یہ 30 مئی 2015ء کی بات ہے۔ساٹھ سالہ عبدالغفار قریشی گوشت کی اپنی دکان میں بیٹھے تھے۔وہ بھارتی ریاست راجھستان کے بیرلوکا نامی گاؤں میں رہتے تھے۔اچانک لاٹھیوں اور فولادی سریوں سے لیس آرایس ایس کے غنڈوں نے ان پہ حملہ کر دیا۔انھوں نے بوڑھے مسلم کو اتنی شدت سے پیٹا کہ وہ وہیں شہید ہو گئے۔
آر ایس ایس کے لیڈر،نریندر مودی کی حکومت آنے کے بعد یہ پہلا واقعہ تھا کہ گؤ رکھشوں نے ایک مسلمان کو بے دردی سے شہید کر دیا۔اس کے بعد تو سنگھ پریوار(شدت پسند ہندو جماعتوں) کے موالیوں کو مسلمانوں پہ حملے کرنے کی کھلی چھٹی مل گئی۔کبھی گائے لے جانے اور کبھی اسلامی لباس پہننے پر تشدد کیا جانے لگا۔ان لرزہ خیز کارروائیوں سے بھارتی مسلمانوںمیں خوف وہراس پھیل گیا۔
چونکہ وہ غیر منظم تھے،اس لیے مودی حکومت کے خلاف احتجاج کرتے گھبراتے رہے۔انھیں یہ بھی خطرہ تھا کہ حکومت زیادہ فسادی ہو جائے گی۔بھارتی مسلمانوں کو اپنے خول میں سمٹتا دیکھ کر مودی حکومت کے حوصلے بڑھ گئے۔اس نے پھر اقلیت کے خلاف پے درپے اقدامات کیے۔ریاست کشمیر پہ قبضہ کر لیا۔12 دسمبر 2019ء کو بھارتی پارلیمنٹ میںقانون شہریت میں ترمیم کرڈالی۔ اصل مقصد بھارت سے مسلمانوں کو ’’غیر قانونی‘‘ قرار دے کر انہیں بنگلہ دیش یا پاکستان جلاوطن کرنا تھا۔ این آر سی (نیشنل رجسٹر آف سٹیزنز) کی مہم چلانے پر بھی باتیں ہونے لگیں۔ یہ مسلمانان ہند کے خلاف زیادہ سخت حکومتی کارروائی تھی۔
یہ صورتحال دیکھ کر بھارتی مسلمانوں کو احساس ہوا کہ پانی سر کے اوپر گزر چکا۔ اب بھی انہوں نے شدت پسندوں کے خلاف احتجاج نہیں کیا، تو اکثریت انہیں کھا جائے گی۔یہی وجہ ہے پورے بھارت میں سب سے پہلے مسلم طلبہ و طالبات تعلیم گاہوں میں حکومت کے خلاف احتجاج کرنے لگے۔
ایک احتجاجی مظاہرہ جامعہ ملیہ میں بھی منعقد ہوا۔ وہاں مودی حکومت کے احکامات پر پولیس نے طلبہ و طالبات پر دیوانہ وار تشدد کیا اور انہیں یوں مارا پیٹا جیسے وہ بھارتی شہری نہیں دہشت گرد اور فسادی ہوں۔ اس مار پیٹ نے مقامی علاقے،اوکھلا کے مسلمانوں میں غم و غصے کی لہر دوڑا دی۔ خاص طور پر جن بچے بچیوں کو بے دردی سے مارا گیا تھا، ان کی مائیں دکھ و طیش سے بے حال ہوگئیں۔ پُر امن فاختہ کے بچوں کو شیرنی بھی کچھ کہے تو مادرانہ محبت اسے اپنے سے کہیں بڑے دشمن سے بھڑنے کا جذبہ و طاقت عطا کردیتی ہے۔بھارتی دارالحکومت نئی دہلی کے جنوب میں اوکھلا نامی وسیع و عریض علاقہ واقع ہے۔
