جو گردن میں کسی طوق کے انکار کی جرأت کے سبب معاشرے کے مروجہ اصولوں کے مطابق ناقابل قبول ہے۔
ایک ایسے میمنے کا انجام بھلا کس سے پوشیدہ ہے جو گلہ بان کے تحفظ سے فرار ہو کر سرشام ایک ایسی راہ چل نکلے جو بھیڑیوں کے بھٹ کو جاتی ہو۔ ظاہر ہے اسکا انجام ایک ایسی دردناک موت ہے جو بھیڑیوں کے پنجوں دانتوں اور جبڑوں میں گھات لگائے اس کی منتظر ہے مگر!
وہ بکری جسے چرواہا اپنی نگرانی میں اپنی منتخب کردہ راہ چلنے کی اجازت دیتا ہے، اس کا انجام بھی تو ایک ایسی موت ہے، جو گلہ بان کی چھری، اس کی ہنڈیا اور اس کے دانتوں اور جبڑوں میں پوشیدہ ہے۔ تو پھر اپنی مرضی کی موت چننے میں بھلا کیا حرج ہے؟
روشنی کی آخری لو بھی پہاڑوں کے پار اتر چکی تھی۔ میں نے جھرنے سے نکالے ہوئے دو سرخ اور سرمئی دھاری دار پتھر اٹھائے اور مٹھی میں دبائے ایک تنہا پگ ڈنڈی پر چلنے لگی۔
The post سارے رنگ appeared first on ایکسپریس اردو.