حضرت موسٰی ؑ اپنے اہل و عیال کے ہمراہ مدین سے اپنے آبائی علاقے مصر کی جانب رواں دواں تھے کہ راستے میں وادی ٔ سینا پڑی سخت سردی کا موسم تھا تو آپؑ نے رک کر اپنی اہلیہ صفورہ (Safurah) سے فرمایا تم لوگ یہاں رکو میں سردی سے بچاؤ کا کوئی بندوبست کرتا ہوں قریب ہی پہاڑ کے دامن سے ایک درخت میں سے آگ چھن کر دکھا ئی دے رہی تھی جسے قرآن حکیم نے بیان کیا ہے، (ترجمہ) ’’جب موسٰی نے مدت پوری کرلی اور اپنے گھر والوں کو لے کر چلے تو کوہ طور کی طرف آگ دیکھی اپنی بیوی سے کہنے لگے ٹھہرو میں نے آگ دیکھی ہے۔ بہت ممکن ہے کہ میں وہاں سے کوئی خبر لاؤں یا آگ کا کوئی انگارہ لاؤں تاکہ تم سینک لو‘‘۔ (سورہ القصص آیت29)۔
مشاہدے میں یہ ایک بات آئی ہے کہ کراچی میں واقع گلشن اقبال میں ہندو سپیروں کی ایک بستی ہے جس کا نام صفورہ گوٹھ پڑ گیا ہے جو ان کی مادری زبان اردو نہ ہونے کے سبب ’’سپیرا‘‘ یا سپورا سے بگڑ کر صفورہ ہوگیا۔ ارباب حل و عقد اس جانب اپنی توجہ ضرور مرکوز فرمائیں اور علاقے میں جا بجا اس کے صحیح نام کی تختیاں لگواکر اس مقدس نام کو مزید بے حرمتی سے بچا کر امت مسلمہ ہونے کا ثبوت پیش کریں۔
قرآن حکیم میں ایک مستقل سورہ کا نام ’’والطور‘‘ ہے جس کی پہلی آیت میں اللہ نے اس کی قسم کھائی ہے ترجمہ ’’قسم ہے طور کی۔‘‘ اس پہاڑ کو ضرور کوئی شرف حاصل رہا ہوگا تب ہی تو خالق کائنات نے اس کی قسم کھائی ہے جب ہم آیات قرآنی پر غور کرتے ہیں اور دیگر مذہبی کتب کا مطالعہ کرتے ہیں تو یہی ایک واحد حقیقت نظر آتی ہے کہ یہی وہ مقام ہے جہاں حضرت موسٰی ؑ کو پیغمبری سے نوازا گیا خود قرآن حکیم اسکی گواہی دے رہا ہے ترجمہ ’’اور ہم نے اسے طور کی دائیں جانب سے ندا کی اور راز گوئی کرتے ہوئے اسے قریب کرلیا۔‘‘ (سورہ مریم آیت52) آیت کے سیاق و سباق سے یہ بھی ظاہر ہو رہا ہے کہ اسی مقام پر اللہ نے موسٰی ؑ سے کلام کیا جس کی بناء پر موسٰی کا لقب کلیم اللہ پڑگیا۔
طور خالصتاً عربی لفظ ہے جس کے معنی سرسبز پہاڑ کے ہیں اس پہاڑ پر سبزے کی موجودگی کا پتا حضرت موسٰی ؑکے قدم رکھنے سے پہلے ہی ملتا ہے کہ آپؑ نے دیکھا کہ درخت میں آگ چھن چھن کر نکل رہی ہے جس کا انگارہ تاپنے کے لیے آپ لینے گئے تھے اور اسی دوران آپؑ پیغمبری کے منصب پر فائز ہوگئے۔ توریت میں بھی اسی قسم کی ایک روایت موجود ہے۔ ’’وہ بھیڑ بکریوں کو ہنکاتا ہوا ان کو بیابان کی پرلی طرف سے خدا کے پہاڑ حورب کے نزدیک لے آیا اور خداوند کافرشتہ ایک جھاڑی میں سے آگ کے شعلے میں اس پر ظاہر ہوا۔ اس نے نگاہ کی اور کیا دیکھتا ہے کہ ایک جھاڑی میں آگ لگی ہوئی ہے۔ پر وہ جھاڑی بھسم نہیں ہوتی۔ جب خداوند نے دیکھا کہ وہ دیکھنے کو کترا کر آرہا ہے تو خدا نے اسے جھاڑ میں سے پکارا، اے موسٰی! اے موسٰی! اس نے کہا میں حاضر ہوں ‘‘۔ (خروج باب 3آیات1تا5)
اس کے سرسبز ہونے کی ایک اور دلیل قرآن حکیم سے ترجمہ ’’اوروہ درخت بھی (ہم نے پیدا کیا ) جو طور سینا میں پیدا ہوتا ہے یعنی (زیتون کا درخت) کہ کھانے کے لیے روغن اور سالن لیے ہوئے اگتا ہے۔‘‘ (سورہ المومنون آیت 20)
