ایک زور دار دھماکے کے ساتھ ہزاروں پتھرفضا میں اچھلے اور مٹی نے فِضا کو دھندلا دیا۔ اسی کے ساتھ ہی بحیرۂ روم اور بحیرۂ قلزم (بحیرۂ احمر) کے پانیوں کا مِلاپ ہوا۔ یہ بات ہے نومبر 1869 کی جب مصر میں دنیا کی سب سے بڑی آبی گزرگاہ ‘نہر سویز’ کی تعمیر مکمل ہوئی۔
کہتے ہیں کہ اٹھارویں صدی کے وسط میں نپولین نے بھی ایک ایسے راستے کی تجویز دی تھی جو بحیرۂ روم اور قلزم کو مِلا سکے۔ اور اس سے پہلے بھی ایسے کئی منصوبوں کی نشان دہی کی گئی تھی۔ لیکن ان پر عمل انیسویں صدی کے وسط میں جا کر ہوا جب فرانس کے ایک انجنیئر موسو فرڈینینڈ ڈیسپ نے مصر کے محمد سعید پاشا (جو آپس میں گہرے دوست تھے) سے نہر کے لیے ایک کمپنی بنانے کی تجویز منظور کروا لی، جس میں نصف حِصص پاشا اور باقی ڈیسپ کے تھے۔
اپریل 1859 میں نہر کی تعمیر کا کام شروع کیا گیا۔ نہر کی تعمیر سے پہلے، بحیرۂ روم کی بندرگاہ ”بندر سعید” پہ سامان اُتارا جاتا تھا اور سڑک کے ذریعے بحیرۂ قلزم پر ”سویز” نامی شہر تک بذریعہ سڑک لایا جاتا۔ اس نہر کی کھدائی دس برس میں مکمل ہوئی اور اس پر تقریباً تین کروڑ پاؤنڈ خرچ ہوئی۔ نومبر 1869 میں اسکا افتتاح ہوا۔ نہر کی لمبائی تقریباً 201 میل، چوڑائی تقریبا 200 فٹ اور گہرائی 42 فٹ کے لگ بھگ ہے۔ کسی قسم کا کوئی ”لاک سسٹم” نہ ہونے کی بدولت ، بحیرۂ روم اور قلزم کا پانی بغیر کسی روک ٹوک کہ آپس میں ملا ہوا ہے۔
نہرسویز میں ایک وقت میں ایک ہی بڑا جہاز گزر سکتا ہے۔ اس نہر کی بدولت بحری جہاز برِاعظم افریقا کے گرد چکر لگائے بغیر یورپ اور ایشیا کے درمیان براہِ راست آمدورفت کرسکتے ہیں۔ اس نہر کے کُھلنے سے، برطانیہ سے ہندوستان کا بحری فاصلہ 4000 میل تک کم ہوگیا ہے۔
برطانیہ نے اپنے مشرقی مقبوضات کو ہاتھ میں رکھنے کے لیے اس بحری گزرگاہ میں بے حد دل چسپی لینی شروع کر دی اور آخرکار وزیر اعظم ڈسرائیلی نے 1875ء میں خدیو مصر کے بہت سے حصص برطانیہ کے لیے خرید لیے۔ اس طرح برطانیہ کو بھی نہر پر اقتدار حاصل ہو گیا اور خدیو مصر کا تعلق اس نہر سے بہت کم رہ گیا۔ 1888ء کے بین الاقوامی معاہدے کی رو سے اس نہر کو بین الاقوامی حیثیت دے دی گئی جس کا مطلب یہ تھا کہ صلح اور جنگ دونوں صورتوں میں ہر ملک اور قوم کے جہاز اس نہر میں سے بلامزاحمت گزر سکتے ہیں۔ مزید یہ کہ اس بین الاقوامی معاہدے کی رو سے نہر کی حفاظت کے لیے برطانیہ کو مصر میں اپنی افواج رکھنے کا بہانہ ہاتھ آ گیا اور اسی کے ساتھ ہی مصر کی نئی غلامی کا دور شروع ہو گیا۔
سنہ 1956 میں صدر جمال عبدالناصر نے ”اسوان ڈیم” کی تعمیر سے ہاتھ کھینچ لینے پر، ایک جرأت مندانہ قدم اٹھاتے ہوئے برطانیہ اور فرانس سے لے کر اسے قومیا لیا اور ”نہر سویز اتھارٹی” کے حوالے کردیا تاکہ اس نہر کی آمدنی سے ڈیم کا کام مکمل کیا جا سکے۔ مصر کے اس اقدام کے جواب میں ان دونوں ملکوں نے اسرائیل کے ساتھ مل کر مصر پر حملہ کر دیا، جس کے جواب میں مصری حکومت نے نہر میں کئی جہاز ڈبو کر اسے بند کر دیا۔
