آپ ایک ’پیالے‘ میں مسلسل پانی ڈالتے رہیے۔۔۔ اور جب وہ چَھلک جائے، تو اس کے گرد ایک اونچے ’کنارے‘ کا تھال رکھ دیجیے، اور پھر پیالے سے چَھلکنے والا پانی اِس بڑے تھال کا حصہ بننے لگے۔۔۔ حتیٰ کہ بڑھتے بڑھتے اِس پانی کی سطح پیالے سے بلند ہو کر تھال کی وسعتوں کو چھونے لگے۔۔۔ لیکن پھر یہ کہا جانے لگے کہ بس تھال کے اندر صرف ’پیالے‘ میں جو پانی ہے، وہی ’جائز‘ ہے، اس کے گرد رکھے گئے بڑے تھال کا سارا پانی تو ’خلافِ قانون‘ ہے، لہٰذا فوری طور پر تھال سے سارا پانی باہر نکال دیا جائے۔۔۔! جب کہ بہ حیثیت ذمہ دار آپ نے پیالا چَھلکنے سے پہلے اس کی جگہ نہ کوئی بڑا پیالا بنا کر دیا، اور نہ ہی اِس محدود پیالے کو چھلکنے سے روکنے کے لیے اس میں مزید پانی کو آنے سے روکا۔۔۔!
یہ ’پیالا‘ اس ملک کی معیشت کا پہیا چلانے والا معاشی دارالحکومت کراچی ہے۔۔۔ جس کی طرف بہنے والا ’پانی‘ اس شہر کی طرف 70 برسوں سے مسلسل جاری رہنے والی نقل مکانی ہے۔۔۔ حکومتوں نے مجموعی طور پر یہاں شہریوں کی آباد کاری کی طرف خاطرخواہ توجہ نہیں دی، پھر جب خلق خدا کی بڑھتی ہوئی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے سرکاری عملے کی مجرمانہ غفلت اور ملی بھگت سے جائز اور ناجائز تعمیرات ہوچکیں، اور لاکھوں لوگ انہیں اپنا مسکن بنا چکے، تو اب اُسے مسمار کرنے کے احکامات جاری ہونے لگے ہیں، جس سے عمر بھر کی پونجی لگا کر سر پر چھت حاصل کرنے والے شہریوں میں شدید خوف وہراس کی لہر دوڑی ہوئی ہے۔
پچھلے تین برسوں سے شہرِقائد میں ’تجاوزات‘ کے خلاف جاری کارروائیوں میں جہاں بڑے پیمانے پر دکانوں کے آگے بڑھے ہوئے حصے منہدم کیے گئے، وہاں بہت سی پوری پوری مارکیٹوں کا وجود حرفِ غلط کی طرح مٹا دیا گیا، جن میں جامع کلاتھ اور ٹاور کے علاوہ ایمپریس مارکیٹ وغیرہ قابل ذکر ہے اور اب ’لی مارکیٹ‘ پر ’طبلِ مسماری‘ بج رہا ہے۔
وہیں قائداعظم کالونی میں قائم گھروں کو بھی توڑا گیا، جس کے مکین اپنے گھر کے ملبے پر زندگی بسر کرنے پر مجبور ہو گئے۔۔۔! اس کے علاوہ پاکستان کوارٹر اور مارٹن کوارٹر وغیرہ کی اراضی خالی کرانے کا معاملہ بھی گرم ہے، جب کہ اب لائنزایریا کی آبادیوں کو بھی ہٹانے کی بازگشت سنائی دینے لگی ہے۔ ساتھ ہی گلشن اقبال اور گلستان جوہر کی متعدد عمارتوں کے ساتھ اب بات قیام پاکستان کے وقت سے قائم ’دہلی کالونی‘ (کلفٹن) اور اس سے ملحقہ پنجاب کالونی اور پی اینڈ ٹی کالونی وغیرہ تک پہنچ چکی ہے۔ یہاں ایک اندازے کے مطابق مجموعی طور پر 25 ہزار فلیٹوں کی مسماری کا خدشہ ہے، کیوں کہ سات فروری 2020ء کو عدالت عظمیٰ نے حکم دیا کہ یہاں پہلی منزل سے اوپر کی جانے والی ساری اضافی تعمیرات منہدم کر دی جائے۔۔۔