اسی علاقے میں مسلمانوں کی عظیم درس گاہ، جامہ ملیہ اسلامیہ تزک واحتشام سے استادہ ہے جس کی بنیاد شیخ الہندؒ اور جوہر ملتؒ جیسے نامی اکابرین نے رکھی تھی۔ اوکھلا کے جنوب میں شاہین باغ نامی بستی آباد ہے۔ اس میں مسلمانوں کی اکثریت ہے۔ بیشتر مسلمان متوسط یا نچلے طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ پچھلے دنوں اسی غیر معروف اور چھوٹی سی بستی کی خواتین نے اپنی دلیری و بہادری سے شاہین باغ کو بین الاقوامی سطح پر مشہور کر ڈالا۔ کہا جاتا ہے کہ اس بستی کا نام علامہ اقبالؒ کی مشہور زمانہ نظم ’’حال و مقام‘‘ (بال جبرئیل) کے درج ذیل شعر سے لیا گیا:
پرواز ہے دونوں کی اُسی ایک فضا میں
کرگس کا جہاں اور ہے، شاہین کا جہاں اور
شاعر مشرقؒ کی شاعری میں شاہین کا تصّور بڑا اہم ہے۔ اقبالؒؒ کے نزدیک یہ پرندہ دلیری، قوت، تیزی، وسعت نظر، دور بینی اور بلند پروازی کے ساتھ ساتھ عزت، درویشی، خودداری اور بے نیازی کا بھی استعارہ ہے۔ بعید نہیں کہ یہ نام کا اثر ہی ہو جس نے شاہین باغ کی کمزور اور وسائل سے محروم مسلمان خواتین کو ہمت و طاقت دے کر فرعونِ وقت، نریندر مودی کے سامنے کھڑا کردیا۔ نشہِ طاقت نے مودی، امیت شاہ اور سنگھ پریوار کے دیگر لیڈروں کو زمینی خدا بنا دیا تھا مگر شاہین باغ کی دلیر خواتین کا زبردست احتجاج انہیں عرش سے فرش پر لے آیا۔ اس طرح شاہین باغ ظالم و جابروں کے خلاف بے بس و کمزوروں کے احتجاج کا یادگار نشان بن گیا۔
اب کئی بھارتی شہروں میں شاہین باغ کی طرح خواتین و مردوں کے حکومت مخالف مظاہرے جنم لے چکے۔شاہین باغ میں مقیم فرزانہ نصیب ریٹائرڈ سکول ٹیچر ہیں۔ پولیس والوں نے ان کی بچی کو بھی نشانہ بنایا جو جامعہ ملیہ میں پڑھتی ہے۔ انہوں نے محلے کی دیگر خواتین سے صلاح مشورے کے بعد طے کیا کہ مودی حکومت کے مسلم دشمن اقدامات پر احتجاج کیا جائے۔ چناں چہ 14 دسمبر کی سہ پہر فرزانہ صاحبہ کی زیر قیادت برقع میں ملبوس تین خواتین اور دو مرد نوئیڈا کالندی کنج روڈ پر بیٹھ گئے۔ یہ دہلی کی ایک معروف سڑک ہے جو مضافاتی بستی،نوئیڈا کو دہلی سے ملاتی ہے۔ اس پانچ رکنی دستے کا مطالبہ تھا کہ مودی حکومت قانون شہریت میں ترمیم واپس لے نیز این آر سی مہم ختم کرنے کا اعلان کرے۔
خواتین و مرد نے اپنے مطالبات پوسٹروں پر تحریر کررکھے تھے۔ آنے جانے والوں نے دلچسپی و تجسّس سے اس ننھے منے احتجاج کو دیکھا۔ یہ چھوٹا سا احتجاج مگر بقول اسمعیل میرٹھی بارش کا پہلا قطرہ ثابت ہوا۔سڑک پر بیٹھی برقع میں ملبوس احتجاجی خواتین کو دیکھ کر اردگرد کی بستیوں میں آباد مسلم عورتوں کو بھی حوصلہ ملا۔ وہ بھی برقع پہن کر اس احتجاجی جلسے میں شامل ہونے لگیں۔