اس جنگ کو روکنے کے لیے کینیڈا کے اسٹیٹ سیکریٹری برائے خارجہ امور، مسٹر لیسٹر بی پیرسن نے یہ تجویز دی کہ اسرائیلی افواج ”صحرائے سینائی” کے علاقے کو خالی کر دیں اور نہر میں تمام اقوام کے بحری جہازوں کی آمدورفت کو یقینی بنانے کے لیے اقوامِ متحدہ کی امن افواج کے دستے تب تک تعینات کیے جائیں جب تک کہ دونوں ممالک جنگ بندی پر راضی نہیں ہوجاتے۔ ان کی اس تجویز کو نہ صرف بھاری ووٹوں سے منظور کیا گیا بلکہ اس پر انہیں امن کے نوبیل انعام سے بھی نوازا گیا۔ جنگ سے ہونے والے نقصان اور نہر کی صفائی کے لیے اسے اپریل 1957 تک بند رکھا گیا۔
مئی 1967 میں صدر جبال عبدالناصر نے اقوامِ متحدہ کے دستوں کو نہر سویز اور صحرائے سینائی خالی کرنے کا حکم جاری کر دیا اور ”آبنائے تیران”(یہ جزیرہ نما سینائی اور جزیرہ نما عرب کے درمیان تنگ سمندری گزرگاہیں ہیں جو خلیج عقبہ کو بحیرہ احمر سے جدا کرتی ہیں، اسرائیل کے لیے تیل لانے والے جہاز یہیں سے گزرتے ہیں) کو اسرائیلی جہازوں کے لیے بند کر دیا جس پر احتجاج کرتے ہوئے اسرائیل نے مِصر پہ حملہ کر دیا اور جزیرہ نما سینائی کے ساتھ ساتھ نہر کے مشرقی کِنارے پر بھی قبضہ کر لیا۔ 1967 کی چھے روزہ عرب اِسرائیل جنگ کے بعد مصر نے 1975 کے وسط تک نہر سویز کو بند کر دیا جس کے نتیجے میں 41کارگو بحری جہاز آٹھ سال تک نہر میں پھنسے رہے۔
1973 کی ”یوم کپور جنگ” میں بھی نہرِ سویز مصر اور اسرائیل کے درمیان ایک سرگرم محاذ بنی رہی۔ آخر کار اقوامِ متحدہ کی کوششوں سے انور سادات کے دور میں نہر کو دوبارہ کھول دیا گیا۔
2014 میں مصر کے صدر عبدالفتح السیسی نے نہر کو چوڑا کرنے کے منصوبے کا سنگِ بنیاد رکھا۔ 6اگست 2015 کو توسیعی منصوبے کی افتتاحی تقریب نہر سویز کے کنارے واقع شہر اسماعیلیہ میں منعقد کی گئی۔ اس تقریب میں فرانسیسی صدر فرانسو اولاند، اردن کے شاہ عبداللہ دوم، بحرین کے بادشاہ حمد بن عیسیٰ آل خلیفہ، فلسطینی صدر محمود عباس، امیرکویت شیخ صباح الاحمد الصباح اور یونانی وزیراعظم الیکسیس سیپراس سمیت متعدد غیرملکی شخصیات شریک تھیں۔ اس توسیعی منصوبے کے تحت ایک سو ترانوے کلومیٹر طویل نہر سویز کے بہتّر کلومیٹر حصے کو گہرا کیا گیا ہے اور اس کے وسط میں ایک متوازی آبی گذرگاہ بنا دی گئی ہے۔ اس سے دورویہ آبی ٹریفک کو رواں دواں رکھنے میں مدد ملے گی۔ نہر سویز کی گہرائی چوبیس میٹر (اناسی فٹ ) ہوجانے کے بعد اب چھیاسٹھ فٹ گہرائی والے بحری جہاز بیک وقت دو آبی راستوں میں سفر کرسکیں گے۔
دیکھا جائے تو مصر میں شاید چند ہی چیزوں کی قومی افتخار اور معاشی استحکام کے طور پر علامتی حیثیت نہرِ سویز سے زیادہ ہو۔ اور اس کی اہمیت ہونی بھی چاہیے کہ اس آبی گزرگاہ کے ذریعے دنیا کا سات فی صد سامانِ تجارت گزرتا ہے اور یہ مصر کے لیے نہ صرف زرمبادلہ کمانے بلکہ سیاحت کا بھی بڑا ذریعہ ہے۔
The post نہرِسوئزایک انوکھا شاہ کار appeared first on ایکسپریس اردو.