’دہلی کالونی‘ کی صورت حال یہ ہے کہ اب یہاں چند ہی پلاٹ ایسے باقی بچے ہیں، جو اس کی زَد میں نہیں آئیں گے، باقی پورے محلے میں مکمل طور پر پانچ، چھے منزلہ عمارتیں آباد ہیں۔ ایک تخمینے کے مطابق اِن فلیٹوں میں مجموعی طور پر ایک سے ڈیڑھ لاکھ افراد رہائش پذیر ہیں۔ خلاف ضابطہ قرار دی جانے والی عمارتوں کو مسمار کیے جانے کے فیصلے کے حوالے سے دہلی کالونی کی معروف سماجی شخصیت شیخ شمیم فاروق نے ’ایکسپریس‘ سے گفتگو کرتے ہوئے انکشاف کیا کہ ’’20 برس قبل ’کلفٹن کنٹونمنٹ بورڈ‘ نے علاقے میں تعمیر فلیٹوں کو ریگولائز کرنے کے لیے 900 روپے گز زمین اور فلیٹوں پرپانچ روپے اسکوائر فٹ کے حساب سے ایک پالیسی منظور کر کے اپنے ہیڈ کوارٹر بھیجی تھی، جو بدقسمتی سے وہاں مسترد کر دی گئی۔۔۔ دوسری طرف مرکز شہر سے قریب ہونے اور کراچی میں بے امنی کے باعث اس علاقے میں بڑے پیمانے پر لوگوں نے آباد ہونا شروع کیا، جن کی رہائشی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے یہاں عمارتوں کی تعمیر کا سلسلہ بڑھتا چلا گیا۔۔۔ لیکن اب اچانک اِن عمارتوں کے مکینوں پر بے گھری کی تلوار لٹک گئی ہے، میری روزنامہ ’ایکسپریس‘ کے توسط سے چیف جسٹس پاکستان جناب جسٹس گلزار احمد سے پرزور گزارش ہے کہ وہ ملک کے ابتر ہوتے ہوئے معاشی حالات کے تناظر میں کراچی شہر کے حوالے سے اپنے فیصلے پر نظرثانی فرمائیں، بہ صورت دیگر لوگ تنگ آکر سڑکوں پر نکلیں گے، اور پھر خودکُشیاں کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔۔۔!‘‘
صاحب ثروت لوگوں کے مسکن کلفٹن اور ڈیفنس کے درمیان شہر کے متوسط طبقے کو اپنی آغوش میں لی ہوئی دہلی کالونی کا جائزہ لیں، تو گذشتہ چند برسوں میں اس کالونی کی چوہدری خلیق الزماں روڈ کے کنارے والی پٹی پر ہی بہت بڑے پیمانے پر کثیر المنزلہ عمارتیں تعمیر کی گئی ہیں۔ جن کی بلندی 20 منزلوں سے بھی زائد ہے۔۔۔ ظاہر ہے یہ تعمیرات راتوں رات تو نہیں ہوئیں، اور سب کے سامنے ہوئیں۔ اگر یہ غیر قانونی ہیں، تو اس کی تعمیر کے دوران کوئی کارروائی کیوں نہ کی گئی، یہی صورت حال اندرونی گلیوں کی ہے، وہاں بھی کسی نہ کسی طرح تعمیرات جاری رہیں اور آج بھی بہت سی عمارتیں زیرتعمیر ہیں، لیکن حکومت متعلقہ محکمے کے ذمہ داران اور اِن تعمیرات کے مرتکب افراد کو کٹہرے میں لانے کے بہ جائے، ان غریب اور متوسط طبقے کے مکینوں کے گھروں پر کدال چلانا چاہتی ہے، جنہوں نے باقاعدہ پیسے دے کر یہ فلیٹ خریدے۔