14 دسمبر کی رات ہی یہ عارضی احتجاج رات دن جاری رہنے والے دھرنے میں تبدیل ہوگیا۔خواتین کی بھرپور شرکت سے حوصلہ افزائی پاکر فرزانہ نصیب اور دیگر نے احتجاج جاری رکھنے کا فیصلہ کیا۔ جلد ہی بچوں کو گود میں اٹھائے مائیں، بیٹیاں اور بہنیں دھرنے کا حصہ بن گئیں۔یوں شاہین باغ کا تاریخی احتجاج وجود میں آیا۔ اس کی خاصیت یہ تھی کہ احتجاج نے کسی رہنما یا لیڈر کے بغیر جنم لیا۔ مودی حکومت کے ظلم و جبر سے عاجز آئی مسلم خواتین کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا اور وہ ازخود گھروں سے نکل کر اس کے خلاف احتجاج کرنے لگیں۔ نمایاں لیڈروں کے بغیر کرپٹ حکمرانوں کے خلاف ایسے عوامی احتجاج کا نمونہ دور جدید کی پیداوار ہے جسے ہم کئی ممالک مثلاً لبنان، چلی، ایتھوپیا، تیونس وغیرہ میں دیکھ چکے۔
دسمبر اور جنوری کے مہینوں میں نئی دہلی شدید سردی سے ٹھٹھر رہا ہوتا ہے۔ اس سخت ٹھنڈ میں بھی چوبیس گھنٹے جاری رہنے والا دھرنا منفرد واقعہ بن گیا۔ حتیٰ کہ اسّی نوّے سالہ خواتین بھی دھرنے میں شریک ہوئیں اور اپنی باتوں سے شرکا کا ہمت و حوصلہ بڑھاتی رہیں۔ احتجاجی مظاہرے کی ایک اور منفرد بات یہ ہے کہ جلد ہی دہلی کے مختلف تعلیمی اداروں سے تعلق رکھنے والے مسلم و غیر مسلم طالبان علم نے اس کا انتظام سنبھال لیا۔ طلبہ و طالبات مختلف گروہوں میں بٹ گئے اور ہر گروپ ایک معین کام انجام دینے لگا۔ایک گروہ کے نوجوان لڑکے لڑکیوں کی یہ ذمے داری تھی کہ وہ نئی آنے والی خواتین و مردوں کو مناسب جگہ بٹھائیں۔ دوسرا گروپ دریوں اور ٹینٹوں کا بندوبست کرنے لگا۔
تیسرے نے رقم جمع کی تاکہ پوسٹر اور بینر دھرنے کی جگہ لگائے جاسکیں۔ لڑکیوں کے ایک گروپ نے کھانا پکانے کا انتظام سنبھال لیا تاکہ دھرنے میں کوئی بھوکا نہ رہے۔ غرض اپنی مدد آپ کے تحت مودی حکومت کے خلاف یہ منفرد عوامی احتجاج دن بہ دن پھیل گیا۔ حتیٰ کہ اس نے ایک میلے جیسی حیثیت اختیار کرلی جس کے سبھی شرکا آپس میں گھل مل گئے۔ ان کا واحد مقصد غرور و تکبر میں مبتلا حکمرانوں کا جھوٹا زعم ِخدائی خاک میں ملانا تھا۔