یہ مقدس پہاڑ وادیٔ ایمن میں ہے جو آج کی جغرافیائی تقسیم کے اعتبار سے ملک شام میں ہے۔ اسے طور سینا اور طور سینین بھی کہا جاتا ہے۔ یہیں حضرت موسٰی ؑ کو تجلی ہوئی۔ اس کے مقابل ایک اور لفظ عربی میں جبل استعمال ہوتا ہے جس کی جمع جبال ہے جو قرآن حکیم میں بیشتر مقامات پر آیا ہے، جب کہ ’’طور ‘‘ دس مقامات پر آیا ہے۔ جبل عربی میں خشک پہاڑ کو کہتے ہیں۔ پس دونوں الفاظ یعنی جبل اور طور میں یہی نمایاں فرق ہے برصغیر اور جنوبی ایشیا کے متعدد علماء اور مفسرین نے اپنی تحاریرو تقاریر میں اس کے مقابل ایک اور لفظ ’’کوہ ‘‘ استعمال کیا ہے جو ہندی اور اردو دونوں میں مستعمل ہے۔
قرآن حکیم نے اس مقدس پہاڑ کو طور سینین کہہ کر پکارا اور ایک مرتبہ پھر اس کی قسم بھی کھائی ’’قسم ہے انجیر کی، زیتون کی اور طور سینین کی اور اس امن والے شہر کی۔ ‘‘ (سورہ والتین آیات1تا3) ان آیات کی تفسیر کرتے ہوئے بعض مفسرین لکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان آیۂ مبارکہ میں تین مقامات کی قسم کھائی ہے جن میں ہر ایک جگہ ایک جلیل القدر اور صاحب شریعت پیغمبر مبعوث کیا۔
انجیر اور زیتون سے مراد وہ علاقہ ہے جہاں اس کی پیداوار ہے اور وہ جگہ ہے بیت المقدس جہاں حضرت عیسٰی ؑ پیغمبر بن کر مبعوث ہوئے۔ طور سینین کے مقام پر حضرت موسٰی ؑ کو نبوت کے ساتھ توریت عطا فرماکر صاحب شریعت پیغمبر بنایا اور مکہ مکرمہ میں ہمارے پیارے اور کائنات کے لیے آخری نبی کے بہ طور حضرت محمد ؐ کو بھیجا گیا اور جس طرح حضرت عیسٰی ؑ کو انجیل عطا کی گئی آپ ؐ کو قرآن حکیم عطا کیا گیا جو رہتی دنیا تک کے لیے آخری شریعت ہے۔
قرآن حکیم کا بیان ہے ترجمہ ’’اور جب ہم نے تم سے عہد لیا اور کو ہ طور کو تم پر اٹھا کھڑا کیا اور (حکم دیا) کہ جو کتاب ہم نے تم کود ی ہے کہ اس کو مضبوطی سے پکڑے رہو اور جو اس میں (لکھا ) ہے اسے یاد رکھو تاکہ عذاب سے محفوظ رہو۔ ‘‘ (سورہ البقرہ63) یہ آیت قرآنی حضرت موسٰی ؑ کو نبوت اور شریعت ملنے کی بھرپور تائید کر رہی ہے اور شریعت محمدیؐ ہونے کی بنا پر دنیا بھر کے مسلمان تمام انبیاء اور آسمانی کتابوں پر غیرمتزلزل ایمان رکھتے ہیں۔ اگرچہ آج کے دور میں وہ صحائف ناپید ہیں جب کہ شرائع تحریف شدہ ہیں۔ توریت میں جبل طور کو جہاں حضرت موسٰی ؑ کو تجلی ہوئی تھی حورب کہا گیا ہے۔ (گنتی باب 3آیت1) عیسائیوں میں اس کی وجہ تقدس یہ ہے کہ حضرت عیسٰی ؑ اپنے حواریوں پر اسی مقام پر ظہور فرما ہوئے تھے۔ یہودیوں کی روایت کے مطابق الطور (نابلس) پر تین ہزار فٹ بلندی پر سامریوں کی ایک مقدس پہاڑی ہے جہاں حضرت ابراہیم ؑ تشریف لے گئے تھے۔
ابن فارسی کے مطابق اس مادے کے بنیادی معنی کسی چیز کے لمبا ہونے یا بڑھنے کے ہیں خواہ وہ لمبائی مکان سے تعلق رکھتی ہو یا زمان سے اور پہاڑ کو طور اس کے طول، عرض اور بلندی میں پھیلنے اور بڑھنے کی وجہ سے کہتے ہیں۔ مفسر علامہ مجاہد صحیح بخاری سے روایت کرتے ہیں کہ طور سریانی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی پہاڑ ہیں۔ علامہ سیوطیؒ فرماتے ہیں کہ نبطی زبان کا لفظ ہے اور نہ صرف نبطی اور سریانی بلکہ بہت سی قدیم زبانوں میں بھی طور پہاڑی کے معنوں میں استعمال ہوا ہے۔