متاثرہ علاقوں کے مکینوں نے متبادل رہائشی جگہ دیے جانے کی تجویز کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ دوسری، تیسری نسل سے یہاں رہائش پذیر ہیں، وہ کسی بھی دور دراز علاقے میں متبادل رہائش کسی طور پر بھی قبول نہیں کریں گے، اس لیے اُن کا مطالبہ ہے انہی فلیٹوں کو فی الفور ریگولائز کیا جائے، آخر کراچی جیسے گنجان آباد علاقے میں یہ کیسا قانون ہے کہ عمارتیں نہ بنیں۔ جب حکومت نے نئے شہر بسانے پر توجہ ہی نہیں دی، نتیجتاً اب یہاں عمارتیں بن گئی ہیں، تو جیسے ’قومی مفاد‘ میں اسمبلی سے نئے قانون بنوائے جاتے ہیں، ایسے ہی ہمارے گھروں کے لیے بھی اِس قانون میں ترمیم کی جائے! یہ تو ریاست کی بنیادی ترین ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے شہریوں کی چار دیواری کا بندوبست کرے، لیکن یہاں تو سفید پوشی کا بھرم رکھنے والے عوام کے تن سے لباس بھی نوچنے کے سامان دکھائی دیتے ہیں۔
مجموعی طور پر کراچی کا جائزہ لیا جائے، تو اس وقت شہر کے طول وارض میں تعمیرات کا سلسلہ زورشور سے جاری ہے، کوئی اِس سوال کا جواب لینے کو تیار نہیں کہ اگر یہ تعمیرات جائز بھی ہیں، تب بھی شہر میں یہاں کے مکینوں کے لیے اضافی سہولتیں کہاں سے آئیں گی۔۔۔؟ بہت سے ’پلازے‘ بجلی اور گیس میں خود کفالت کے دعوے دار ہیں، لیکن وہ آمدورفت کے لیے تو اسی شہر کی سڑکیں استعمال کریں گے، پھر ان کے لیے اسکول، اسپتال اور قبرستان کہاں سے لائیں گے۔۔۔؟ کسی قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے وہ کس پر انحصار کریں گے۔۔۔؟ اس کے علاوہ مبینہ طور پر شہر سے باہر آباد ایک مشہور معروف رہائشی ’ٹاؤن‘ کو بھی کراچی کا پانی دیے جانے کی اطلاعات زیرگردش ہیں، نیز بہت سے رہائشی علاقوں کا پانی بڑی بڑی صنعتوں کو دیے جانے کی شکایات بھی بہت زیادہ ہیں۔ ممتاز صدا کار رضوان زیدی لکھتے ہیں کہ ’64 برسوں میں پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ ناظم آباد نمبر ایک، مسلم لیگ سوسائٹی میں آٹھ روز پانی نہیں آیا۔‘ جس سے ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اس وقت ملکی معیشت میں 70 فی صد حصہ ڈالنے والا کراچی اس وقت کس قدر اذیت سے دوچار ہو رہا ہے۔۔۔!
پہلے شہرِقائد بند ہوتا تھا تو اقتدار کے ایوان چیخ اٹھتے تھے کہ ایک دن کراچی بند ہونے سے معیشت کو اربوں روپے کا نقصان ہو گیا، لیکن اب صاف پانی، صحت، تعلیم، ٹرانسپورٹ، سڑک اور صاف ہوا جیسی بنیادی سہولتوں کی گزارے کے لائق بھی فراہمی سے محروم کراچی سسک رہا، لیکن اس حوالے سے نہ یہاں کے بلدیاتی نمائندوں میں کوئی ’زندگی‘ دکھائی دیتی ہے اور نہ اراکین قومی وصوبائی اسمبلی اپنا وجود ثابت کر پا رہے ہیں۔ اس پر مستزاد پہلے سے بسی بسائی بستیوں کو ’قانون شکنی‘ کا مرتکب قرار دے کر اجاڑا جا رہا ہے، اس صورت حال پر اہل دل کو بہت زیادہ غور وفکر کرنے کی ضرورت ہے۔۔۔!