اسی دوران دہلی کے ریاستی الیکشن آپہنچے۔ بی جے پی کے لیڈر انتخابی جلسوں سے خطاب کرنے لگے۔ انہوں نے شاہین باغ کے پُر امن مظاہرین گالیوں اور الزامات کی بھرمار کردی۔ دعویٰ کیا گیا کہ مسلمان عورتیں کانگریس سے پانچ پانچ سو روپے لے کر دھرنے میں بیٹھ رہی ہیں۔ شرکائے دھرنا غدار قرار پائے۔ وزیر مملکت برائے فنانس، انوراگ ٹھاکرنے انتخابی جلسے میں یہ نعرہ لگوایا ’’دیش کے غداروں کو، گولی مارو سالوں کو‘‘۔ بی جے پی کارکن ریاستی اسمبلی، پرویش شرما تو دوسرے لیڈروں سے دو ہاتھ آگے بڑھ گیا۔
اس نے دھمکی دی کہ دہلی الیکشن جیتنے کے بعد شاہین باغ کی خواتین بے حرمتی کا نشانہ بن سکتی ہیں۔ غرض ہندو شدت پسند لیڈروں نے اخلاق و قانون کی دھجیاں اڑا دیں۔ ان کی اشتعال انگیز تقریروں کا نتیجہ یہ نکلا کہ ایک ہندو نوجوان نے شاہین باغ کے مظاہرین پر گولیاں چلادیں۔ خوش قسمتی سے اس حادثے میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ دوسرے ہندو نوجوان نے جامعہ ملیہ میں گولیاں چلا کر ایک مسلمان طالب علم زخمی کرڈالا۔ یہ پے در پے حملے بھی شاہین باغ کی خواتین کو خوفزدہ نہیں کرسکے۔ انہوں نے بدستور مودی حکومت کے خلاف اپنا دھرنا جاری رکھا اور مطالبہ کیا کہ وہ نفرت و دشمنی پر مبنی اپنی پالیسیاں ترک کردے۔
دھرنے میں 56 سالہ گھریلو خاتون محمدی بیگم بھی شریک تھیں۔ انہوں نے صحافیوں کو بتایا ’’حکومت نے بالکل غلط فیصلہ کرتے ہوئے بابری مسجد کی زمین اکثریتی فرقے کو دے دی۔ ہم نے یہ صدمہ سہہ لیا۔ پھر حکومت نے ریاست جموں و کشمیر کی امتیازی حیثیت ختم کردی۔ یہ وار بھی ہم نے برداشت کیا اور کوئی ردعمل نہ دکھایا۔ گاؤ رکھشا کرنے والوں نے ہمارے بھائی خوفناک تشدد سے مار ڈالے، ہم پیچ و تاب کھا کر رہ گئے۔ لیکن حکومت اب سی اے اے اور این آر سی کے ذریعے ہمارا جینا حرام کرنا چاہتی ہے۔ اس موقع پر خاموش نہیں رہا جاسکتا۔‘‘شاہین باغ بستی کی آبادی تقریباً دو لاکھ ہے۔ اس بستی کے سبھی مکینوں نے دھرنے کو کامیاب بنانے کی خاطر دامے درمے سخنے مدد کی۔ خواتین خانہ گھروں سے کھانا پکا کر لے آئیں تاکہ دھرنے میں بیٹھی بھوکی عورتیں پیٹ بھر سکیں۔ حتیٰ کہ پڑوسی خواتین ان کے گھر کام کاج بھی کرنے لگیں۔ غرض خصوصاً خواتین نے ہر وہ قدم اٹھایا جس سے دھرنے کو کامیاب بنایا جاسکے۔
اس طرح معمولی قطرے مل جل کر تندوتیز طوفان بن گئے ۔اور جب دہلی الیکشن ہوئے تو یہ طوفان بی جے پی کی نفرت انگیز پالیسیوں کو خس و خاشاک کی طرح بہا لے گیا۔ کامیابی کے بلند و بالا دعویٰ کرنے والی یہ جماعت ریاستی اسمبلی کی 70 نشستوں میں سے صرف 8 ہی جیت سکی۔ اوکھلا کے علاقے سے عآپ نے ایک مسلمان امیدوار، امان اللہ خان کو کھڑا کیا تھا۔ انہوں نے ایک لاکھ تیس ہزار ووٹ لیے۔ یہ ووٹوں کی چوتھی بڑی تعداد ثابت ہوئی۔ان کا مد مقابل، بی جے پی کا امیدوار، بہرام سنگھ صرف اٹھاون ہزار ووٹ لے سکا۔یہ یقینی ہے کہ عآپ کی زبردست جیت میں شاہین باغ کے کمزور نہتے مکینوں نے بھی اہم کردار ادا کیا۔