قرآن میں جس طور (سینا یا سینین) کا ذکر ہے وہ حضرت موسٰی ؑ پر تجلی الٰہی کی وجہ سے یہودیوں، عیسائیوں اور مسلمانوں میں معروف ہے۔
طور دراصل ایک سلسلۂ کوہ کا نام ہے جو خلیج سوئز اور خلیج عقبہ کے درمیان ایک تکون سی بناتا ہے۔ مغرب کی طرف خلیج سوئز کے ذریعے یہ مصر اور مشرق کی طرف خلیج عقبہ کے ذریعے بلاد عرب سے الگ کرتا ہے۔ اس کے اضلاع ایک سو چالیس میل لمبے ہیں۔ شمال کی جانب اس کی اونچائی بہت کم ہے اور جگہ جگہ ریت کے تودے ہیں لیکن جنوبی سمت اس کی چوٹیاں نو ہزار فٹ تک بلند ہیں اور یہ حصہ سرسبز اور شاداب ہے طورسینین سے فلسطین کی حدود تک تیہ کا میدان ہے۔ اس پہاڑ پر جو بحیرۂ قلزم سے زیادہ دور نہیں ہے الامن یا ایلیم کے مقام سے لوگ چڑھا کرتے تھے۔
یہاں ایک بار بنی اسرائیل نے پڑاؤ ڈالا تھا۔ اس کے قریب وادیٔ طوٰی ہے جہاں حضرت موسٰی ؑ فرعون کے پاس جانے سے قبل اللہ سے ہم کلامی کا شرف حاصل کرچکے تھے۔ اسی مناسبت سے اب یہ پہاڑ جبل موسٰی بھی کہلاتا ہے۔ اس کے شمال کی جانب ایک وادی ہے جس کا نام وادیٔ شعیب ہے۔ اس جگہ 5000 فٹ بلندی پر خانقاہ کیتھائن واقع ہے جسے غالباً جسٹن اول نے 550ء کے لگ بھگ طور سینا کے راہبوں کی حفاظت کے لیے تعمیر کروایا تھا (شاہ کار انسائیکلو پیڈیا)۔ ایک روایت میں ہے کہ ان راہبوں کے پاس آنحضور ؐ کا ایک خط موجود تھا جس میں ان راہبوں کو امان دی گئی تھی۔ الطور نام سے یہاں ایک چھوٹا سا قصبہ موجود ہے جو جبل موسٰی کے جنوب مغرب میں خلیج سوئز کے کنارے راس محمد سے پچاس میل کے فاصلے پر آباد ہے۔ اس کے مضافات میں کھجور کے بڑے بڑے نخلستان ہیں۔ یہ جزیرہ نمائے سینا کی اہم بندرگاہ تھی مگر جب پرتگالیوں نے ہندوستان کا بحری راستہ دریافت کرلیا تو اس علاقے کی اہمیت بتدریج کم ہوتی گئی اور اب یہ صرف ماہی گیروں کا علاقہ جانا جاتا ہے ۔
کتب تواریخ میں اس پہاڑ سے متعلق کئی حقائق موجود ہیں جن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ صلیبی جنگوں کے زمانے میں اس پہاڑی کی چوٹی پر موجود قلعہ پر صلاح الدین ایوبی نے قبضہ کرلیا تھا جسے ملک العادل نے1217ء میں ازسرنو تعمیر کروایا صلیبیوں نے اسی سال اس پر دوبارہ قبضہ کرنے کی کوشش کی لیکن ناکام ہوئے پھر ہیبرس نے عکاس پر حملہ کرنے کے لئے اس کو اپنا مرکز بنایا۔ اس مقدس پہاڑ کا نام آتے ہی بہت سے تاریخی اور مذہبی حقائق ازخود اذہان میں ابھرتے ہیں مثلاً یہ وسیع و عریض بلند پہاڑ ہے، یہاں موسٰی ؑ اللہ سے ہم کلام ہوئے، 40 راتوں کا اعتکاف کیا، منصب نبوت پر فائز ہوئے، توریت عطا ہوئی، اللہ نے قرآن حکیم میں اس کی قسمیں کھائیں۔ یہیں پر حضرت عیسٰی ؑ نے حواریوں پر ظہور فرمایا۔ صلیبی جنگوں کا حصہ رہا۔ اتنی خصوصیات کا حامل اور کوئی پہاڑ نہ رہا جبھی تو دنیا کی3 بڑی اقوام یہودی، عیسائی اور مسلمانوں میں یہ یکساں طور پر مقدس ہے۔
The post طور سینین appeared first on ایکسپریس اردو.