٭ ’’ہم اجڑ رہے ہیں کوئی دیکھنے والا نہیں۔۔۔!‘‘
’’ایکسپریس‘‘ سے اپنی لاچارگی کا رونا روتے ہوئے دہلی کالونی کے مکینوں نے کہا کہ سارے ٹیکس دینے کے باوجود ڈیڑھ سال پہلے ہمارے علاقے کے پانی کی مرکزی لائن کاٹ کر ہمیں پانی کو ترسایا گیا، ہم پرامن احتجاجی مظاہرے کرکر کے تھک گئے، لیکن کوئی سنوائی نہیں ہوئی، اب ہمیں ’عدالتی‘ ہتھوڑے سے برباد کیا جا رہا ہے اور کوئی آواز اٹھانے والا بھی نہیں۔۔۔! یہاں سے صدر ڈاکٹر عارف علوی دو بار رکن قومی اسمبلی بنے، گورنر سندھ عمران اسمعٰیل بھی یہیں سے 2018ء میں رکن صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے۔ ماضی میں مولانا ظفر انصاری، عبدالستار افغانی اور خو ش بخت شجاعت رکن اسمبلی رہ چکیں، جب کہ بیرسٹر کمال اظفر، ممنون حسین، نعمت اللہ خان، فاروق ستار، نسرین جلیل اور اداکار سید کمال بھی یہاں سے انتخابی دنگل میں اتر چکے۔
مکین کہتے ہیں کہ یہاں سے منتخب تحریک انصاف کے رکن قومی وصوبائی اسمبلی کا کوئی رابطہ دفتر تک نہیں۔ کونسلر کا تعلق ’ایم کیو ایم‘ سے ہے، لیکن اس مسئلے پر ’ایم کیو ایم‘ بھی ’لاپتا‘ ہے اور جس علاقے میں تیسرے نمبر پر آنے والے کونسلر کے امیدوار کی ضمانت ضبط ہوجاتی ہے، وہاں اب پاکستان پیپلز پارٹی، پاک سرزمین پارٹی اور مسلم لیگ (فنکشنل) بھی بھرپور سیاسی سرگرمیاں کر رہی ہیں، لیکن لوگوں کو بے گھری کے خطرے پر کوئی کردار ادا نہیں کر رہیں، جماعت اسلامی نے ماضی قریب میں مہم چلا کر یہاں کے فلیٹوں کے لیے ’کے الیکٹرک‘ کے میٹر تو ضرور دلوائے، تاہم اب اتنے بڑے بحران پر وہ بھی چپ سادھے ہوئے ہیں۔ دہلی کالونی کے ایک رہائشی محمد عبداللہ کا کہنا تھا کہ شہر بھر کی توڑ پھوڑ اب ہماری دہلیز تک پہنچ چکی ہے، کیا ہمیں یہ احساس دلایا جا رہا ہے کہ گھروں اور دکانوں کو گرانے کے اس سلسلے کا آغاز دراصل ایک سیاسی جماعت کے دفاتر گرانے سے شروع ہوا۔۔۔ یہ آخر ہمیں کہاں لے جانا چاہتے ہیں؟ ہم یہاں دو، دو کمروں کے فلیٹوں میں گزر بسر کر رہے ہیں، ہماری ریاست ہم شہریوں کو روزی روٹی تو دے نہیں سکتی، اب کم سے کم ہماری محنت سے کمائی گئی چاردیواری تو نہ چھینے!n
٭ ’بستی‘ بسنا کھیل نہیں۔۔۔ بستے بستے بستی ہے۔۔۔!