پہلے تو وہ بے سروسامانی کے عالم میں اس معمولی بستی کی خواتین، مرد، بچے بوڑھے سڑک پر بیٹھ کر فرعون وقت کے خلاف احتجاج کرنے لگے۔ انہوں نے پھر دھرنے کو عوامی قوت میں بدل ڈالا۔ اسی عوامی قوت نے نہ صرف بی جے پی کی نفرت پر مبنی پالیسیوں کو بھارتی عوام پر افشا کیا بلکہ اسے بیچ چوراہے میں ننگا کردیا۔ بھارتی عوام کو اب احساس ہونے لگا ہے کہ بی جے پی ہر الیکشن میں ووٹروں کو بھارتی مسلمان اور پاکستان کے خلاف مشتعل کرنے کی خاطر اشتعال انگیز کارروائیاں کرتی ہے۔ مقصد یہی ہوتا ہے کہ ہندو ووٹروں کو اپنے پلیٹ فارم پر جمع کیا جاسکے۔ اس طرح مودی حکومت ووٹروں کی توجہ اصل مسائل سے ہٹا دیتی ہے۔ مثلاً معاشی زوال، اشیائے خورونوش کی بڑھتی قیمتیں، بیروزگاری اور اشرافیہ کی کرپشن۔ دیکھنا یہ ہے کہ آنے والے الیکشنوں میں کیا بی جے پی بدستور بھارتی عوام کو بے وقوف بناتی رہے گی یا ان پہ سنگھ پریوار کا طریق واردات آشکارا ہوچکا۔
سکھ کسانوں کا لنگر
شاہین باغ کے مظاہرین کو انسان دوست اور باشعور ہندو و سکھوں کی حمایت حاصل رہی۔مظاہرے شروع ہونے کے بعد پنجاب سے پانچ بسوں پر سوار سکھ کسان وہاں پہنچ گئے۔ وہ اپنے ساتھ لنگر کا سامان لائے تھے۔ انھوں نے قریب ہی ایک جگہ شامیانہ لگایا اور لنگر پکا کر مظاہرین میں تقسیم کرنے لگے۔
مودی سرکار کو سکھوں کا یہ فیاضانہ رویہ ایک آنکھ نہ بھایا۔ چنانچہ پولیس کے شدید دباؤ پر شامیانے کے مالک نے اپنا سازو سامان واپس منگوا لیا۔جب ٹھکانے کی جگہ نہیں رہی تو سکھوں کو مجبوراً چندی گڑھ واپس جانا پڑا۔چند دن بعد نئی دہلی کے سکھوں نے دوسرا لنگر خانہ کھول لیا۔ان کی قیادت مقامی سکھ وکیل،ڈی ایس بندرا کر رہے تھے۔انھوں نے لنگر کے اخراجات پورے کرنے کی خاطر اپنا ایک فلیٹ فروخت کر ڈالا۔ان سکھوں کا کہنا تھا’’شاہین باغ کی خواتین ومرد اپنے حقوق پانے کیلئے بڑی بہادری و ثابت قدمی سے کھڑے ہیں۔ہم انھیں شیرنیاں سمجھتے ہیں۔ہم ان کی مدد کرنے یہاں آئے تاکہ وہ اپنی منزل پا سکیں۔‘‘سکھ برادری کی فیاضی ودوستی کے مظاہرے نے سبھی مسلمانوں کے دل جیت لیے۔
The post شاہین باغ کا انقلابی احتجاج appeared first on ایکسپریس اردو.