’دہلی کالونی‘ کراچی کی ایک تاریخی اہمیت کی حامل بستی ہے۔ یہ 1947ء کے بعد شہرِقائد میں بسائی جانے والی اولین کالونی ہے۔۔۔ اس سے قبل 1946ء میں صوبہ ’بہار‘ کے فسادات کے متاثرین آئے، تو لیاری میں ’بہار کالونی‘ بسائی گئی تھی، تاہم بٹوارے کے بعد شہر کے ایک سرے پر ’مرکزی جیل‘ کے ساتھ ’پیر الٰہی بخش کالونی‘ آباد ہوئی تو وہیں کینٹ ریلوے اسٹیشن سے آگے پرانے ریس کورس کے پار ’دہلی کالونی‘ نے جنم لیا۔۔۔ یہ صرف تاریخی اعتبار سے ہی ’پیر الٰہی بخش کالونی‘ کی ’جڑواں‘ نہیں، بلکہ ’پیر کالونی‘ کی طرح دہلی کالونی کے قیام میں بھی سندھ کی ممتاز شخصیت پیر الٰہی بخش کا اہم کردار رہا۔ یہی وجہ ہے کہ ابتدائی طور پر اِسے ’پیر الٰہی بخش کالونی نمبر ایک‘ اور جیل روڈ کے ساتھ موجودہ ’پیر کالونی‘ کو ’پیر الٰہی بخش کالونی نمبر2‘ قرار دیا گیا، لیکن پھر دلی کے مہاجرین کی اکثریت کے سبب یہ ’دہلی کالونی‘ کے نام سے موسوم ہوگئی۔۔۔ پرانے لوگ بتاتے ہیں کہ 1947ء میں اجڑی ہوئی دلی کے مکینوں نے جب سات گلیوں پر مشتمل اس بستی میں دوبارہ زندگی شروع کی، تو دھیرے دھیرے یہاں ’پرانی دلی‘ کی خو بو دکھائی دینے لگی۔۔۔ دو مسجدیں بنیں، تو انہیں ’بڑی مسجد‘ اور ’چھوٹی مسجد‘ کے روایتی نام دیے۔۔۔ بڑے بڑے روشن دانوں اور انگنائیوں والے اِن گھروں کی وضع قطع میں بھی پرانی جھلک تھی۔
اِس کی گلی کوچوں میں دلی کی روایتی اور کرخنداری اردو سماعتوں میں رس گھولتی۔۔۔ دہلی کالونی کو یہ اعزاز بھی ہے کہ یہاں بی بی سی (لندن) کے شفیع نقی جامعی اور ممتاز ماہر امراض خون ڈاکٹر طاہر سلطان شمسی بھی پیدا ہوئے۔ کراچی میں اس کا محل وقوع دیکھیے، تو یہ برطانوی زمانے کے ’کلفٹن برج‘ سے لگ بھگ ڈیڑھ کلو میٹر آگے واقع ہے اور کلفٹن برج ساحل سمندر تک جانے کے لیے ریل کی پٹریوں کے اوپر بنایا گیا پُل تھا، جس کے پار ریت اڑا کرتی تھی۔ وقت گزرنے کے ساتھ زندگی کی بنیادی سہولتوں کی فراہمی سے زندگی آسان ہوتی گئی۔ بہت سی دکانیں قائم ہوئیں، پھر ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں جب شہر بھر کی بے شمار مہاجر بستیوں کو لیز دی گئی، تو اس میں ’دہلی کالونی‘ بھی شامل ہوئی۔ پھر ضیا دور میں دہلی کالونی سے متصل کراچی کے پہلے عسکری اپارٹمنٹ کی تعمیر اور پھر نزدیک ہی ’ڈیفنس‘ سوسائٹی کے قیام نے بھی اس علاقے کی اہمیت میں اضافہ کیا۔ پھر جہاں شہر سے دور ہونے کے سبب کوئی رکشے ٹیکسی والا وہاں سواری لے جانے کو تیار نہ ہوتا تھا، اس کی رونقیں ’کراچی سوتا نہیں ہے‘ کی عملی نظیر دکھائی دیں اور وہاں کی راتیں جاگنے لگیں۔۔۔
The post ’اُجڑے دیار‘ والوں کی نگری پھر اجڑنے کو ہے۔۔۔؟ appeared first on ایکسپریس اردو.